اکیسویں صدی کے ٹھگ
ہندوستان میں ٹھگی کا ادارہ اور ٹھگوں کی روایات تاریخ انسانی میں اپنی نوعیت کی منفرد روایات ہیں
وہ نہ صرف یہ کہ مسافروں کا مال و متاع لُوٹ لیتے تھے بلکہ اُنھیںقتل بھی کردیتے تھے۔یہ گروہوں کی شکل میں سفر کرتے اور بڑی سفاکی سے قتل کیا کرتے تھے۔اِن کے قتل کرنے کے خاص طریقے ہوا کرتے تھے۔ایک مشہور طریقہ یہ بھی تھا کہ وہ رومال یا ازار بند میں سکہ پھنسا کر ایک خاص جُنبش کے ذریعے اِسے اپنے شکار کے گلے کے گرد باندھ کر مخصوص انداز میں جھٹکا دیتے ۔شکار آناًفاناً راہیِ ملکِ عدم ہوتا ،یہ اُس کا اسباب لُوٹتے اور اگلے شکارکی تلاش میں نکل جاتے۔
یہ قتل کرنا ضروری خیال کرتے تھے۔لُوٹ مار ،قتل و غارت گِری ٹھگوں کا شوق،مشغلہ اور پیشہ ہی نہ تھا وہ اِسے مذہبی فریضے کے طور پر نبھاتے تھے۔وہ قافلوں میں عام مسافروں کی طرح شامل ہو جاتے اور موقع ملتے ہی وارکرجاتے۔کالی کے پجاریوں کے اِس خاص گروہ کی ایک زمانے میں بڑی ہیبت تھی ۔بلا مبالغہ اِس گروہ نے مال ہتھیانے کے لیے سیکڑوں جانیں لی ہوں گی۔قدیم ہندوستان کی روایات کے مطابق ٹھگی کا پیشہ اور مہارتیں بھی نسل در نسل منتقل کی جاتی تھیں۔اِن کا ابتدائی تذکرہ ضیا ء الدین برنی کی تاریخ ِ فیروز شاہی(1356) میں ملتا ہے۔
ہندوستان میں ٹھگی کا ادارہ اور ٹھگوں کی روایات تاریخ انسانی میں اپنی نوعیت کی منفرد روایات ہیں، جن کا فطری تعلق ہندوستانی معاشرت کی قدیم سماجی روایتوں سے ہے۔ ٹھگی کے ادارے اور اس کی روایات نے الہامی مذاہب اور ہندو مذہب کی اقدار و روایات سے حیرت انگیز اثر قبول کیا ۔اُنھوں نے مذہبی پابندیوں کو اپنے معتقدات میں شامل کر کے غنڈہ گردی، دہشتگردی اور بہیمیت کی بھی اخلاقیات مرتب کیں۔ اِن اخلاقیات نے ٹھگوں کے معتقدات کی تشکیل میں بنیادی اجزاء کے طور پر جگہ پائی ۔
دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہندوستانی ٹھگوں نے مجرمانہ سرگرمیوں کو بھی ضابطہ اخلاق، روایات، قواعد و ضوابط اور اصولوں کے حصار میں مقید کر دیا۔ اس پہلو سے ہندوستان کی سرزمین میں ٹھگی کا مطالعہ حیاتِ انسانی کی تاریخ کا ایک عجیب و غریب باب ہے۔ٹھگوں کی اخلاقیات کا اگر مغربی اقوام کی اخلاقیات سے موازنہ کیا جائے تو حیرت انگیز نتائج برآمد ہوتے ہیں۔مثلاً ٹھگ لوگوں کو قتل کرتے تھے لیکن بہت سے لوگ ان کی ''فہرستِ قتال'' میں محفوظ قرار دیے گئے تھے۔ اس فہرست میں سب سے نمایاں ''اچھوت'' تھے ۔
ٹھگوں کی معتقدات کے مطابق عورت کو قتل نہیں کیا جاسکتا تھا۔ سادھو، نانک پنتھی، مداری، ناچنے گانے والے لوگ، ان کو بھی ٹھگ نہیں مارسکتے۔ ان لوگوں کا قتل حرام تھا۔ اسی فہرست میں کایستھ بھی شامل تھے کہ کایستوں پر بھی ٹھگی نہیں کی جاسکتی حالانکہ کایستھ اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز تھے لیکن یہ بھی اصلاً توشودرہی تھے لہٰذا ہندو مذہب کے اصول کے تحت نیچ ذات کا قتل ناجائز تھا اس کے علاوہ دھوبی، بھاٹ، نانک شاہی، مداری، فقیر، ناچنے گانے والے لڑکے اور مرد، پیشہ ور گانے بجانے والے، بھنگی، تیلی، لوہار، بڑھئی، سنار، جذامی، وہ شخص جس کے ساتھ گائے ہو، ٹھگوں کے ہاتھوں محفوظ تھے۔ معذور افراد اندھے، لنگڑے اور لولے کو بھی قتل کرنا ٹھگوں کی روایت میں ناجائز تھا۔
برہم چاری، کانورتی اگر ان کے ساتھ گنگا جل ہو (یعنی دریائے گنگا کا پانی لے کر لوٹ رہے ہوںتب وگرنہ اگر برتن خالی ہوں، تب ان کو مارا جاسکتا تھا)۔ ٹھگ بنگال کے علاقے میں سکھوں کو نہیں مارتے تھے۔
ٹھگوں کا عقیدہ تھا کہ ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ جن ٹھگوں نے لالچ کے پھیر میں آکر عورت کو مارا، اس نافرمانی کے نتیجے میں وہ تباہ و برباد ہوگئے۔ ٹھگ لوگوں کے اعتقاد میں عورت کو مارنا نہایت نحوست کا کام تھا۔ انھیں اس بات کا یقین تھا کہ ٹھگوں پر زوال اسی وجہ سے آیا کہ بعض لالچی ٹھگوں نے عورتوں کو کمزور شکار سمجھ کر انھیں مار دیا اور ٹھگی الہیات و اعتقادات کی تنسیخ کردی۔
ہندوستان کے یہ جاہل، گنوار اور وحشی ٹھگ جو مغربی تہذیب و تمدن کی چکاچوند اور مغربی فکر و فلسفے کے اصول و مبادی سے قطعاً ناواقف تھے، اٹھارہویں صدی سے انیسویں صدی تک یعنی کم از کم دو سو برس ہندوستان میں تاخت و تاراج کرتے رہے لیکن ان کی تاخت و تاراج بھی مذہب سے اخذ کردہ اخلاقی اصولوں کی سخت پابند تھی۔ یہ ٹھگ اس مقولے کی عملی تردید تھے جس کے مطابق جنگ اور محبت میں سب جائز قرار دیا گیاہے۔
اِس کے برعکس چار سو سال پہلے کی براعظم امریکا کی تاریخ کا مطالعہ کریں۔براعظم آسٹریلیا کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے۔تاریخ بتاتی ہے کہ یورپی آباد کاروں نے اِن براعظموں پر تسلط کے لیے یہاں کے اصل باشندوں، سرخ ہندیوں کا قتل عام شروع کیا تو کسی قاعدے، قانون، اخلاق، اصول روایت کا خیال نہیں رکھا گیا۔ صرف ایک قاعدہ تھا جس کی پیروی کی جاتی تھی کہ سرخ ہندیوں کو صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے، خون کے دریا بہا کر سونے کے دریا پیدا کیے گئے۔ اس عہد کی المناک داستانوں کو تاریخ نگاروں نے محفوظ نہ رکھا کیونکہ اس عہد کے تاریخ نگار، روشن خیال، مہذب و متمدن انسان سب اس بربریت اور لوٹ مار کو جائز سمجھتے تھے اور اس پر انھیں نہ کوئی تاسف تھا،نہ ہے۔
ان مظالم پر نہ آسمان رویا نہ زمین کی آنکھ نم ہوئی ۔نہ کسی کا سینہ شق ہوا، نہ کسی کا رنگ فق ہوانہ کوئی چہرہ زرد ہوا، تاریخ کا یہ المناک خونی باب عرصے بعد رفتہ رفتہ روشنی میں آیا۔ سرخ ہندیوں کے وحشیانہ قتل عام کی عبرتناک داستانیں جو تین سو سال تک پوشیدہ رکھی گئی ہیں اب رفتہ رفتہ منظر عام پر لائی جا رہی ہیں لیکن کئی چھلنیوں سے چھان کر۔قتل و غارتگری کی یہ کیفیت غیظ و غضب کی آخری حدود کو چھو چکی تھی۔سرخ ہندی عورتوں اور معصوم بچوں کے لیے بھی اِن مہذب، متمدن اور تعلیمیافتہ دنیا کی اعلیٰ ترین گوری نسل کے دلوں میں ہمدردی اور محبت کا ایک شمہ بھی نہ تھا۔
تفصیل اِس اجمال کی یقینابہت ہے جو ہے پے ڈی سَن، نَیش، اِسٹینارڈ، شیہان، ویلس، ہوکسی، فلپس، ہور ٹیڈو، ہیزر، لا پیرو سے، ہیزر، براؤن، چرچل، کوکر، پروشا، میڈسن، رومیلااور سب سے بڑھ کر مائیکل مین اور گلین ڈی پیج وغیرہ کی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہاں یہ سوال انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ اعلیٰ تعلیمیافتہ یورپی آبادکار جو براعظم امریکا پر قابض ہونا چاہتے تھے اس قدر شقی القلب کیوں ہوگئے تھے؟
ظلم و ستم کی ایسی داستانیں کیوں رقم کر رہے تھے جو تاریخ میں تاتاریوں نے بھی رقم نہیں کیں؟ تاتاری تاخت وتاراج کرتے ہوئے کروڑوں لوگوں کو قتل ضرور کرتے تھے لیکن قتل کے لیے وہ اذیتناک طریقے استعمال کرنے کے بجائے اور قسطوں میں موت مہیا کرنے کے بجائے تلوار کے ایک وار سے کام تمام کر دیتے لیکن صرف براعظم امریکا میں 10کروڑ سرخ ہندیوں کو بھوک پیاس، افلاس، غربت، تشدد، بہیمیت، نفرت، بیماریوں، اذیتوں، تکالیف کے ذریعے جس طرح سسک سسک کر مرنے پر مجبور کیا گیا، انسانی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
امریکا میں سونے اور چاندی کی دریافت، دیسی آبادی کی تباہی، زبردستی غلام بنانے کی مہم، قدیم دیسی باشندوں کی امریکی کانوں میں تدفین، ہندوستان اور ویسٹ انڈیز پر فاتحانہ یلغار اور ان کی لوٹ کھسوٹ اور افریقہ کے بر اعظم کا کالی چمڑی کے لوگوں کی تجارت کے لیے شکار گاہ بننا، یہ وہ بنیادیں تھیں جن پر سرمایہ دارانہ نظام کے دور جدید کی عمارت کھڑی کی گئی۔یہ لُوٹ مار اور قتل و غارتگری آج بھی جاری ہے۔
عام آدمی کی آنکھوں پر بہتر طرزِ زندگی، تعلیم ،صحت اور ترقی کی خوش نماپٹی چڑھا کر وہ لُوٹ مار کی گئی ہے کہ ''اوکسفام انٹر نیشنل'' کی 19جنوری 2015کی تحقیق کے مطابق دنیا کے 1فیصد امیر دنیا کی تمام تر دولت کے مالک بنتے چلے جا رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق2009میں ایک فیصد امیر ترین طبقے کے پاس دنیا کی کُل دولت کا 44فیصد تھا جوآیندہ برس تک بڑھ کر 51 فیصد یا اِس سے بھی زائد ہوجائیگا۔ باقی ماندہ دولت کی تقسیم بھی اِسی طرح ہے ۔ایک فیصد کے بعد والے چند فیصد ہاتھوں میں 36 فیصد یا اُس سے بھی زائد۔کیا انسانی تاریخ ایسی لُوٹ مار کی کوئی نظیر پیش کر سکتی ہے؟
اِسی طرح سے بیسویں صدی انسانی تاریخ کی خونی صدی گزری ہے جنگوں اور اسلحے کے باعث جتنے انسان صرف اِس صدی میں ہلاک ہوئے کبھی ہلاک نہیں ہوئے۔ 180 ملین افراد۔بھوک ،قحط ،افلاس،تغذیے کی کمی اور دورِ جدید کی بیماریوں کے باعث ہلاک ہونیوالوں کی تعداد اِس کے علاوہ ہے۔جدید سائنس اور صنعت و حرفت نے وہ آلودگی پیدا کی ہے کہ سائنسدانوں کے بہ قول زمین تباہی کے کنارے آن لگی ہے۔طرفہ تماشا ہے کہ ہم سے ہمارا سب کچھ ہتھیا لینے والے اکیسویں صدی کے اِن ٹھگوں سے نہ تو ہم واقف ہیں،نہ ہی اِن کے طریقہِ واردات ہی کا ہمیں شعور ہے ،نہ اپنے نقصان کا اندازہ اور سب سے بڑھ کر ہمیں ''احساسِ زیاں ''بھی نہیں۔ یہ ہے اصل ٹھگی۔