جمہوریت کیوں

مصلحین و مدبرین نے سماجی زندگی کے ضابطے تشکیل دیے، جن کی وجہ سے انسانی معاشرے تشکیل پانا شروع ہوئے


Muqtida Mansoor October 18, 2012
[email protected]

قدرت نے انسان کو تین خواص دے کر دیگر جانداروں سے ممتاز کیا ہے۔

اول، ایسا دماغ (Brain) جو ذہن (Mind) کی شکل میں معلومات کو ذخیرہ کرنے اور سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دوم، ہاتھ کی انگلیوں کی مخصوص ساخت جو ذہن میں آنے والے تصورات کو عملی شکل دینے کی اہلیت رکھتی ہیں۔ سوم، ریڑھ کی ہڈی میں اتنی طاقت کہ واحد ممالیہ جانور جو دو پیروں پر کھڑا ہوتا ہے۔ انسان اپنی ان صلاحیتوں کی وجہ سے سوچنے سمجھنے کے قابل ہوا اور اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے جدوجہد کا آغاز کرسکا۔ اعلیٰ ذہنی صلاحیتیں رکھنے والے کچھ انسانوں نے نئی نئی ایجادات شروع کیں، جن سے انسانوں کی زندگی میں سہولتیں پیدا ہونا شروع ہوئیں۔

جب کہ مصلحین و مدبرین نے سماجی زندگی کے ضابطے تشکیل دیے، جن کی وجہ سے انسانی معاشرے تشکیل پانا شروع ہوئے۔ یوں انسانوں کے ذہنی، فکری اور علمی ارتقا کا جو عمل زمانہ قبل از تاریخ شروع ہوا ، وہ اس کی بصیرت اور تجسس کے باعث اس وقت تک جاری رہے گا جب تک یہ زمین اپنے مدار پر گردش کررہی ہے۔

ہر انسان میں سوچنے سمجھنے اور اپنے تجربات سے سیکھنے کی صلاحیت اور خواہش نے اسے منزل بہ منزل آگے بڑھنے کا حوصلہ عطا کیا۔ اس نے جو کچھ دیکھا، محسوس کیا اور سوچا، اس کے نتیجے میں خیالات اور تصورات تشکیل پائے۔ اسی غوروفکر اور سوچ نے نظریات، افکار اور عقائد کو جنم دیا۔ کرہ ارض کے ہر خطے پر آباد انسانوں کی اپنی تاریخ، ثقافتی روایات، طرز حیات اور عقائد ہیں۔ مختلف انسانی گروہوں کے درمیان نقطہ نظر، عقائد اور طرزحیات کا فرق انسانی فطرت کا حصہ اور دنیا کی رنگارنگی کا باعث ہے۔

اس لیے یہ طرز عمل قابل مذمت نہیںقابل احترام ہے، کیونکہ اس سے انسانوں کی ذہنی و فکری بالیدگی کا اظہار ہوتا ہے۔ آج دنیا میں جو درجنوں کی تعداد میں مذاہب، سیکڑوں عقائد، ان گنت نظریات اور ہر علاقے اور خطے کی اپنی طرز حیات ہے، وہ اسی انسانی جبلت اور رجحان کی عکاس ہیں۔ کوئی ایک عقیدہ، نظریہ یا فکری رجحان انسانوںکے ایک گروہ کے لیے غلط یا مہمل ہوسکتا ہے ، لیکن انسانوں کا ایک دوسرا گروہ اس کے ساتھ جذباتی وابستگی بھی رکھتا ہے۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عقائد، نظریات اور فکری رجحانات مطلق (Absolute) نہیں اضافی (Relative) ہوتے ہیں اور ساتھ ہی قابل احترام بھی۔

نیچرل سائنس اس لیے قدم بہ قدم آگے بڑھی ہے، کیونکہ اس میں کوئی نظریہ حتمی نہیں ہوتا، بلکہ ہر اگلا سائنس دان پچھلے سائنسدانوں کی تحقیق اور نظریات کو آسانی کے ساتھ رد کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے تسلسل کے ساتھ بے مثل ترقی کی ہے اور آج بھی یہ عمل جاری ہے۔ سماجی سائنس کا ارتقا بھی نیچرل سائنس ہی کی طرح ہوتا ہے۔ سماجی سائنس میں بھی مختلف فلاسفر اور مصلحین نے ہر دور میں سماجی زندگی میں توازن اور ترقی کے اصول و ضوابط متعین کیے اور انسانی معاشروں کی فکری اصلاح کرنے کی کوشش کی۔

لیکن انسانی فطرت میں چونکہ کسی تبدیلی کو قبول کرنے کے خلاف ہچکچاہٹ کا عنصر بھی موجود ہے، اس لیے وہ سائنسی ایجادات سے تو جلد یا بدیر استفادہ کرلیتا ہے، کیونکہ ان سے زندگی میں سہولتیں میسر ہوتی ہیں۔ مگر صدیوں سے جاری نظریات میں ردوبدل قبول نہیں کرپاتا۔ جس میں سب سے اہم کردار خوف اور لالچ کی جبلت کا بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کہیں لالچ اس کی راہ میں روڑے اٹکاتا ہے، کہیں خوف اسے صحیح راستے پر گامزن ہونے سے روکتا ہے۔ لہٰذا سماجی سائنس کا ارتقا نیچرل سائنس کے انداز میں نہیں ہوپاتا۔ گو کہ سائنسی ایجادات سماجی زندگی پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہیں اور اسے تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں مگر اس کے باوجود ثقافتی ارتقا کی رفتار سست روی کا شکار رہتی ہے۔ سائنسی ایجادات، ذرایع پیداوار میں تبدیلی کا سبب بنتی ہیں۔

جب کہ ذرایع پیداوار میں تبدیلی انسان کے سیاسی، سماجی اور فکری رجحانات کا تعین کرتی ہیں۔ سماجی زندگی میں تبدیلی نئی ایجادات سے مشروط ہے۔ جب زندگی تبدیل ہوتی ہے تو اس کے لیے نئے قوانین اور ضابطوںکی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے ماضی میں مرتب کردہ قوانین اور ضابطے تبدیلی کے متقاضی ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہر دور کا اپنا الگ نظام حکمرانی ہوتا ہے۔ جب انسان نے گروہی شکل میں رہنا شروع کیا تو قبائل وجود میں آئے۔ زمین کی ملکیت کا زمانہ آیا تو جاگیرداری اور بادشاہی نظام نے جنم لیا۔ جو آج بھی ان معاشروں میں جاری ہیں جو صنعتی معاشرت کے ثمرات سے بے بہرہ ہونے کی وجہ سے فکری جمود کا شکار ہیں۔

سولہویں صدی میں صنعتی نظام کے بطن سے جمہوریت پیدا ہوئی لیکن جمہوریت دراصل انسان کی صدیوں کی جدوجہد، ذہنی، علمی اور فکری ارتقا کا نتیجہ ہے، جو اپنے وصف کے اعتبار سے ایک ہمہ گیر نظام ہے۔ جمہوریت صرف طرز حکمرانی نہیں بلکہ طرز حیات اور رویہ بھی ہے۔ جمہوریت ریاستی سطح پر عوام کی حکمرانی اور منصوبہ سازی میں بالواسطہ شرکت کا ذریعہ ہے۔ جب کہ انفرادی سطح پر انسان کو فکری کثرتیت یعنی مختلف رجحانات، رویوں اور عقائد کو برداشت کرنے اور مختلف رنگ، نسل اور لسانی پس منظر رکھنے والے افراد یا گروہوں کے مساوی حقوق تسلیم کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔

جمہوریت میں انسان کی برتری کا معیار اس کی کسی عقیدے، نظریے یا نسلی و لسانی گروہ سے وابستگی کے بجائے اہلیت ہوتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ جمہوریت اظہار رائے کی آزادی، عقیدے کی آزادی، تعلیم اور روزگار کے حصول کی آزادی اور ثقافتی آزادی کی وکالت کرتی ہے۔ جمہوری ملک میں ریاست عوام کے عقائد، نظریات، ثقافت اور طرز حیات میں مداخلت نہیں کرتی۔ جمہوریت تمام شہریوں کو بلاامتیاز رنگ، نسل، لسان اور عقیدہ ترقی کرنے اور اعلیٰ ترین منصب تک پہنچنے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔

جمہوریت کی مخالفت وہ عناصرکرتے ہیں، جو اپنی سرشت میں فاشسٹ اور ذہنی طور پر آمرانہ رویوں کے حامل ہوتے ہیں۔ وہ عناصر جو عوام کو برابر نہیں سمجھتے بلکہ ان کے درمیان کہیں عقیدے کے نام پر، کہیں نسل اور لسان کے نام پر امتیازی رویہ رکھنے پر اصرار کرتے ہیں۔ سماجی ارتقا کی حقیقت سے نابلد ہونے کی وجہ سے تہذیبی نرگسیت کا شکار ہوتے ہیں، جس کے باعث ماضی کی طرز معاشرت کو زبردستی مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تحقیق و تخلیق سے خوفزدہ ہوتے ہیں، اس لیے اُس پر قدغن لگاتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک طرف معاشرہ فکری طور پر بانجھ ہونے لگتا ہے جب کہ دوسری طرف اس میں بیگانگی بڑھنے لگتی ہے۔ چونکہ مقبول ووٹ کے ذریعے ان کے لیے اقتدار میں آنا ممکن نہیں ہوتا، اس لیے طاقت کے بل بوتے پر ریاست پر جبراً قبضہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نظریے، عقیدے یا نسلی و لسانی تفاخر نے ہمیشہ انسانوں کو تقسیم کیا ہے۔ یہ رجحانات نہ نئے ہیں اور نہ کسی مخصوص خطے تک محدود ہیں، بلکہ دنیا بھر میں صدیوں سے موجود ہیں۔ یہ مغربی معاشروں میں Puritans کی شکل میں پائے جاتے ہوں جو اپنے سوا دیگر تمام عقائد کو گمراہ کن سمجھتے ہیں، یا صہیونی شدت پسندوں کی شکل میں ہوں جو قوم بنی اسرائیل کے علاوہ سب کو حقیر و کمتر سمجھتے ہیں، یا پھر مسلم معاشروں میں موجود انتہا پسند گروہ ہوں جو اپنے عقائد اور تصورات کو ارفع و اعلیٰ قرار دیتے ہوئے دیگر تمام عقائد کے ماننے والوںکو قابل گردن زدنی سمجھتے ہوں، ہمیشہ انسانیت کے لیے بہت بڑا خطرہ رہے ہیں۔ کیونکہ اس قسم کی ذہنیت نے انسان کو انسان کے خون کا پیاسا بنانے کے علاوہ کچھ اور نہیں دیا۔

اس کے برعکس صوفیا نے تحمل، برداشت، رواداری اور فکری کثرتیت کو قبول کرنے کا درس دیا۔ یہی سبب ہے کہ ان کا پیغام بہت جلد عوامی قبولیت حاصل کرکے زبانِ زد عام ہوگیا۔ آج کراچی سے سلہٹ تک اور وادی بولان سے چٹاگانگ تک عوام کا ایک سیلابِ رواں صوفیا سے جو والہانہ محبت اور عقیدت رکھتا ہے، وہ بلاسبب نہیں ہے۔ سندھی زبان کے یکتائے روزگار صوفی شاعر سائیں شاہ لطیف جب یہ کہتے ہیں کہ: سائنم سدائین کرین متھے سندھ سکار، دوست مٹھا دلدار عالم سب آباد کریں، تو وہ اﷲ تعالیٰ سے اپنی دھرتی سندھ پر رحمتوں کے طلب گار ہونے کے ساتھ پورے عالم کو شاد آباد رکھنے کی دعا مانگتے ہیں۔

دعا کا یہ انداز محبت اور یگانگت اور آفاقیت کو پروان چڑھانے کا درس ہے۔ صوفیا مذہب، فرقہ یا مسلک کی بنیاد پر نہ لوگوں میں تفریق کرتے ہیں اور نہ نسلی اور لسانی بنیادوں پر ان کے درمیان امتیاز پیدا کرتے ہیں۔ ان کا پیغام صرف محبت ہوتا ہے، جو انسانوں کو توڑنے کے بجائے جوڑنے کا سبب بنتا ہے۔ جمہوریت کا بھی یہی درس ہے۔ جمہوریت بھی انسانوں کے درمیان ہر قسم کی تفریق کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ اس لیے سوچنے سمجھنے والے انسانوں پر لازم ہے کہ وہ جمہوریت سے انکار کے بجائے اسے مزید بہتر بنانے پر توجہ دیں تاکہ انسانی معاشروں کو مزید بہتری کی طرف گامزن کیا جاسکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں