آہ فرید خان
عظیم مفکر داسُو کا قول ہے کہ انسان آزاد پیدا ہوتا ہے مگر وہ بیڑیوں میں جکڑا ہوا پایا جاتا ہے۔
یکم اگست بروز ہفتہ جس وقت ٹی وی اسکرین پر ہمیں فرید خان کی تصویر کی جھلک نظر آئی، اس وقت ہم ایک معروف لیبارٹری میں ٹیسٹ کرانے کے لیے اپنی باری آنے کے منتظر تھے۔ تصویر دیکھتے ہی ہماری چھٹی حس بیدار ہوگئی اور ماتھا فوراً ٹھنک گیا۔ زیادہ عرصہ نہیں گزر ا کہ ہم نے فرید خان کو ایک مشہور ٹی وی چینل پر ایک مہمان کی صورت میں دیکھا تھا جہاں وہ اپنی زندگی اور بحیثیت مزاحیہ اداکار اپنی کارکردگی سے متعلق مختلف واقعات بیان کر رہے تھے۔اس وقت ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ ان کے آخری دیدار تھے۔
عظیم مفکر داسُو کا قول ہے کہ انسان آزاد پیدا ہوتا ہے مگر وہ بیڑیوں میں جکڑا ہوا پایا جاتا ہے۔ اس قول کی صداقت سے انکار ممکن نہیں۔ ایک عام آدمی کی زندگی واقعی طرح طرح کے مسائل کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی نظر آتی ہے۔ ایک انگریزی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
What is this life
Full of Care!
کیفیت یہ ہے کہ:
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
معاشی اور معاشرتی مسائل نے ایک عام انسان کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ ان حالات میں اگر اسے چند لمحے زندہ رہنے کے لیے میسر آجائیں تو یہ دم توڑتے ہوئے شخص کے لیے آکسیجن سے کم نہیں۔ چنانچہ آج کے پر آشوب اور دم گھٹنے والے ماحول میں مزاح کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ اس اعتبار سے اگر مزاح نگاروں اور مزاحیہ اداکاروں کے قیام اورکردار کا تعین کیا جائے تو وہ مسیحائی کے زمرے میں آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہ فلم اور تھیٹرکی دنیا میں انھیں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔
وطن عزیز پاکستان نہ صرف بڑے بڑے نامی گرامی کھلاڑی پیدا کیے ہیں بلکہ ایسے نابغہ روزگار مزاحیہ اداکار بھی پیدا کیے ہیں جنھوں نے اپنے ملک کا نام پوری دنیا میں روشنی کیا ہے۔ فلم اور اسٹیج پر اپنے فن کا جادو دکھانے والے ان کلا کاروں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ یہ کالم ان کی تفصیلات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ان میں اسے بعض فنکار تو اتنے منفرد اور عظیم ہیں کہ ان کی سوانح حیات لکھی جاسکتی ہے۔ کاش ہمارے لکھاری اور اشاعتی ادارے اس جانب توجہ فرمائیں۔
کامیڈین فرید خان کا شمار بھی پاکستان کے ان مایہ ناز مزاحیہ فنکاروں میں شامل ہے جو روتوں کو ہنسانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ان کے نزدیک مزاح کے ذریعے اداسی اور افسردگی کو دور کرنے کو عبادت کا درجہ حاصل تھا۔ انھوں نے 15 سال کے انتہائی طویل عرصے تک جبڑے کے سرطان کی مہلک اور موذی بیماری کا نہایت پامردی کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کیا اور بالآخر یکم اگست بروز ہفتہ ملک عدم کو کوچ کیا۔
وہ جو مرزا غالب نے اپنے بارے میں فرمایا ہے کہ:
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
وہ کامیڈین فرید پر بھی حرف بہ حرف صادق آتا ہے۔ فرید خان کا 1980 کی دہائی میں مزاحیہ اداکاری کے افق پر اس وقت پوری آب و تاب سے چمک رہے تھے جب کہ معین اختر کوئی مقام حاصل کرنے کے لیے تگ و دو شروع کر رہے تھے اور عمر شریف مزاحیہ فنکاری کے افق پر ابھی نمودار بھی نہ ہوئے تھے۔ البتہ بشریٰ انصاری نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھانا شروع کردیے تھے۔
مزاح نگاری اور مزاحیہ اداکاری کوئی آسان کام نہیں ہے۔ یہ تلوارکی دھار پر ننگے پیروں سے چلنے کے مترادف جان جوکھوں کا کام ہے۔ ذرا سی بھی بھول چوک سے بڑے سے بڑا مزاح نگار اور مزاحیہ اداکار پھکڑ پن کی کیچڑ میں گر سکتا ہے۔ اس طرح کے مناظر اکثر و بیشتر ہمارے مشاہدے میں آتے رہتے ہیں۔ اس وقت بڑے سے بڑے مزاحیہ فنکار کی ساکھ لمحہ بھر میں خراب ہوجاتی ہے اور اس کے ماضی کی شاندار کارکردگی دیکھتے ہی دیکھتے ملیا میٹ ہوجاتی ہے۔
فرید خان کا طرہ امتیاز یہ تھا کہ وہ اپنے پورے کیریئر میں کبھی گھٹیا پن یا پھکڑ پن کا شکار نہیں ہوئے۔ انھوں نے روز اول جو معیار قائم کیا تھا وہ اس پر تادم آخر قائم رہے اور ان کے پایہ استقامت میں کبھی بھولے سے بھی لغزش نہیں آئی۔ شائستگی اور تہذیب کا دامن ان کے ہاتھوں سے کبھی نہیں چھوٹا۔
فرید خان کی مزاحیہ اداکاری کی دوسری بڑی خوبی ان کی Originality تھی۔ ان کے لطائف اور Jokes پر ان کی ذاتی تخلیقی صلاحیت کی مہرثبت ہوتی تھی جس سے ان کے ذہن کی اختراع اور اُپچ کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ وہ ہمیشہ بہت دور کی کوڑی لاتے تھے اور چھوٹوں بڑوں سب سے اپنی انفرادیت کا لوہا منواتے تھے۔ وہ Quantity کے نہیں Quality کے قائل تھے۔ عامیانہ پن سے انھیں سخت چڑ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر میں انھیں بہت کم عرصے میں بہت زیادہ مقبولیت اور پذیرائی حاصل ہوئی۔ ہم نے انھیں اپنی جرابوں میں نوٹ بھرتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔ ان کا تعلق گوالیار کے ایک گھرانے سے تھا اور ان کا سن پیدائش 1953 تھا۔ ان کے والد ٹھیکیداری کرتے تھے جب کہ ان کی والدہ ایک گھریلو خاتون تھیں۔ 1974 میں فرید خان کراچی کے ایک مشہور تعلیمی ادارے نیشنل کالج میں زیر تعلیم تھے جہاں وہ اپنی مزیدار باتوں اور لطیفوں سے اپنے ہم جماعتوں کا دل لبھایا کرتے تھے۔ اس وقت کسی کو بھی یہ اندازہ نہ تھا کہ ایک دن وہ اپنی اسی صلاحیت کی بدولت اتنا بلند مقام حاصل کریں گے اور شہرت و مقبولیت کے بام عروج تک پہنچیں گے۔
فرید خان کو ٹی وی ڈراموں نئی دنیا، بس بھائی بس اور ٹی وی کے خاکوں پر مبنی مشہور پروگرام ففٹی ففٹی سے بھی بہت شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ پھر ایک ایسا وقت بھی آیا جب فرید خان ٹی وی اور اسٹیج سے فیڈ آؤٹ ہوتے چلے گئے۔ بے شک ہر کمال کو زوال ہے۔ کسی شاعر نے اس حوالے سے کیا خوب کہا ہے:
حسن والے حسن کا انجام دیکھ
ڈوبتے سورج کو وقت شام دیکھ
فرید خان جیسے فنکار روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ افسوس کہ کینسر کے موذی مرض کے علاج کے سلسلے میں انھیں وہ مالی امداد میسر نہ آسکی جس کے وہ بجا طور پر حق دار تھے۔ باصلاحیت لوگوں کی ناقدری ہمارے ملک و معاشرے کا سب سے بڑا المیہ ہے جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے وہ کم ہے۔
عظیم مفکر داسُو کا قول ہے کہ انسان آزاد پیدا ہوتا ہے مگر وہ بیڑیوں میں جکڑا ہوا پایا جاتا ہے۔ اس قول کی صداقت سے انکار ممکن نہیں۔ ایک عام آدمی کی زندگی واقعی طرح طرح کے مسائل کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی نظر آتی ہے۔ ایک انگریزی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
What is this life
Full of Care!
کیفیت یہ ہے کہ:
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
معاشی اور معاشرتی مسائل نے ایک عام انسان کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ ان حالات میں اگر اسے چند لمحے زندہ رہنے کے لیے میسر آجائیں تو یہ دم توڑتے ہوئے شخص کے لیے آکسیجن سے کم نہیں۔ چنانچہ آج کے پر آشوب اور دم گھٹنے والے ماحول میں مزاح کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ اس اعتبار سے اگر مزاح نگاروں اور مزاحیہ اداکاروں کے قیام اورکردار کا تعین کیا جائے تو وہ مسیحائی کے زمرے میں آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہ فلم اور تھیٹرکی دنیا میں انھیں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔
وطن عزیز پاکستان نہ صرف بڑے بڑے نامی گرامی کھلاڑی پیدا کیے ہیں بلکہ ایسے نابغہ روزگار مزاحیہ اداکار بھی پیدا کیے ہیں جنھوں نے اپنے ملک کا نام پوری دنیا میں روشنی کیا ہے۔ فلم اور اسٹیج پر اپنے فن کا جادو دکھانے والے ان کلا کاروں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ یہ کالم ان کی تفصیلات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ان میں اسے بعض فنکار تو اتنے منفرد اور عظیم ہیں کہ ان کی سوانح حیات لکھی جاسکتی ہے۔ کاش ہمارے لکھاری اور اشاعتی ادارے اس جانب توجہ فرمائیں۔
کامیڈین فرید خان کا شمار بھی پاکستان کے ان مایہ ناز مزاحیہ فنکاروں میں شامل ہے جو روتوں کو ہنسانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ان کے نزدیک مزاح کے ذریعے اداسی اور افسردگی کو دور کرنے کو عبادت کا درجہ حاصل تھا۔ انھوں نے 15 سال کے انتہائی طویل عرصے تک جبڑے کے سرطان کی مہلک اور موذی بیماری کا نہایت پامردی کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کیا اور بالآخر یکم اگست بروز ہفتہ ملک عدم کو کوچ کیا۔
وہ جو مرزا غالب نے اپنے بارے میں فرمایا ہے کہ:
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
وہ کامیڈین فرید پر بھی حرف بہ حرف صادق آتا ہے۔ فرید خان کا 1980 کی دہائی میں مزاحیہ اداکاری کے افق پر اس وقت پوری آب و تاب سے چمک رہے تھے جب کہ معین اختر کوئی مقام حاصل کرنے کے لیے تگ و دو شروع کر رہے تھے اور عمر شریف مزاحیہ فنکاری کے افق پر ابھی نمودار بھی نہ ہوئے تھے۔ البتہ بشریٰ انصاری نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھانا شروع کردیے تھے۔
مزاح نگاری اور مزاحیہ اداکاری کوئی آسان کام نہیں ہے۔ یہ تلوارکی دھار پر ننگے پیروں سے چلنے کے مترادف جان جوکھوں کا کام ہے۔ ذرا سی بھی بھول چوک سے بڑے سے بڑا مزاح نگار اور مزاحیہ اداکار پھکڑ پن کی کیچڑ میں گر سکتا ہے۔ اس طرح کے مناظر اکثر و بیشتر ہمارے مشاہدے میں آتے رہتے ہیں۔ اس وقت بڑے سے بڑے مزاحیہ فنکار کی ساکھ لمحہ بھر میں خراب ہوجاتی ہے اور اس کے ماضی کی شاندار کارکردگی دیکھتے ہی دیکھتے ملیا میٹ ہوجاتی ہے۔
فرید خان کا طرہ امتیاز یہ تھا کہ وہ اپنے پورے کیریئر میں کبھی گھٹیا پن یا پھکڑ پن کا شکار نہیں ہوئے۔ انھوں نے روز اول جو معیار قائم کیا تھا وہ اس پر تادم آخر قائم رہے اور ان کے پایہ استقامت میں کبھی بھولے سے بھی لغزش نہیں آئی۔ شائستگی اور تہذیب کا دامن ان کے ہاتھوں سے کبھی نہیں چھوٹا۔
فرید خان کی مزاحیہ اداکاری کی دوسری بڑی خوبی ان کی Originality تھی۔ ان کے لطائف اور Jokes پر ان کی ذاتی تخلیقی صلاحیت کی مہرثبت ہوتی تھی جس سے ان کے ذہن کی اختراع اور اُپچ کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ وہ ہمیشہ بہت دور کی کوڑی لاتے تھے اور چھوٹوں بڑوں سب سے اپنی انفرادیت کا لوہا منواتے تھے۔ وہ Quantity کے نہیں Quality کے قائل تھے۔ عامیانہ پن سے انھیں سخت چڑ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر میں انھیں بہت کم عرصے میں بہت زیادہ مقبولیت اور پذیرائی حاصل ہوئی۔ ہم نے انھیں اپنی جرابوں میں نوٹ بھرتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔ ان کا تعلق گوالیار کے ایک گھرانے سے تھا اور ان کا سن پیدائش 1953 تھا۔ ان کے والد ٹھیکیداری کرتے تھے جب کہ ان کی والدہ ایک گھریلو خاتون تھیں۔ 1974 میں فرید خان کراچی کے ایک مشہور تعلیمی ادارے نیشنل کالج میں زیر تعلیم تھے جہاں وہ اپنی مزیدار باتوں اور لطیفوں سے اپنے ہم جماعتوں کا دل لبھایا کرتے تھے۔ اس وقت کسی کو بھی یہ اندازہ نہ تھا کہ ایک دن وہ اپنی اسی صلاحیت کی بدولت اتنا بلند مقام حاصل کریں گے اور شہرت و مقبولیت کے بام عروج تک پہنچیں گے۔
فرید خان کو ٹی وی ڈراموں نئی دنیا، بس بھائی بس اور ٹی وی کے خاکوں پر مبنی مشہور پروگرام ففٹی ففٹی سے بھی بہت شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ پھر ایک ایسا وقت بھی آیا جب فرید خان ٹی وی اور اسٹیج سے فیڈ آؤٹ ہوتے چلے گئے۔ بے شک ہر کمال کو زوال ہے۔ کسی شاعر نے اس حوالے سے کیا خوب کہا ہے:
حسن والے حسن کا انجام دیکھ
ڈوبتے سورج کو وقت شام دیکھ
فرید خان جیسے فنکار روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ افسوس کہ کینسر کے موذی مرض کے علاج کے سلسلے میں انھیں وہ مالی امداد میسر نہ آسکی جس کے وہ بجا طور پر حق دار تھے۔ باصلاحیت لوگوں کی ناقدری ہمارے ملک و معاشرے کا سب سے بڑا المیہ ہے جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے وہ کم ہے۔