ہم جو ٹھہرے اپنے دشمن
پاکستانی حکمرانوں اور ان کے سرپرست مغربی ملکوں کے مقاصد سمٹ کر صرف ایک لڑکی میں جمع ہو گئے
ہماری قوم اپنی بنیادوں سے کچھ ہل گئی ہے ہر کام غلط طریقے سے کرنے لگی ہے جس کی سزا بڑی سخت ملتی ہے۔
ان دنوں ایک لڑکی ملالہ یوسف زئی کے گولی سے زخمی ہونے کا حد سے زیادہ چرچا ہے اور اس کا علاج معالجہ بھی غیر معمولی اہتمام اور اخراجات کے ساتھ جاری ہے اس کے علاج میں کئی ملک حصہ لے رہے ہیں اور یوں اس مریضہ کو ایک انفرادی حیثیت مل گئی ہے مگر ہم ان ڈھائی تین سو بچیوں کو بھول جاتے ہیں جو تلاوت کرتی ہوئی جنرل پرویز مشرف کے حکم پر شہید کر دی گئیں، میں ان 'مجاہدین' کے اس فوجی ٹرک کو زندگی بھر نہیں بھول سکوں گا جو مدرسہ حفصہ کا یہ مشن مکمل کر کے واپس جا رہا تھا اور اس پر کھڑا ہوا ایک طویل قامت فوجی جس کی ہلکی سی داڑھی بھی تھی انگلیوں سے فتح کا نشان بنا رہا تھا پھر نہ جانے کتنی تعداد میں وہ بچے تھے جو ڈرون حملوں میں گھروں میں کھیلتے یا مائوں کی گود میں سوئے ہوئے ختم ہو گئے۔
ہمیں اس ایک کے علاوہ کوئی بچہ یاد نہیں بلاشبہ یہ بھی پاکستان کی بیٹی ہے لیکن اس کے بہن بھائی بھی تو پاکستانی ہی تھے البتہ ان کے والدین کسی این جی او سے متعلق نہیں تھے اور کسی غیر ملکی ٹی وی کو انٹرویو دینے کے اہل بھی نہیں تھے۔ ہمارے حافظے میں شاید بہت محدود گنجائش رہ گئی ہے یا پاکستانی حکمرانوں اور ان کے سرپرست مغربی ملکوں کے مقاصد سمٹ کر صرف ایک لڑکی میں جمع ہو گئے۔ مجھے سخت خطرہ تھا کہ ہم حسب عادت کہیں ایک اور فتنہ و فساد نہ شروع کر دیں اور کسی کا نہیں اپنا چند ارب روپوں کا مزید نقصان کر دیں لیکن اس سے بچ گئے۔ ہمارا یہ مذاق بنا ہوا ہے کہ پاکستانیوں کو کسی جذباتی مسئلے میں الجھا دو جس پر وہ اپنے ہی ہاتھوں اپنا بھاری نقصان کر لیں گے۔
دور نہیں جاتے چند قریبی وقت کے ایسے واقعات کا ذکر کرتے ہیں جب ہم نے اپنے ہاتھوں اپنا بہت سارا نقصان کر دیا۔ بے نظیر کا سانحہ ہوا ظاہر ہے کہ شخصیات کے سہارے سیاست کرنے والی جماعت نے سندھ میں ہنگامے شروع کر دیے۔ اس صوبے میں ریلوے کا بہت نقصان ہوا، کئی ریلوے اسٹیشن تباہ کر دیے گئے، کسی کا کیا گیا ہمارا یہ نقصان اب تک پورا نہیں ہو سکا۔ یہاں ایک عبرت انگیز لطیفہ بھی سن لیجیے۔ انھی دنوں لاہور میں ریلوے کے انجینئروں کی ایک کھانے پر ملاقات ہوئی یہ کھانا کیا تھا ایک جشن تھا اور اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ کتنا نقصان ہوا ہے اس کو پورا کرنے پر کتنا خرچ ہو گا اور اس خرچ میں سے مرمت کرانے والوں کا حصہ کتنا ہو گا۔ اس متوقع رشوت کا یہ جشن تھا۔ بہر حال ریلوے کا اتنا نقصان ہوا کہ وہ اب تک پورا نہیں ہو سکا۔
اس کے بعد حال ہی میں حضور پاکؐ سے محبت اور اسلامی تعلق کا ایک دن منایا گیا۔ ایک سیکولر کہلانے والی حکومت نے مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے یہ دن منایا اور اس دن میں ملک بھر میں جو تباہی مچائی گئی وہ ہم سب کو یاد ہے۔ اندازہ ہے کہ اربوں روپے نقصان میں چلے گئے اور پوری قوم اس جوش کے ٹھنڈا ہونے کے بعد سوچتی رہی کہ یہ کیا ہوا اور کیا حضور سرور کائنات سے محبت کا طریقہ یہ تھا کہ ان کے نام پر بنائے ہوئے ملک میں تباہی مچائی جاتی۔ سوائے چند پیشہ ور لوگوں کے جن کی روزی روز گار عوام کو اشتعال دلا کر مال بنانا ہوتا ہے اور کون تھا جو پشیمان نہیں تھا۔
ذرا اور پیچھے جائیں تو بھٹو صاحب کی پھانسی کا المناک واقعہ تھا لیکن وہ خاموشی سے گزر گیا۔ بھٹو صاحب نے جیل سے نوابزادہ نصراللہ خان کو پیغام بھیجا کہ مجھے صرف اسٹریٹ پاور ہی بچا سکتی ہے گلی کوچوں کا احتجاج ہی حکومت کو مجبور کر سکتا ہے لیکن مجھے اپنی جماعت سے اس کی توقع نہیں ہے آپ کچھ کریں لیکن دوسری جماعتوں کے کارکن اس پر تیار نہیں تھے۔ خود پیپلز پارٹی کے لیڈروں کی حالت یہ تھی کہ ایک بڑا لیڈر اپنا بیاہ کرا رہا تھا دوسرے اپنے اپنے اضلاع بلکہ صوبے چھوڑ کر دوسرے مقامات پر منتقل ہو گئے تھے اور وہ بھی اپنی جماعت کے دوستوں کے ہاں۔ میں نے بعض لیڈروں سے سنا کہ قدرت اس سے اس کی بدتمیزیوں کا امتحان لے رہی ہے جو وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ روا رکھتا تھا۔
یہ بدقسمت لیڈر جس نے سیاست کا رنگ و نقشہ ہی بدل دیا تھا اور ایک عام کارکن کو خصوصی عزت دی تھی وہ اپنے ان سیاسی کارناموں کا پھل نہ کھا سکا۔ پارٹی کے استاد قسم کے کارکنوں نے ایک دو مسیحی کارکنوں کو یہ یقین دلا کر کہ آگ بجھا دیں گے ان کو خود سوزی پر آمادہ کیا۔ غالباً ایک تو جل کر مر ہی گیا۔ بہرکیف پارٹی کی تاریخ کا ایک سب سے بڑا حادثہ اور المیہ خاموشی کے ساتھ گزر گیا۔ ضیاء الحق نے بھٹو قبیلے کے سردار غالباً میر نبی بخش بھٹو کو اطلاع دی کہ فلاں وقت پر میت پہنچے گی قبر تیار کر لیں۔ انگریز بھی بڑے لوگوں کی پھانسی کو خفیہ رکھتے تھے مگر ضیاء الحق نے بھٹو جیسے بڑے لیڈر کے بارے میں کوئی احتیاط نہیں برتی کیونکہ اس کو اطلاع تھی کہ مرحوم کی پارٹی فی الوقت خود مرحوم ہو گئی ہے چنانچہ یہ بڑا سانحہ اور واقعہ کسی بدامنی اور قومی مالی نقصان کے بغیر گزر گیا۔
عرض یہ کر رہا تھا کہ ہماری قوم اپنی بنیادوں سے اکھڑ گئی ہے اور اس میں تحمل نہیں رہا نہ ہی یہ احساس رہا ہے کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ حال ہی میں لوڈشیڈنگ پر جو ہنگامے ہوئے اور واپڈا کے دفتر تباہ کیے گئے تو وہ دفتر ہمارے اپنے تھے جن کی مرمت پر ہمارے خزانے سے خرچ ہو گا۔ اسی طرح اور بھی چھوٹے موٹے کئی واقعات میں ہم نے اپنا نقصان کیا کسی سرکاری محکمے کا کیا نقصان۔ نا انصافی اس قدر بڑھ گئی ہے اور حق تلفی اتنی عام ہو گئی ہے کہ عام آدمی کا اپنے ملک پر سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔
مجھے شک ہے کہ ہمارے بعض بڑے لوگ کہیں ملک تباہ کرنے کے مشن پر تو نہیں ہیں اور انھیں پاکستان کے دشمنوں کی مدد حاصل ہے۔ ہم ملک کے اندر جو تباہی مچاتے ہیں اس میں کسی بیرونی طاقت کا ہاتھ بھی ہو سکتا ہے اور اب تو قتل و خونریزی نے ہماری دنیا ہی بدل دی ہے۔ اخبار کھولیں یا ٹی وی ہر طرف لاشیں اور بربادی دکھائی دیتی ہے۔ کوئی ہے جو اس پر غور کرے یا اس ایشو پر الیکشن لڑے۔