سیلاب دائمی حفاظتی تدابیر ناگزیر ہیں
قیمتی انسانی جانوں کا ناقابل تلافی نقصان الگ ہوتا ہے جو ان سب سے بڑھ کر ہے
مون سون شروع ہوتے ہی ہمارے ملک میں سیلاب کا موسم بھی آ جاتا ہے اور یہ سیلاب ہمیشہ اپنے ساتھ تباہی و بربادی لاتے ہیں، ہر سال ملک و قوم کا بڑا جانی و مالی نقصان ہوتا ہے، دیہات کے دیہات صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں، مکانات و سڑکیں ملیامیٹ اور بستیاں ویران و سنسان ہو جاتی ہیں، کھیت کھلیان تباہ اور سرسبز و شاداب اراضی برباد ہو جاتی ہے۔
قیمتی انسانی جانوں کا ناقابل تلافی نقصان الگ ہوتا ہے جو ان سب سے بڑھ کر ہے، پورا نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے اور ملکی معیشت کو بھاری نقصان الگ پہنچتا ہے۔ 1973ء سے چند سال کے وقفے سے مسلسل ہمارا ملک سیلاب کی زد میں ہے، ہم مسلسل تباہ کن سیلابوں سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں لیکن افسوس صد افسوس سیلاب سے بچاؤ اور حفاظتی اقدام تاحال حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں، کوئی موثر اقدامات کیے گئے نہ ہی کوئی حکمت عملی ہی وضع کی گئی۔
حکومت کی جانب سے سیلاب سے نمٹنے اور سیلابی پانی کو نئے آبی ذخائر میں محفوظ کرنے کے لیے کسی قسم کی کوئی پالیسی یا منصوبہ بندی سامنے آئی نہ ہی کبھی مستقل بنیادوں پر کسی قسم کے کوئی ٹھوس اقدام ہی اٹھائے گئے، ہمیشہ جب سیلاب سر پر آ جاتا ہے اور اپنی غارت گری دکھاتا ہے۔
تب حسب روایت حکومتی مشنری اہم ملکی وسائل کو تعمیر نو میں جھونکنے کے لیے حرکت میں آ جاتی ہے اگر یہی وسائل سیلابی بربادی سے مستقل بنیادوں پر بچاؤ پر ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت لگائے جائیں اور ماہر انجینئرز اور سائنسدانوں اور ماہر تعمیرات کے تجربات سے استفادہ کیا جائے تو یقینا حکومت وقت کا سب سے احسن اقدام ہو گا، جس کی اہمیت و قدر بسیں اور ٹرینیں چلانے اور موٹر وے وغیرہ بنانے سے کہیں زیادہ ہو گی، اور عوام میں پذیرائی حاصل ہو گی اور حکومتی مقبولیت میں اضافہ ہو گا اور ملکی تاریخ کا سنگ میل بھی ثابت ہو گا۔
مصر میں دریائے نیل میں ہر سال سیلاب آ جایا کرتا تھا، جمال عبدالناصر نے سوویت یونین کی مدد سے عظیم الشان اسوان ڈیم اپنے ملک و قوم کو دیا، چین میں دریائے ''یاتنگزی کیانگ'' ہر سال بربادی کی داستان رقم کرتا، چین نے تھری گورجز ڈیم کے ذریعے اسے کنٹرول کیا، اس کے علاوہ ہالینڈ اور بیلجیم میں بھی سیلاب بڑی تباہی پھیلاتے تھے۔
لیکن بہترین منصوبہ بندی اور ماہرین کی خدمات سے ان دونوں ممالک نے بھی سیلابوں پر بخوبی قابو پا لیا، ہماری حکومت بھی ان ممالک کو مشعل راہ بناتے ہوئے ان کے ماہرین سے فیضیاب ہوتے ہوئے سیلابوں پر بخوبی قابو پا سکتی ہے لیکن بات صرف ترجیحات کی ہے، 1973ء سے ابھی تک سیلابوں پر قابو پانا ہماری کسی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں رہا لیکن موجودہ حکومت کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ ماہرین مسلسل پیش گوئی کر رہے ہیں کہ پاکستان اور اس خطے میں ہر سال بارشوں میں اضافہ ہو گا اور یقینا اس سے گزشتہ سیلابوں کی نسبت زیادہ پر خطر اور تباہ کن سیلاب آئیں گے اور یہ یقینا ''عظیم'' جانی نقصان کے ساتھ ساتھ بھاری بوجھ بھی ہماری معیشت پر بنیں گے۔
لہٰذا حکومت کو اب اس جانب فوری طور پر سنجیدہ ہو کر سوچنا اور عملی قدم اٹھانا ہو گا، حکومت نے جس طرح پاک چین اقتصادی راہداری اور دیگر اہم منصوبوں کو اپنی ترجیحات میں رکھا ہوا ہے۔ ان میں سب سے اوّلین ترجیح سیلاب سے ہمیشہ کے لیے بچاؤ اور اس پانی کو ذخیرہ کر کے سود مند مقاصد کے لیے استعمال کرنا ہونا چاہیے، کالا باغ ڈیم ایک عرصے سے تنازعہ کی نذر ہوا پڑا ہے اگر اب بھی اس پر قومی اتفاق رائے نہیں ہوتا تو ہمیں دوسرے ڈیموں کی تعمیر پر سنجیدگی سے کام کرنا چاہیے کیونکہ ڈیم بنائے بغیر سیلابوں کی تباہی کاریوں سے نجات ممکن نہیں، ہمارے ملک میں تو گنتی کے چند ڈیم ہیں لیکن چین میں 22 ہزار اور بھارت میں 5 ہزار ڈیم ہیں۔
اس کو کہتے ہیں منصوبہ بندی اور دور اندیشی، پھر بھارت جب چاہتا ہے لاکھوں کیوسک پانی بھی ہماری جانب چھوڑ دیتا ہے، ان کے پاس ذخیرہ کرنے کے ذرایع اور وسائل ہیں لیکن ہمارے پاس ایسا کچھ نہیں لہٰذا بھارت کی یہ آبی جارحیت ہمارے ملک میں مزید تباہی میں اضافہ کرتی ہے، اس بار بھی بھارت نے اکھنور سے ایک لاکھ 83 ہزار کیوسک پانی چھوڑا جس کی وجہ سے حکومت نے دریائے چناب اور راوی میں ریڈ الرٹ جاری کیا، دریائے سندھ میں بھی پانی کی سطح مسلسل بلند ہو رہی ہے، تین ریلے سندھ کی جانب بڑھ رہے ہیں اگر یہ ایک ساتھ پہنچے تو گڈو کے مقام پر پانی کی مقدار 9 لاکھ کیوسک ہو سکتی ہے، اس طرح کوہ سلیمان میں شدید بارشوں اور بھارت کی جانب سے ستلج میں چھوڑے گئے سیلابی ریلے کے باعث سندھ میں سپر فلڈ کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔
دنیا کے کئی ممالک میں بارشیں بھی ہوتی ہیں سیلاب بھی آتے ہیں جیسی ہمارے ملک میں تباہی ہوتی ہے ویسی کہیں نہیں ہوتی، یہ تو ہماری خوش نصیبی ہے کہ پاک فوج کے جوان پورے وسائل کے ساتھ امدادی کاموں میں شریک ہو جاتے ہیں ورنہ بہت نقصان کا سامنا ہو، سیلابی ریلے پنجاب اور خیبرپختونخوا کے بعد سندھ اور بلوچستان پہنچ رہے ہیں اور پاک فوج کے جوان ہمیشہ کی طرح اس کڑے وقت میں بھی پوری قوم کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور اس سیلاب کے سامنے صف بستہ اور سیسہ پلائی دیوار بنے ہیں اور دن رات ایک کر کے مختلف بند مضبوط کرنے میں لگے ہوئے ہیں متاثرین سیلاب کی مدد کے ضمن میں پاک فوج کا کردار ہمیشہ مثالی اور قابل تعریف رہا ہے قوم کو بچاتے ہوئے ہمارے جوانوں نے اکثر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے جام شہادت نوش کیا اور ملک و قوم کی خاطر کبھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔
ایسی عظیم خدمات اور قربانیوں سے ہماری تاریخ جگمگا رہی ہے غم خواری اور خیر خواہی کے عظیم واقعات سے ہماری تاریخ منور ہے، ایثار و قربانی ہمارا خاصہ ہے مسلمان کے لیے یہ ہرگز روا نہیں کہ اپنے بھائیوں کی مشکلات سے بے نیاز رہے، مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں، ایک دوسرے کے لیے پیکر رحم و کرم ہیں، ایک دوسرے کے ولی ہیں، مومن ایک دوسرے سے رحم ، محبت اور مہربانی میں ایسے ہیں گویا بدن کا ایک عضو تکلیف زدہ ہو تو پورا جسم اس کا درد و کرب محسوس کرتا ہے اور دین اسلام تو نام ہی خیرخواہی کا ہے۔
ملک و قوم کے ساتھ حکومت کی اس وقت سب سے بڑی خیرخواہی یہی ہے کہ آیندہ کے لیے اس ملک و قوم کو سیلاب سے محفوظ کردیا جائے، بڑے پیمانے پر ڈیم، بیراج اور آبی ذخائر تعمیر کیے جائیں۔ دریاؤں کو گہرا کر کے ان میں زیادہ پانی برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا کی جائے، جو اربوں روپے ہر سال سیلاب متاثرین کی بحالی کی نذر ہو جاتے ہیں انھیں سیلاب سے دائمی بچاؤ کے اقدام پر خرچ کیا جائے۔
اگر ہم آبی ذخائر کو محفوظ کرنے کی صلاحیت حاصل کر لیں تو دیگر فوائد کے ساتھ ساتھ بھارت بھی آیندہ کبھی ہماری جانب پانی نہ چھوڑے کیونکہ باصلاحیت ہونے کے بعد یہی پانی جو ہماری تباہی کا سبب بنتا ہے ہماری خوشحالی کا باعث بن جائے گا، ہمارے لیے بیش قیمت ہو جائے گا، ہماری ترقی بالخصوص توانائی کے بحران کے خاتمے، بجلی کی پیداوار میں اضافے اور دیگر زرعی و تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے اور زندگی کی رنگا رنگی پیدا کرنے اور حیات نو بخشنے والی یہ صورتحال بھارت کو کبھی گوارہ نہ ہو گی، ساتھ ہی بیوروکریسی پر کرپشن کی رسیا ہونے اور بدعنوانی سے فنڈز ہضم کرنے کا تاثر بھی ختم ہو جائے گا۔