وزیر اعلیٰ پنجاب کا ایک جرأت مندانہ فیصلہ
میں ذاتی طور پر شہباز شریف کی بعض صلاحیتوں کی زبردست معترف ہوں
لاہور میں ان دنوں ایک خاتون سرکاری افسر عائشہ ممتازکا بڑا چرچا ہے کہ اس باہمت خاتون نے بڑے بڑے ہوٹلوں، ریستورانوں، بیکریوں اور ان تمام فوڈ اسٹریٹ پہ اچانک چھاپہ مارکر ان نام نہاد ہوٹلوں کے کچن، برتن اور کھانے کی تیاری میں استعمال ہونے والے مصالحوں اور گھی وغیرہ کی کوالٹی کا معائنہ کرنا شروع کردیا ہے کہ وہ بڑے اور مشہور ہوٹل جہاں باوردی گارڈ دروازہ کھولنے کے لیے کھڑا ہے۔ جہاں کوریڈور اور لابی میں صفائی کا یہ عالم کہ تنکا بھی فرش پہ نظر نہیں آتا۔ ڈائننگ ہال میں کلف لگے سفید براق نیپکن جاپانی پنکھوں اورکنول کے پھول کی شکل میں سجے رکھے ہوں، وہاں اس کچن کا کیا حال ہے۔
جہاں کھانے اور بیکری آئٹم تیار کیے جاتے ہیں؟ جو کھانے بڑی بڑی رکابیوں میں رکھے اپنی خوشبو اور پیشکش کے انداز سے کھانے والوں کی اشتہا بڑھا رہے ہیں۔ ان میں کس جانور کا گوشت موجود ہے؟ یہ سب جاننے کی کبھی کسی نے ضرورت محسوس نہیں کی؟ البتہ چند سال پہلے کچھ نجی ٹی وی چینل نے لاہور کی بڑی معروف بیکریوں کے کچن پہ دھاوا بولا تھا۔ لوگوں نے اپنی آنکھوں سے وہاں کاکروچ، چوہے اور بلیاں دوڑتے بھاگتے دیکھی تھیں۔
میں ذاتی طور پر شہباز شریف کی بعض صلاحیتوں کی زبردست معترف ہوں اور پچھلے سالوں میں کئی بار یہ خواہش کرچکی ہوں کہ ''سندھ کو بھی ایک شہباز شریف کی ضرورت ہے۔'' یہ خواہش اب دعا بن چکی ہے مگر سندھ کے مقدر نہیں جاگے اور نہ جاگنے کی امید ہے کہ جب صوبے کا وزیر اعلیٰ ہر موقعے پہ آنکھیں بند کرکے جھپکی لینے کا عادی ہو تو وہاں گٹر ابلیں، شہر کوڑے کے ڈھیر میں تبدیل ہوجائے یا شہر کو سیلاب لے جائے۔ بقول میر صاحب وہ تو ''مژگاں'' بھی نہیں کھولتے۔ ایسے میں شہباز شریف کا صحت کے حوالے سے کھانوں کا معیار اور تیاری تک کے تمام مراحل کی جانچ پڑتال اور صفائی ستھرائی کی چیکنگ کے لیے جو ایک نڈر اور دبنگ خاتون آفیسر کو تعینات کیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔
سب سے بڑی بات یہ کہ شہباز شریف کسی کا دباؤ قبول نہیں کرتے۔ اسی لیے اپنا ٹارگٹ بھی حاصل کرلیتے ہیں۔ ہم اس بات پر ان کے شکر گزار ہیں کہ انھوں نے اس مشکل کام کے لیے ایک خاتون کا انتخاب کیا، اس کی ایک بنیادی وجہ تو یہ کہ کچن سے متعلق تمام معاملات کو خواتین ہی بہتر انداز میں سمجھ سکتی ہیں اور وہ رشوت بھی نہیں لیتیں۔ ابھی خواتین کی آنکھوں کا پانی مرا نہیں ہے۔
اس لیے وہ دباؤ اور رشوت کو خاطر میں نہیں لاتیں، بلکہ رشوت کو اپنی توہین سمجھتی ہیں۔ البتہ کچھ کالی بھیڑیں اب یہاں بھی پائی جانے لگی ہیں جو باقاعدہ رشوت کی رقم گن کر اپنے بیگ میں رکھتی ہیں بعد میں کاغذات پہ اپنے دست مبارک سے دستخط کرتی ہیں۔ ایسی خواتین کا تجربہ کسٹم اور جائیداد کے حوالوں سے کام کرانے والوں کو بخوبی ہے۔ ایسی صورتحال میں عائشہ ممتاز یقینا مبارک باد کی مستحق ہیں کہ وہ اپنا کام ایسی ذمے داری سے کر رہی ہیں کہ جس کی مثال کم ازکم گزشتہ دس بیس سالوں میں تو کہیں نظر نہیں آتی کہ یہ کام عموماً پہلے مرد حضرات کیا کرتے تھے جو برائے نام چھاپہ صرف اس لیے مارا کرتے تھے کہ ان کی رشوت کی گڈیوں میں اضافہ ہوسکے۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا بڑے بڑے فائیو اسٹار اور فور اسٹار ہوٹلز سے لے کر مختلف کلب ریستوران اور بڑی بیکریوں اور مٹھائی بنانے والوں کی کارکردگی جانچنے کے لیے اسے صرف لاہور تک ہی کیوں محدود کیا گیا؟ کراچی، اسلام آباد اور ہائی ویز پہ بنے ہوئے کھانوں کے ریستوران اور ڈھابے تک اس پروگرام کو کیوں نہیں بڑھایا گیا؟ کراچی کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں ڈنر تھا، جس میں ادبی لوگ شامل تھے۔ وہاں جو سالن اور چکن آئٹم رکھے تھے ۔
ان میں سے باسی کھانوں کی مخصوص مہک صاف آرہی تھی۔ کوفتوں کے نام پر چھوٹی چھوٹی گولیاں جیسے ٹماٹو کیچپ میں ڈوبی پڑی تھیں۔ کھانا کوئی بھی ذائقہ دار نہیں تھا۔ سب جانتے ہیں کہ ''اونچی دکان اور پھیکا پکوان'' کا مطلب کیا ہے۔ لیکن حیرت اور تعجب مجھے اس وقت ہوا، جب چار پانچ دن بعد ایک سرکاری ادارے کی جانب سے ایک مذاکرے کا اہتمام اسی ہوٹل میں کیا گیا تھا۔ لنچ کے دوران ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہی کوفتوں کی گولیاں اور چکن کڑاہی اپنی پوری آب و تاب سے کھانے کے شوقینوں کی منتظر تھیں۔
ہم نے اور ہماری ساتھی نے محض اپنا شک دور کرنے کے لیے دونوں چیزوں کو چکھا تو شک نہ صرف یقین میں بدلا بلکہ اپنے دو تین قریبی لوگوں کی وہ باتیں یاد آگئیں جو ان پنج ستارہ ہوٹلوں اور بڑے بڑے کلبوں کے انتظامی امور سے وابستہ تھے اور ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جو کھانے نہایت نفاست سے آپ کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں اگر ان کی تیاری اور وہاں کے کچن آپ دیکھ لیں تو قے کرتی ہوئی باہر آجائیں گی۔ خانساماں اور ہیلپر ننگے پاؤں، ننگے سر بغیر کپڑے کی بڑی مخصوص ٹوپی لگائے گندے ہاتھوں سے کام کرتے نظر آئیں گے۔ فرش دیواروں اور برتنوں کی گندگی الگ، باسی کھانے کئی کئی مہینے مائیکرو ویو اوون میں گرم کرکے ڈائننگ ہال میں سجا دیے جاتے ہیں۔
ہم سب صرف ظاہری حلیے پہ جاتے ہیں اور بس۔۔۔۔ اب تو بات معیار اور صفائی سے بہت آگے بڑھ چکی ہے کہ جو کباب، کوفتے، بہاری بوٹی، ملائی بوٹی اور دیگر گوشت کے آئٹم ٹیبل پہ سجتے ہیں وہ ہیں کس جانور کے؟ گدھے، گھوڑے، کتے یا بلی کے؟ پاکستانی قوم پیسہ کمانے کے چکر میں اتنی اندھی ہوچکی ہے کہ اسے اس سے بھی سروکار نہیں کہ تیتر اور بٹیر کے نام پر کوّے اور کوّے کے بچوں کو سیخوں میں پرو کر آپ کے معدوں میں پہنچایا جا رہا ہے۔
افسوس اس بات کا ہے کھانوں کے معیار اور اس کی تیاری کے مراحل کی چیکنگ کے سلسلے میں بجائے پنجاب گورنمنٹ اور متعلقہ خاتون کے کام کو سراہنا چاہیے، الٹا ایک گروہ جس کے مفاد پہ زد پڑ رہی ہے وہ اس بہادر اور ایمان دار خاتون کے خلاف لابنگ کر رہا ہے اور باقاعدہ کچھ لوگوں کو اس کی کردار کشی کے لیے لگا دیا گیا ہے۔
ساتھ ہی شہباز شریف صاحب پر بھی مختلف حوالوں سے یقینا دباؤ ڈلوایا گیا ہوگا۔ لیکن آفرین ہے ان پر کہ انھوں نے خاتون کو فری ہینڈ دے دیا ہے۔ جب دباؤ ڈلوانے والے اور دباؤ ڈالنے والوں، دونوں کو اندازہ ہوجائے گا کہ ان کی ''دال نہیں گلے گی'' تو وہ عافیت اسی میں سمجھیں گے کہ اپنے اپنے معاملات خود درست کرلیں۔ میرا تو یہ بھی کہنا ہے کہ لوگوں کو بھی چاہیے کہ جہاں وہ کھانا کھانے جا رہے ہیں وہاں کے کچن میں بھی جاکر دیکھیں۔ اگر انتظامیہ منع کرتی ہے تو سمجھ جائیں اور بغیر کچھ کھائے پیے واپس آجائیں۔
میں جانتی ہوں کہ جب یہ کالم چھپے گا تو بے شمار لوگ یہ کہیں گے کہ کام تو لاہور میں ہو رہا ہے۔ تعریف آپ ایسے کر رہی ہیں جیسے کراچی کے ہوٹلوں اور ریستورانوں پہ چھاپے پڑ رہے ہوں اور گدھوں کے گوشت کی نہاری، سیخ کباب اور بہاری بوٹی بنانے والوں پہ جرمانے کیے جا رہے ہیں، سزائیں دی جا رہی ہوں۔
گویا ''بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ'' والی مثال صادق آرہی ہے۔ بات تو درست ہے لیکن میری سوچ اس معاملے میں ذرا مختلف ہے۔ آج اگر لاہور میں ایک اچھے کام کا آغاز ہوا ہے تو ممکن ہے کل کراچی میں بھی کسی کو غیرت آئے اور وہ اپنے ضمیر کی آواز پہ اٹھ کھڑا ہو اور ثابت کرے کہ وہ ایک اچھا وزیر اعلیٰ ہے اور اس کی بات کی کوئی اہمیت بھی ہے۔ حالانکہ اس کا دور دور امکان نہیں کہ کراچی میں کسی بھی حوالے سے کسی بہتری کے امکانات روشن ہوسکیں لیکن کہیں تو بہتری کے امکان پیدا ہوئے۔
مجھے یاد ہے ایک بار90 کی دہائی میں جب میں انٹرمیڈیٹ کے امتحان کی نگران تھی تو ایک لڑکی کتاب کھول کر نقل کر رہی تھی اور انوی جیلیٹر چپ چاپ دروازے پہ کھڑی باہر دیکھ رہی تھی۔ میں نے کاپی اور نقل کا مواد پکڑا اور "UFM" کا کیس بنانے لگی تو انکشاف ہوا کہ موصوفہ ایک وردی والے کی ہمشیرہ ہیں۔
معاملات پرنسپل کو دباؤ میں لاکر نقل کروائی جا رہی تھی۔ قصہ تو طویل ہے بس مختصراً یہ کہ میں نے وردی پوش سے صرف اتنا کہا کہ آپ نے وردی اس لیے پہنی ہے کہ دھونس دھمکی سے ناجائز کام کرواسکیں تو میں ایسا نہیں ہونے دوں گی۔ خواہ آپ میرا ٹرانسفر اندرون سندھ کروا دیں۔ تب وہ شرمندہ تو ہوئے لیکن معافی مانگ کر مجھے رپورٹ بنانے سے روک دیا اور وعدہ کیا کہ آیندہ وہ بہن کے ساتھ نہیں آئیں گے نہ نقل کروانے کے لیے کوئی حربہ استعمال کریں گے۔ لیکن اگلے دن پتہ چلا کہ انھوں نے بہن کا سینٹر تبدیل کروا لیا۔