کسی کا حق ہے سمندر پہ اور کوئی پیاسا
نجی جیلوں کا سلسلہ کیسے ختم ہوگا؟ اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے
کسی کے پاس تو اتنی دولت ہے کہ اسے سمجھ نہیں آتا کہ کہاں اور کیسے خرچ کرے۔ بہانے ڈھونڈے جاتے ہیں، بے دریغ پیسہ لٹایا جاتا ہے۔
مے نوشیاں، ڈانس پارٹیاں، انواع و اقسام کے طعام و مشروبات اور دیگر اللّے تللّے۔ یہ سب کچھ ہمارے اپنے اس ملک خدا داد میں ہو رہا ہے کہ جہاں آدھی سے زیادہ آبادی بھوک و ننگ کی زندگی گزار رہی ہے، رات کو خالی پیٹ سوتی ہے اگلے دن کی روٹی کی بھی کوئی سبیل نہیں پاتی۔ کسی جاگیردار کی زمینوں سے کوئی وزیر گزر رہا ہے، تو وزیر صاحب سے درخواست کی جاتی ہے کہ گزرتے ہوئے دوپہر کی ''روٹی شوٹی'' کھاتے جائیے گا اور پھر ہرن، بٹیرے، تلیئر اور تلور کی بیسیوں دیگیں چڑھا دی جاتی ہیں، صرف ایک وزیر کی دعوت میں شان و شوکت پیدا کرنے کے لیے ہزار دو ہزار مہمان بلا لیے جاتے ہیں۔
سرخ قالینوں کا فرش بچھا دیا جاتا ہے۔ جاگیردار صاحب کی نجی جیل سے قیدی مرد عورتیں، خصوصی خدمت گاری کے لیے نکالے جاتے ہیں، ''روٹی شوٹی'' کے بعد برتن شرتن، دریاں قالین سمیٹ سماٹ کے غلام قیدی مرد عورتیں پھر سے نجی جیل میں پابند سلاسل کر دیے جاتے ہیں۔
نجی جیلوں کا سلسلہ کیسے ختم ہوگا؟ اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے، بلکہ شاید ہمارے اشرافیائی سماج میں یہ سوال، سوال ہی نہیں ہے۔ کچھ دن پہلے کے اخبار میں بھی ایک تصویر چھپی ہوئی تھی، چند مرد عورتیں گود میں بچّے اٹھائے کھڑے تھے، ساتھ کالے کوٹ والا وکیل بھی کھڑا تھا، جس نے عدالت کے حکم پر ان لوگوں کو ایک وڈیرے کی نجی جیل سے آزاد کروایا تھا۔ خبر تھی کہ آزاد ہونے والے کمرہ عدالت میں واویلا مچا رہے تھے کہ ''ہمیں تحفظ فراہم کیا جائے'' مگر عدالت والوں نے انھیں دھکے مار مار کر باہر نکال دیا۔ جاگیردار کا کہنا تھا کہ ''یہ لوگ میرے مقروض ہیں، انھوں نے 14 لاکھ روپے قرض ادا کرنا ہے۔'' اور ان قیدیوں کا وکیل کہہ رہا تھا کہ اگر اتنی رقم ان کے پاس ہو تو ان کے سارے ''دلدر'' دور نہ ہو جائیں۔
کراچی سے شمال کی طرف کبھی بس میں یا اپنی ذاتی کار میں سفر کیجیے تو راستے میں ہر دس، پندرہ میل بعد لب سڑک، ایک عالی شان، مضبوط محرابی دروازہ نظر آئے گا، مختلف نقش و نگار سے مزّین دروازہ، جس کی پیشانی پر صاحبِ جاگیر کا نام لکھا ہوگا کہ یہ فلاں جاگیردار کی زمینوں میں داخل ہونے کا دروازہ ہے۔ پورا سندھ، پنجاب، خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں ایسے ہی ان گنت ہیبت ناک دروازے ملتے ہیں کہ جن کے پیچھے چیخیں ہیں، آہ و زاریاں ہیں، ظلم و تشدد کی رونگٹے کھڑے کرنے والی داستانیں ہیں۔ ڈر اور خوف کے سائے ہیں۔
نجی جیلوں میں جاگیردار کا اپنا قانون ہے، اپنی عدالتیں ہیں، اپنے فیصلے ہیں اور یہ سچ ہے کہ وہاں پر ''پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔'' اسکولوں کی عمارتیں بھی دور سے نظر آتی ہیں مگر یہ سب محض دِکھاوے کے لیے بنائی گئی ہیں، مگر وہاں گدھے، گھوڑے بندھے ہوئے ہیں، کوئی استاد اسکول میں داخل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی طالب علم یہاں راہ پا سکتا ہے۔ مسجد کا مولوی بھی ان جاگیر داروں کا غلام، علاقہ پولیس بھی جاگیردار کی ذاتی ملازم، تنخواہ سرکار سے اور ملازمت جاگیردار کی۔ سارے فتوے، سارے قانون جاگیردار کی مٹھی میں، غریب کی بیٹی کی چیخیں میلوں پر پھیلی جاگیر میں ہی دم توڑ دیتی ہیں، اس کی مدد کو کوئی نہیں آتا۔ نہ مسجد کے محراب و منبر سے کوئی آواز بلند ہوتی ہے، نہ قانون کے رکھوالے بولنے کی جرأت رکھتے ہیں یا ایسی جسارت کر سکتے ہیں۔
انسانی تاریخ یوں ہی سفر میں ہے۔ نمرود، شداد، فرعون، ہامان۔ سب آج بھی اقتدار میں ہیں۔ علی سردار جعفری کا شعر ہے۔
ہے ہمیشہ سے یہی افسانۂ پست و بلند
حرفِ باطل زیبِ منبر، حرفِ حق بالائے دار
تاریخ بتاتی ہے کہ ہر دور کے ''منصور'' کو جیل میں قید رکھا گیا۔ جھوٹ، ریاکاری، مکاری، عیّاری، زیبِ منبر و محراب رہی اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ قتلِ حسین پر بھی سب چپ تھے، جیسے آج ظلم اور ظالم کے مقابل ہم سب چپ ہیں، کہتے ہیں ایمان کے تین درجے ہیں۔ -1 ظلم اور ظالم کو ہاتھ سے روکو۔ -2 ظلم اور ظالم کے خلاف آواز بلند کرو۔ اور اگر ان دونوں باتوں کی استطاعت نہ پائو تو -3 ظلم اور ظالم کو دل سے بُرا سمجھو۔ اور یہ تیسرا درجہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ آج ہم سب ایمان کے تیسرے درجے پر چل رہے ہیں اور شاید ہم تیسرے درجے پر بھی نہیں ہیں کہ دل میں برا سمجھنے کی بھی ہم میں ہمت اور جرات نہیں ہے۔
غریب بغیر علاج کے مر رہا ہے، اس کے جھونپڑوں میں آٹا نہیں ہے۔ پینے کا پانی نہیں ہے۔ لوگ بچّوں سمیت دریائوں نہروں میں کود کر خودکشیاں کر رہے ہیں اور دوسری طرف شانِ مغلیہ کے نظارے ہیں۔ ایک آدمی (صدر، وزیراعظم، گورنر، وزیراعلیٰ اور ان کے بال بچوں) کے استقبالی قافلے میں لاکھوں کروڑوں روپوں کی قیمتی گاڑیاں ہیں، سائرن بجاتی، رستے صاف کرواتی اسکورٹ کرنے والی ہیوی موٹر سائیکلیں ہیں، ایجنسیاں ہیں، محل ہیں اور ادھر مسخ شدہ لاشیں ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ ہے۔ جالبؔ کے بھی یہی دکھ تھے اور وہ یہی سوچتا تھا۔
نہ کوئی شب ہو شبِ غم، یہ سوچتے ہیں ہم
کسی کی آنکھ نہ ہو نم، یہ سوچتے ہیں ہم
کسی کا حق ہے سمندروں پہ اور کوئی پیاسا
یہ کیا ہے! کیوں ہے یہ عالم، یہ سوچتے ہیں ہم
کسی کے لب پہ نہ ہو، داستانِ تشنہ لبی
زمیں پہ کوئی نہ ہو جم، یہ سوچتے ہیں ہم
زمیں پہ آگ نہ برسے، فضا سدا مہکے
بپا نہ ہو کہیں ماتم، یہ سوچتے ہیں ہم
کرے نہ کوئی زمانے میں جنگ کی باتیں
جھکے نہ امن کا پرچم، یہ سوچتے ہیں ہم
سفر ہے شب کا دل ہمرہاں بجھے نہ کہیں
لگن کی لو نہ ہو مدھم، یہ سوچتے ہیں ہم