دعوتِ فکر

امریکا کے نزدیک کسی عالمی قانون اور ادارے کی کوئی اہمیت نہیں ہے

advo786@yahoo.com

لاہور:
پاکستان میں ڈرونز حملوں کا آغاز 2005 سے ہوا تھا، 2007 تک ان حملوں میں کل 21 شہری مارے گئے تھے۔

جب کہ 2008 سے اس ماہ کے آغاز تک 2400 کے قریب شہری ان ڈرونز کا لقمہ بنے، جن میں عورتیں، بچّے اور بزرگ شامل ہیں، زخمی اور معذور ہوجانے والوں کی بھی بڑی تعداد ہے۔ یہ حملے گھروں، مساجد، مدارس،شادی اور موت کی تقریبات پر بلاامتیاز عام شہریوں شہریوں پر بھی کیے گئے۔ سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی حملے کی نتیجے میں 24فوجیوں کی شہادت کے بعد فوج اور حکومت نے ردعمل کا اظہار کیا تو 2 ماہ تک ڈرونز حملے رکے رہے۔

اس موقعے پر فضائیہ کے سربراہ نے واضح کیا تھا کہ ان کے پاس ڈرونز کو مار گرانے کی صلاحیت موجود ہے لیکن حکمران اس بارے میں ہمیشہ مبہم اور متضاد، مصالحت اور منافقت آمیز بیانات دیتے رہے ہیں۔ کبھی کہا کہ ہم ڈرونز کو گرانے کی صلاحیت نہیں رکھتے، کبھی کہا کہ ہم امریکا سے مخالفت مول لے کر معاشی، عسکری اور دفاعی طور پر تباہ ہوجائیں گے، کبھی کہا گیا کہ ہم تمام دنیا سے مخالفت لے کر زندہ نہیں رہ سکتے اور یہ کہ یہ جنگ امریکا کی نہیں ہماری بقا کی جنگ ہے جب کہ ایک ایرانی طالب علم امریکی ڈرون کو ہائی جیک کرکے اپنی قابلیت اور طاقت دونوں کی مثال قائم کردیتا ہے۔ ان حملوں کے خلاف تو ہماری پارلیمنٹ بھی قرارداد پاس کرچکی ہے۔

کسی ملک کی خودمختاری اور جغرافیائی حدود کی خلاف ورزی، اصول، انصاف اور بین الاقوامی قوانین کی بین خلاف ورزی ہے۔ یو این او نے اس معاملے پر اوباما انتظامیہ سے وضاحت اور جواز طلب کیا تھا لیکن عملی طور پر کوئی تدارک یا عملی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ یو این او کا کردار بھی غیر موثر، امتیازی اور جانبدارانہ ہے۔ ایک ملک کی جغرافیائی نظریاتی حدود کی پامالی پر عالمی اداروں اور انصاف اور امن کے علمبرداروں کا ضمیر نہ جانے کہاں سوجاتا ہے۔ امریکا کے نزدیک کسی عالمی قانون اور ادارے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

یہ تمام ادارے امریکا کے ذیلی اور طفیلی اداروں کا کردار ادا کررہے ہیں جو امریکی عزائم، مفادات اور ترجیحات کی تکمیل کے لیے کمزوروں کی گردنیں ناپنے میں لگے ہوئے ہیں۔ امریکا، اس کے اتحادیوں اور بین الاقوامی اداروں کا پاکستان سے متعلق کردار ہمیشہ ظالمانہ، دوغلا اور منافقانہ ہی رہا لیکن خود پاکستان کی حکومتوں کا رویہ بھی منافقتوں، مصالحتوں اور دروغ گوئی سے بھرا ہوا ہے۔ اکثر سیاسی و مذہبی جماعتیں اس سلسلے میں امریکا اور پاکستانی عوام دونوں کی نظروں میں سرخرو ہونے کے لیے منافقانہ، وقتی اور نمایشی اقدامات پر اکتفا کرکے امریکی اعتماد اور امداد اور پاکستانیوں سے واہ واہ کرانے کی پالیسی پر کاربند ہیں۔

کیا شہروں سے باہر دھرنے دینے اور غیر علاقہ جات کی طرف امن مارچ کرنے سے مسائل حل ہوجائیں گے؟ یا ان سے بین الاقوامی طاقتوں اور اداروں پر کوئی اثر ہوگا؟ اخلاص اور دانش مندی تو یہ ہے کہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرنے کے بجائے ہمارے سیاسی و مذہبی رہنما باہم مل کر جدوجہد کرتے اور یہ مظاہرے اور لانگ مارچ ان ممالک کے سفارت خانوں کی طرف کرتے، وہاں دھرنا دیتے۔ پارلیمنٹ، ایوان صدر و وزیراعظم ہائوس پر دھرنا دیتے کہ پارلیمنٹ کی پاس کردہ قرارداد پر عمل کیا جائے اور حکومت اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے۔ اس قسم کے مشترکہ احتجاج سے حکومت اور امریکا اور اس کے اتحادیوں پر برا اثر پڑسکتا تھا۔


حکمرانوں کو اپنے اقتدار اور امریکا کو اپنے مفادات اور مقاصد کی خاطر اپنی پالیسیوں اور رویوں پر نظرثانی اور غور کرنے پر مجبور ہونا پڑتا۔ عمران خان جو خود ابتدا میں ڈرونز حملوں کے خالق پرویز مشرف کے حمایتی تھے اور ان کی پارٹی میں دو ایسے وزرائے خارجہ شامل ہیں جن کے دور میں ہزاروں پاکستانیوں کی زندگیاں ان ڈرونز کی بھینٹ چڑھائی گئیں۔ وہ ان ہی لوگوں کو ساتھ لے کر ڈرونز حملوں کے خلاف امن مارچ جیسے نمایشی اور جذباتی اقدامات کرکے لوگوں کی ہمدردیاں اور نیک نامی سمیٹنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ عمران خان نے اس مارچ کو امن مارچ کا نام اور امن کے پیغام سے تعبیر کیا تھا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان ڈرونز حملوں کا نشانہ تمام شہری تو خود امن و امان کے متمنّی ہیں ، پٹنے والے کو امن پسندی کے پیغام کے کیا معنی ہیں؟ پیغام، امن اور عدم جارحیت کی ضرورت تو امریکا اور اس کے بدمست ہاتھیوں کو دینے کی ضرورت ہے جو کسی اخلاقی، انسانی، قانونی اور بین الاقوامی اصول و ضابطہ کو خاطر میں نہیں لاتے ہیں پھر اس امن مارچ اور پیغام امن کا متاثر علاقوں میں شو آف کرکے کیا نتیجہ نکالا جاسکتا ہے جب کہ اب تو امریکا کے اندر سے کالجز، یونیورسٹیز، این جی اوز اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے باضمیر افراد اور عام شہریوں کی جانب سے بھی بین الاقوامی اصولوں اور انسانی حقوق کی پامالی پر آوازیں بلند ہونا شروع ہوچکی ہیں۔ خود عمران خان کی ریلی میں بھی درجنوں غیر ملکی شریک تھے۔

اگر عمران خان اس نامکمل امن مارچ میں اپنے سیاسی حریفوں کو ہدف تنقید بنانے کے بجائے تمام سیاسی عناصر کو اپنے ساتھ شرکت کی دعوت دے کر اس مسئلے کو عالمی میڈیا میں اجاگر کرتے، اس کے خلاف بین الاقوامی رائے عامہ ہموار اور دبائو بڑھانے کی کوشش کرتے، ان ممالک کے سفارت خانوں پر مظاہرے کرتے، دھرنے دیتے، وہاں کے پالیسی ساز اداروں اور عالمی اداروں کے سامنے مظاہرے کرتے، یادداشتیں پیش کرتے، ظلم پر مبنی حقائق کی عکاس فلمیں بنا کر دنیا کو دِکھاتے تو بہتر نتائج کی توقع کی جاسکتی تھی۔

کپتان کے امن مارچ پر ملالہ حملے نے اس طرح گرد بٹھادی ہے کہ قوم امریکی ڈرونز اور جارحیت کو بھول کر جذباتیت سے اس قدر مغلوب ہے کہ یہی جذبات امریکی جارحیت کے اخلاقی جواز کے لیے دلیل کے طور پر پیش کیے جاسکیں۔ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد عالمی جنگ نے ہمارا قومی تشخص، دفاع، معیشت اور معاشرت کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے جو خدانخواستہ ہماری آنے والی نسلوں تک بھی جاری رہے۔ اس نے نئی اور آنے والی نسلوں کی نفسیات پر بھی بڑے انمٹ نقوش ثبت کردیے ہیں۔

ایک کردار خرم صمد کا ہے جو پس منظر میں چلا گیا ہے۔ عام شہری اس کے نام سے بھی واقف نہیں، جس نے عالمی میڈیا کے سامنے واحد سپرپاور کی سفیر سے اسکالر شپ لینے اور ہاتھ ملانے سے انکار کرتے ہوئے روسٹرم پر یہ الفاظ ادا کیے تھے کہ امریکا معصوم پاکستانیوں کا قتلِ عام کررہا ہے، اس لیے وہ اس اسکالر شپ کو مسترد کرتا ہے۔ ہمارے ملک کے ان دو بچوں کے متضاد رویے ہمارے حکمرانوں، سیاست دانوں اور مذہبی رہنمائوں اور عام پاکستانیوں کو بھی دعوتِ فکر دے رہے ہیں۔

فطرت افراد سے اغماض بھی کرلیتی ہے
کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو کبھی معاف
Load Next Story