تحریک انصاف والے خیرات مانگ رہے ہیں اور وہ بھی بدمعاشی سے مولانا فضل الرحمان
تحریک انصاف خود اسمبلی سے نکل چکی لیکن وہ خودکشی بھی کرتے ہیں اورالٹا ہمیں قاتل بھی کہتے ہیں، سربراہ جے ؤو آئی (ف)
جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ تحریک انصاف والے استفعوں سے متعلق خیرات بھی مانگ رہے ہیں تو وہ بھی بدمعاشی سے اور قوم کے ساتھ زیادتی پر معافی دے دینے کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ساری دنیاکے سامنے تحرییک انصاف نے استعفے دیئے، دھرنے میں اس پارلمینٹ کو کیا کچھ نہیں کہا گیا،عمران خان کی داستانیں لاس اینجلس سے اسلام آباد کے ڈی چوک تک تعفن پھیلا رہی ہیں، جو کچھ دھرنے میں کہا گیا اس کا دسواں حصہ بھی وہ کہتے تو خدا جانے کہاں ہوتے، 2007 میں جب ہم نے استعفے دیئے اس وقت کسی نے ہم سے نہیں پوچھا تھا، تحریک انصاف والے استفعوں سے متعلق خیرات بھی مانگ رہے ہیں تو وہ بھی بدمعاشی سے۔ تحریک انصاف استعفوں کی بنیاد پر خود اسمبلی سے نکل چکی لیکن وہ خودکشی بھی کرتے ہیں اورالٹا ہمیں قاتل بھی کہتے ہیں۔
جے یو آئی (ف) کے سربراہ کا کہنا تھا کہ جمہوریت کی تذلیل کی گئی، کیا یہ جمہوریت رحم کی مستحق نہیں؟۔ انہیں برا لگ رہا ہے کہ وہ وزیر اعظم کے ہوتے ہوئے پارلیمنٹ اراکین کی عزت و توقیر کی جنگ لڑرہے ہیں، ان کی جماعت حکومت کی اتحادی ہے، حکومت کے خلاف سازش میں ہم پیچھے نہیں ہٹے، اب بھی کوئی بحران آئے گا تو حکومت کے ساتھ کھڑے ہوں گے، وزیراعظم جہاں بلائیں ہم آجائیں گے لیکن پہلے ہماری بات تو سن لیں، وزیراعظم نواز شریف سیاسی جماعتوں کی آراء کا احترام کریں اور کبھی وہ بھی چھوٹی سے بات پر ہمارے ساتھ کھڑے ہوں۔
18ویں اور 21آئینی ترامیم سے متعلق مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ عدالت نے پارلیمنٹ کی بالادستی کوتسلیم کرتے ہوئے فیصلہ سنایا، وہ 18ویں اور21ویں ترامیم کے فیصلے کو قبول کرتے ہیں لیکن ان کی رائے سپریم کورٹ کے اختلافی جج صاحبان کے ساتھ ہے، پاکستان کے تمام دینی مدارس آج آئین اور پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑے ہیں، قانون میں ہمیشہ عمومیت ہوا کرتی ہے،قانون کا کوئی امتیازی رویہ نہیں ہوتا،ہم نے کبھی ضد کی بنیاد پر بات نہیں کی، مسئلہ نظریات کا نہیں اصولوں کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سے ہربات نقد منوا ئی جاتی ہے اور ہماری بات ادھار میں مانی جاتی ہے، دینی مدارس پر حملے کی تیاریاں کی جارہی ہیں، حکومت سے اختلاف پر دہشت گردی یا کرپشن کے الزام میں گرفتار کرلیا جاتا ہے۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ساری دنیاکے سامنے تحرییک انصاف نے استعفے دیئے، دھرنے میں اس پارلمینٹ کو کیا کچھ نہیں کہا گیا،عمران خان کی داستانیں لاس اینجلس سے اسلام آباد کے ڈی چوک تک تعفن پھیلا رہی ہیں، جو کچھ دھرنے میں کہا گیا اس کا دسواں حصہ بھی وہ کہتے تو خدا جانے کہاں ہوتے، 2007 میں جب ہم نے استعفے دیئے اس وقت کسی نے ہم سے نہیں پوچھا تھا، تحریک انصاف والے استفعوں سے متعلق خیرات بھی مانگ رہے ہیں تو وہ بھی بدمعاشی سے۔ تحریک انصاف استعفوں کی بنیاد پر خود اسمبلی سے نکل چکی لیکن وہ خودکشی بھی کرتے ہیں اورالٹا ہمیں قاتل بھی کہتے ہیں۔
جے یو آئی (ف) کے سربراہ کا کہنا تھا کہ جمہوریت کی تذلیل کی گئی، کیا یہ جمہوریت رحم کی مستحق نہیں؟۔ انہیں برا لگ رہا ہے کہ وہ وزیر اعظم کے ہوتے ہوئے پارلیمنٹ اراکین کی عزت و توقیر کی جنگ لڑرہے ہیں، ان کی جماعت حکومت کی اتحادی ہے، حکومت کے خلاف سازش میں ہم پیچھے نہیں ہٹے، اب بھی کوئی بحران آئے گا تو حکومت کے ساتھ کھڑے ہوں گے، وزیراعظم جہاں بلائیں ہم آجائیں گے لیکن پہلے ہماری بات تو سن لیں، وزیراعظم نواز شریف سیاسی جماعتوں کی آراء کا احترام کریں اور کبھی وہ بھی چھوٹی سے بات پر ہمارے ساتھ کھڑے ہوں۔
18ویں اور 21آئینی ترامیم سے متعلق مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ عدالت نے پارلیمنٹ کی بالادستی کوتسلیم کرتے ہوئے فیصلہ سنایا، وہ 18ویں اور21ویں ترامیم کے فیصلے کو قبول کرتے ہیں لیکن ان کی رائے سپریم کورٹ کے اختلافی جج صاحبان کے ساتھ ہے، پاکستان کے تمام دینی مدارس آج آئین اور پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑے ہیں، قانون میں ہمیشہ عمومیت ہوا کرتی ہے،قانون کا کوئی امتیازی رویہ نہیں ہوتا،ہم نے کبھی ضد کی بنیاد پر بات نہیں کی، مسئلہ نظریات کا نہیں اصولوں کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سے ہربات نقد منوا ئی جاتی ہے اور ہماری بات ادھار میں مانی جاتی ہے، دینی مدارس پر حملے کی تیاریاں کی جارہی ہیں، حکومت سے اختلاف پر دہشت گردی یا کرپشن کے الزام میں گرفتار کرلیا جاتا ہے۔