بدبو دارکپڑے
قارئین سے معذرت کہ یہ کسی نئے واشنگ پاؤڈر کا اشتہار نہیں ہے۔ ٹیلی وژن کے ایک پروگرام کی مدح سرائی ہے۔
قارئین سے معذرت کہ یہ کسی نئے واشنگ پاؤڈر کا اشتہار نہیں ہے۔ ٹیلی وژن کے ایک پروگرام کی مدح سرائی ہے۔ پروگرام کا نام اس وقت مجھے یاد نہیں آ رہا، آپ اپنے دماغ پر زور ڈالیں گے تو ممکن ہے کہ یاد آ جائے۔ جب وہ پروگرام اپنے اختتامی مراحل میں تھا تو پروگرام پیشکار نے جلدی میں کہہ دیا 'بدبو دار کپڑے'، حالانکہ وہ کہنا کچھ اور چاہتے تھے۔ یہ غلطی ان سے سہواً ہو گئی یا وہ ہال میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے مذاق میں کہہ گئے، ازراہ تفنن۔ اس بات کی تہ تک پہنچنا دشوار ہے۔
ہال میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو حیرت ہوئی۔ بہت سے افراد کا حیرت سے منہ بھی کھل گیا اور جس کے نتیجے میں انھیں تھو تھو بھی کرتے دیکھا گیا۔ غالباً مکھی منہ کے اندر جانے سے۔ کچھ کو بغلیں جھانکتے بھی دیکھا گیا۔ بلکہ کیمرا مین نے دکھایا، جو نہیں دکھانا چاہیے تھا۔ مگر وہ بغلیں جھانک رہے تھے کہ اپنی بغلیں کہاں تک بدبودار ہو چکی ہیں اور انھیں انعام لینے کے لیے ہاتھ اٹھانا چاہیے یا نہیں۔ یہ انعام بہرحال باعث شرمندگی ہوتا اور ان کے ازدواجی تعلقات بھی خراب ہو سکتے تھے۔
اس لیے کہ ان کی نصف بہتر میں نے تو پروگرام میں شرکت کرنے والا جوڑا خوب اچھی طرح سے دھویا تھا، بلکہ کئی بار دھویا تھا اور پرفیوم کی دو بوتلیں آپ پر انڈیل کر آپ کو پروگرام میں شریک ہونے کے لیے بھیجا تھا، آپ کو بدبو دار انعام لیتے لاج نہ آئی؟ آپ نے تو ناک کٹوا دی، میں اپنے سہیلیوں کو کیا منہ دکھاؤں گی؟
سارے افراد اور ان کی سوچیں ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ کچھ نے سوچا کہ پروگرام میں شریک ہو گئے، لیکن ہاتھ میں کچھ نہ آیا۔ چلو بدبو دار انعام لینے میں کیا حرج ہے؟ ان میں سے پانچ کے دماغ میں ایک جیسا خیال آ گیا تھا، وہ تقریباً سب ہی اپنے زمانے میں کرکٹ کے بہترین کھلاڑی رہ چکے تھے، مگر جب پروگرام پیش کرنے والے صاحب مجمع کی طرح 'موبائل' پھینک رہے تھے تو وہ کیچ نہ کر سکے۔ ان سے آگے بیٹھے ہوئے کرکٹ کے تازہ کھلاڑیوں اور نوجوان تازہ خون نے دائیں بائیں ہاتھ مار کر 'پی موبائل' کیچ کر لیا۔
ان پانچوں پر شدید بے بسی طاری تھی اور وہ 'کھولاہٹ' میں مبتلا تھے۔ وہ فوراً اپنی جگہوں سے نہ صرف کھڑے ہو گئے بلکہ سب کو پھلانگتے اور اپنے سے آگے جانے والے افراد کو کہنیاں مارتے اس جگہ پر پہنچ گئے جو انعام ہتھیانے کے چکر میں تھے۔ غالباً انھوں نے پڑھ رکھا تھا کہ ترقی ایک تنگ زینے کو کہتے ہیں، جس سے سب ہی افراد آگے جا رہے ہیں۔ ایسے میں اپنے سے آگے جانے والوںکو اگر کہنیاں مارنا پڑیں، دھکا دینا پڑے یا ٹانگ پکڑ کر کھینچا پڑے تو اس سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔
وہ سب آگے پہنچ گئے اور انھوں نے خود کو پروگرام پیش کرنے والے کی کڑوی کسیلی اور طنزیہ باتوں کے لیے بھی تیار کر لیا۔ اس مقولے کے تحت کہ 'بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا؟' آخر ہٹلر اور چنگیز خان بھی تو اپنے خونی کارناموں سمیت تاریخ (بلکہ تاریک) صفحات پر زندہ ہیں۔
اس سے پہلے کہ پیشکار ان پر جملے کستا اور مسکرا مسکرا کر طنز اور تشنیع کے تیر چلاتا۔ ہال سے ہو ہو کھو کھو کی آوازیں آنے لگیں۔ خاص طور پر خواتین دوپٹے سے منہ ڈھانپ کر کھی کھی کرنے لگیں۔ ایک نے فقرہ اچھالا : ''بھئی کتنے دنوں سے نہیں نہایا ہے؟ '' یہ اس نے دائیں طرف کھڑے شخص سے پوچھا تھا جو بظاہر تو صاف ستھرا تھا، لیکن بدبو کے بھپکے اسی کی طرف سے آ رہے تھے، وہ قصائی تھا اور گلی کی ٹیم کا کپتان۔
''کیا نام ہے آپ کا؟'' پروگرام کے پیشکار نے پوچھا۔
''ندیم۔''
''مشغلہ کیا ہے آپ کا؟''
''یعنی میں کرتا کیا ہوں؟''
''جی ۔''
''خدا کی مہربانی سے میری دکان ہے گوشت کی۔''
''بات ہو رہی تھی، بدبودارکپڑوں کی، آپ تو سراپا بدبودار ہیں۔ اس لیے یہ انعام آپ کا ہوا۔'' اس نے ایک بڑا سا پیکٹ ندیم کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ''اس میں چھیچھڑے ہیں۔ خیال رکھنا۔ میرے ہاں اتفاق سے آپ ہی کی دکان سے گوشت آتا ہے۔ گوشت میں جتنے بھی چھیچھڑے ہیں وہ میں نے بڑی محنت سے جمع کیے ہیں۔ اب آپ کو پیش کر رہا ہوں۔ قبول فرمائیے۔'' تالیوں کی گونج میں وہ پیکٹ ندیم کا ہو گیا، جو صاحب کہلانے کا قطعی حقدار نہیں تھا۔
دوسرے کا نام ارسلان تھا۔ وہ جونا مارکیٹ میں مسالے کی بوریاں سپلائی کرتا تھا۔ اس لیے اسے پسینہ بہت آتا تھا۔ ہال ایئرکنڈیشنڈ تھا، مگر اس کے باوجود اسے پسینہ آ رہا تھا۔ پروگرام پیشکار نے اسے خوشبودار کپڑوں کا ایک جوڑا پیش کیا۔ پھر اسے خیال آیا کہ اس کے کپڑوں کی بو کیسے دور ہو گی؟ چنانچہ اس نے ایک کولونج اور دوسری پرفیوم کی بوتل تحفے میں دے دی۔
تیسرا ایک ہیر ڈریسر تھا، نام جس کا وحید تھا۔ لوگوں کے بال تراشتا تھا۔ یہ کوئی ایسا کام نہیں تھا جس میں سے بدبو آتی ہو۔ مگر احمقوں کیا علاج۔ جب وہ اپنی قمیص کا دامن اٹھا کر کہتے تھے۔ ''ذرا اسے بھی صاف کر دیجیے۔''
استرا وحید کے ہاتھ میں ہوا کرتا تھا، دل تو اس کا یہ چاہتا تھا کہ وہ قمیص کا دامن اٹھانے والے کا پیٹ چیر دے کہ وہ زمانہ گیا جب بغلیں صاف کرنا حجاموں کی ذمے دار ہوا کرتی تھی، لیکن دکان چلانا اور بزنس کرنا بہرحال اس کے فرائض میں شامل تھا۔ چنانچہ وہ استرا پھیر دیا کرتا تھا۔ لوگوں کی بغلوں کی بو اس کے دل دماغ اور جسم میں سرایت کر چکی تھی۔ جب پروگرام پیشکار نے اسے انعام دینے کی کوشش کی تو وہ پیچھے ہٹ گیا اور بولا۔ ''جناب زحمت نہ کریں ہم خاندانی لوگ ہیں، پیشہ لوگوں کی خدمت کرنا ہے۔ لیکن ہم میں حجاموں والی کوئی بات نہیں ہے۔ کبھی دکان پر آ کر دیکھ لیجیے۔ بلکہ بہتر ہو گا کہ بال ترشوا کر دیکھ لیجیے۔ میں کسی انعام و اکرام کا مستحق نہیں ہوں۔'' وہ انعام لیے بغیر اپنی جگہ پر جا بیٹھا۔ پروگرام کے پیشکار نے اسے پرفیوم کی ایک شیشی اور پی موبائل پیش کیا۔
چوتھا ناکو تھا، ماہی گیر۔ گھر والوں کے کہنے پر اس نے صاف کپڑے تو پہن لیے تھے، لیکن وہ پھر بھی صاف نہیں لگ رہے تھے۔ اس کا کہنا تھا کہ مچھلیاں اور جھینگے اس کے کپڑے گندے کر دیتی ہیں۔ ویسے بھی اسے کپڑوں سے زیادہ مچھلیوں کی فکر رہتی ہے۔ یقینا وہ محنت کش تھا، اس لیے اس کے کپڑوں سے بدبو آتی تھی۔ چنانچہ پروگرام پیشکار نے نہ صرف یہ کہ اسے کولونج کی ایک بوتل انعام میں دی بلکہ اس کے استعمال کا طریقہ بھی بتایا۔ اسے بھی پرفیوم کی بوتل دی گئی اور ایک ساڑھی انعام میں دی گئی۔ تا کہ وہ گھر والی کی ڈانٹ پھٹکار سے بچ سکے۔
پانچواں جوتے گانٹھتا تھا، بے قرار خان۔ اس کے جسم سے چمڑے کی بو آ رہی تھی۔ پروگرام پیشکار نے اسے بھی انعام و اکرام سے نوازا۔ پھر کہنے لگا۔ ''میں ان محنت کشو ں کی عظمت کو سلام کرتا ہوں ۔ ان کے جسم سے بدبو تو آ رہی ہے، مگر میں یہ بدبو میری سر آنکھوں پر۔ غلطی اسکرپٹ رائٹر کی ہے، دراصل مجھے ''خوشبو دار کپڑے'' کہنا چاہیے تھا، لیکن کچھ کا کچھ کہہ گیا۔ میں معافی چاہتا ہوں۔
ہال میں پیدا ہونے والی بدمزگی ختم ہو گئی۔
ہال میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو حیرت ہوئی۔ بہت سے افراد کا حیرت سے منہ بھی کھل گیا اور جس کے نتیجے میں انھیں تھو تھو بھی کرتے دیکھا گیا۔ غالباً مکھی منہ کے اندر جانے سے۔ کچھ کو بغلیں جھانکتے بھی دیکھا گیا۔ بلکہ کیمرا مین نے دکھایا، جو نہیں دکھانا چاہیے تھا۔ مگر وہ بغلیں جھانک رہے تھے کہ اپنی بغلیں کہاں تک بدبودار ہو چکی ہیں اور انھیں انعام لینے کے لیے ہاتھ اٹھانا چاہیے یا نہیں۔ یہ انعام بہرحال باعث شرمندگی ہوتا اور ان کے ازدواجی تعلقات بھی خراب ہو سکتے تھے۔
اس لیے کہ ان کی نصف بہتر میں نے تو پروگرام میں شرکت کرنے والا جوڑا خوب اچھی طرح سے دھویا تھا، بلکہ کئی بار دھویا تھا اور پرفیوم کی دو بوتلیں آپ پر انڈیل کر آپ کو پروگرام میں شریک ہونے کے لیے بھیجا تھا، آپ کو بدبو دار انعام لیتے لاج نہ آئی؟ آپ نے تو ناک کٹوا دی، میں اپنے سہیلیوں کو کیا منہ دکھاؤں گی؟
سارے افراد اور ان کی سوچیں ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ کچھ نے سوچا کہ پروگرام میں شریک ہو گئے، لیکن ہاتھ میں کچھ نہ آیا۔ چلو بدبو دار انعام لینے میں کیا حرج ہے؟ ان میں سے پانچ کے دماغ میں ایک جیسا خیال آ گیا تھا، وہ تقریباً سب ہی اپنے زمانے میں کرکٹ کے بہترین کھلاڑی رہ چکے تھے، مگر جب پروگرام پیش کرنے والے صاحب مجمع کی طرح 'موبائل' پھینک رہے تھے تو وہ کیچ نہ کر سکے۔ ان سے آگے بیٹھے ہوئے کرکٹ کے تازہ کھلاڑیوں اور نوجوان تازہ خون نے دائیں بائیں ہاتھ مار کر 'پی موبائل' کیچ کر لیا۔
ان پانچوں پر شدید بے بسی طاری تھی اور وہ 'کھولاہٹ' میں مبتلا تھے۔ وہ فوراً اپنی جگہوں سے نہ صرف کھڑے ہو گئے بلکہ سب کو پھلانگتے اور اپنے سے آگے جانے والے افراد کو کہنیاں مارتے اس جگہ پر پہنچ گئے جو انعام ہتھیانے کے چکر میں تھے۔ غالباً انھوں نے پڑھ رکھا تھا کہ ترقی ایک تنگ زینے کو کہتے ہیں، جس سے سب ہی افراد آگے جا رہے ہیں۔ ایسے میں اپنے سے آگے جانے والوںکو اگر کہنیاں مارنا پڑیں، دھکا دینا پڑے یا ٹانگ پکڑ کر کھینچا پڑے تو اس سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔
وہ سب آگے پہنچ گئے اور انھوں نے خود کو پروگرام پیش کرنے والے کی کڑوی کسیلی اور طنزیہ باتوں کے لیے بھی تیار کر لیا۔ اس مقولے کے تحت کہ 'بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا؟' آخر ہٹلر اور چنگیز خان بھی تو اپنے خونی کارناموں سمیت تاریخ (بلکہ تاریک) صفحات پر زندہ ہیں۔
اس سے پہلے کہ پیشکار ان پر جملے کستا اور مسکرا مسکرا کر طنز اور تشنیع کے تیر چلاتا۔ ہال سے ہو ہو کھو کھو کی آوازیں آنے لگیں۔ خاص طور پر خواتین دوپٹے سے منہ ڈھانپ کر کھی کھی کرنے لگیں۔ ایک نے فقرہ اچھالا : ''بھئی کتنے دنوں سے نہیں نہایا ہے؟ '' یہ اس نے دائیں طرف کھڑے شخص سے پوچھا تھا جو بظاہر تو صاف ستھرا تھا، لیکن بدبو کے بھپکے اسی کی طرف سے آ رہے تھے، وہ قصائی تھا اور گلی کی ٹیم کا کپتان۔
''کیا نام ہے آپ کا؟'' پروگرام کے پیشکار نے پوچھا۔
''ندیم۔''
''مشغلہ کیا ہے آپ کا؟''
''یعنی میں کرتا کیا ہوں؟''
''جی ۔''
''خدا کی مہربانی سے میری دکان ہے گوشت کی۔''
''بات ہو رہی تھی، بدبودارکپڑوں کی، آپ تو سراپا بدبودار ہیں۔ اس لیے یہ انعام آپ کا ہوا۔'' اس نے ایک بڑا سا پیکٹ ندیم کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ''اس میں چھیچھڑے ہیں۔ خیال رکھنا۔ میرے ہاں اتفاق سے آپ ہی کی دکان سے گوشت آتا ہے۔ گوشت میں جتنے بھی چھیچھڑے ہیں وہ میں نے بڑی محنت سے جمع کیے ہیں۔ اب آپ کو پیش کر رہا ہوں۔ قبول فرمائیے۔'' تالیوں کی گونج میں وہ پیکٹ ندیم کا ہو گیا، جو صاحب کہلانے کا قطعی حقدار نہیں تھا۔
دوسرے کا نام ارسلان تھا۔ وہ جونا مارکیٹ میں مسالے کی بوریاں سپلائی کرتا تھا۔ اس لیے اسے پسینہ بہت آتا تھا۔ ہال ایئرکنڈیشنڈ تھا، مگر اس کے باوجود اسے پسینہ آ رہا تھا۔ پروگرام پیشکار نے اسے خوشبودار کپڑوں کا ایک جوڑا پیش کیا۔ پھر اسے خیال آیا کہ اس کے کپڑوں کی بو کیسے دور ہو گی؟ چنانچہ اس نے ایک کولونج اور دوسری پرفیوم کی بوتل تحفے میں دے دی۔
تیسرا ایک ہیر ڈریسر تھا، نام جس کا وحید تھا۔ لوگوں کے بال تراشتا تھا۔ یہ کوئی ایسا کام نہیں تھا جس میں سے بدبو آتی ہو۔ مگر احمقوں کیا علاج۔ جب وہ اپنی قمیص کا دامن اٹھا کر کہتے تھے۔ ''ذرا اسے بھی صاف کر دیجیے۔''
استرا وحید کے ہاتھ میں ہوا کرتا تھا، دل تو اس کا یہ چاہتا تھا کہ وہ قمیص کا دامن اٹھانے والے کا پیٹ چیر دے کہ وہ زمانہ گیا جب بغلیں صاف کرنا حجاموں کی ذمے دار ہوا کرتی تھی، لیکن دکان چلانا اور بزنس کرنا بہرحال اس کے فرائض میں شامل تھا۔ چنانچہ وہ استرا پھیر دیا کرتا تھا۔ لوگوں کی بغلوں کی بو اس کے دل دماغ اور جسم میں سرایت کر چکی تھی۔ جب پروگرام پیشکار نے اسے انعام دینے کی کوشش کی تو وہ پیچھے ہٹ گیا اور بولا۔ ''جناب زحمت نہ کریں ہم خاندانی لوگ ہیں، پیشہ لوگوں کی خدمت کرنا ہے۔ لیکن ہم میں حجاموں والی کوئی بات نہیں ہے۔ کبھی دکان پر آ کر دیکھ لیجیے۔ بلکہ بہتر ہو گا کہ بال ترشوا کر دیکھ لیجیے۔ میں کسی انعام و اکرام کا مستحق نہیں ہوں۔'' وہ انعام لیے بغیر اپنی جگہ پر جا بیٹھا۔ پروگرام کے پیشکار نے اسے پرفیوم کی ایک شیشی اور پی موبائل پیش کیا۔
چوتھا ناکو تھا، ماہی گیر۔ گھر والوں کے کہنے پر اس نے صاف کپڑے تو پہن لیے تھے، لیکن وہ پھر بھی صاف نہیں لگ رہے تھے۔ اس کا کہنا تھا کہ مچھلیاں اور جھینگے اس کے کپڑے گندے کر دیتی ہیں۔ ویسے بھی اسے کپڑوں سے زیادہ مچھلیوں کی فکر رہتی ہے۔ یقینا وہ محنت کش تھا، اس لیے اس کے کپڑوں سے بدبو آتی تھی۔ چنانچہ پروگرام پیشکار نے نہ صرف یہ کہ اسے کولونج کی ایک بوتل انعام میں دی بلکہ اس کے استعمال کا طریقہ بھی بتایا۔ اسے بھی پرفیوم کی بوتل دی گئی اور ایک ساڑھی انعام میں دی گئی۔ تا کہ وہ گھر والی کی ڈانٹ پھٹکار سے بچ سکے۔
پانچواں جوتے گانٹھتا تھا، بے قرار خان۔ اس کے جسم سے چمڑے کی بو آ رہی تھی۔ پروگرام پیشکار نے اسے بھی انعام و اکرام سے نوازا۔ پھر کہنے لگا۔ ''میں ان محنت کشو ں کی عظمت کو سلام کرتا ہوں ۔ ان کے جسم سے بدبو تو آ رہی ہے، مگر میں یہ بدبو میری سر آنکھوں پر۔ غلطی اسکرپٹ رائٹر کی ہے، دراصل مجھے ''خوشبو دار کپڑے'' کہنا چاہیے تھا، لیکن کچھ کا کچھ کہہ گیا۔ میں معافی چاہتا ہوں۔
ہال میں پیدا ہونے والی بدمزگی ختم ہو گئی۔