’’را جہ گدھ‘‘ پر تازہ نظر … …آخری حصہ

گدھ کا کردار اسی دیوانے پن کی علامت ہے جو مردار کھاتا ہے اور دیوانگی کا شکار ہو کر راتوں کو گھومتا رہتا ہے


Shabana Yousuf August 06, 2015
shaboroz@yahoo.co.uk

اس ناول کی مصنفہ بھی پرندوں کے ذریعے اپنے ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے، اس بات پر اصرار کرتی ہیں کہ انسان نے شعور کے ذریعے دوسرے کے استحصال کو ممکن بنایا ہے اور ناجائز ذرایع سے حاصل کیے گئے وسائل کو جب اپنے لیے بروئے کار لاتا ہے تو وہ وسائل اس کے لیے رزقِ حرام ہوتے ہیں، جو درحقیقت انسان کو دیوانہ پن کا شکار کر دیتے ہیں اور مزید حرام کھانے پر مائل کرتے ہیں، بالکل ایسے ہی جیسے ''گدھ جاتی'' مردار کھانے سے پاگل پن کا شکار ہو جاتی ہے۔

اسی طرح انسان بدنی یا روحانی حرام کا مرتکب ہو کر پاگل پن کا شکار ہوتا ہے، کیونکہ جب کوئی بھی انسان ایسے فعل کا یا حرام کھانے کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں اس کے خون میں ایسے جینز جنم لیتے ہیں جو اس میں یا اس کی نسلوں میں پاگل پن کا باعث بنتے ہیں۔ پاگل پن کی بھی یہاں دو اقسام بتائی گئی ہیں ایک وہ جو سماج اور مذہب کے مروجہ اصول و ضوابط کی پیروی نہ کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے جو منفی سرگرمی کا نتیجہ اور تباہی کا ذریعہ ہے تو دوسرا دیوانہ پن وہ جو انسان کو شعور کی سطح سے بلند کرتا ہوا زمان و مکان کی وسعتوں سے باہر لے آتا ہے۔

اس قسم کی دیوانگی کا شکار ہونے والے افراد مصنفہ کے خیال میں زمان و مکان کی حدود کو پار کر کے بہت دور تک دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آنے والے وقت یا ہونے والے واقعات کی پیشین گوئی کر سکتے ہیں۔ اس طرح پاگل پن کی ایک صورت سفلی خواہشات اور نا آسودہ آرزؤں کا نتیجہ ہے اور دوسرا دیوانہ پن ہے جو روحانیت اور عرفان کی دین اور انسانی فکر کی بلند سطح گردانا گیا ہے ۔ ''جس سے روح میں توانائی ہے۔ وہ ایک ہی جست میں کئی کئی منزلیں پار کرتی ہے... میرا ایمان ہے۔'' اس ناول کا مرکزی خیال یہی ہے جس کے گرد سارا ناول گھومتا ہے۔

اس میں گدھ کا کردار اسی دیوانے پن کی علامت ہے جو مردار کھاتا ہے اور دیوانگی کا شکار ہو کر راتوں کو گھومتا رہتا ہے، مگر مصنفہ گدھ کے مردار کھانے کے عمل کو سرشت کا حصہ گردانتے ہوئے قابل مذمت نہیں سمجھتی۔ اس تصور کے تحت اس خیال کو تقویت دی گئی ہے کہ انسان بہت سے معاملات میں بے اختیار ہے، لہذا بہت سے اعمال اس کے اختیار کی بات ہی نہیں۔ یہ سوچ فسطائیت کے لیے راہ ہموار کرتی ہے کہ ادب ہمیشہ سماج پر اپنے اثرات مرتب کرتا ہے، ناول کے کرداروں سے قاری متاثر ہوتا ہے اور ان خیالات کو عملی زندگی کا حصہ بھی بناتا ہے۔

سرشت کے جس نظریے کا اس ناول میں پرچار کیا گیا ہے یہ ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے بہت سے مذہبی و سیاسی ''راجہ گدھوں'' کو موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنے دانستہ کیے ہوئے استحصالی اور برے کام یا اپنی گھریلو ثقافت کے تحت اپنائی ہوئی عادتوں کو سرشت کی دین کہہ کر خود بری الزمہ ہو جائیں۔

اس ناول میں مذہبی عقائد کا اثبات کیا گیا ہے جو اس کے مقبول ہونے کی بنیادی وجہ ہے کہ یہ اپنے عہد اور سماج کی غالب فکر کا ترجمان ہے مگر راجہ گدھ کے ایک بڑا ناول نہ بننے کی وجہ بھی شاید یہی ہے کہ یہ اپنے عہد اور سماج کی بہت سی مذہبی و ثقافتی اور استحصالی ساختوں پر کوئی سوال قائم نہیں کر سکا، بلکہ یہ ناول اپنے سماج میں جڑ پکڑنے والی توہم پرستی پر سوال اٹھانے کی بجائے موضوعی خیالات اور دلائل کے ساتھ ایک غیر سائنسی تصور کو ذاتی مٖفروضات کی بناء پر درست ثابت کرنے کی سعی کرتا ہے۔ اس سب کے باجود لسانی جمالیات سے بھر پور یہ ناول ہمارے سماج کی جڑوں سے پیوست ہے۔

جو کسی بھی اچھے ناول کی بنیادی خوبی سمجھی جاتی ہے جس پر اپنے عہد کی غالب فکر کے گہرے اثرات ہیں اور یہی اثرات اور فکر واپس معاشرے پر جمالیاتی سطح پر زیادہ پر اثر طریقے سے اپنے اثرات مرتب کرتی آ رہی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اس میں پائے جانے والا ہائی پوتھسس پر تحقیق اس طور کی جائے کہ پاگل پن کا شکار افراد اور ہمارے سماج میں دیوانے بابے کا ڈھونگ رچانے والوں پر ایک ا یسی اسٹڈی کرائی جانی چاہیے جو ان افراد کی زندگیوں کا جائزہ لیں ۔

تا کہ ہمارے مقامی ادب سے جڑی تنقید و تھیوریوں کے جنم کا باعث بن سکے اور اس ناول میں پائے جانے والے موضوعاتی مگر مذہبی عقیدے کی تحت تشکیل والی پختہ فکر کی تصدیق یا تردید سائنٹفک بنیادوں پر ممکن ہو۔ بصورتِ دیگر اسے ایک موضوعی خیال یا مذہبی عقیدہ کہہ کر نظر انداز کر دینے سے یہ حقیقت نہیں بدل جائے گی کہ اس ناول کی تخیلاتی سرگرمی درحقیقت سماج کی مادی صورتحال ہی سے جنم لے رہی ہے، اور اس ناول میں پائے جانے والے خیالات خالی خیالات نہیں بلکہ یہ مادے اور تخیل کے باہم ربط کا نتیجہ ہیں جو ہمارے عہد کی نمایندگی بھی کرتے ہیں اور لوگوں کے اذہان پر اثرات بھی مرتب کرتے ہیں۔

ہماری تنقید و تحقیق بھی اسی طرح موضوعیت کا شکار رہے گی جیسا کہ ہمارا دب ابھی تک ہے، اس کی بنیادی وجہ مقامی ادب کو بنیاد بنا کر اپنے سماج کے حوالے سے عملی سطح پر ان خیالات کے اثرات اور ان کی سائنسی حیثیت کو متعین نہ کرنے کی روش ہے، یہی وجہ ہے کہ ابھی تک مقامیت سے جڑی ہوئی کوئی تنقیدی تھیوری پنپ نہیں سکی جو ہمارے مقامی ادب اور سماج کی حالت بدلنے میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں