عدم توازن
بات ہم مذہب سے قطع نظر کر رہے ہیں اور مذہب کو جھگڑوں میں ’’استعمال‘‘ کیا جاتا ہے۔
JAKARTA:
دنیا بھر میں مختلف اقوام بستی ہیں اور وہاں کی تاریخ اور خصوصاً جغرافیے کے حوالے سے وہاں کے رہنے والوں کے مزاج اور رسم و رواج ترتیب پاتے ہیں، لباس، کھانے، رہن سہن یہ ساری چیزیں کسی نہ کسی جانب اشارہ کرتی ہیں کہ جو قوم بھی وہاں ہے، وہ وہاں کی Original قوم ہے یا وہ وہاں آکر بسنے والی قوم ہے اور اس کا تعلق اب اس زمین سے جڑ گیا ہے اور وہ وہاں کی قوم کہلاتی ہے۔ یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ یا بات ہے جس کو بعض جگہوں پر بلاوجہ ایک جھگڑے کی بنیاد بنا لیا گیا ہے، تازہ ترین مسئلہ میانمار اور روہنگیا لوگوں کا ہے۔
بات ہم مذہب سے قطع نظر کر رہے ہیں اور مذہب کو جھگڑوں میں ''استعمال'' کیا جاتا ہے۔ کوئی مذہب جھگڑے کی بنیاد نہیں رکھتا ہر مذہب امن و آشتی کا مذہب ہے اور بعض مذاہب انسانوں کے ''تجربات'' سے تشکیل پاتے ہیں یا ان میں کچھ اصولوں میں تبدیلیاں ''تجربے'' کے بعد کی گئیں اور معاشرہ اگر مہذب تھا تو ''تبدیلیاں'' مثبت رہیں اور اگر معاشرہ ''عدم توازن'' کا شکار تھا اور اس پر کچھ لوگ مسلط تھے تو انھوں نے اس اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے اس مذہب میں سے امن و آشتی کے اصولوں کو نکال دیا۔ بدھ دھرم پہلے سلسلے کی مثال ہے اور ہندو دھرم کا آج جو حال ہے وہ دوسری بات کو ثابت کرتی ہے۔
مگر مسلمان بھی زیادہ خوش نہ ہوں انھوں نے بھی مذہب کی آڑ میں بہت سے ایسے اصولوں کو اپنالیا ہے جو دین کی نفی کے برابر ہیں۔ بعض واقعات میں قتل و غارت گری کرنے والے خود کو مسلمان کہتے تھے اس عمل سے پہلے اور اب بھی اپنے آپ کو ''اصل مسلمان'' کہتے اور دوسروں کو نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں۔ اور ان کے ساتھ دہشت گردی اور غارت گری کر رہے ہیں۔انسانی جبلت میں رحم اور انسانیت بھی ہے اور خونخواری بھی، اسی لیے ہمارے یہاں آدمی اور انسان کا تصور ہے اور مغرب میں MANاور HUMANکا تصور ہے۔ اپنے اپنے مطالب اور معنی کے لحاظ سے یہ بظاہر الگ الگ زبانوں کے لفظ ہیں مگر مقصود وہی ہے کہ :
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
انڈیا کا لفظ اور پھر ریڈ انڈین کا لفظ۔ یہ ہمارے کانوں میں غیر ملکیوں کے اس علاقے میں آنے کے بعد پڑا اور انھوں نے اسے مروج کیا اس سے پہلے اس کا کوئی بھی نام تو اس سے پہلے بھی کوئی نام ہوگا یہ ایک غیر منطقی اور خوامخواہ کی بحث ہے کہ ہم جم جائیں کہ یہی پہلا نام تھا۔ آدم کے دنیا میں آنے کو تو شاید سب ہی تسلیم کرتے ہیں اور آدم و حوا کا تصور بہت سی قوموں میں مختلف حوالوں سے ہے۔ میں نے بھی یہ نام صرف نسل انسانی کے وجود میں آنے کے حوالے سے لیے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آدم اس علاقے میں ہی اتارے گئے تھے۔
حوا کہیں اور پھر بعد کا سلسلہ کتابوں میں اپنے اپنے حوالوں سے الگ الگ ہے۔ برطانیہ نے ''انڈیا'' پر قبضہ کر لیا۔ سمندری راستے سے آکر، ہوائی جہاز ابھی شاید اتنے ترقی یافتہ نہیں تھے کہیں ذکر بھی نہیں ملتا۔ اس سے پیشتر انھی راستوں اور دوسرے راستوں سے مسلمان یا دوسری اقوام اس علاقے میں آچکی تھیں اور ان کے ادوار گزر چکے تھے۔ میں نے کہا تھا نا کہ زمین کسی کی نہیں ہے تو یہ زمین ملکیت تبدیل کرتی رہی۔ برطانیہ کو شکست ہوئی۔ دو حصوں میں زمین تقسیم ہو گئی، بھارت پاکستان۔۔۔۔۔آگے چل کر بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش۔ اس سے پہلے بہت سے علاقے الگ ہوچکے تھے نیپال، بھوٹان، سری لنکا، یہ تاریخ ہے نا؟ زمین کسی کی نہیں ہے۔ وہ جو شاعر نے کہا کہ ان جھوٹے خداؤں میں سب سے بڑا خدا وطن ہے۔
انسان اب زمین سے چپک گیا ہے۔ آسمانوں میں ترقی اور زمین میں تنزلی پھیل گئی ہے یہ میری زمین ہے، یہ میرا ملک ہے، کسی وقت یہ تھا کہ ہر ملک ملکِ مآاست۔ تب انسانوں میں سفر کرنے کی عادت تھی۔ اب نہیں ہے۔ اب چند لوگ سیاح کہلاتے ہیں پہلے قومیں سیاح ہوا کرتی تھیں۔ تصور پاکستان اپنی جگہ درست اس سے اختلاف ناممکن ہے مگر کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ 1947 اگست دراصل انڈیا کے ٹوٹنے، بکھرنے کا سال تھا۔۔۔۔۔اور یہ قدرتی تھا۔ اسے روکا نہیں جاسکتا تھا۔
بنگلہ دیش کے قیام پر افسوس کیسا، وہ لوگ تو 1947 میں ہی ایک الگ وطن چاہتے تھے اگر سہولت اور محبت سے یہ کام ہوجاتا تو خوامخواہ کی ذلت کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ سہروردی نے ماؤنٹ بیٹن سے کہا تھا کہ کیا تین ملک نہیں بن سکتے؟ جس پر ماؤنٹ بیٹن نے کہا تھا نہیں اب وقت نہیں ہے ہم انڈیا کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔
کیا موجودہ روش سے بھارت خود کو تقسیم ہونے سے روک سکے گا۔ شاید نہیں۔ اکثر ایسا ہوا ہے کہ آپ جو کام کسی اور کے لیے کرتے ہیں اس کا انجام خود آپ کو بھگتنا پڑتا ہے۔ میری یہ بات کسی پاکستانی کی جذباتی بات نہیں ہے بلکہ آپ روس، امریکا کو قدرت نے جس طرح افغانستان میں ذلیل و خوار کیا اسے یاد رکھیے اور اب اس میں بھارت نے یہ سوچ کر قدم رکھ دیا ہے کہ ہانڈی تیار ہے لہٰذا میں بگھار دے دوں تو یہ بہت بڑی غلطی ثابت ہوسکتی ہے اور شاید ہوگی۔
افغانوں کی متلون مزاجی کا 68 سال سے پاکستان شکار ہے جو اس کے Door Step پر ہے تو بھارت تو ''دلی دور ہے۔'' افغانوں نے بھارت پر حکومت کی ہے بھارت کبھی ان پر حکومت نہیں کر سکتا چند لوگوں کے مفادات قوم کو عارضی نقصان پہنچاتے ہیں مگر قوم بہرحال سنبھل جاتی ہے اور درست راستہ اختیار کرلیتی ہے یہی افغانوں کے ساتھ ہوگا۔ خیر تو عرض یہ کرنا تھا کہ زمین کسی کی نہیں ہے انسان مر جاتا ہے زمین رہ جاتی ہے۔
ہر چیز کو فنا ہے مگر انسان کو سب سے جلد فنا ہے تو ضرور علاقے کا نام ہو، قوم کا نام ہو مگر تاریخ اور جغرافیہ یہ کہتے ہیں کہ دنیا تو اسی طرح چلتی رہے گی زمین انسانوں کی ضرورت ہے مگر انسان زمین کی ضرورت نہیں ہیں کیونکہ انسان اس کا تخلیق کار نہیں ہے زمین جس نے بنائی ہے وہ کوئی اور ہے، انسانوں نے اس پر ملک اور قومیں بنائی ہیں اور ملک اور قوموں کا برقرار رہنا۔ ملک سے اور ملک بننا یہ زمین کے مالک کی مرضی ہے آج پاکستان سے بھارت سے نہ جانے سو سال بعد ہزار سال بعد اس علاقے کے کیا نام ہونگے۔ نہ جانے کون لوگ یہاں ہونگے۔
کون جانے؟ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ انڈیا ایک Cake تھا جس کا ایک حصہ پاکستان ہے اورکیک سے اگر ایک ٹکڑا الگ کرلیا جائے وہ کیک میں شامل نہیں ہوسکتا اور اگر کیک کا ایک ٹکڑا الگ بھی ہو تو وہ بھی کیک کہلائیگا اور اس کی اہمیت بھی کیک کے برابر ہی ہے یہ بات پاکستان کے قومی دن پر پاکستان کو بھی یاد رکھنا چاہیے اور بھارت کو بھی کہ ساتھ رہنے میں، دوستوں کی طرح رہنے میں ہی سب کا بھلا ہے۔ بھارت اگر پاکستان مخالف رویہ ختم کر لے تو مزید تقسیم ہونے سے بچ سکتا ہے۔
دوسروں کے لیے پاکستان اب بھی آزادی کا نشان ہے۔اس بات کو تقویت مودی نے بنگلہ دیش میں دے دی ہے اور حوصلہ افزائی کی ہے ان قوتوں کی جو بھارت کے انتہا پسند طبقے سے نجات چاہتے ہیں کہ وہ بھی بنگلہ دیش کی طرح آزادی حاصل کرسکتے ہیں اور اگر کوئی باہر کی قوت ان کی مدد کریگی تو وہ اسی طرح درست ہوگا جس طرح مشرقی پاکستان میں 65 کا بدلہ لینے کے لیے اندرا گاندھی نے مکتی باہنی کی فوجی مدد کی اور جب گولڈن ٹیمپل کو بھی کشمیر سمجھا گیا تو انھیں موت کو گلے لگانا پڑا اور ان کے اس اقدام کو موجودہ وزیر اعظم بھارت نے درست قدم قرار دیا اور شاید اب بھارت میں آزادی کی تحریکیں اسی طریقہ کار کو آزادی کا ذریعہ سمجھتے ہوئے اختیار کریں۔
کون کہہ سکتا ہے کیونکہ ہم نے شروع سے ہی یہ کہا ہے کہ ہر زمین ہر ایک کے پاس عارضی ہے اور اس مدت کا تعین زمین کا مالک کرتا ہے ہم نہیں۔ دیکھیں آگے چل کر تاریخ اور جغرافیہ کا سنگم کس موڑ پر ہوتا ہے ایک اور انقلاب کی صورت؟ ایک اور تبدیلی کی وجہ سے؟ کب؟ مستقبل کے آئینے میں یہ عکس محفوظ ہے۔
دنیا بھر میں مختلف اقوام بستی ہیں اور وہاں کی تاریخ اور خصوصاً جغرافیے کے حوالے سے وہاں کے رہنے والوں کے مزاج اور رسم و رواج ترتیب پاتے ہیں، لباس، کھانے، رہن سہن یہ ساری چیزیں کسی نہ کسی جانب اشارہ کرتی ہیں کہ جو قوم بھی وہاں ہے، وہ وہاں کی Original قوم ہے یا وہ وہاں آکر بسنے والی قوم ہے اور اس کا تعلق اب اس زمین سے جڑ گیا ہے اور وہ وہاں کی قوم کہلاتی ہے۔ یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ یا بات ہے جس کو بعض جگہوں پر بلاوجہ ایک جھگڑے کی بنیاد بنا لیا گیا ہے، تازہ ترین مسئلہ میانمار اور روہنگیا لوگوں کا ہے۔
بات ہم مذہب سے قطع نظر کر رہے ہیں اور مذہب کو جھگڑوں میں ''استعمال'' کیا جاتا ہے۔ کوئی مذہب جھگڑے کی بنیاد نہیں رکھتا ہر مذہب امن و آشتی کا مذہب ہے اور بعض مذاہب انسانوں کے ''تجربات'' سے تشکیل پاتے ہیں یا ان میں کچھ اصولوں میں تبدیلیاں ''تجربے'' کے بعد کی گئیں اور معاشرہ اگر مہذب تھا تو ''تبدیلیاں'' مثبت رہیں اور اگر معاشرہ ''عدم توازن'' کا شکار تھا اور اس پر کچھ لوگ مسلط تھے تو انھوں نے اس اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے اس مذہب میں سے امن و آشتی کے اصولوں کو نکال دیا۔ بدھ دھرم پہلے سلسلے کی مثال ہے اور ہندو دھرم کا آج جو حال ہے وہ دوسری بات کو ثابت کرتی ہے۔
مگر مسلمان بھی زیادہ خوش نہ ہوں انھوں نے بھی مذہب کی آڑ میں بہت سے ایسے اصولوں کو اپنالیا ہے جو دین کی نفی کے برابر ہیں۔ بعض واقعات میں قتل و غارت گری کرنے والے خود کو مسلمان کہتے تھے اس عمل سے پہلے اور اب بھی اپنے آپ کو ''اصل مسلمان'' کہتے اور دوسروں کو نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں۔ اور ان کے ساتھ دہشت گردی اور غارت گری کر رہے ہیں۔انسانی جبلت میں رحم اور انسانیت بھی ہے اور خونخواری بھی، اسی لیے ہمارے یہاں آدمی اور انسان کا تصور ہے اور مغرب میں MANاور HUMANکا تصور ہے۔ اپنے اپنے مطالب اور معنی کے لحاظ سے یہ بظاہر الگ الگ زبانوں کے لفظ ہیں مگر مقصود وہی ہے کہ :
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
انڈیا کا لفظ اور پھر ریڈ انڈین کا لفظ۔ یہ ہمارے کانوں میں غیر ملکیوں کے اس علاقے میں آنے کے بعد پڑا اور انھوں نے اسے مروج کیا اس سے پہلے اس کا کوئی بھی نام تو اس سے پہلے بھی کوئی نام ہوگا یہ ایک غیر منطقی اور خوامخواہ کی بحث ہے کہ ہم جم جائیں کہ یہی پہلا نام تھا۔ آدم کے دنیا میں آنے کو تو شاید سب ہی تسلیم کرتے ہیں اور آدم و حوا کا تصور بہت سی قوموں میں مختلف حوالوں سے ہے۔ میں نے بھی یہ نام صرف نسل انسانی کے وجود میں آنے کے حوالے سے لیے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آدم اس علاقے میں ہی اتارے گئے تھے۔
حوا کہیں اور پھر بعد کا سلسلہ کتابوں میں اپنے اپنے حوالوں سے الگ الگ ہے۔ برطانیہ نے ''انڈیا'' پر قبضہ کر لیا۔ سمندری راستے سے آکر، ہوائی جہاز ابھی شاید اتنے ترقی یافتہ نہیں تھے کہیں ذکر بھی نہیں ملتا۔ اس سے پیشتر انھی راستوں اور دوسرے راستوں سے مسلمان یا دوسری اقوام اس علاقے میں آچکی تھیں اور ان کے ادوار گزر چکے تھے۔ میں نے کہا تھا نا کہ زمین کسی کی نہیں ہے تو یہ زمین ملکیت تبدیل کرتی رہی۔ برطانیہ کو شکست ہوئی۔ دو حصوں میں زمین تقسیم ہو گئی، بھارت پاکستان۔۔۔۔۔آگے چل کر بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش۔ اس سے پہلے بہت سے علاقے الگ ہوچکے تھے نیپال، بھوٹان، سری لنکا، یہ تاریخ ہے نا؟ زمین کسی کی نہیں ہے۔ وہ جو شاعر نے کہا کہ ان جھوٹے خداؤں میں سب سے بڑا خدا وطن ہے۔
انسان اب زمین سے چپک گیا ہے۔ آسمانوں میں ترقی اور زمین میں تنزلی پھیل گئی ہے یہ میری زمین ہے، یہ میرا ملک ہے، کسی وقت یہ تھا کہ ہر ملک ملکِ مآاست۔ تب انسانوں میں سفر کرنے کی عادت تھی۔ اب نہیں ہے۔ اب چند لوگ سیاح کہلاتے ہیں پہلے قومیں سیاح ہوا کرتی تھیں۔ تصور پاکستان اپنی جگہ درست اس سے اختلاف ناممکن ہے مگر کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ 1947 اگست دراصل انڈیا کے ٹوٹنے، بکھرنے کا سال تھا۔۔۔۔۔اور یہ قدرتی تھا۔ اسے روکا نہیں جاسکتا تھا۔
بنگلہ دیش کے قیام پر افسوس کیسا، وہ لوگ تو 1947 میں ہی ایک الگ وطن چاہتے تھے اگر سہولت اور محبت سے یہ کام ہوجاتا تو خوامخواہ کی ذلت کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ سہروردی نے ماؤنٹ بیٹن سے کہا تھا کہ کیا تین ملک نہیں بن سکتے؟ جس پر ماؤنٹ بیٹن نے کہا تھا نہیں اب وقت نہیں ہے ہم انڈیا کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔
کیا موجودہ روش سے بھارت خود کو تقسیم ہونے سے روک سکے گا۔ شاید نہیں۔ اکثر ایسا ہوا ہے کہ آپ جو کام کسی اور کے لیے کرتے ہیں اس کا انجام خود آپ کو بھگتنا پڑتا ہے۔ میری یہ بات کسی پاکستانی کی جذباتی بات نہیں ہے بلکہ آپ روس، امریکا کو قدرت نے جس طرح افغانستان میں ذلیل و خوار کیا اسے یاد رکھیے اور اب اس میں بھارت نے یہ سوچ کر قدم رکھ دیا ہے کہ ہانڈی تیار ہے لہٰذا میں بگھار دے دوں تو یہ بہت بڑی غلطی ثابت ہوسکتی ہے اور شاید ہوگی۔
افغانوں کی متلون مزاجی کا 68 سال سے پاکستان شکار ہے جو اس کے Door Step پر ہے تو بھارت تو ''دلی دور ہے۔'' افغانوں نے بھارت پر حکومت کی ہے بھارت کبھی ان پر حکومت نہیں کر سکتا چند لوگوں کے مفادات قوم کو عارضی نقصان پہنچاتے ہیں مگر قوم بہرحال سنبھل جاتی ہے اور درست راستہ اختیار کرلیتی ہے یہی افغانوں کے ساتھ ہوگا۔ خیر تو عرض یہ کرنا تھا کہ زمین کسی کی نہیں ہے انسان مر جاتا ہے زمین رہ جاتی ہے۔
ہر چیز کو فنا ہے مگر انسان کو سب سے جلد فنا ہے تو ضرور علاقے کا نام ہو، قوم کا نام ہو مگر تاریخ اور جغرافیہ یہ کہتے ہیں کہ دنیا تو اسی طرح چلتی رہے گی زمین انسانوں کی ضرورت ہے مگر انسان زمین کی ضرورت نہیں ہیں کیونکہ انسان اس کا تخلیق کار نہیں ہے زمین جس نے بنائی ہے وہ کوئی اور ہے، انسانوں نے اس پر ملک اور قومیں بنائی ہیں اور ملک اور قوموں کا برقرار رہنا۔ ملک سے اور ملک بننا یہ زمین کے مالک کی مرضی ہے آج پاکستان سے بھارت سے نہ جانے سو سال بعد ہزار سال بعد اس علاقے کے کیا نام ہونگے۔ نہ جانے کون لوگ یہاں ہونگے۔
کون جانے؟ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ انڈیا ایک Cake تھا جس کا ایک حصہ پاکستان ہے اورکیک سے اگر ایک ٹکڑا الگ کرلیا جائے وہ کیک میں شامل نہیں ہوسکتا اور اگر کیک کا ایک ٹکڑا الگ بھی ہو تو وہ بھی کیک کہلائیگا اور اس کی اہمیت بھی کیک کے برابر ہی ہے یہ بات پاکستان کے قومی دن پر پاکستان کو بھی یاد رکھنا چاہیے اور بھارت کو بھی کہ ساتھ رہنے میں، دوستوں کی طرح رہنے میں ہی سب کا بھلا ہے۔ بھارت اگر پاکستان مخالف رویہ ختم کر لے تو مزید تقسیم ہونے سے بچ سکتا ہے۔
دوسروں کے لیے پاکستان اب بھی آزادی کا نشان ہے۔اس بات کو تقویت مودی نے بنگلہ دیش میں دے دی ہے اور حوصلہ افزائی کی ہے ان قوتوں کی جو بھارت کے انتہا پسند طبقے سے نجات چاہتے ہیں کہ وہ بھی بنگلہ دیش کی طرح آزادی حاصل کرسکتے ہیں اور اگر کوئی باہر کی قوت ان کی مدد کریگی تو وہ اسی طرح درست ہوگا جس طرح مشرقی پاکستان میں 65 کا بدلہ لینے کے لیے اندرا گاندھی نے مکتی باہنی کی فوجی مدد کی اور جب گولڈن ٹیمپل کو بھی کشمیر سمجھا گیا تو انھیں موت کو گلے لگانا پڑا اور ان کے اس اقدام کو موجودہ وزیر اعظم بھارت نے درست قدم قرار دیا اور شاید اب بھارت میں آزادی کی تحریکیں اسی طریقہ کار کو آزادی کا ذریعہ سمجھتے ہوئے اختیار کریں۔
کون کہہ سکتا ہے کیونکہ ہم نے شروع سے ہی یہ کہا ہے کہ ہر زمین ہر ایک کے پاس عارضی ہے اور اس مدت کا تعین زمین کا مالک کرتا ہے ہم نہیں۔ دیکھیں آگے چل کر تاریخ اور جغرافیہ کا سنگم کس موڑ پر ہوتا ہے ایک اور انقلاب کی صورت؟ ایک اور تبدیلی کی وجہ سے؟ کب؟ مستقبل کے آئینے میں یہ عکس محفوظ ہے۔