پاکستانی تاجر خواتین کی چھوٹے قرضوں تک محدود رسائی

بیشترخواتین سرمائے کیلیے بچتوں، ذاتی اثاثوں یا اہل خانہ سے قرضوں پر انحصار کرتی ہیں

مردقرضوں کے حصول کیلیے خواتین کو استعمال کرتے ہیں،عالمی بینک، رپورٹ جاری فوٹو: اے ایف پی

پاکستان کی 25 فیصد سے بھی کم کاروباری خواتین چھوٹے قرضے حاصل کر رہی ہیں، زیادہ تر تاجرخواتین سرمائے کیلیے بچتوں، ذاتی اثاثوں یا اہل خانہ سے قرضوں پر انحصار کرتی ہیں۔

ورلڈ بینک کی جانب سے بدھ کو جاری کردہ ''کیا پاکستانی کاروباری خواتین کو مائیکروفنانس سیکٹرخدمات فراہم کر رہا ہے'' نامی رپورٹ کے مطابق امتیازی لینڈنگ کے باعث پاکستانی کاروباری خواتین قرضوں کے حصول کیلیے مائیکرو فنانس پروائیڈرز کے علاوہ کسی اور جانب دیکھنے پر مجبور ہیں تاہم قرضے ہمیشہ خواتین قرض کنندگان کیلیے مفید ثابت نہیں ہوتے، مرد بشمول ماضی کے ڈیفالٹرز قرضوں کے حصول کیلیے خواتین کو استعمال کرتے ہیں، پاکستان میں خواتین کو فراہم کیے جانے والے 50سے 70 فیصد قرضے حقیقت میں ان کے مرد رشتے دار استعمال کرتے ہیں۔


ایسے کیسز میں خواتین قرض کنندگان کو مکمل طورپر ان قرضوں کے لیے ذمے دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ پاکستان کے لیے ورلڈبینک کے کنٹری ڈائریکٹر راشید بن مسعود کا کہنا ہے کہ پاکستانی خواتین کیلیے کاروبار کے آغاز یا توسیع کے حوالے سے سب سے بڑی رکاوٹ سرمائے تک رسائی ہے، سخت گارنٹی شرائط اور صرف مردوں کو کاروباری قرضوں کی فراہمی کی روایت نے پاکستانی کاروباری خواتین اور مائیکروفنانس سیکٹر کے درمیان خلیج کو بڑھا دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق کاروباری خواتین کے لیے مائیکروفنانس دستیاب نہیں خصوصاً کنواری لڑکیوں کو ہائی رسک صارف خیال کیا جاتا ہے۔

تقریباً 68 فیصد خواتین کو کسی بھی قسم کے قرضے کیلیے اپنے مرد رشتے دار کی اجازت کی ضرورت پڑتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق مائیکرو فنانس سیکٹر کو کاروباری خواتین تک سرمائے کی رسائی آسان بنانے کیلیے بہتر مصنوعات تیار کرنی چاہئیں، اس حوالے سے مالیاتی تعلیم میں سرمایہ کاری بھی ضروری ہے اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو خواتین قرض کنندگان کے تحفظ، صنفی رپورٹنگ میں شفافیت کے لیے مشاورت اور غیرامتیازی طریقوں و پالیسی کی حوصلہ شکنی کیلیے معیارات بنانے چاہئیں۔
Load Next Story