بڑوں کو بچانے کے لیے ٹریفک روٹ
کسی بھاگتی دوڑتی سڑک پر اگر عام ٹریفک میں کوئی خلل پڑ جائے تو ٹریفک جام کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے
کسی بھاگتی دوڑتی سڑک پر اگر عام ٹریفک میں کوئی خلل پڑ جائے تو ٹریفک جام کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ ہم ہر بڑے شہر میں ہر روز اس مسئلے سے دوچار ہوتے ہیں اور کچھ وقت بعد اس اذیت سے نجات پا جاتے ہیں۔
یہ ہمارا روز مرہ کا معمول ہے لیکن کسی سڑک پر سے اونچے لوگوں یعنی وزیر اعظم کا خاندان گزر رہا ہو اور اس کی رفتار میں کہیں کوئی رکاوٹ پیدا ہو جائے تو پھر ایک سنسنی خیز خبر بن جاتی ہے کیونکہ پاکستان میں صرف چند افراد کو یہ حق حاصل ہے کہ اس ملک کی سڑکیں ان کی خدمت میں مصروف رہیں اور عوام کو ان سے دور رکھا جائے۔ وہ صرف اپنے ٹیکسوں سے بننے والی یہ سڑکیں دور سے دیکھتے رہ جائیں۔
ان معروضات کا پس منظر یہ ہے کہ وزیر اعظم کا گھرانہ مری میں کچھ وقت تفریح کرنے کے بعد واپس لوٹ رہا تھا اور اس سڑک پر روٹ لگا ہوا تھا۔ اس روٹ کی بات بعد میں کروں گا تو ایک گاڑی اس شاہی قافلے میں گھس گئی اور تند و تیز رفتار میں سفر کرنے والے شاہی سواریاں کسی ٹکر سے بمشکل بچ سکیں ورنہ نہ جانے کیا ہو جاتا۔ یہ روٹ پولیس کا وہ عمل ہوتا ہے جو کسی سڑک پر سے کسی بڑے وی آئی پی کی سواری گزرنے سے پہلے لگایا جاتا ہے یعنی پولیس کے سپاہی سڑک کے دونوں طرف مستعد کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس سڑک کو کسی دوسری سواری سے اس قدر محفوظ کر لیتے ہیں کہ پرندہ بھی مشکل سے گزر سکے۔
یہ روٹ کسی بڑی سواری سے پہلے لگ جاتا ہے اور اس سواری کے گزرنے تک لگا رہتا ہے۔ سواری اگر کسی وجہ سے لیٹ ہو جائے تب بھی روٹ لگا رہتا ہے اور سڑک کے دونوں طرف متعین سپاہی نڈھال ہو جاتے ہیں کہ موسم کوئی سا بھی ہو ان کو اس سے تحفظ حاصل نہیں ہوتا۔ وہ سرد و گرم موسم کے نشانے پر تنہا کھڑے رہتے ہیں۔
بہر حال یہ روٹ جو کسی بڑے کے سفری تحفظ کے لیے لگایا جاتا ہے اب یہ ایک معمول بنتا جا رہا ہے۔ یہاں لاہور میں ایک بڑی سڑک سے گزر رہا تھا جس کے دونوں طرف کے فٹ پاتھ اس روٹ کی زد پر تھے اور دونوں طرف شہریوں کا ایک ہجوم شدید بے چینی کے عالم میں کھڑا تھا۔
میں نے یہ منظر دیکھ کر سوچا اور بعد میں لکھا بھی کہ اگر یہ فٹ پاتھیے غصہ میں آ کر سامنے سے گزرنے والی سواری پر ہلہ بول دیں تو پھر کون سا روٹ ان بڑے لوگوں کو بچائے گا اور پولیس اس ہجوم میں کس کو پکڑے گی۔ پولیس کی وہی بلوے والی رپورٹ ہو گی جس میں کسی کو نامزد نہیں کیا جا سکتا۔ یہ روٹ ایک جھوٹی تسلی کے سوا کچھ نہیں۔ حکمران عوام کو اتنا تنگ کیوں کرتے ہیں کہ وہ ان کے لیے خطرہ بن جائیں۔
اب آپ اس واقعے کو لیجیے۔ مری سے اسلام آباد تک کی بے حد مصروف سڑک پر روٹ لگ گیا۔ خبریں چھپ رہی تھیں کہ مری کی طرف کوئی گاڑی نہ جائے اب یہاں سڑک پر یا کسی پارکنگ میں گنجائش ختم ہو گئی ہے لیکن پولیس کی کیا مجال کہ وہ کسی بڑے کی آمد و رفت میں رکاوٹ ڈال سکے لیکن اس اعلیٰ ترین روٹ کے باوجود وزیر اعظم کے قافلے میں ایک گاڑی گھس گئی اور شکر ہے کہ خیر و عافیت رہی اور اس مداخلت کار کی تیز رفتار گاڑی سے ٹکر نہیں ہوئی اور خبریں یہی ہیں کہ یہ گاڑی حملہ آور نہیں بلکہ ایک ریٹائرڈ فوجی افسر تھا جس سے غلطی ہو گئی اور مناسب فوری تفتیش کے بعد اسے جانے دیا گیا۔
اگر اس کی وجہ سے کسی سرکاری گاڑی کے بدن پر ایک لکیر بھی پڑ جاتی تو پھر یہ قاتلانہ حملہ نہ ہوتا تو کیا ہوتا۔ وزیر داخلہ نے اپنی ایک غیر معمولی طور پر مختصر سی پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ یہ واقعہ محض ایک غلطی تھی اس سے کسی حملے وغیرہ کا خطرہ نہیں تھا جیسے مشہور کیا جا رہا ہے لیکن اس غلطی سے کسی حملے کا شوشہ کہاں سے نکالا گیا۔ ایسی واردات کرنے والے خفیہ کارروائی نہیں کرتے۔ اندرا گاندھی اور سلمان تاثیر پر حملے براہ راست تھے کیونکہ سیاسی حملہ آور کوئی چور اچکے نہیں ہوتے وہ کسی مقصد کے تحت کوئی منصوبہ وضع کرتے ہیں اور جان کی بازی لگاتے ہیں۔
بہر کیف شکر ہے کہ ملک کسی سانحے سے بچ گیا لیکن اس گاڑی والے فوجی افسر سے پوچھا جائے کہ اس نے سردار صاحب کی طرح یہ اندازہ کیسے لگایا کہ وہ سڑک کی سامنے والی دو بتیوں کے بیچ میں سے بے خطر گزر جائے گا۔ محترم میاں صاحب ایک نئی طرز کے سیاستدان ہیں۔ وہ کوئی جاگیردار اور پرانی دشمنیوں والے نہیں ہیں ان کے لیے عوام کو ساتھ ملانا مشکل نہیں ہے ابھی ابھی وہ اس قدر بھاری مینڈیٹ لے کر آئے ہیں تو عوام نے ان کو یہ اعتماد دیا ہے۔
اسے ارب پتی میاں صاحب نے خریدا نہیں ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب وہ پہلی مرتبہ منتخب ہوئے تھے تو گاؤں تک کے لوگ بھی ان کے ووٹر تھے۔ میں نے ایک صاف ستھرے دیہاتی سے پوچھا کہ وہ ایک شہری بابو کو کیوں ووٹ دینا چاہتا ہے تو اس نے کہا کہ ملک اقتصادی طور پر کمزور ہو گیا ہے اور ایک کاروباری شخص ہے اس حالت سے باہر نکال سکتا ہے اس کا یہ اندازہ درست تھا اب یہ الگ بات ہے کہ زمینداروں کی طرح یہ شہری کاروباری بھی اس کی امید پر پورے نہ اترے اور وہ مایوس ہو گیا۔
میاں صاحب کے لیے ابھی تک یہ حلقہ کھلا ہے ابھی کل ہی تو انھوں نے ملک بھر سے جی بھر کر ووٹ لیے ہیں۔ میاں صاحب کو تھکی ماندی پولیس کے یہ روٹ نہیں بچائیں گے ان کا تحفظ عوام کے پاس ہے اور اگر عوام کو انھوں نے قابو میں رکھنا تو پھر ایسی خبریں ملک بھر کے اخباروں کی شہ سرخی نہیں ہو گی کہ کوئی آرمی چیف کو نکالنا چاہتا ہے۔ جنرل راحیل کا اب تک کا کردار صرف ملک دشمنوں کو پسند نہیں ہے۔
ہم نے بہت جرنیل دیکھے ہیں اب کسی مہم جو کی تلاش نہیں ہے۔ جس جرنیل کی بیگم کسی دکان پر جا کر اس طرح بھاؤ تاؤ کرے جیسے کسی ملازم اور تنخواہ دار کی بیوی اس پر کسی کرپشن کا گمان کرنا بھی گناہ ہے۔ آخر میں ایک گزارش کہ میرا فون ٹیپ کرنے کی کیا ضرورت ہے، میں تو دل کی ہر بات ان کالموں میں بیان کر دیتا ہوں۔ اس سے زیادہ میرے پاس کچھ نہیں ہوتا اور آخر میں مزید ایک اور گزارش کہ میاں صاحب محافظ صرف خدا کی ذات ہوتی ہے۔
یہ ہمارا روز مرہ کا معمول ہے لیکن کسی سڑک پر سے اونچے لوگوں یعنی وزیر اعظم کا خاندان گزر رہا ہو اور اس کی رفتار میں کہیں کوئی رکاوٹ پیدا ہو جائے تو پھر ایک سنسنی خیز خبر بن جاتی ہے کیونکہ پاکستان میں صرف چند افراد کو یہ حق حاصل ہے کہ اس ملک کی سڑکیں ان کی خدمت میں مصروف رہیں اور عوام کو ان سے دور رکھا جائے۔ وہ صرف اپنے ٹیکسوں سے بننے والی یہ سڑکیں دور سے دیکھتے رہ جائیں۔
ان معروضات کا پس منظر یہ ہے کہ وزیر اعظم کا گھرانہ مری میں کچھ وقت تفریح کرنے کے بعد واپس لوٹ رہا تھا اور اس سڑک پر روٹ لگا ہوا تھا۔ اس روٹ کی بات بعد میں کروں گا تو ایک گاڑی اس شاہی قافلے میں گھس گئی اور تند و تیز رفتار میں سفر کرنے والے شاہی سواریاں کسی ٹکر سے بمشکل بچ سکیں ورنہ نہ جانے کیا ہو جاتا۔ یہ روٹ پولیس کا وہ عمل ہوتا ہے جو کسی سڑک پر سے کسی بڑے وی آئی پی کی سواری گزرنے سے پہلے لگایا جاتا ہے یعنی پولیس کے سپاہی سڑک کے دونوں طرف مستعد کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس سڑک کو کسی دوسری سواری سے اس قدر محفوظ کر لیتے ہیں کہ پرندہ بھی مشکل سے گزر سکے۔
یہ روٹ کسی بڑی سواری سے پہلے لگ جاتا ہے اور اس سواری کے گزرنے تک لگا رہتا ہے۔ سواری اگر کسی وجہ سے لیٹ ہو جائے تب بھی روٹ لگا رہتا ہے اور سڑک کے دونوں طرف متعین سپاہی نڈھال ہو جاتے ہیں کہ موسم کوئی سا بھی ہو ان کو اس سے تحفظ حاصل نہیں ہوتا۔ وہ سرد و گرم موسم کے نشانے پر تنہا کھڑے رہتے ہیں۔
بہر حال یہ روٹ جو کسی بڑے کے سفری تحفظ کے لیے لگایا جاتا ہے اب یہ ایک معمول بنتا جا رہا ہے۔ یہاں لاہور میں ایک بڑی سڑک سے گزر رہا تھا جس کے دونوں طرف کے فٹ پاتھ اس روٹ کی زد پر تھے اور دونوں طرف شہریوں کا ایک ہجوم شدید بے چینی کے عالم میں کھڑا تھا۔
میں نے یہ منظر دیکھ کر سوچا اور بعد میں لکھا بھی کہ اگر یہ فٹ پاتھیے غصہ میں آ کر سامنے سے گزرنے والی سواری پر ہلہ بول دیں تو پھر کون سا روٹ ان بڑے لوگوں کو بچائے گا اور پولیس اس ہجوم میں کس کو پکڑے گی۔ پولیس کی وہی بلوے والی رپورٹ ہو گی جس میں کسی کو نامزد نہیں کیا جا سکتا۔ یہ روٹ ایک جھوٹی تسلی کے سوا کچھ نہیں۔ حکمران عوام کو اتنا تنگ کیوں کرتے ہیں کہ وہ ان کے لیے خطرہ بن جائیں۔
اب آپ اس واقعے کو لیجیے۔ مری سے اسلام آباد تک کی بے حد مصروف سڑک پر روٹ لگ گیا۔ خبریں چھپ رہی تھیں کہ مری کی طرف کوئی گاڑی نہ جائے اب یہاں سڑک پر یا کسی پارکنگ میں گنجائش ختم ہو گئی ہے لیکن پولیس کی کیا مجال کہ وہ کسی بڑے کی آمد و رفت میں رکاوٹ ڈال سکے لیکن اس اعلیٰ ترین روٹ کے باوجود وزیر اعظم کے قافلے میں ایک گاڑی گھس گئی اور شکر ہے کہ خیر و عافیت رہی اور اس مداخلت کار کی تیز رفتار گاڑی سے ٹکر نہیں ہوئی اور خبریں یہی ہیں کہ یہ گاڑی حملہ آور نہیں بلکہ ایک ریٹائرڈ فوجی افسر تھا جس سے غلطی ہو گئی اور مناسب فوری تفتیش کے بعد اسے جانے دیا گیا۔
اگر اس کی وجہ سے کسی سرکاری گاڑی کے بدن پر ایک لکیر بھی پڑ جاتی تو پھر یہ قاتلانہ حملہ نہ ہوتا تو کیا ہوتا۔ وزیر داخلہ نے اپنی ایک غیر معمولی طور پر مختصر سی پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ یہ واقعہ محض ایک غلطی تھی اس سے کسی حملے وغیرہ کا خطرہ نہیں تھا جیسے مشہور کیا جا رہا ہے لیکن اس غلطی سے کسی حملے کا شوشہ کہاں سے نکالا گیا۔ ایسی واردات کرنے والے خفیہ کارروائی نہیں کرتے۔ اندرا گاندھی اور سلمان تاثیر پر حملے براہ راست تھے کیونکہ سیاسی حملہ آور کوئی چور اچکے نہیں ہوتے وہ کسی مقصد کے تحت کوئی منصوبہ وضع کرتے ہیں اور جان کی بازی لگاتے ہیں۔
بہر کیف شکر ہے کہ ملک کسی سانحے سے بچ گیا لیکن اس گاڑی والے فوجی افسر سے پوچھا جائے کہ اس نے سردار صاحب کی طرح یہ اندازہ کیسے لگایا کہ وہ سڑک کی سامنے والی دو بتیوں کے بیچ میں سے بے خطر گزر جائے گا۔ محترم میاں صاحب ایک نئی طرز کے سیاستدان ہیں۔ وہ کوئی جاگیردار اور پرانی دشمنیوں والے نہیں ہیں ان کے لیے عوام کو ساتھ ملانا مشکل نہیں ہے ابھی ابھی وہ اس قدر بھاری مینڈیٹ لے کر آئے ہیں تو عوام نے ان کو یہ اعتماد دیا ہے۔
اسے ارب پتی میاں صاحب نے خریدا نہیں ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب وہ پہلی مرتبہ منتخب ہوئے تھے تو گاؤں تک کے لوگ بھی ان کے ووٹر تھے۔ میں نے ایک صاف ستھرے دیہاتی سے پوچھا کہ وہ ایک شہری بابو کو کیوں ووٹ دینا چاہتا ہے تو اس نے کہا کہ ملک اقتصادی طور پر کمزور ہو گیا ہے اور ایک کاروباری شخص ہے اس حالت سے باہر نکال سکتا ہے اس کا یہ اندازہ درست تھا اب یہ الگ بات ہے کہ زمینداروں کی طرح یہ شہری کاروباری بھی اس کی امید پر پورے نہ اترے اور وہ مایوس ہو گیا۔
میاں صاحب کے لیے ابھی تک یہ حلقہ کھلا ہے ابھی کل ہی تو انھوں نے ملک بھر سے جی بھر کر ووٹ لیے ہیں۔ میاں صاحب کو تھکی ماندی پولیس کے یہ روٹ نہیں بچائیں گے ان کا تحفظ عوام کے پاس ہے اور اگر عوام کو انھوں نے قابو میں رکھنا تو پھر ایسی خبریں ملک بھر کے اخباروں کی شہ سرخی نہیں ہو گی کہ کوئی آرمی چیف کو نکالنا چاہتا ہے۔ جنرل راحیل کا اب تک کا کردار صرف ملک دشمنوں کو پسند نہیں ہے۔
ہم نے بہت جرنیل دیکھے ہیں اب کسی مہم جو کی تلاش نہیں ہے۔ جس جرنیل کی بیگم کسی دکان پر جا کر اس طرح بھاؤ تاؤ کرے جیسے کسی ملازم اور تنخواہ دار کی بیوی اس پر کسی کرپشن کا گمان کرنا بھی گناہ ہے۔ آخر میں ایک گزارش کہ میرا فون ٹیپ کرنے کی کیا ضرورت ہے، میں تو دل کی ہر بات ان کالموں میں بیان کر دیتا ہوں۔ اس سے زیادہ میرے پاس کچھ نہیں ہوتا اور آخر میں مزید ایک اور گزارش کہ میاں صاحب محافظ صرف خدا کی ذات ہوتی ہے۔