مذاکرات … افغان مسئلے کا حل
طالبان اور ان کے ہمدردوں کے لیے امیر المومنین ملا عمر کسی بیماری میں مبتلا ہو کر دو سال قبل انتقال کرگئے
طالبان اور ان کے ہمدردوں کے لیے امیر المومنین ملا عمر کسی بیماری میں مبتلا ہو کر دو سال قبل انتقال کرگئے، مگر طالبان کی قیادت نے اس خبر کو چھپایا ۔ طالبان کا میڈیا ڈیپارٹمنٹ اس عرصے میں اپنے امیر کے بیانات نشر کرتا رہا۔ ان کے جاننے والوں کو یہ علم نہیں ہو سکا کہ ملا عمر کے احکامات کے نام پر ملا اختر کے احکامات کی پابندی کی جارہی ہے۔
جب افغان حکومت اور طالبان کے نمایندوں کے درمیان مری میں مذاکرات کا دوسرا دور ہونے والا تھا تو ایک نامعلوم افغان گروپ نے دعویٰ کیا کہ ملا عمرکئی سال قبل انتقال کر چکے ہیں، افغان کی حکومت کی انٹیلی جنس ایجنسی نے اس افواہ کی تصدیق کی۔ طالبان نے پہلے اپنے امیر کی موت کی خبر سے انکار کیا مگر پھر سرکاری طور پر یہ اعلان ہوا کہ ملا عمر دو سال قبل انتقال کر گئے تھے ۔ ان کی تدفین افغانستان میں ہوئی تھی۔ اب طالبان کے درمیان نئے امیر کے بارے میں اختلافات سامنے آگئے ہیں۔
ملا اختر کے نئے امیر بننے کے امکانات نمایاں ہیں مگر طالبان کے مختلف گروپوں سے ملنے والی اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان کے کئی گروہ ملا اختر سے بیعت کرنے کو راضی نہیں ہیں۔افغان امور کے ماہرین کو خدشہ ہے کہ ملا عمر کے بعد طالبان کے مختلف گروپوں میں خلیج بڑھ جائے گی۔ طالبان سے تعلق رکھنے والا ایک گروہ شام میں موجود امیر المومنین سے بیعت کر چکا ہے اور داعش نامی تنظیم طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں میں جڑیں پکڑ رہی ہے اور طالبان کی طاقت کمزور ہورہی ہے۔
ملا عمر کا تعلق قندھار سے ہے 1977میں افغانستان میں کامریڈ نور محمد تراکئی کی قیادت میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی حکومت کا میاب ہوئی تو امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے تراکئی کی حکومت کے خاتمے کے لیے پروجیکٹ شروع کیا۔ جنرل ضیاء الحق کے تحت کام کرنے والی پاکستانی حکومت بھی اس کا حصہ بن گئی، مذہبی انتہا پسندی کو افغانستان کی کمیونسٹ حکومت کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرنا شروع کیا۔ ملا عمر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ قندھار کے ایک مدرسے میں زیر تعلیم تھے پھر جہاد میں شریک ہو گئے، طالبان نے کابل پر چڑھائی کی تو ملا عمر افغانستان کے امیر بن گئے۔
طالبان نے افغانستان میں اپنے تئیں اسلامی حکومت قائم کی ، ملا عمر امیر المومنین بن گئے، طالبان کے مختلف گروپوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ ملا عمر کے معاون خصوصی اسامہ بن لادن اور ڈاکٹر الظواہری تھے ۔ افغان ریاست ایک ایسی سلطنت بن گئی جس پر ایک مخصوص فکر کی چھاپ نظر آتی تھی ۔ اسی دوران امریکا میں نائن الیون کا واقعہ ہوا۔ یوں امریکا کو دنیا کوتبدیل کرنے کا موقع مل گیا۔ امریکا نے ملا عمر سے اسامہ اور ان کے ساتھیوں کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔
جنرل پرویز مشرف نے اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل محمود کی قیادت میں وفد ملا عمر کے پاس بھیجا تاکہ انھیں امریکا کا مطالبہ تسلیم کرنے پر آمادہ کیا جاسکے، مگر معاملات طے نہ ہوسکے، امریکا اور اتحادی فوجوں نے افغانستان پر حملہ کیا، پاکستان نے امریکا کی مدد کی۔ ملا عمر اس وقت قندھار میں تھے جہاں سے وہ موٹر سائیکل پر بیٹھ کر فرار ہو گئے اور تقریباً12 سال وہ روپوش رہے۔ اس دوران ان کے پاکستان کے مختلف علاقوں میں روپوش ہونے اور مارے جانے کے بارے میں خبریں بین الاقوامی ذرایع ابلاغ پر نشر اور شایع ہوتی رہیں ۔
ملا عمر کی زیر نگرانی قائم ہونے والی حکومت نے افغانستان کے مختلف علاقوں پر قابض جنگجو کمانڈروں کی حاکمیت کو ختم کیا تھا۔ یوں بظاہر امن و امان کی صورتحال خراب نہیں ہوئی تھی مگر ملاعمر کی حکومت جدید طرز حکومت سے محروم تھی۔ ملاعمر کی حکومت نے خواتین اور اقلیتوں کو زندگی کی دوڑ سے علیحدہ کر دیا تھا۔ ان کے دور میں خواتین کے تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے تھے، اس طرح خواتین کے روزگار حاصل کرنے اور مردوں سے شانہ بشانہ کام کرنے کا ختم کر دیا گیا، جوعورتیں گھروں سے باہر نکلتی تھیں انھیں کوڑے مارے گئے۔
اقلیتوں کو مخصوص لباس پہننے پر مجبورکیا گیا، ان کے لیے سرکاری ملازمتوں اور کاروبار کے دروازے بند کردیے۔اس دور میں تاریخی عمارتوںاور یادگاروں کو مسمار کرنے کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا۔ انسانی تہذیب کے آثار کی تباہی پر دنیا دم بخود ہوگئی۔ نائن الیون کے بعد امریکا اور اتحادیوں کے کابل پر حملے کے نتیجے میں طالبان حکومت ختم ہونے کے بعد دہشت گردی کا دور شروع ہوا اور یہ عناصر کراچی تک پہنچ گئے۔ اس کی و جہ کچھ تو امریکی فوج کی کارروائی اور کچھ پاکستان کی حمایت تھی۔
سابق صدر پرویز مشرف نے گزشتہ سال ایک انٹرویو میں اقرار کیا تھا کہ افغانستان میں بھارتی عزائم کو ناکام بنانے کے لیے پاکستان نے صدر کرزئی حکومت کے خلاف طالبان کی مدد کی تھی۔ طالبان کے اثرات بڑھنے کے ساتھ پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا ۔ اس دوران امریکی کمانڈوز نے ایبٹ آباد میں اسامہ کو ایک مختصر ترین آپریشن میں ختم کردیا۔ مگر افغانستان میں اس صدی میں بھی مزید تبدیلیاں آگئیں۔ نوجوانوں کی تعلیم یافتہ جن میں خواتین کی خاصی بڑی تعداد شامل ہے پارلیمنٹ میں بیٹھی ہے۔
غیر ملکی سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کی کوششوں نے متوسط طبقے میں جمہوریت کی اہمیت کے بارے میں شعور بڑھا۔پارلیمنٹ میں درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو نمایندگی ملی جن میں روشن خیال خواتین بھی شامل تھیں۔ اگر چہ حامد کرزئی کی حکومت کاتجربہ بہت زیادہ کامیاب نہیں رہا۔ کرپشن اور اقربا پروری کی بنا پر عام آدمی کو جدید طرز حکومت کے فوائد نہیں پہنچے ۔
امریکی اور اتحادی فوج کے سویلین آبادیوں پر حملوں سے فضاء خاصی خراب رہی مگر مسلسل انتخابات کے بعد افغانستان میں جمہوری ڈھانچے نے جڑیں پکڑیں۔ خاص طور پر نئے افغان صدراشرف غنی کے اقتدار میں آنے کے بعد طالبان کو قومی دھارے میں شامل کرنے کا معاملہ اہمیت اختیارکرگیا۔
اب طالبان اور افغانستان کی حکومت کے ہونے والے مذاکرات سے امن کی نئی راہیں کھلنے کی امید پیدا ہو گئی۔ ملا عمر کے انتقال کے بعد میں بات چیت کا عمل جاری رہنا ہی اس خطے کے کروڑوں لوگوں کے مفاد میں ہے۔ اس حقیقت کو ہر فرد کو تسلیم کرنا چاہیے کہ مسئلے کا حل جدید طرز حکومت میں ہے۔ پاکستان ، بھارت، ایران، چین ، امریکا، روس اور دوسرے گروپوں کو امن مذاکرات کی حمایت کرنی چاہیے۔
جب افغان حکومت اور طالبان کے نمایندوں کے درمیان مری میں مذاکرات کا دوسرا دور ہونے والا تھا تو ایک نامعلوم افغان گروپ نے دعویٰ کیا کہ ملا عمرکئی سال قبل انتقال کر چکے ہیں، افغان کی حکومت کی انٹیلی جنس ایجنسی نے اس افواہ کی تصدیق کی۔ طالبان نے پہلے اپنے امیر کی موت کی خبر سے انکار کیا مگر پھر سرکاری طور پر یہ اعلان ہوا کہ ملا عمر دو سال قبل انتقال کر گئے تھے ۔ ان کی تدفین افغانستان میں ہوئی تھی۔ اب طالبان کے درمیان نئے امیر کے بارے میں اختلافات سامنے آگئے ہیں۔
ملا اختر کے نئے امیر بننے کے امکانات نمایاں ہیں مگر طالبان کے مختلف گروپوں سے ملنے والی اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان کے کئی گروہ ملا اختر سے بیعت کرنے کو راضی نہیں ہیں۔افغان امور کے ماہرین کو خدشہ ہے کہ ملا عمر کے بعد طالبان کے مختلف گروپوں میں خلیج بڑھ جائے گی۔ طالبان سے تعلق رکھنے والا ایک گروہ شام میں موجود امیر المومنین سے بیعت کر چکا ہے اور داعش نامی تنظیم طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں میں جڑیں پکڑ رہی ہے اور طالبان کی طاقت کمزور ہورہی ہے۔
ملا عمر کا تعلق قندھار سے ہے 1977میں افغانستان میں کامریڈ نور محمد تراکئی کی قیادت میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی حکومت کا میاب ہوئی تو امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے تراکئی کی حکومت کے خاتمے کے لیے پروجیکٹ شروع کیا۔ جنرل ضیاء الحق کے تحت کام کرنے والی پاکستانی حکومت بھی اس کا حصہ بن گئی، مذہبی انتہا پسندی کو افغانستان کی کمیونسٹ حکومت کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرنا شروع کیا۔ ملا عمر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ قندھار کے ایک مدرسے میں زیر تعلیم تھے پھر جہاد میں شریک ہو گئے، طالبان نے کابل پر چڑھائی کی تو ملا عمر افغانستان کے امیر بن گئے۔
طالبان نے افغانستان میں اپنے تئیں اسلامی حکومت قائم کی ، ملا عمر امیر المومنین بن گئے، طالبان کے مختلف گروپوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ ملا عمر کے معاون خصوصی اسامہ بن لادن اور ڈاکٹر الظواہری تھے ۔ افغان ریاست ایک ایسی سلطنت بن گئی جس پر ایک مخصوص فکر کی چھاپ نظر آتی تھی ۔ اسی دوران امریکا میں نائن الیون کا واقعہ ہوا۔ یوں امریکا کو دنیا کوتبدیل کرنے کا موقع مل گیا۔ امریکا نے ملا عمر سے اسامہ اور ان کے ساتھیوں کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔
جنرل پرویز مشرف نے اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل محمود کی قیادت میں وفد ملا عمر کے پاس بھیجا تاکہ انھیں امریکا کا مطالبہ تسلیم کرنے پر آمادہ کیا جاسکے، مگر معاملات طے نہ ہوسکے، امریکا اور اتحادی فوجوں نے افغانستان پر حملہ کیا، پاکستان نے امریکا کی مدد کی۔ ملا عمر اس وقت قندھار میں تھے جہاں سے وہ موٹر سائیکل پر بیٹھ کر فرار ہو گئے اور تقریباً12 سال وہ روپوش رہے۔ اس دوران ان کے پاکستان کے مختلف علاقوں میں روپوش ہونے اور مارے جانے کے بارے میں خبریں بین الاقوامی ذرایع ابلاغ پر نشر اور شایع ہوتی رہیں ۔
ملا عمر کی زیر نگرانی قائم ہونے والی حکومت نے افغانستان کے مختلف علاقوں پر قابض جنگجو کمانڈروں کی حاکمیت کو ختم کیا تھا۔ یوں بظاہر امن و امان کی صورتحال خراب نہیں ہوئی تھی مگر ملاعمر کی حکومت جدید طرز حکومت سے محروم تھی۔ ملاعمر کی حکومت نے خواتین اور اقلیتوں کو زندگی کی دوڑ سے علیحدہ کر دیا تھا۔ ان کے دور میں خواتین کے تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے تھے، اس طرح خواتین کے روزگار حاصل کرنے اور مردوں سے شانہ بشانہ کام کرنے کا ختم کر دیا گیا، جوعورتیں گھروں سے باہر نکلتی تھیں انھیں کوڑے مارے گئے۔
اقلیتوں کو مخصوص لباس پہننے پر مجبورکیا گیا، ان کے لیے سرکاری ملازمتوں اور کاروبار کے دروازے بند کردیے۔اس دور میں تاریخی عمارتوںاور یادگاروں کو مسمار کرنے کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا۔ انسانی تہذیب کے آثار کی تباہی پر دنیا دم بخود ہوگئی۔ نائن الیون کے بعد امریکا اور اتحادیوں کے کابل پر حملے کے نتیجے میں طالبان حکومت ختم ہونے کے بعد دہشت گردی کا دور شروع ہوا اور یہ عناصر کراچی تک پہنچ گئے۔ اس کی و جہ کچھ تو امریکی فوج کی کارروائی اور کچھ پاکستان کی حمایت تھی۔
سابق صدر پرویز مشرف نے گزشتہ سال ایک انٹرویو میں اقرار کیا تھا کہ افغانستان میں بھارتی عزائم کو ناکام بنانے کے لیے پاکستان نے صدر کرزئی حکومت کے خلاف طالبان کی مدد کی تھی۔ طالبان کے اثرات بڑھنے کے ساتھ پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا ۔ اس دوران امریکی کمانڈوز نے ایبٹ آباد میں اسامہ کو ایک مختصر ترین آپریشن میں ختم کردیا۔ مگر افغانستان میں اس صدی میں بھی مزید تبدیلیاں آگئیں۔ نوجوانوں کی تعلیم یافتہ جن میں خواتین کی خاصی بڑی تعداد شامل ہے پارلیمنٹ میں بیٹھی ہے۔
غیر ملکی سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کی کوششوں نے متوسط طبقے میں جمہوریت کی اہمیت کے بارے میں شعور بڑھا۔پارلیمنٹ میں درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو نمایندگی ملی جن میں روشن خیال خواتین بھی شامل تھیں۔ اگر چہ حامد کرزئی کی حکومت کاتجربہ بہت زیادہ کامیاب نہیں رہا۔ کرپشن اور اقربا پروری کی بنا پر عام آدمی کو جدید طرز حکومت کے فوائد نہیں پہنچے ۔
امریکی اور اتحادی فوج کے سویلین آبادیوں پر حملوں سے فضاء خاصی خراب رہی مگر مسلسل انتخابات کے بعد افغانستان میں جمہوری ڈھانچے نے جڑیں پکڑیں۔ خاص طور پر نئے افغان صدراشرف غنی کے اقتدار میں آنے کے بعد طالبان کو قومی دھارے میں شامل کرنے کا معاملہ اہمیت اختیارکرگیا۔
اب طالبان اور افغانستان کی حکومت کے ہونے والے مذاکرات سے امن کی نئی راہیں کھلنے کی امید پیدا ہو گئی۔ ملا عمر کے انتقال کے بعد میں بات چیت کا عمل جاری رہنا ہی اس خطے کے کروڑوں لوگوں کے مفاد میں ہے۔ اس حقیقت کو ہر فرد کو تسلیم کرنا چاہیے کہ مسئلے کا حل جدید طرز حکومت میں ہے۔ پاکستان ، بھارت، ایران، چین ، امریکا، روس اور دوسرے گروپوں کو امن مذاکرات کی حمایت کرنی چاہیے۔