آفریدی ازم
آفریدی ازم کسی کھلاڑی کا نام نہیں بلکہ یہ ایک مزاج کا نام ہے، ایک اسٹائل کا نام ہے۔
پاکستان کی سری لنکا کے خلاف حالیہ ٹی ٹوینٹی سیریز میں ناقابل یقین فتح نے کئی شائقین کرکٹ کو انگشت بدنداں کردیا ہے۔ ہمارے کئی مقامی کرکٹ ماہرین کے نزدیک فتح کا سہرا نئے خون کو جاتا ہے کہ کس طرح کپتان شاہد آفریدی کے پویلین لوٹ جانے کے باوجود نوجوان کھلاڑیوں انور علی اور عماد وسیم نے آخری وقت تک نہ صرف اپنا اعتماد قائم رکھا بلکہ مضبوط اعصاب دکھا کر پاکستان کو فتح سے ہمکنار کروایا۔ تاہم میرے نزدیک اس فتح کا کریڈٹ کسی اور کو نہیں بلکہ شاہد آفریدی کو جاتا ہے، بلکہ اگر ایسا کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ جیت کی اصل وجہ آفریدی ازم ہے۔
ہماری قوم تو نہ جانے کب سے آفریدی ازم کا شکار ہے اور شاہد آفریدی کی ایک کے بعد ایک ناکامی کے باوجود ہمارے کرکٹ شائقین کا بھروسہ کبھی اس آل راؤنڈر کی صلاحیتوں پر ایک لمحہ کو بھی متزلزل نہیں ہوا۔ جب بھی آفریدی کے ہاتھ میں گیند تھمائی جاتی، تو قوم مخالف ٹیم کی وکٹ گرنے کی امید لگا بیٹھتی، اور جب جب اس بندہ خدا کے ہاتھ میں بلہ آتا تو قوم گیند کے اسٹیڈیم سے باہر جانے کا انتظار شروع کردیتی۔ اسی اعتماد اور اسی کرکٹ برانڈ کا نام آفریدی ازم ہے جس کی ایک بھی جھلک ہماری قومی کرکٹ ٹیم میں حالیہ سیریز سے قبل تک کہیں دکھائی نہیں دیتی تھی۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ آفریدی پاکستانی ٹیم کی قیادت کر رہے ہیں مگر ایسا یقیناً پہلی بار ہورہا ہے کہ ان کے کھلاڑی ان کی کرکٹ کی سوجھ بوجھ کو اپنانے کو تیار بھی ہیں اور اسے اپنے کھیل کا حصہ بھی بنا رہے ہیں۔ پاکستانی ٹیم عمران خان کے دور سے اپنے جارح مزاجی کی وجہ سے دنیائے کرکٹ میں اپنی دھاک بٹھا چکی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ جارحانہ پن قصہ پارینہ ہوگیا اور گزشتہ کپتان مصباح الحق کے دور میں اس کا نشان دور دور تک نہیں ملا، تاہم حالیہ ٹی ٹوینٹی سیریز میں اس جارح مزاجی کی جھلک واضح طور پر نظر آئی اور سب سے مثبت پہلو یہ ہے کہ یہ جھلک نوجوان کھلاڑیوں میں نظر آئی۔
جہاں شاہد آفریدی کے گرویدہ بہت ہیں، وہیں انکے مخالف بھی کافی بڑی تعداد میں موجود ہیں اور ان میں سے کئی میرے اس آرٹیکل سے اختلاف کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑینگے اور یہ ان کا پیدائشی حق بھی ہے۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان ٹیم کی جارح مزاجی کے فقدان جیسے سچ سے جان چھڑانا آسان امر نہیں ہے۔ کہیں نہ کہیں ہر پاکستانی کرکٹ فین کے دل میں اس بات کا غم شدت سے موجود ہے کہ حالیہ کچھ برسوں میں ہماری قومی کرکٹ ٹیم انتہائی مایوس کن انداز میں کئی مواقع پر میدان چھوڑ کر بھاگ گئی۔ مصباح الحق کا ٹھہراؤ ٹیسٹ کرکٹ میں صحیح نمائندگی کر رہا ہے مگر ایک روزہ اور ٹی ٹوینٹی کرکٹ میں اس کسل مندی کو ایک جھرجھری کی ضرورت تھی جو سری لنکا کے خلاف سیریز میں واضح طور پر نظر آئی۔
پاکستان کرکٹ کی دنیا میں پہچان کبھی نہ مٹنے والا اعتماد اور اپنی صلاحیتوں کا برملا اظہار تھا لیکن مسلسل ناکامیوں نے انہیں ایک ان دیکھے خول میں جکڑ دیا تھا جس سے نکلنا انتہائی اہم تھا۔ سری لنکا کے خلاف شاندار فتوحات نے نہ صرف کرکٹرز کا اعتماد بحال کیا ہے بلکہ قوم کو بھی اُمید کی نئی کرن دکھا دی ہے جس کا سہرا کم از کم ٹی ٹوینٹی کرکٹ کی حد تک آفریدی ازم کو جاتا ہے۔
آفریدی ازم کسی کھلاڑی کا نام نہیں بلکہ یہ ایک مزاج کا نام ہے، ایک اسٹائل کا نام ہے جس نے پاکستان کو ایک نئے مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔ مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ محض ایک سیریز میں کامیابی کی بنیاد پر اتنی بڑی بات نہیں کی جاسکتی، لیکن میرے نزدیک فتح سے زیادہ اہم ٹیم کا مزاج ہے جو آخری ٹی ٹوینٹی میں اس طرح نظر آیا کہ آفریدی تو آؤٹ ہوگیا لیکن آفریدی ازم آخر تک کریز پر رہا۔
[poll id="582"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ہماری قوم تو نہ جانے کب سے آفریدی ازم کا شکار ہے اور شاہد آفریدی کی ایک کے بعد ایک ناکامی کے باوجود ہمارے کرکٹ شائقین کا بھروسہ کبھی اس آل راؤنڈر کی صلاحیتوں پر ایک لمحہ کو بھی متزلزل نہیں ہوا۔ جب بھی آفریدی کے ہاتھ میں گیند تھمائی جاتی، تو قوم مخالف ٹیم کی وکٹ گرنے کی امید لگا بیٹھتی، اور جب جب اس بندہ خدا کے ہاتھ میں بلہ آتا تو قوم گیند کے اسٹیڈیم سے باہر جانے کا انتظار شروع کردیتی۔ اسی اعتماد اور اسی کرکٹ برانڈ کا نام آفریدی ازم ہے جس کی ایک بھی جھلک ہماری قومی کرکٹ ٹیم میں حالیہ سیریز سے قبل تک کہیں دکھائی نہیں دیتی تھی۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ آفریدی پاکستانی ٹیم کی قیادت کر رہے ہیں مگر ایسا یقیناً پہلی بار ہورہا ہے کہ ان کے کھلاڑی ان کی کرکٹ کی سوجھ بوجھ کو اپنانے کو تیار بھی ہیں اور اسے اپنے کھیل کا حصہ بھی بنا رہے ہیں۔ پاکستانی ٹیم عمران خان کے دور سے اپنے جارح مزاجی کی وجہ سے دنیائے کرکٹ میں اپنی دھاک بٹھا چکی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ جارحانہ پن قصہ پارینہ ہوگیا اور گزشتہ کپتان مصباح الحق کے دور میں اس کا نشان دور دور تک نہیں ملا، تاہم حالیہ ٹی ٹوینٹی سیریز میں اس جارح مزاجی کی جھلک واضح طور پر نظر آئی اور سب سے مثبت پہلو یہ ہے کہ یہ جھلک نوجوان کھلاڑیوں میں نظر آئی۔
جہاں شاہد آفریدی کے گرویدہ بہت ہیں، وہیں انکے مخالف بھی کافی بڑی تعداد میں موجود ہیں اور ان میں سے کئی میرے اس آرٹیکل سے اختلاف کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑینگے اور یہ ان کا پیدائشی حق بھی ہے۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان ٹیم کی جارح مزاجی کے فقدان جیسے سچ سے جان چھڑانا آسان امر نہیں ہے۔ کہیں نہ کہیں ہر پاکستانی کرکٹ فین کے دل میں اس بات کا غم شدت سے موجود ہے کہ حالیہ کچھ برسوں میں ہماری قومی کرکٹ ٹیم انتہائی مایوس کن انداز میں کئی مواقع پر میدان چھوڑ کر بھاگ گئی۔ مصباح الحق کا ٹھہراؤ ٹیسٹ کرکٹ میں صحیح نمائندگی کر رہا ہے مگر ایک روزہ اور ٹی ٹوینٹی کرکٹ میں اس کسل مندی کو ایک جھرجھری کی ضرورت تھی جو سری لنکا کے خلاف سیریز میں واضح طور پر نظر آئی۔
پاکستان کرکٹ کی دنیا میں پہچان کبھی نہ مٹنے والا اعتماد اور اپنی صلاحیتوں کا برملا اظہار تھا لیکن مسلسل ناکامیوں نے انہیں ایک ان دیکھے خول میں جکڑ دیا تھا جس سے نکلنا انتہائی اہم تھا۔ سری لنکا کے خلاف شاندار فتوحات نے نہ صرف کرکٹرز کا اعتماد بحال کیا ہے بلکہ قوم کو بھی اُمید کی نئی کرن دکھا دی ہے جس کا سہرا کم از کم ٹی ٹوینٹی کرکٹ کی حد تک آفریدی ازم کو جاتا ہے۔
آفریدی ازم کسی کھلاڑی کا نام نہیں بلکہ یہ ایک مزاج کا نام ہے، ایک اسٹائل کا نام ہے جس نے پاکستان کو ایک نئے مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔ مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ محض ایک سیریز میں کامیابی کی بنیاد پر اتنی بڑی بات نہیں کی جاسکتی، لیکن میرے نزدیک فتح سے زیادہ اہم ٹیم کا مزاج ہے جو آخری ٹی ٹوینٹی میں اس طرح نظر آیا کہ آفریدی تو آؤٹ ہوگیا لیکن آفریدی ازم آخر تک کریز پر رہا۔
[poll id="582"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس