دانیال طریر
موت کسی بھی عمر میں ہو نفسیاتی طور پر مرحوم کے جاننے والوں کو بے وقت ہی لگتی ہے
جواں مرگ دانیال طریر سے میں زندگی میں صرف دو بار ملا ہوں اور وہ بھی کوئٹہ کے ان مشاعروں میں جو گزشتہ پانچ چھ برسوں میں عزیزی نوید حیدر ہاشمی اس کے رفقا اور برادرم منیر احمد بادینی جیسے سرپرستوں نے ترتیب دیے اور دونوں بار مجھے اس کے کلام اور ذہانت سے بھرپور آنکھوں اور گفتگو نے بہت متاثر کیا لیکن کوئی دیرپا تاثر اس لیے قائم نہ ہو سکا کہ یہ ملاقاتیں بوجوہ بہت سرسری تھیں مجھے یاد پڑتا ہے کہ نوید حیدر ہاشمی یا کسی اور دوست نے اس کی بیماری کے بارے میں بھی کوئی بات کی تھی لیکن ارد گرد کے شور اور لوگوں کی بھیڑ میں، میں ٹھیک سے سن نہ سکا اور یوں بھی اسے دیکھ کر (اس وقت) یہ احساس قطعاً نہیں ہوتا تھا کہ وہ کسی مرض الموت میں مبتلا ہے اب اس کے اس طرح کے شعر پڑھتا ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس قدر قریب سے موت کی آواز سن رہا تھا
لگتی ہے جسم پر منوں مٹی پڑی ہوئی
شاید طریر لوگوں نے دفنا دیا مجھے
عجیب گرد سی اڑنے لگی ہے رستوں میں
میں ڈر رہا ہوں سفر پر روانہ ہونے سے
ابھی میں دانیال طریر کے انتقال کی خبر کے شاک میں ہی تھا کہ کسی نے برادر عزیز اشرف جاوید کے 24 سالہ جوان بیٹے کی رحلت اور برادرم جنید سلیم کے بھائی کے قتل کی اطلاع دی۔
موت کسی بھی عمر میں ہو نفسیاتی طور پر مرحوم کے جاننے والوں کو بے وقت ہی لگتی ہے لیکن یہ تینوں موتیں تو واقعی ایسی تھیں جنھیں قبول کرنے میں معمول سے بھی زیادہ وقت لگتا ہے اور سمجھ میں بھی نہیں آتا کہ ان کا افسوس کیسے کیا جائے (شاید یہی وجہ ہے کہ میں ابھی تک اشرف جاوید سے باوجود بہت کوشش کے تعزیت بھی نہیں کر پایا) نوجوان شاعر علی زریون نے اپنے ہم عصر اور دوست کے حوالے سے ایک تعزیتی نظم لکھی ہے جو بے حد متاثر کن ہے مزید بات کرنے سے پہلے میں اس کے کچھ اشعار درج کرتا ہوں جن کا ایک ایک لفظ ان گہرے اور سچے جذبات کا عکاس ہے جو ایک شاعر نے اپنے دوست شاعر کے نام کیے ہیں
تعزیت کیا کروں تری' مرے دوست
روشنی بھی کبھی مری' مرے دوست؟
تو ابھی بات کر کے سویا تھا
ایسی کیا نیند آ گئی مرے دوست!
بجھ گیا سانس کا دیا تو کیا
جل اٹھی تیری شاعری' مرے دوست
کون بولے گا اب مجھے ایسے
او مری جان' او علی' مرے دوست
موت سے کیسے ہار سکتی ہے!
اتنی پرجوش زندگی' مرے دوست
تونے دھوکا دیا ہے مجھ کو طریر
یوں بھی کرتا ہے کیا کوئی! مرے دوست
عقیل عباس جعفری' ذاکر حسین ضیائی اور دیگر کئی معتبر اور مستعد ادبی خبر رسانوں نے دانیال طریر کے کئی ایسے خوب صورت اشعار اور نظمیں فیس بک پر ادبی دنیا سے شیئر کیے ہیں جن میں سے کچھ میرے لیے بھی نئے تھے حالانکہ میں جن چند نوجوانوں کی شاعری بہت باقاعدگی سے پڑھتا ہوں ان میں دانیال طریر کا شمار بھی ہوتا ہے ممکن ہے کہ اس نئے پن کی ایک وجہ یہ احساس بھی ہو کہ وہ اب ہمارے درمیان موجود نہیں رہا اور یوں بعض اشعار میں اب ایک نئی معنوی جہت آشکار ہو گئی ہے اور یہ معاملہ کم و بیش ان تمام شاعروں کے ساتھ ہوتا ہے جو نسبتاً جلد رخصت ہو جاتے ہیں مثال کے طور پر انگریزی کے بائرن' شیلے اور کیٹس ہوں یا اردو کے میرا جی' شکیب جلالی' پروین شاکر' آنس معین' قابل اجمیری یا دانیال طریر سب میں آپ کو یہ بات مشترک نظر آئے گی۔
موت کا احساس یوں تو ہر قابل ذکر شاعر کی شاعری میں کم یا زیادہ اپنی جھلک ضرور دکھاتا ہے لیکن اگر اس احساس میں جسم کے اندر ہونے والی توڑ پھوڑ کوئی واضح اور عملی شکل اختیار کر لے جیسا کہ بالخصوص دانیال طریر کے ساتھ ہوا کہ اس کے آخری چند برس ایک خطرناک کینسر کی زد میں گزرے جس کا سایہ خواہی نخواہی اس کے شعور اور لاشعور دونوں پر پڑتا تھا ادب کے حوالے سے اس کا تنقیدی شعور' مطالعہ اور تحریریں ایک خاص انداز کی حامل تھیں جن میں کہیں کہیں ایک اور جواں مرگ دوست قلم کار سراج منیر سے ایک طرح کی مشابہت نظر آتی تھی کہ رائے کے پیچھے اگر وسیع مطالعہ اور متاثر کن قوت اظہار ہو تو بات میں ایک ایسا وزن پیدا ہو جاتا ہے جو بہت سوں کو بڑھاپے میں بھی نصیب نہیں ہوتا۔
اس کا ذخیرہ الفاظ' تمثالیں اور مصرعوں کی بنت ایک مخصوص انفرادیت کے حامل تھے اس کی بیشتر نظموں کے عنوان اور موضوعات بھی بیک وقت مختلف' بامعنی اور متاثر کن تھے اور غزل میں بھی کیفیات اور الفاظ کے استعاراتی استعمال کی حد تک وہ اپنے ہم عصروں سے بہت حد تک الگ نظر آتا ہے وہ بڑی سادگی کے ساتھ دیکھی بھالی معمول کی چیزوں میں استہزا کے پہلو تلاش کر لیتا تھا جس کی ایک عمدہ مثال اس کی یہ غزل ہے جو اس بات کی شاہد ہے کہ اگر اسے مزید وقت ملتا تو وہ بہت آگے تک جا سکتا تھا۔
ایک بجھاؤ ایک جلاؤ' خواب کا کیا ہے
آنکھوں میں رکھ کر سو جاؤ' خواب کا کیا ہے
پاؤں تلے ہے' روند کے گزرو' کچل کے دیکھو
پیچھے جاؤ' آگے آؤ' خواب کا کیا ہے
شیلف پہ الٹا کر کے رکھ دو اور بسرا دو
گل دانوں میں پھول سجاؤ' خواب کا کیا ہے
نیند ملتی ہے' گڑ سے میٹھی' شہد سے شیریں
گاؤ' ناچو' ناچو' گاؤ' خواب کا کیا ہے
لایعنی ہے سب لایعنی' یعنی یعنی
اور کہانی لکھ کر لاؤ خواب کا کیا ہے
ایک کباڑی گلیوں گلیوں واج لگائے
راکھ خریدو' آگ کے بھاؤ' خواب کا کیا ہے
لگتی ہے جسم پر منوں مٹی پڑی ہوئی
شاید طریر لوگوں نے دفنا دیا مجھے
عجیب گرد سی اڑنے لگی ہے رستوں میں
میں ڈر رہا ہوں سفر پر روانہ ہونے سے
ابھی میں دانیال طریر کے انتقال کی خبر کے شاک میں ہی تھا کہ کسی نے برادر عزیز اشرف جاوید کے 24 سالہ جوان بیٹے کی رحلت اور برادرم جنید سلیم کے بھائی کے قتل کی اطلاع دی۔
موت کسی بھی عمر میں ہو نفسیاتی طور پر مرحوم کے جاننے والوں کو بے وقت ہی لگتی ہے لیکن یہ تینوں موتیں تو واقعی ایسی تھیں جنھیں قبول کرنے میں معمول سے بھی زیادہ وقت لگتا ہے اور سمجھ میں بھی نہیں آتا کہ ان کا افسوس کیسے کیا جائے (شاید یہی وجہ ہے کہ میں ابھی تک اشرف جاوید سے باوجود بہت کوشش کے تعزیت بھی نہیں کر پایا) نوجوان شاعر علی زریون نے اپنے ہم عصر اور دوست کے حوالے سے ایک تعزیتی نظم لکھی ہے جو بے حد متاثر کن ہے مزید بات کرنے سے پہلے میں اس کے کچھ اشعار درج کرتا ہوں جن کا ایک ایک لفظ ان گہرے اور سچے جذبات کا عکاس ہے جو ایک شاعر نے اپنے دوست شاعر کے نام کیے ہیں
تعزیت کیا کروں تری' مرے دوست
روشنی بھی کبھی مری' مرے دوست؟
تو ابھی بات کر کے سویا تھا
ایسی کیا نیند آ گئی مرے دوست!
بجھ گیا سانس کا دیا تو کیا
جل اٹھی تیری شاعری' مرے دوست
کون بولے گا اب مجھے ایسے
او مری جان' او علی' مرے دوست
موت سے کیسے ہار سکتی ہے!
اتنی پرجوش زندگی' مرے دوست
تونے دھوکا دیا ہے مجھ کو طریر
یوں بھی کرتا ہے کیا کوئی! مرے دوست
عقیل عباس جعفری' ذاکر حسین ضیائی اور دیگر کئی معتبر اور مستعد ادبی خبر رسانوں نے دانیال طریر کے کئی ایسے خوب صورت اشعار اور نظمیں فیس بک پر ادبی دنیا سے شیئر کیے ہیں جن میں سے کچھ میرے لیے بھی نئے تھے حالانکہ میں جن چند نوجوانوں کی شاعری بہت باقاعدگی سے پڑھتا ہوں ان میں دانیال طریر کا شمار بھی ہوتا ہے ممکن ہے کہ اس نئے پن کی ایک وجہ یہ احساس بھی ہو کہ وہ اب ہمارے درمیان موجود نہیں رہا اور یوں بعض اشعار میں اب ایک نئی معنوی جہت آشکار ہو گئی ہے اور یہ معاملہ کم و بیش ان تمام شاعروں کے ساتھ ہوتا ہے جو نسبتاً جلد رخصت ہو جاتے ہیں مثال کے طور پر انگریزی کے بائرن' شیلے اور کیٹس ہوں یا اردو کے میرا جی' شکیب جلالی' پروین شاکر' آنس معین' قابل اجمیری یا دانیال طریر سب میں آپ کو یہ بات مشترک نظر آئے گی۔
موت کا احساس یوں تو ہر قابل ذکر شاعر کی شاعری میں کم یا زیادہ اپنی جھلک ضرور دکھاتا ہے لیکن اگر اس احساس میں جسم کے اندر ہونے والی توڑ پھوڑ کوئی واضح اور عملی شکل اختیار کر لے جیسا کہ بالخصوص دانیال طریر کے ساتھ ہوا کہ اس کے آخری چند برس ایک خطرناک کینسر کی زد میں گزرے جس کا سایہ خواہی نخواہی اس کے شعور اور لاشعور دونوں پر پڑتا تھا ادب کے حوالے سے اس کا تنقیدی شعور' مطالعہ اور تحریریں ایک خاص انداز کی حامل تھیں جن میں کہیں کہیں ایک اور جواں مرگ دوست قلم کار سراج منیر سے ایک طرح کی مشابہت نظر آتی تھی کہ رائے کے پیچھے اگر وسیع مطالعہ اور متاثر کن قوت اظہار ہو تو بات میں ایک ایسا وزن پیدا ہو جاتا ہے جو بہت سوں کو بڑھاپے میں بھی نصیب نہیں ہوتا۔
اس کا ذخیرہ الفاظ' تمثالیں اور مصرعوں کی بنت ایک مخصوص انفرادیت کے حامل تھے اس کی بیشتر نظموں کے عنوان اور موضوعات بھی بیک وقت مختلف' بامعنی اور متاثر کن تھے اور غزل میں بھی کیفیات اور الفاظ کے استعاراتی استعمال کی حد تک وہ اپنے ہم عصروں سے بہت حد تک الگ نظر آتا ہے وہ بڑی سادگی کے ساتھ دیکھی بھالی معمول کی چیزوں میں استہزا کے پہلو تلاش کر لیتا تھا جس کی ایک عمدہ مثال اس کی یہ غزل ہے جو اس بات کی شاہد ہے کہ اگر اسے مزید وقت ملتا تو وہ بہت آگے تک جا سکتا تھا۔
ایک بجھاؤ ایک جلاؤ' خواب کا کیا ہے
آنکھوں میں رکھ کر سو جاؤ' خواب کا کیا ہے
پاؤں تلے ہے' روند کے گزرو' کچل کے دیکھو
پیچھے جاؤ' آگے آؤ' خواب کا کیا ہے
شیلف پہ الٹا کر کے رکھ دو اور بسرا دو
گل دانوں میں پھول سجاؤ' خواب کا کیا ہے
نیند ملتی ہے' گڑ سے میٹھی' شہد سے شیریں
گاؤ' ناچو' ناچو' گاؤ' خواب کا کیا ہے
لایعنی ہے سب لایعنی' یعنی یعنی
اور کہانی لکھ کر لاؤ خواب کا کیا ہے
ایک کباڑی گلیوں گلیوں واج لگائے
راکھ خریدو' آگ کے بھاؤ' خواب کا کیا ہے