سکھر بیراج تباہی کے دہانے پر
ہمارے فیصلہ سازوں کو پاک سرزمین سے ذرا سی بھی دل چسپی ہوتی تو ہم بارش کے پانی سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتے
ارباب اختیار کی بے حسی، مجرمانہ غفلت اور حکمت سے عاری پالیسیوں کے نتیجے میں ملک بھر میں برسنے والی باران رحمت زحمت بن چکی ہے۔ سیل بلا کی بپھری ہوئی موجیں چار سو دندنا رہی ہیں، بستیاں غرقاب اور پانی میں گھرے ہوئے بے یار و مدد گار لوگ دہائی دے رہے ہیں۔
ہمارے فیصلہ سازوں کو تاج و تخت کے علاوہ اس پاک سرزمین سے ذرا سی بھی دل چسپی ہوتی تو وہ یہ ضرور سوچتے اور کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کرتے تو اس نعمت عظمی بارش کے پانی سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکتا تھا۔ یہ باران رحمت برس ہا برس تک ہمارے کھیتوں کو سیراب کرسکتی ہے، لاکھوں ایکڑ بنجر اراضی کو قابل کاشت بناسکتی ہے اس سے ہزاروں میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ ارباب اختیار کی بے تدبیری، قومی یک جہتی کے فقدان، سیاسی نفرتوں اور ذاتی مفادات اور تعصبات کے سبب ہم نئے ڈیم بنانے کو تو تیار ہی نہیں بلکہ پرانے ڈیموں کو بھی تباہ و برباد اور ناکارہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔
اس کا ثبوت یہ ہے کہ ڈیموں سے نکلنے والی نہروں کی صفائی سے غافل ہیں اور ان میں جمع ہوجانے والی مٹی نہ نکال کر پانی کی گنجائش کو مزید کم سے کم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، اس بے حسی پر جتنا رویا جائے وہ کم ہے۔
یہ بات تو ایک عام شہری بھی جانتا اور ہم سب پر عیاں ہے کہ سکھر بیراج کے بغیر سندھ میں زراعت کوئی بھی معنی نہیں رکھتی ہے۔ کیوں کہ بیراج سے نکلنے والی ساتوں نہریں دور دراز علاقوں تک پانی پہنچا کر زمین کو سرسبز و شاداب بناتی ہیں۔ زراعت کے حوالے سے سکھر بیراج کی اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک سکھر بیراج جس توجہ کا مستحق ہے اس سے محروم رہا ہے۔
بیراج اور نہروں سے مٹی نکالنے (بھل صفائی مہم ) کے نام پر کثیر رقم سرکاری کاغذات میں تو خرچ کی جاتی ہے، لیکن برسر زمین اس کا کوئی وجود اور فائدہ نظر نہیں آتا۔ سکھر بیراج سے نکلنے والی نہروں میں لاکھوں ٹن مٹی جمع ہے اور بعض مقامات پر تو ریت کے ٹیلے بن گئے ہیں، اس قدر مٹی کی موجودی کے سبب نہریں نالوں کا منظر پیش کررہی ہیں اور آبادگار و کاشت کار زرعی پانی سے نہ صرف محروم ہوگئے ہیں بلکہ وہ ان کے لیے سیلاب کی صورت میں اذیتوں اور مشکلات کا طویل سلسلہ بھی بن گیا ہے۔
سندھ میں چوںکہ گڈو، سکھر اور کوٹری بیراج سمیت صرف تین بیراج ہیں۔ 9جون 1923 کو برطانوی دور حکومت میں سکھر بیراج کی تعمیر کو حتمی شکل دے کر کام کے آغاز کی منظوری دی گئی تھی اور یکم جولائی 1923 کو لینس ڈاؤن برج سے 3 میل دور بیراج کے تعمیراتی کام کا آغاز ہوا تھا۔ 1932میں مسٹر لارڈ جارج نے بیراج کا افتتاح کیا۔ اس بیراج میں 66 دروازے ہیں۔ جب کہ بیراج پہاڑی پتھروں اور اسٹیل کی مدد سے بنایا گیا۔ اس بیراج سے 10ملین ایکڑ کا رقبہ اس کی 7 بڑی نہروں کے ذریعے سیراب کیا جاتا ہے۔ بیراج سے نکلنے والی ساتوں نہروں کی تفصیلات درج ذیل ہیں۔
رائیٹ بینک سے نکلنے والی تینوں نہریں 20 لاکھ 11ہزار کمانڈ ایریا پر مشتمل ہیں، جن کی لمبائی 250 میل ہے۔ اس میں 18ہزار 960کیوسک پانی جمع کیا جاسکتا ہے۔ پہلی دادو کینال پانچ لاکھ 51 ہزار کمانڈ ایریا پر محیط اور اس کی لمبائی 132 میل ہے۔ اس میں 3ہزار 150کیوسک پانی ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ دوسری رائس کینال کا کمانڈ ایریا پانچ لاکھ 20 ہزار ہے جس کی لمبائی 82 میل ہے اور ڈیزائن کے مطابق اس میں 10ہزار 658 کیوسک پانی جمع ہوسکتا ہے۔
تیسری شمال مغرب کینال کے لیے 9لاکھ 40ہزار کمانڈ ایریا مختص ہے، جس کی لمبائی 36.1 میل ہے اور اس میں 5ہزار 152 کیوسک پانی محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔
سکھر بیراج کے لیفٹ بینک سے چار نہریں نکلتی ہیں جو کہ 55لاکھ42 ہزار کمانڈ ایریا پر مشتمل ہیں، جن کی لمبائی 534.5 میل ہے، اس میں 28ہزار 570کیوسک پانی بآسانی آسکتا ہے۔ پہلی کینال خیرپور ویسٹ ہے، جس کا کمانڈ ایریا 3لاکھ 22 ہزار اور لمبائی 41.9 میل ہے جس میں ایک ہزار 940کیوسک پانی جمع ہوتا ہے۔ دوسری روہڑی کینال کا کمانڈ ایریا 61 ہزار لمبائی 208 میل ہے اور اس میں 10ہزار 887کیوسک پانی جمع ہوتا ہے۔ تیسری نارا کینال ہے جس کا کمانڈ ایریا 22لاکھ40 ہزار ہے اور لمبائی 226 میل ہے، ڈیزائن کے مطابق اس میں 13ہزار 649کیوسک پانی کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔
چوتھی کینال خیرپور ایسٹ کا کمانڈ ایریا 3لاکھ 70ہزار ہے جس کی لمبائی 58.5 میل تک محیط ہے، جس میں 2ہزار 94کیوسک پانی جمع رہ سکتا ہے۔ اس طرح لیفٹ اور رائٹ بینک سے نکلنے والی ساتوں نہروں کا مجموعی طور پر کمانڈ ایریا75لاکھ52ہزار ہے، نہروں کی مجموعی لمبائی784.1میل ہے اور پانی کی گنجائش 47ہزار 530کیوسک ہے۔
ماضی پر نظر ڈالی جائے تو سکھر بیراج کے نزدیک جمع ہونے والی مٹی اور ریت کو نکالنے کے لیے ڈریجر کا استعمال کیا جاتا تھا مگر نامعلوم وجوہات کی بنا پر وہ سلسلہ بھی ختم کردیا گیا۔ نومبر 2004 میں بیراج میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو مزید بڑھانے اور مٹی نکالنے کے لیے محکمہ آب پاشی شعبہ مکینیکل نے نارہ جمڑاؤ میر پور خاص سے کم طاقت والا ڈریجر منگوا کر کام شروع کیا۔
چند ماہ جاری رہنے والے اس کام کی بدولت سکھر بیراج کی دائیں بازو کی سمت سے 3جب کہ بائیں بازو کی جانب سے 4نہریں نکلتی ہیں جو کہ اندرون سندھ سمیت ڈیرہ مراد جمالی کے ریگستانی علاقوں کو پانی فراہم کرنے میں انتہائی مفید ثابت ہوئی تھیں۔ تاہم دیگر کاموں کی طرح اس اہم منصوبے کو بھی نظر لگ گئی اور گزشتہ ایک دھائی سے میر پور خاص سے منگوایا گیا ڈریجر آج تک لیفٹ بینک پر ناکارہ کھڑا ہے۔ ڈریجر غیر فعال ہونے کی وجہ سے نہروں میں مٹی میں اضافہ ہورہا ہے ۔
چیف انجینئر مکینیکل ولی محمد نائچ کے مطابق میر پور خاص سے منگوایا گیا ڈریجر بوقت ضرورت چلایا جاتا ہے، تاہم بیراج کی بحالی اور پانی کی گنجائش میں اضافے کے لیے ملکی اور غیر ملکی کمپنیاں آئندہ سال اس حوالے سے کام شرو ع کردیں گی۔ اس پر سوائے اس کے کیا کہا جاسکتا ہے کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا۔
محکمہ آب پاشی کے قوانین کے مطابق کسی بھی سیلاب کے بعد فلیش آپریشن شروع کرنا لازمی ہوتا ہے۔ جو گزشتہ کئی سالوں سے نہ ہونے کے باعث بیگاری بند، زیرو پوائنٹ سے سکھر بیراج کے دائیں اور بائیں دہانوں پر ساڑھے تین کلو میٹر وسیع علاقے میں لاکھوں ٹن مٹی جمع ہوکر پانی کی گنجائش کو دن بدن کم کررہی ہے، جس کی وجہ سے رواں سال آنے والا 5 لاکھ کیوسک پانی8 لاکھ کیوسک کا منظر پیش کررہا ہے۔ اس سیلابی صورت حال نے محکمہ آب پاشی کی جانب سے خطیر رقم خرچ کرکے دریائے سندھ سے مٹی نکالنے کے کام کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔
محکمہ آب پاشی کی جانب سے لینس ڈاؤن برج سے سکھر بیراج ساڑھے3 کلو میٹر تک دائیں اور بائیں کناروں پر ضرورت کے مطابق مٹی نہ نکالنے کے باعث لاکھوں ٹن مٹی دریا میں موجود ہے۔ مٹی کی موجودی کی وجہ سے معمولی پانی بھی اونچے درجے کے سیلاب کا منظر پیش کررہا ہے جب کہ اس کے شہری نکاسی آب کے نظام پر انتہائی خراب اثرات مرتب ہونے لگے ہیں۔ واٹر ورکس اور سادھو بیلہ پولیس چوکی کے نزدیک دریائے سندھ میں چھوڑے جانے والے گندے پانی کی گزرگاہ پر دریائی پانی بیک مارنے کی وجہ سے نکاسی آب کا نظام غیر فعال ہوگیا ہے۔
ضرورت سے زیادہ مٹی جمع ہونے کے باعث محکمہ بلدیات اور نساسک کے انفرا اسٹرکچر کو بھی خاصا نقصان پہنچ رہا ہے، جس کی وجہ سے سکھر شہر سے دریا میں ڈالے جانے والے گندے پانی کے 6 پائپوں سے پانی واپس آرہا ہے۔ واٹر ورکس اور سادھو بیلہ پولیس چوکی کے نزدیک دریائی پانی کے بیک مارنے کی وجہ سے گندا پانی حال ہی میں کروڑوں روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والی شاہراہ بندر روڈ پر جمع ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے رواں ماہ میں تعمیر ہونے والی شاہراہ ناکارہ ہونے لگی ہے۔
سڑک پر لگائی جانے والی ٹف ٹائلز پانی کی موجودی کی وجہ سے بیٹھنے لگی ہے جب کہ نکاسی آب کا گندا پانی گھروں میں بھی داخل ہوگیا ہے۔ نساسک انتظامیہ نے دریائی پانی کو روکنے کے لیے فوری طور پر دونوں نکاسی آب کی لائنوں کو عارضی طور پر بند کردیا اور ہیوی مشینری کے ذریعے گٹروں کا پانی پائپ کے ذریعے دریا میں پھینکنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔
محکمہ آب پاشی کے ماہرین کے مطابق سیلابی صورت حال کے بعد بیراج انتظامیہ کو 2 لاکھ کیوسک پانی بند کرکے فلیش آپریشن شروع کرنا پڑتا ہے۔ 3 دن تک جاری رہنے والے آپریشن کے دوران 5 دروازے بند کرکے نہروں کی تمام مٹی نکالی جاتی ہے تاہم چند سال سے مذکورہ پریکٹس نہ ہونے اور ضرورت کے مطابق ہیوی ڈریجر کی عدم موجودی کے باعث سکھر بیراج اور اس کے ملحقہ علاقوں میں مٹی کے پہاڑ بنتے جارہے ہیں جو کہ خطرناک علامت ہے۔
اگست 2010 میں ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب اور سکھر بیراج سے گزرنے والے تقریباً 12لاکھ کیوسک پانی کے فوری بعد وفاقی و صوبائی حکومت نے بیراج کی تزئین و آرائش، پانی کی گنجائش 16لاکھ کیوسک کرنے، بیراج کے وسط میں طویل عرصے سے بند 10دروازوں کو فعال کرنے کے حوالے سے ایک برطانوی اور2 ملکی نام ور کمپنیوں کی خدمات حاصل کرکے بحالی کا منصوبہ ترتیب دیا تھا۔ کمپنیوں میں موجود محکمہ آب پاشی کے سابق ماہرین و کنسلٹنٹ نے گزشتہ 3سال کے دوران مختلف پہلوؤں سے تحقیق اور تجربات کے بعد حکومت کو بحالی کے حوالے سے تجاویز دیں، جن میں بیراج پر پانی کی گنجائش 9سے 16لاکھ کرنے، 10 دروازوں کو کھولنے کے مثبت پہلو، دائیں و بائیں جمع مٹی کو ہیوی ڈریجر سے نکالنے کی تجاویز شامل تھیں۔ لیکن پھر کیا ہوا۔۔۔ ! تحقیق اور منصوبہ بندی کا ثمر تو عمل کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔
بیراج اور نہروں میں جمع مٹی کو نکالنے کے لیے فلیش آپریشن شروع نہ کرنے کا محکمہ آپریشن کے افسران کچھ مختلف انداز سے جواز پیش کرتے ہیں۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ضرورت کے مطابق ہیوی ڈریجر اور فنڈز نہ ہونا اہم مسئلہ ہے، اس کے بعد 15جنوری سے5 فروری تک بھل صفائی مہم کے دوران پانی بند ہونے کے باعث ٹیل کے آبادگار شدید مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں اور فصلوں کو پہنچنے والے نقصانات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس حوالے سے محدود کام کیا جاتا ہے۔
2005 میں فرنٹیئر ورکس آرگنائیزیشن (ایف ڈبلیو او) کی جانب سے رائٹ سائیڈ پر دو دروازوں کو پہنچنے والے نقصانات کے بعد بحالی کے کام کے دوران نکالی جانے والی مٹی کے باعث پانی کی گنجائش میں خاطر خواہ اضافہ ہوا تھا۔
سکھر بیراج میں پانی کی گنجائش میں اضافے کا منصوبہ کب تک شروع ہوگا۔ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا تاہم اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام تر وسائل بروئے کار لاتے ہوئے سکھر بیراج کے اطراف اور زیرو پوائنٹ سے لے کر بیراج تک ساڑھے 3کلو میٹر تک کے رقبے میں موجود مٹی کو ہنگامی بنیادوں پر نکالا جائے تاکہ سکھر بیراج کو آئندہ آنے والے سیلابوں سے محفوظ رکھا جاسکے۔ شاید ارباب اختیار تک بے بس و لاچار عوام کی التجا پہنچ سکے اور وہ اس پر عمل درآمد کا آغاز کریں۔
ہمارے فیصلہ سازوں کو تاج و تخت کے علاوہ اس پاک سرزمین سے ذرا سی بھی دل چسپی ہوتی تو وہ یہ ضرور سوچتے اور کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کرتے تو اس نعمت عظمی بارش کے پانی سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکتا تھا۔ یہ باران رحمت برس ہا برس تک ہمارے کھیتوں کو سیراب کرسکتی ہے، لاکھوں ایکڑ بنجر اراضی کو قابل کاشت بناسکتی ہے اس سے ہزاروں میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ ارباب اختیار کی بے تدبیری، قومی یک جہتی کے فقدان، سیاسی نفرتوں اور ذاتی مفادات اور تعصبات کے سبب ہم نئے ڈیم بنانے کو تو تیار ہی نہیں بلکہ پرانے ڈیموں کو بھی تباہ و برباد اور ناکارہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔
اس کا ثبوت یہ ہے کہ ڈیموں سے نکلنے والی نہروں کی صفائی سے غافل ہیں اور ان میں جمع ہوجانے والی مٹی نہ نکال کر پانی کی گنجائش کو مزید کم سے کم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، اس بے حسی پر جتنا رویا جائے وہ کم ہے۔
یہ بات تو ایک عام شہری بھی جانتا اور ہم سب پر عیاں ہے کہ سکھر بیراج کے بغیر سندھ میں زراعت کوئی بھی معنی نہیں رکھتی ہے۔ کیوں کہ بیراج سے نکلنے والی ساتوں نہریں دور دراز علاقوں تک پانی پہنچا کر زمین کو سرسبز و شاداب بناتی ہیں۔ زراعت کے حوالے سے سکھر بیراج کی اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک سکھر بیراج جس توجہ کا مستحق ہے اس سے محروم رہا ہے۔
بیراج اور نہروں سے مٹی نکالنے (بھل صفائی مہم ) کے نام پر کثیر رقم سرکاری کاغذات میں تو خرچ کی جاتی ہے، لیکن برسر زمین اس کا کوئی وجود اور فائدہ نظر نہیں آتا۔ سکھر بیراج سے نکلنے والی نہروں میں لاکھوں ٹن مٹی جمع ہے اور بعض مقامات پر تو ریت کے ٹیلے بن گئے ہیں، اس قدر مٹی کی موجودی کے سبب نہریں نالوں کا منظر پیش کررہی ہیں اور آبادگار و کاشت کار زرعی پانی سے نہ صرف محروم ہوگئے ہیں بلکہ وہ ان کے لیے سیلاب کی صورت میں اذیتوں اور مشکلات کا طویل سلسلہ بھی بن گیا ہے۔
سندھ میں چوںکہ گڈو، سکھر اور کوٹری بیراج سمیت صرف تین بیراج ہیں۔ 9جون 1923 کو برطانوی دور حکومت میں سکھر بیراج کی تعمیر کو حتمی شکل دے کر کام کے آغاز کی منظوری دی گئی تھی اور یکم جولائی 1923 کو لینس ڈاؤن برج سے 3 میل دور بیراج کے تعمیراتی کام کا آغاز ہوا تھا۔ 1932میں مسٹر لارڈ جارج نے بیراج کا افتتاح کیا۔ اس بیراج میں 66 دروازے ہیں۔ جب کہ بیراج پہاڑی پتھروں اور اسٹیل کی مدد سے بنایا گیا۔ اس بیراج سے 10ملین ایکڑ کا رقبہ اس کی 7 بڑی نہروں کے ذریعے سیراب کیا جاتا ہے۔ بیراج سے نکلنے والی ساتوں نہروں کی تفصیلات درج ذیل ہیں۔
رائیٹ بینک سے نکلنے والی تینوں نہریں 20 لاکھ 11ہزار کمانڈ ایریا پر مشتمل ہیں، جن کی لمبائی 250 میل ہے۔ اس میں 18ہزار 960کیوسک پانی جمع کیا جاسکتا ہے۔ پہلی دادو کینال پانچ لاکھ 51 ہزار کمانڈ ایریا پر محیط اور اس کی لمبائی 132 میل ہے۔ اس میں 3ہزار 150کیوسک پانی ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ دوسری رائس کینال کا کمانڈ ایریا پانچ لاکھ 20 ہزار ہے جس کی لمبائی 82 میل ہے اور ڈیزائن کے مطابق اس میں 10ہزار 658 کیوسک پانی جمع ہوسکتا ہے۔
تیسری شمال مغرب کینال کے لیے 9لاکھ 40ہزار کمانڈ ایریا مختص ہے، جس کی لمبائی 36.1 میل ہے اور اس میں 5ہزار 152 کیوسک پانی محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔
سکھر بیراج کے لیفٹ بینک سے چار نہریں نکلتی ہیں جو کہ 55لاکھ42 ہزار کمانڈ ایریا پر مشتمل ہیں، جن کی لمبائی 534.5 میل ہے، اس میں 28ہزار 570کیوسک پانی بآسانی آسکتا ہے۔ پہلی کینال خیرپور ویسٹ ہے، جس کا کمانڈ ایریا 3لاکھ 22 ہزار اور لمبائی 41.9 میل ہے جس میں ایک ہزار 940کیوسک پانی جمع ہوتا ہے۔ دوسری روہڑی کینال کا کمانڈ ایریا 61 ہزار لمبائی 208 میل ہے اور اس میں 10ہزار 887کیوسک پانی جمع ہوتا ہے۔ تیسری نارا کینال ہے جس کا کمانڈ ایریا 22لاکھ40 ہزار ہے اور لمبائی 226 میل ہے، ڈیزائن کے مطابق اس میں 13ہزار 649کیوسک پانی کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔
چوتھی کینال خیرپور ایسٹ کا کمانڈ ایریا 3لاکھ 70ہزار ہے جس کی لمبائی 58.5 میل تک محیط ہے، جس میں 2ہزار 94کیوسک پانی جمع رہ سکتا ہے۔ اس طرح لیفٹ اور رائٹ بینک سے نکلنے والی ساتوں نہروں کا مجموعی طور پر کمانڈ ایریا75لاکھ52ہزار ہے، نہروں کی مجموعی لمبائی784.1میل ہے اور پانی کی گنجائش 47ہزار 530کیوسک ہے۔
ماضی پر نظر ڈالی جائے تو سکھر بیراج کے نزدیک جمع ہونے والی مٹی اور ریت کو نکالنے کے لیے ڈریجر کا استعمال کیا جاتا تھا مگر نامعلوم وجوہات کی بنا پر وہ سلسلہ بھی ختم کردیا گیا۔ نومبر 2004 میں بیراج میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو مزید بڑھانے اور مٹی نکالنے کے لیے محکمہ آب پاشی شعبہ مکینیکل نے نارہ جمڑاؤ میر پور خاص سے کم طاقت والا ڈریجر منگوا کر کام شروع کیا۔
چند ماہ جاری رہنے والے اس کام کی بدولت سکھر بیراج کی دائیں بازو کی سمت سے 3جب کہ بائیں بازو کی جانب سے 4نہریں نکلتی ہیں جو کہ اندرون سندھ سمیت ڈیرہ مراد جمالی کے ریگستانی علاقوں کو پانی فراہم کرنے میں انتہائی مفید ثابت ہوئی تھیں۔ تاہم دیگر کاموں کی طرح اس اہم منصوبے کو بھی نظر لگ گئی اور گزشتہ ایک دھائی سے میر پور خاص سے منگوایا گیا ڈریجر آج تک لیفٹ بینک پر ناکارہ کھڑا ہے۔ ڈریجر غیر فعال ہونے کی وجہ سے نہروں میں مٹی میں اضافہ ہورہا ہے ۔
چیف انجینئر مکینیکل ولی محمد نائچ کے مطابق میر پور خاص سے منگوایا گیا ڈریجر بوقت ضرورت چلایا جاتا ہے، تاہم بیراج کی بحالی اور پانی کی گنجائش میں اضافے کے لیے ملکی اور غیر ملکی کمپنیاں آئندہ سال اس حوالے سے کام شرو ع کردیں گی۔ اس پر سوائے اس کے کیا کہا جاسکتا ہے کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا۔
محکمہ آب پاشی کے قوانین کے مطابق کسی بھی سیلاب کے بعد فلیش آپریشن شروع کرنا لازمی ہوتا ہے۔ جو گزشتہ کئی سالوں سے نہ ہونے کے باعث بیگاری بند، زیرو پوائنٹ سے سکھر بیراج کے دائیں اور بائیں دہانوں پر ساڑھے تین کلو میٹر وسیع علاقے میں لاکھوں ٹن مٹی جمع ہوکر پانی کی گنجائش کو دن بدن کم کررہی ہے، جس کی وجہ سے رواں سال آنے والا 5 لاکھ کیوسک پانی8 لاکھ کیوسک کا منظر پیش کررہا ہے۔ اس سیلابی صورت حال نے محکمہ آب پاشی کی جانب سے خطیر رقم خرچ کرکے دریائے سندھ سے مٹی نکالنے کے کام کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔
محکمہ آب پاشی کی جانب سے لینس ڈاؤن برج سے سکھر بیراج ساڑھے3 کلو میٹر تک دائیں اور بائیں کناروں پر ضرورت کے مطابق مٹی نہ نکالنے کے باعث لاکھوں ٹن مٹی دریا میں موجود ہے۔ مٹی کی موجودی کی وجہ سے معمولی پانی بھی اونچے درجے کے سیلاب کا منظر پیش کررہا ہے جب کہ اس کے شہری نکاسی آب کے نظام پر انتہائی خراب اثرات مرتب ہونے لگے ہیں۔ واٹر ورکس اور سادھو بیلہ پولیس چوکی کے نزدیک دریائے سندھ میں چھوڑے جانے والے گندے پانی کی گزرگاہ پر دریائی پانی بیک مارنے کی وجہ سے نکاسی آب کا نظام غیر فعال ہوگیا ہے۔
ضرورت سے زیادہ مٹی جمع ہونے کے باعث محکمہ بلدیات اور نساسک کے انفرا اسٹرکچر کو بھی خاصا نقصان پہنچ رہا ہے، جس کی وجہ سے سکھر شہر سے دریا میں ڈالے جانے والے گندے پانی کے 6 پائپوں سے پانی واپس آرہا ہے۔ واٹر ورکس اور سادھو بیلہ پولیس چوکی کے نزدیک دریائی پانی کے بیک مارنے کی وجہ سے گندا پانی حال ہی میں کروڑوں روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والی شاہراہ بندر روڈ پر جمع ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے رواں ماہ میں تعمیر ہونے والی شاہراہ ناکارہ ہونے لگی ہے۔
سڑک پر لگائی جانے والی ٹف ٹائلز پانی کی موجودی کی وجہ سے بیٹھنے لگی ہے جب کہ نکاسی آب کا گندا پانی گھروں میں بھی داخل ہوگیا ہے۔ نساسک انتظامیہ نے دریائی پانی کو روکنے کے لیے فوری طور پر دونوں نکاسی آب کی لائنوں کو عارضی طور پر بند کردیا اور ہیوی مشینری کے ذریعے گٹروں کا پانی پائپ کے ذریعے دریا میں پھینکنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔
محکمہ آب پاشی کے ماہرین کے مطابق سیلابی صورت حال کے بعد بیراج انتظامیہ کو 2 لاکھ کیوسک پانی بند کرکے فلیش آپریشن شروع کرنا پڑتا ہے۔ 3 دن تک جاری رہنے والے آپریشن کے دوران 5 دروازے بند کرکے نہروں کی تمام مٹی نکالی جاتی ہے تاہم چند سال سے مذکورہ پریکٹس نہ ہونے اور ضرورت کے مطابق ہیوی ڈریجر کی عدم موجودی کے باعث سکھر بیراج اور اس کے ملحقہ علاقوں میں مٹی کے پہاڑ بنتے جارہے ہیں جو کہ خطرناک علامت ہے۔
اگست 2010 میں ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب اور سکھر بیراج سے گزرنے والے تقریباً 12لاکھ کیوسک پانی کے فوری بعد وفاقی و صوبائی حکومت نے بیراج کی تزئین و آرائش، پانی کی گنجائش 16لاکھ کیوسک کرنے، بیراج کے وسط میں طویل عرصے سے بند 10دروازوں کو فعال کرنے کے حوالے سے ایک برطانوی اور2 ملکی نام ور کمپنیوں کی خدمات حاصل کرکے بحالی کا منصوبہ ترتیب دیا تھا۔ کمپنیوں میں موجود محکمہ آب پاشی کے سابق ماہرین و کنسلٹنٹ نے گزشتہ 3سال کے دوران مختلف پہلوؤں سے تحقیق اور تجربات کے بعد حکومت کو بحالی کے حوالے سے تجاویز دیں، جن میں بیراج پر پانی کی گنجائش 9سے 16لاکھ کرنے، 10 دروازوں کو کھولنے کے مثبت پہلو، دائیں و بائیں جمع مٹی کو ہیوی ڈریجر سے نکالنے کی تجاویز شامل تھیں۔ لیکن پھر کیا ہوا۔۔۔ ! تحقیق اور منصوبہ بندی کا ثمر تو عمل کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔
بیراج اور نہروں میں جمع مٹی کو نکالنے کے لیے فلیش آپریشن شروع نہ کرنے کا محکمہ آپریشن کے افسران کچھ مختلف انداز سے جواز پیش کرتے ہیں۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ضرورت کے مطابق ہیوی ڈریجر اور فنڈز نہ ہونا اہم مسئلہ ہے، اس کے بعد 15جنوری سے5 فروری تک بھل صفائی مہم کے دوران پانی بند ہونے کے باعث ٹیل کے آبادگار شدید مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں اور فصلوں کو پہنچنے والے نقصانات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس حوالے سے محدود کام کیا جاتا ہے۔
2005 میں فرنٹیئر ورکس آرگنائیزیشن (ایف ڈبلیو او) کی جانب سے رائٹ سائیڈ پر دو دروازوں کو پہنچنے والے نقصانات کے بعد بحالی کے کام کے دوران نکالی جانے والی مٹی کے باعث پانی کی گنجائش میں خاطر خواہ اضافہ ہوا تھا۔
سکھر بیراج میں پانی کی گنجائش میں اضافے کا منصوبہ کب تک شروع ہوگا۔ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا تاہم اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام تر وسائل بروئے کار لاتے ہوئے سکھر بیراج کے اطراف اور زیرو پوائنٹ سے لے کر بیراج تک ساڑھے 3کلو میٹر تک کے رقبے میں موجود مٹی کو ہنگامی بنیادوں پر نکالا جائے تاکہ سکھر بیراج کو آئندہ آنے والے سیلابوں سے محفوظ رکھا جاسکے۔ شاید ارباب اختیار تک بے بس و لاچار عوام کی التجا پہنچ سکے اور وہ اس پر عمل درآمد کا آغاز کریں۔