فوجی عدالتوں کا قیام شاید ناگزیر تھا

فوجی عدالتوں کا قیام نہ ایک ادارے کی دوسرے ادارے پر فوقیت کو ظاہر کرتا ہے اور نہ یہ کسی ریاستی ستون پر عدم اعتماد ہے۔


ملیحہ خادم August 06, 2015
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ واقعی اب دہشت گردوں کو جلد از جلد منطقی انجام تک پہنچایا جاسکے گا۔ فوٹو: فائل

لاہور:

پاکستان کے سپریم کورٹ نے تقریباً 6 ماہ بعد بالآخر فوجی عدالتوں کے قیام سے متعلق فیصلہ سنا دیا اور فوجی عدالتوں کو قانونی قراریتے ہوئے 21 ویں ترمیم کے خلاف درخواستیں مسترد کردیں، اسکے ساتھ ہی فوجی عدالتوں کے فیصلوں پر دئے گئے حکم امتناع بھی ختم ہوگئے۔


چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 17 رکنی لارجر بنچ نے اس کیس کی سماعت کی جس میں سے 11 ججوں نے فوجی عدالتیں آئینی قرار دیں جبکہ 6 نے اسکی مخالفت کی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے 25 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ لکھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ فیصلے آئین کے مطابق ہونے چاہئیں۔ کسی اجنبی فلسفے کی بنیاد پر فیصلے نہ ہوں۔ مزید یہ کہ پارلیمنٹ مقتدر اعلیٰ نہیں ہے اور یہ کہ سپریم کورٹ کو آئینی ترامیم کو کالعدم قرار دینے کا اختیار حاصل ہے ۔


وکلاء اس فیصلے پر منقسم رائے رکھتے ہیں۔ کچھ کے مطابق یہ نظریہ ضرورت کی از سر نو پیدائش ہے جب کہ کچھ نے اسے احسن اور آئینی فیصلہ قرار دیا ہے۔ سیاست دانوں کی اکثریت چاہتے ہوئے یا مجبوراً ملٹری کورٹس کے حق میں ہے جب ہی تو 21 ویں ترمیم پارلیمنٹ سے منظور ہوئی لیکن مولانا فضل الرحمٰن شروع سے لیکر آج تک اسکے مخالف ہیں۔ انکا موقف ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت مدارس کو نشانہ بنایا جارہا ہے جو بلا جواز ہے۔ دوسری طرف وزیراعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی میں اس فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو تقویت ملے گی۔



اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ واقعی اب دہشت گردوں کو جلد از جلد منطقی انجام تک پہنچایا جاسکے گا لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر ایسی عدالتوں کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ ملک میں آزاد عدلیہ موجود ہے جو کٹھن جدوجہد کے بعد اس مقام تک پہنچی ہے، عوام اور تمام اداروں کو اس پر اعتماد بھی ہے پھر کیوں ملٹری کورٹس کا قیام نا گزیر ٹھہرا؟ وجہ یہ ہے کہ دہشت گردی سے متعلق فیصلوں میں عدلیہ مصلحتوں کا شکار نظر آتی ہے۔ کتنی ہی رپورٹس گواہ ہیں کہ ایسے مخصوص کیسوں کی سماعت سے اکثر جج اسلئے معذرت کرلیتے ہیں کہ کٹہرے میں کھڑے ملزم یا مجرم انہیں انکی ذات اور خاندان کے حوالے سے سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ گواہوں کی عدم موجودگی بھی فیصلوں میں تاخیر کا سبب بنتی ہے اور بسا اوقات ناکافی ثبوت ہونے پر ایسے عناصر عدالتوں سے ''باعزت بری'' ہوجاتے ہیں اور واپس آکر معاشرے میں وہی فساد برپا کردیتے ہیں جو انکی گرفتاری کی وجہ بنا ہوتا ہے۔ کمزور قانونی گرفت کے باعث یہ عناصر اتنی طاقت پکڑ چکے ہیں کہ عدالتیں ان کے سامنے ریت کا گھروندہ ثابت ہوتی ہیں۔ گواہوں کے تحفظ کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے اکثر گواہ اپنی جان و عزت کے تحفظ کی خاطر ایسے بکھیڑوں سے بچتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دہشت گردوں اور شر پسندوں کی تعداد، ہمت و جرأت میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔


پاکستان نے دہشت گردی کی وجہ سے 60 ہزار جانوں کا نقصان برداشت کیا۔ ملک کی معیشت اور معاشرتی ڈھانچہ ہچکولوں کی زد میں آگیا لیکن مفادات اور مصلحتوں نے ایسا جال بچھایا کہ ہم کئی سال تک یہ فیصلہ ہی نہ کر پائے کہ اس لعنت سے نمٹا کیسے جائے۔ آرمی پبلک اسکول سانحے نے پہلی بار اس مسئلہ پر قومی اتفاق رائے پیدا کیا اور پہلی ہی بار کئی لوگوں کو آپریشن ضرب عضب اور قومی ایکشن پلان کی کڑوی گولی نگلنا پڑی ورنہ یقیناً وہ قومی دھارے سے باہر ہوجاتے۔ ریاست کو چلانے کیلئے اصول و قواعد تشکیل دیے جاتے ہیں جو آئین کہلاتے ہیں۔ بےشک اس آئین کی پاسداری سب پر لازم ہوتی ہے لیکن ریاست ہی عوام کے جان ومال اور عزت کے تحفظ کی ضامن بھی ہوتی ہے۔ تاریخ ایسی مثالیں فراہم کرتی ہے جب ریاست کو چلانے اور اس کے تقدس کو بچانے کیلئے کچھ سخت فیصلے کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ آج پاکستان بھی بطور ریاست ایسے حالات کا شکار ہے جو غیر معمولی سخت فیصلوں کے متقاضی ہیں۔ کیونکہ نہ صرف ریاست کی عملداری کو چیلنج کیا جاررہا ہے بلکہ عوام کی زندگیوں کی حفاظت پر بھی سوالیہ نشان کھڑا ہے۔


ایک مخصوص طریقہ کار، منصوبہ اور ذہنیت ہے جو ملک کے خلاف اپنا پورا زور لگا رہی ہے۔ اس کو اتنی ہی شدت سے جواب دینا اشد ضروری ہے اور ایسے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے جلد اور مضبوط عدالتی فیصلوں کی ضرورت ہے جو فوجی عدالتیں ہی اپنے مکینزم کی بناء پر پورا کر رہی ہیں لہذٰا پارلیمنٹ کا 21 ویں ترمیم کو منظور کرنا اور سپریم کورٹ کا اسکی توثیق کرنا نہ صرف مستحسن ہے بلکہ ملک میں جاری دہشت گردی کی خلاف قومی عزم کا مظہر بھی ہے۔


نہ یہ ایک ادارے کی دوسرے ادارے پر فوقیت کو ظاہر کرتا ہے اور نہ کسی ایک ریاستی ستون کی تضحیک یا اس پر عدم اعتماد کا پہلو اس کی منظوری سے نکلتا ہے۔ یہ مملکت کی بقا اور سلامتی کی طرف بڑھنے میں اہم سنگ میل ضرور ثابت ہوگا، کیونکہ فوری اور کڑی سزا کا ڈر ہمیشہ معاشرتی سدھار کا اہم جزو رہا ہے۔ دنیا اور یہ خطہ جہاں پاکستان موجود ہے تیزی سے بدل رہے ہیں۔ نئے الائنس وجود میں آرہے ہیں، مشرق وسطٰی کے مسلم ممالک ایک نئی دہشت گردی اور افتاد کا سامنا کررہے ہیں جو ہمارے مغربی بارڈر تک پہنچ رہا ہے۔ ایسے میں ہماری ریاست کے پاس بھی محدود مدت میں بڑے بڑے فیصلوں کا وقت آن پہنچا ہے تاکہ اندرونی کمزوریوں اور خامیوں پر قابو پاکر مستقبل کی پیش بندی کی جاسکے۔


[poll id="583"]


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔


اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس



 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں