خاک میں مل گئے نگینے لوگ
انگریزوں نے یہ تعلیمی ادارہ قائم کیا تھا جو بھی بچہ اس تعلیم گاہ میں داخل ہوتا ہے
نوابوں، جاگیرداروں، وڈیروں، سرداروں، خانوں، مخدوموں اور دیگر کروڑ پتیوں کے بچوں کی تعلیمی درس گاہ ایچی سن کے پرنسپل کو برطرف کردیاگیا ہے، کیوں کہ اس نے امرا کے کچھ بچوں کو داخلہ دینے سے انکار کردیا تھا۔ پتا نہیں داخلہ نہ دینے کی وجوہات کیا تھیں، مگر ایسا ہوگیا۔
ایچیسن نے پاکستان کو کیا دیا۔ یہ آپ پاکستان کی اسمبلیوں، سینیٹ، صدور، وزرائے اعظم، گورنرز، وزرائے اعلیٰ صاحبان، مرکزی اور صوبائی وزرا، مشیران کرام، سفیران کرام، اعلیٰ افسران کے نام دیکھتے جائیں اور ان کے کردار یاد کرتے جائیں۔ بلوچستان، سرحد (اب خیبر پختونخوا) سندھ اور پنجاب کے ''بڑوں'' کے بچے ایچیسن میں پڑھنے کے اہل ہیں، داخلے کے لیے ان کی اہلیت صرف اور صرف یہی ہے کہ شجرہ، حسب نسب کیا ہے.
انگریزوں نے یہ تعلیمی ادارہ قائم کیا تھا جو بھی بچہ اس تعلیم گاہ میں داخل ہوتا ہے اس کے سر پر ''اُچے شملے'' والی پگ پہنادی جاتی ہے اور پھر اسے گھوڑے پر سوار کردیاجاتاہے، بس پھر وہ اُچے شملے والا گھڑ سوار، ساری عمر، سرپٹ گھوڑا دوڑاتا رہتا ہے اس کے گھوڑے کے سموں کے کھڑاک سے اڑنے والی دھول کو دور سے دیکھ کر کمیوں پرفرض ہے کہ وہ سر جھکا کر رستہ خالی چھوڑتے ہوئے ایک طرف کھڑے ہوجائیں اور اگر کوئی بھولا بھٹکا ''غریب غربا'' گھوڑے تلے روندا گیا تو یہ اس کا اپنا قصور ہوگا کہ اس نے رستہ کیوں نہیں چھوڑا۔ایچیسن اور ان جیسے دوسرے اعلیٰ ادارے ہمارے ملک کو حکمران فراہم کرتے ہیں۔
مزید سرخاب کے پروں کی جستجو میں ''بڑوں'' کے بچے بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے چلے جاتے ہیں اور جب واپس اپنی راجدھانی (پاکستان) میں آتے ہیں تو فر فر انگریزی بولتے ہیں، اردو کس چڑیا کا نام ہے یہ نہیں جانتے اور ضرورتاً اردو سیکھنا پڑے۔ عام غریب آدمی سے ضرورتاً ان کا رابطہ ہو تو انگریزی لہجے میں خوب اردو بولتے ہیں، اپنی مادری زبانوں کے ساتھ بھی ان کالے انگریزوں کا یہی وطیرہ ہوتا ہے۔
یہ سارے نواب، جاگیردار، وڈیرے، سردار، خان، مخدوم، یہ سب کے سب انگریز کے وفادار تھے، ان کے دربان تھے، اسی وفاداری کے عوض ان کو جاگیریں عطا کی گئیں۔
ایک طرف ایچی سن اور اس جیسے دوسرے ادارے ہیں اور دوسری طرف ''پیلے اسکول'' ہیں، انھیں پیلے اسکول اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان کے در و دیوار کو چونے میں پیلا رنگ ملاکر رنگا جاتا ہے۔
ایچی سن سے تو ''اُچے شملوں'' والے گھڑ سوار نکلتے ہیں اور پیلے اسکولوں سے زرد چہرے لیے کلرک، چپراسی نکلتے ہیں، انھی پیلے اسکولوں سے کچھ ایسے زرد چہرے بھی نکلے کہ جنھوں نے خداداد صلاحیتوں سے اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کرلی اور بڑا نام کمایا مگر سبھی تو خداداد صلاحیتوں کے مالک نہیں ہوتے۔
یوں انگریزی لکھنے، پڑھنے اور بولنے والے ترقی کرتے گئے، وہ اپنے کیریئر کا آغاز ہی 17 ویں گریڈ سے کرتے ہیں اور بے چارے انگریزی سے نابلد، کلرک اور چپراسی ہی رہے۔ پتا نہیں غریب بچوں میں کتنے ڈاکٹر عبدالسلام تھے، اشتیاق حسین قریشی تھے، قائد اعظم تھے، جسٹس کارنیلیس تھے، جسٹس رستم کیانی تھے۔
اعلیٰ سائنس دان تھے، مگر انگریزی زبان کو ایک سازش کے تحت ہم پر مسلط رکھا گیا، جو گھرانے انگریزوں کے پروردہ تھے ان کا ماحول ''انگریزیانہ'' تھا ان کے لیے انگریزی زبان کوئی مسئلہ نہیں تھی، دوسری طرف غریبوں کا ماحول ''اردو یانہ '' تھا وہاں بچوں کی ''مت ماری'' جاتی تھی ان کی ساری محنت انگریزی زبان سیکھنے ہی میں صرف ہوجاتی پھر بھی انگریزی ان کے قابو میں نہ آتی، غریب کا بچہ نہ ادھر کا رہا نہ ادھر کا۔
جنرل ایوب خان کے زمانے میں بھائی جمیل الدین عالی جنرل ایوب کو بابائے اردو مولوی عبدالحق کے قریب لے آئے اور جنرل ایوب کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ اردو کو سرکاری زبان بناکر دفتری اور تعلیمی اداروں میں رائج کیا جائے مگر اس زمانے کے بیوروکریٹس نے یہ نہیں ہونے دیا اور جنرل صاحب کے کان بھرتے ہوئے ان سے کہاکہ ''اردو کو سرکاری زبان نہ بنانا ورنہ ایک چپراسی بھی اٹھ کر اپنی سفارشات آپ کو بھیج دیگا'' اور نہایت دکھ کی بات یہ بھی ہے کہ جنرل ایوب خان کو اردو کے خلاف مشورہ دینے والے اردو کے نامور ادیب تھے اور ہم نے دیکھا کہ انگریزی کے محتاج بن کر ہم اپنی درخواستیں سرکاری دفتر میں بجھوانے کے لیے در در کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے رہے۔
مجھے یاد آیا میں نے بھی کئی سال کلرکی کی ہے۔ 70 کی دہائی تھی اور میں اردو میں درخواستیں لکھتا تھا، سو میں نے چھٹی کے لیے اردو میں درخواست لکھ کر اپنے افسر کو بھجوائی تو اس نے مجھے اپنے کمرے میں بلوایا اور کہا ''یہ تم نے کیا چپراسیوں کی زبان میں درخواست لکھی ہے''ہمارے عظیم دوست چین میں چینی زبان ہے۔
ان کے ہاں اوپن ہارٹ سرجری ہوتی ہے، انھوں نے بڑے بڑے پہاڑ کاٹ کے دریا بہادیے فولادی پل بنادیے اور امریکا کے مقابل آگئے یہ سب بلندیاں چین نے اپنی زبان سے حاصل کیں، یہی حال جرمنی، فرانس، روس وغیرہ کا ہے تو پھر ہم اردو زبان میں جو ہمارے پورے ملک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے یہ بلند مقامات کیوں حاصل نہیں کرسکتے۔ پتا نہیں اردو میں کتنے بڑے بڑے دل کے ڈاکٹر پڑے ہوئے ہیں۔ بڑے بڑے پل بنانے والے انجینئرز پڑے ہوئے ہیں مگر وہ محض انگریزی زبان نہ جاننے کی وجہ سے ''رُل'' کے رہ گئے۔ انگریزی نے ہمیں یہ حکمران دیے جنھوں نے پاکستان کو اس حال پر پہنچادیا ہے، کالم کے عنوان والے شعر کا وقت آگیا، سن لیجیے۔ جالب کا شعر:
حکمران ہوگئے کمینے لوگ
خاک میں مل گئے نگینے لوگ
لیاری سے ایک بچہ نکلا، خداداد صلاحیتوں کا مالک سجاد نامی یہ بچہ پڑھ لکھ کر سپریم کورٹ آف پاکستان کا چیف جسٹس سجاد علی شاہ بن گیا۔ ''ذرا نم ہو'' تو پتا نہیں لیاری، اورنگی، کوٹ لکھپت لاہور، اور کچے گھروں میں پلنے والے کتنے غریب بچے ہیں جو در اصل ہمارا اصل اور سنہرا مستقبل ہیں۔
ابھی برادرم جاوید چوہدری کے31 جولائی کے کالم میں علی حمزہ انقلابی کے عنوان سے ایک چھوٹے شہر ڈسکہ کے بچے علی حمزہ کے بارے میں لکھا ہے ''علی حمزہ کا باپ ٹی بی کا مریض، ماں بھی بیمار، حمزہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ باپ کی فروٹ کی ریڑھی بھی سنبھالتا ہے، حتیٰ کہ گوجرانوالہ بورڈ سے میٹرک کا امتحان پاس کرتے ہوئے 1100 میں سے 1003 نمبر لے کر بورڈ میں دوسری پوزیشن حاصل کرلیتا ہے''
علی حمزہ واقعی انقلابی ہے، اسے ہماری اسمبلی میں ہونا چاہیے، اسے اعلیٰ سرکاری افسر ہونا چاہیے مگر علی حمزہ کا قدم قدم پر رستہ روکا جائے گا۔ ایک اور فقرہ جاوید چوہدری کا لکھنا چاہوںگا جو میرے بھی دل کی آواز ہے ''ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں اس میں انقلاب میاں نواز شریف لائیں گے، آصف زرداری لائیں گے اور نہ عمران خان لائیں گے، پاکستان کو تبدیل کرنا کسی سیاست زادے کے بس کی بات نہیں'' باقی جالب کے اشعار سنیے، جالب نے 25 دسمبر 1980 کراچی پریس کلب میں زیر صدارت سبط حسن یہ اشعار پہلی بار پڑھے تھے، اس روز انھیں پریس کلب کی تاحیات رکنیت دی گئی تھی۔
فرنگی کا جو میں دربان ہوتا
تو جینا کس قدر آسان ہوتا
مرے بچے بھی امریکا میں پڑھتے
میں ہر گرمی میں انگلستان ہوتا
مری انگلش بلاکی چست ہوتی
بلا سے جو نہ اردو دان ہوتا
جھکا کر سر کو ہوجاتا جو سر میں
تو لیڈر بھی عظیم الشان ہوتا
زمینیں میری ہر صوبے میں ہوتیں
میں واﷲ صدر پاکستان ہوتا
سبط حسن صاحب نے نظم کے اختتام پر کہا ''جالب! ایک قافیہ رہ گیا''شیطان ہوتا''