ہاکی کامستقبل… بال پکرز سے وزیراعظم تک سب کو کام کرنا ہوگا
قومی کھیل زوال کے پاتال میں ایسا گرا کہ نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔
ISLAMABAD:
کہتے ہیں جس ملک کے کھیل کے میدان آباد ہوں وہاں کے ہسپتال ویران ہوتے ہیں۔ کھیلوں کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے دنیا کا ہر ملک اپنی اپنی حیثیت اور استطاعت کے مطابق خرچ کرتا ہے۔
بعض ممالک تو ایسے بھی ہیں جنہوں نے خالصتاََ کھیلوں کے ذریعے اپنی الگ پہچان اور شناخت بنائی۔ پاکستان بھی ان چند ممالک میں سے ایک ہے جس کے کھلاڑیوں نے اپنے کھیل کے ذریعے دنیا بھر میں سبز ہلالی پرچم لہرایا ۔
اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1994ء میں ہمارے پاس کرکٹ ، ہاکی ، سکواش اور سنوکر کے کھیلوں میں چار عالمی اعزازت تھے اور ہاکی وہ کھیل تھاجس میں ہم نے سب سے زیادہ فتوحات حاصل کیں۔کامیابیوں کا یہ سلسلہ پاکستان بننے کے فوری بعد شروع ہوا اور 1994 تک جاری رہا۔پاکستان اب تک 3 اولمپکس ، 4 عالمی کپ، 3 چیمپئنز ٹرافی، 7 ایشین گیمز ، 3 ایشیا کپ اور بڑی تعداد میں عالمی سطح کے ٹورنامنٹس اور سیریز جیت چکا ہے۔
تاہم گزشتہ کچھ برسوں سے اس تواترکے ساتھ شکستیں ہوئیں کہ کھلاڑی یہ تک بھول گئے ہیں کہ جیت کا مزہ کیا ہوتا ہے۔1960 ، 1968 اور 1984 کے اولمپکس کی فاتح پاکستان کی ہاکی کا گراف نیچے کی جانب جا رہا ہے، پاکستان کا آخری اولمپک ہاکی میں میڈل کانسی کا ہے جو اس نے 1992 میں حاصل کیا تھا۔
بعد ازاں قومی کھیل زوال کے پاتال میں ایسا گرا کہ نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ جب سے شکستوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے، چند انفرادی کوششیں ضرور نظر آئیں ہیں مگر کھلاڑی ایک متوازن ٹیم میں نہیں ڈھل سکے۔ قومی ٹیم میں شامل بیشتر کھلاڑی فٹنس اور مہارت کا وہ معیار نہیں رکھتے جو دیگر انٹرنیشنل ٹیموں کے کھلاڑیوں کو حاصل ہے اوراسی لئے کارکردگی میں تسلسل کا فقدان نظر آتا ہے۔ایک ، دو کھلاڑی اچھا کھیل پیش بھی کریںتو دیگرکی نااہلی ان کی محنت پر پانی پھیر دیتی ہے۔
ارباب اختیار اگلے ٹورنامنٹ میںخامیاں دور کر لینے کے دعوے کرتے ہیں لیکن کھلاڑی وہی غلطیاں بار بار دہراتے اور شکستوں کی رسوائی اٹھاتے رہے ہیں ۔ایک وقت تو یہ معیار اتنا گر گیا تھا کہ 1998 میں پاکستان اپنا ایشیائی اعزاز بھی گنوا بیٹھا لیکن اب تو صورتحال اس سے بھی زیادہ گھمبیر ہو چکی ہے اور گزشتہ برس ورلڈکپ سے باہر ہونے کے بعد گرین شرٹس تاریخ میں پہلی بار ریو اولمپکس2016ء کی دوڑ سے بھی باہر ہو چکی ہے۔
قومی کھیل کے اس گرتے ہوئے گراف اور مایوس کن صورتحال میں ''ہاکی کے مستقبل'' کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں پاکستان ہاکی فیڈریشن کے عہدیداروں،ٹیم مینجمنٹ اور سابق اولمپئنز نے شرکت کی۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
چوہدری اختر رسول
(صدر پاکستان ہاکی فیڈریشن)
2013ء میں جب میں نے فیڈریشن کے صدر کا عہدہ سنبھالا تو فیڈریشن کے پاس 35کھلاڑیوں کی کیمپ ٹریننگ کی فہرست تھی اور ہر مرتبہ اس میں سے ہی کھلاڑیوں کی سلیکشن ہوتی ہے۔
میں نے پاکستان کے ان کھلاڑیوں کو موقع دینے کا سوچا جو کسی وجہ سے اپنے صوبے کی طرف سے نہیں کھیل سکے یا ڈپارٹمنٹ کی نمائندگی نہیں کرسکے کہ ان کا اوپن ٹرائل کرکے ایک بہتر ٹیم تشکیل دی جائے۔ پھر ہم نے کوئٹہ، کراچی، بہاولپور، لاہور اور پشاور میں اوپن ٹرائل کیے اور کوشش کی کہ کچھ نئے کھلاڑی مل جائیں جو اچھا کھیلنے والے ہوں۔ کھلاڑیوں کے اوپن ٹرائل اور سلیکشن کے عمل کے بعد جو بہترین ٹیم تشکیل دی گئی وہ ان کھلاڑیوں میں سے ہی بنی جن کی فہرست پہلے سے ہی فیڈریشن کے پاس موجود تھی کیونکہ ہمیں پورے پاکستان سے ایسا ٹیلنٹ نہیں ملا جو اچھا ہو اور ٹیم سے باہر بیٹھا ہو۔
فیڈریشن نے بکھری ہوئی ہاکی فیملی کو اکٹھا کیااور اب بھی ہم سب کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ ہم نے سینئر اور جونیئر کھلاڑیوں سے رابطے کیے اورمیں خواجہ ذکاء الدین کا بھی مشکور ہوں کہ انہوں نے بھی ہماری مدد کی۔ ہم نے سابق اولمپئن کھلاڑیوں پر مشتمل ایک آزاد سلیکشن کمیٹی بنائی جس کے سربراہ سابق کپتان صلاح الدین تھے جبکہ مینجمنٹ کی ذمہ داری شہناز شیخ کو دی گئی۔ فیڈریشن نے سلیکشن کمیٹی اور مینجمنٹ کو یہ یقین دہانی کروائی کہ فیڈریشن ان کے معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی اور نہ ہی کسی کھلاڑی کو ٹیم میں شامل کرنے کیلئے دباؤ ڈالا جائے گا۔
ہم نے مینجمنٹ پر بھی دباؤ نہیں ڈالا البتہ کوچنگ کے حوالے سے تجاویز ضرور پیش کیں ۔ اس طرح فیڈریشن نے اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کیا تاکہ لوگوں میں خود اعتمادی پیدا ہو اور وہ بہتر کارکردگی دکھا سکیں۔ ٹیم نے ایشین گیم میں بھارت کو پول میچ میں شکست دی لیکن فائنل میں ہار گئی اور سلور میڈل حاصل کیا۔ اسی طرح ورلڈ چیمپئن ٹرافی میں ہماری ٹیم نے بھارت کو اس کی ہوم گراؤنڈ میں شکست دی اور فائنل میں سلور میڈل حاصل کیا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری ٹیم میں سپارک موجود ہے لیکن بد قسمتی سے فنڈز کی کمی کے باعث انٹرنیشنل ٹریننگ نہ ہونے کی وجہ سے اس ٹورنامنٹ میں ٹیم وہ پرفارم نہیں کرسکی جو ایشین گیمز اور چیمپئن ٹرافی میں اس کی پرفارمنس تھی لہٰذاپوری قوم کی طرح ہمارے دل بھی غمگین ہیں کہ ہاکی ٹیم نے اولمپکس کے لیے کوالیفائی نہیں کیا۔ بڑے ٹورنامنٹ سے پہلے نیشنل اور انٹرنیشنل ٹریننگ کروائی جاتی ہے، اذلان شاہ کا دورہ ہمارے پلان میں شامل تھا مگر فنڈز کی کمی کی وجہ سے وہاں نہیں جاسکے۔ ہم پلان کررہے تھے کہ ٹیم کو اسپین بھیجیں تاکہ کھلاڑی اسپین کی ٹیموں کے ساتھ کھیل کا تجربہ حاصل کریں۔
گزشتہ چندسالوں سے ہمیں فنڈز کی کمی کا مسئلہ درپیش ہے۔ اب ہم نے ادھار لے کر ٹیم کو آسٹریلیا اور کوریا بھیجا۔ اخراجات اور کھلاڑیوں کی تنخواہیں ابھی تک ادا نہیں کی جاسکیں لہٰذا میں نے ٹکٹوں کے پیسے اور کھلاڑیوں کی تنخواہوں کا کیس بنا کر سیکرٹری آئی پی سی کو بھجوا دیا ہے۔ میرے نزدیک فنڈز کی کمی ٹیم کو ''اپ لفٹ'' کرنے میں رکاوٹ بنی ہے اور یہ ایک ٹیکنیکل بات ہے۔
یہ افسوسناک بات ہے کہ پرائیوٹ سیکٹر ہاکی کے فروغ کیلئے کوئی کام نہیں کررہا۔ میں نے تمام بڑے بڑے بینکاروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں سے رابطہ کیا مگر کسی نے تعاون نہیں کیا لہٰذا اگر ہاکی کو بچانا ہے تو بال پکر سے لے کر وزیراعظم پاکستان تک سب کو مل کرکام کرنا ہوگا۔ کسی کے استعفوں سے ہاکی ٹھیک نہیں ہوگی بلکہ کارکردگی کو بہتر بنانا ہوگا۔ اس لیے کھلاڑیوں کو چاہیے کہ اپنی کارکردگی کو بہتر بنائیں اور میڈیا کو بھی چاہیے کہ کھلاڑیوں کی کارکردگی پر بھی بات کرے ۔
میرے نزدیک ہاکی کو بروقت اقدامات سے بچایا جاسکتا ہے۔ اس وقت ٹیم کو پڑھے لکھے کھلاڑیوں کی ضرورت ہے اس کے لیے سکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں کھیلوں کی بنیاد پر داخلے کرنے چاہئیں۔ ہاکی کے فروغ کے لیے نچلی سطح پر فنڈز فراہم کرنے چاہئیں اور ڈومیسٹک ہاکی کو فروغ دینا چاہیے۔ ہم ہر مہینے ایک آل پاکستان ٹورنامنٹ کررہے ہیں لہٰذا جو نئی ٹیم بن جائے اسے زیادہ سے زیادہ انٹرنیشنل میچوں میں حصہ لینا چاہیے۔ اس کے علاوہ تمام کھلاڑیوں کو ایک دوسرے کی عزت کرنی چاہیے اور کھلاڑیوں کو سیاست کی بجائے کھیل پر بات چیت کرنی چاہیے۔
دنیا بہت آگے نکل چکی ہے، وہاں ہاکی یونیورسٹیاں بن گئی ہیں کیونکہ ان کی ترجیحات میں ہاکی شامل ہے لیکن بدقسمتی سے ہماری ترجیحات میں کھیل شامل نہیں ہے لہٰذا ہمیں اپنی ترجیحات کو درست کرنا ہوگا۔ہار اور جیت کھیل کا حصہ ہوتی ہے لیکن مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ قوم کو ٹیم کی ہار پر دکھ ہے کیونکہ وہ قومیں ترقی نہیں کرسکتیں جو ہار پر دکھ کا اظہار نہ کریں اور جیت کی خوشی نہ منائیں۔
2013ء کے انتخابات کے بعد میں نے ہاکی کی بہتری کیلئے ایک مفصل پلان تیار کیا جس کا خرچ 65کڑور تھا اور اس کے ہرپروگرام کے آگے اس کا خرچ لکھا ہوا تھا۔ اس میں سکول ، کالج، یونیورسٹی ، ڈسٹرکٹ و صوبائی سطح کے لیے اقدامات کی تجاویز بھی دی۔ میں نے یہ پلان سیکرٹری آئی پی سی کو پیش کیاتو انہوں نے میرے پلان کی تعریف کی۔ میرے نزدیک سسٹم میں رہ کر ترقی کی جاسکتی ہے لیکن مخالفت سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
میرے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں اور میں سب کو مل کر کام کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔ گزشتہ چار پانچ سالوں میں کھلاڑیوں کی لڑائیوں اور ایک دوسرے پر الزامات نے حکام کے دل میں وسوسے ڈالے اور یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں فنڈز کی کمی کا سامنا ہے۔ یہ کھیل ہماری زندگی ہے، ہم ہر چیز چھوڑ سکتے ہیں لیکن کھیل کا میدان نہیں چھوڑ سکتے۔میں فیڈریشن میں رہوں یا نہ رہوں ہاکی کیلئے فنڈز کی بات ضرور کرتا رہوں گاکیونکہ فنڈز کے بغیر ہاکی ترقی نہیں کرسکتی۔ دنیا جدید طریقہ کار استعمال کررہی ہے جبکہ ہم ابھی تک سہولیات کے فقدان کا شکار ہیں لہٰذا اگر ہمیں ان کا مقابلہ کرنا ہے تو کھلاڑیوں کو جدید سہولیات فراہم کرنا ہوں گی۔
یہاں فنڈز کی بات کی جاتی ہے کہ کڑوروں کے فنڈز جاری کیے گئے، اگر اخراجات دیکھیں تو بیرون ملک ایک دورے کا خرچ اڑھائی کڑور روپے سے زیادہ ہوتا ہے لہٰذا اگر ہاکی کو فروغ دینا ہے تو قومی ٹیم کو سال میں کم از کم چھ بیرونی دورے کرنا ہوں گے جبکہ جونیئر ٹیم کو بھی چار دورے کرنا ہوں گے۔ میرا حکومت کو یہ پیغام ہے کہ ہاکی کی ترقی کے لیے فنڈز فراہم کرے اور خواتین کی ہاکی ٹیم کو بھی فروغ دے۔
کمیٹی نے ہاکی کی ترقی کیلئے اپنی سفارشات میں دس سال کی بات کی لیکن ہم نے صرف ڈیڑھ سال میں یہ رزلٹ دیا ہے۔ ہمیں دکھ ہے کہ ہم اولمپکس سے باہر ہوگئے ہیں اور میری احساسات بھی پوری قوم کے ساتھ ہیں۔ میں ہاکی کی ترقی کے لیے سفارشات کا کیس دوبارہ جمع کروانے کی تیاری کررہا ہوں اور بہت جلد وزیراعظم سے ملاقات کروں گا۔
خواجہ ذکاء الدین
(سابق اولمپئن)
غیر ملکی ٹیمیں جب بری طرح ہارتی ہیں تو ذمہ دار خود ہی مستعفی ہو جاتے ہیں لہٰذا ہمارے موجودہ عہدیداروں کو بھی یہی کرنا چاہیے۔ہاکی میرے خون میں رچی بسی ہے، اس لئے ریٹائرمنٹ لینے کے باوجود کسی نہ کسی صورت میں اس کھیل کے ساتھ وابستہ رہا اور جہاں تک ممکن ہو سکا اپنا کردار ادا کیا۔میں نے اپنی زندگی میں قومی کھیل کا عروج دیکھا ہے،انٹرنیشنل ایونٹس میں گرین شرٹس کی فتح کے بعد جب پاکستان کا ترانہ بجتا تھا تو اس کی کیفیت الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔
قومی ٹیم کی موجودہ صورتحال دیکھتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے، شہناز شیخ اپنے دور کے بڑے کھلاڑی رہے ہیں، انہوں نے ورلڈ ہاکی لیگ کے لئے سخت محنت کی لیکن بدقسمتی سے کھلاڑی عمدہ پرفارم نہ کر سکے۔ قومی ٹیم کی مایوس کن کارکردگی کے باوجود ہاکی کے مستقبل سے مایوس نہیں ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ پی ایچ ایف کو پروفیشنل انداز میں چلایا جائے، ''رائٹ مین فار دی رائٹ جاب'' کی پالیسی اپنائی جائے توماضی میں غیر معمولی کارکردگی دوبارہ دہرائی جا سکتی ہے۔
دانش کلیم
(کوچ قومی ہاکی ٹیم)
کوالیفائی راؤنڈ سے باہر ہوئے ٹیم کو ایک مہینہ گزر گیا ہے لیکن ابھی تک استعفوں کی باتیں ہورہی ہیں اور کسی نے کھلاڑیوں اور مینجمنٹ کی کارکردگی پر کوئی بات نہیں کی اور نہ ہی بہتری کیلئے کوئی تجاویزدیں۔ ثقلین چار سال سے پنجاب یونیورسٹی کا کوچ تھا جبکہ ٹیم چار سالوں میں پہلا میچ ہار گئی لیکن ٹیم کی اس پرکارکردگی پر پرنسپل کو فارغ نہیں کیا گیا بلکہ اس کا ذمہ دار کوچ کو قرار دیا گیا اور اس کے بعد ذمہ داری منیجر اورکھلاڑیوں پر عائد ہوئی۔
میرا سب کو یہ مشورہ ہے کہ آپس میں بیٹھ کر مسائل کے حل کے لیے بات کریں اور ہاکی کی بہتری کیلئے تجاویز دیں۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ جس طرح گھر چلانے کیلئے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح ایسوسی ایشن اور فیڈریشن کو بھی کام کرنے کیلئے فنڈز کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی ٹیم تین مرتبہ پوڈیم پر پہنچی لیکن کوئی کمیٹی نہیں بنی اور کسی سابق اولمپئن نے اس حوالے سے بات نہیں کی کہ کھلاڑیوں کو پیسے دیے جائیں۔ میرے نزدیک غلطی دونوں طرف سے ہے کیونکہ حکومت کی جانب سے بھی فنڈز فراہم نہیں کیے گئے۔ اب جو کمیٹی بنائی گئی ہے اس نے بھی ابھی تک ہاکی کی بہتری کیلئے کوئی بات نہیں کی۔
دنیا سات سو آسٹروٹر ف تک پہنچ چکی ہے جبکہ ہم ابھی تک بارہ آسٹروٹرف پر ہاکی کی بقاء کے لیے لڑ رہے ہیں۔ میرے نزدیک چہرے بدلنے سے بہتری نہیں آئے گی بلکہ یہ مسائل یونہی چلتے رہیں گے لہٰذا ہمیں مسائل کے حل کے لیے کام کرنا چاہیے۔ہاکی کی بہتری کے لیے پروفیشنل اکیڈمیاں بنائی جائیں اور نیشنل لیول پر کم از کم چار اکیڈمیاں ہونی چاہئیں۔ اس کے علاوہ کھلاڑیوں اور مینجمنٹ پر بھی پروفیشنل طریقے سے چیک اینڈ بیلنس ہونا چاہیے اور پرفارمنس کے لحاظ سے انہیں پیسے ملنے چاہئیں۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ فیڈریشن کو فنڈز فراہم کرے تاکہ معاملات چلائے جا سکیں۔
میں ثقلین کی بات کی تائید کرتا ہوںکہ ''رائٹ جائب فار رائٹ پرسن'' ہونی چاہیے اور پرفارمنس کی بنیاد پر تقرری ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ سکولوں کالجوں میں بھی ہاکی کی بنیاد پر داخلوں کا کوٹہ ہونا چاہیے اور آسٹروٹرف کی تعداد میں اضافہ بہت ضروری ہے۔ جب پاکستان میں ہاکی اپنے عروج پر تھی تو اس وقت پاکستان کی ہر گلی، سکول، کالج میں کھیل کا میدان ہوتا تھا لیکن اب اس کا الٹ ہوگیا ہے۔
جرمنی و دیگر ممالک میں ہر پانچ کلومیٹر پر ایک آسٹروٹرف ہے اور وہاں 14برس کی عمر میں ہی کھلاڑی ابھر کر آرہے ہیں لیکن ہمارے ہاں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے 18سال کی عمر میں کھلاڑی پہلی مرتبہ آسٹروٹرف پر آتا ہے۔ ہم حکومت سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہاکی کونیشنل پلان میں شامل کیا جائے اور اس کے فروغ کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں۔
طارق شیخ
(سابق اولمپئن)
اگر کھلاڑی 250میچ کھیلنے کے بعد بھی اچھی کارکردگی نہ دکھائے تو پھر مینجمنٹ کو سوچنا چاہیے کہ کھلاڑی اچھی کارکردگی کیوں نہیں دکھا پا رہے اور خود کھلاڑیوں کو بھی اپنی کارکردگی پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ پرفارمنس کی بنیاد پر کھلاڑیوں کو پیسے ملنے چاہئیں جبکہ یورپ میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔
ہم یورپ کی باتیں تو بہت کرتے ہیں لیکن ہمیں ان سے کچھ سیکھنا بھی چاہیے، وہاں ان کی نیشنل چیمپئن لیگ چھ ماہ پر مشتمل ہوتی ہے ، اگر ہم فنڈز کی کمی کی وجہ سے چھ ماہ تک نہیں کرسکتے تو ہمیں کم از کم دو ماہ تک نیشنل ہاکی چیمپئن شپ ضرور کروانی چاہیے ۔ ہر عام و خاص آکریہ میچ دیکھے تاکہ غلطیوں کو درست کیا جاسکے۔ میرے نزدیک ہاکی کے فروغ کیلئے حکومت کو اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس کے لیے وفاقی و صوبائی حکومتوںکو چاہیے کہ اپنی اپنی سطح پر فنڈز فراہم کریں۔
محمد ثقلین
(سابق کپتان قومی ہاکی ٹیم)
ہاکی کے زوال کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے ابھی تک اپنی شکست کو تسلیم نہیں کیا لہٰذا جب تک ہم اپنی شکست کو تسلیم نہیں کریں گے ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ابھی تک ہم صفائی پیش کرتے ہیںجبکہ فیڈریشن، کوچ اور کھلاڑی ایک دوسرے پر اس کی ذمہ داری ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
انہیں چاہیے کہ اپنی کارکردگی بہتر کریں۔ ہماری خامی یہ ہے کہ فیڈریشن کا غیر پیشہ ورانہ رویہ ہے جبکہ دہلی میں کھیلے گئے جونیئر ورلڈ کپ کی ٹیم فیڈریشن میں عہدوں پر فائز ہے۔ ٹیم سلیکشن میں صرف دوستیاں نبھائی گئی ہیں جبکہ تنخواہیں وہاں بھی دی جاتی رہیںجہاں ٹریننگ نہیں ہورہی تھی اور حیران کن بات یہ ہے کہ گزشتہ 6سالوں میں اکیڈمیوں سے ایک بھی اچھا کھلاڑی نہیں نکل سکا لہٰذا جب تک صحیح آدمی صحیح جگہ نہیں ہوگا تب تک ہاکی بہتر نہیں ہوسکتی۔
آسٹریلیا کے خلاف آخری تین میچوں میں ہم نے21گول کھائے ہیں لیکن ہم پرفارمنس کی بجائے فنڈز کی کمی کی باتیں سن رہے ہیں۔ یہ وہ کھلاڑی ہیں جو 250سے زیادہ میچ کھیلے ہوئے ہیں،میرے نزدیک انہیں انٹرنیشنل ٹریننگ کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے ۔
ہمارا المیہ تو یہ ہے کہ ہم نے پولینڈ جیسی ٹیم سے آخری منٹ میں گول کرکے میچ جیتا ہے لہٰذا یہ فنڈز کی وجہ سے نہیں بلکہ کھلاڑیوں کی بری کارکردگی کا نتیجہ ہے۔ ہم نے ایشین گیم میں سلور میڈل جیتا لیکن ہم یہ بھول رہے ہیں کہ اس سے پہلے ہم ایشین گیم کے چیمپئن رہے ہیں۔ ایشیاء کپ میں تو ہم ہمیشہ سے فائنسلٹ رہے ہیں اور اس میں ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
اصل مسئلہ تو تب ہوتا ہے جب ہم یورپی ممالک کے ساتھ کھیلتے ہیں، ہمارے کھلاڑیوں کے پاس جدید مہارت نہیں ہے اور نہ ہی ان کا فٹنس لیول ایسا ہے کہ ان کے ساتھ مقابلہ کرسکیں۔ہاکی میں ساری ذمہ داری فیڈریشن کے سیکرٹری جنرل پر ہوتی ہے اور اس نے ہی فیصلہ لینا ہوتا ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ فنڈز نہیں ملے حالانکہ حکومت پنجاب نے 22کڑور روپے کے فنڈز جاری کیے اور ابھی ان میں کرپشن کے الزامات کے حوالے سے تحقیقات ہورہی ہیں لہٰذا جب تک پیسہ کھلاڑیوں پر استعمال نہیں ہوگا ، میرٹ پر سلیکشن نہیں ہوگی اور پرفارمنس کی بنیاد پر کوچ نہیں بنایا جائے گا تب تک ہاکی میں بہتری نہیں آسکتی۔ کوچ کی تقرری کے لیے یہ معیار ہونا چاہیے کہ نیشنل چیمپئن کو کوچ بنایا جائے گا ۔
2010ء میں جب ہم بارہویں نمبر پر آئے تو ہم نے قوم سے وعدہ کیا کہ آئندہ ورلڈ کپ میںہم ٹاپ 4میں ہوں گے لیکن ہمارا نتیجہ یہ رہتا ہے کہ ہم چار سال کے بعد ورلڈ کپ سے ہی باہر ہو جاتے ہیں ۔ پھر ہم وعدہ کرتے ہیں کہ اولمپکس میں فائنلسٹ ہوں گے اور اب ہم اولمپکس سے ہی باہر ہوگئے ہیں لہٰذا ہاکی کی یہ صورتحال افسوسناک اور توجہ طلب ہے۔ جہاں تک فنڈز کی بات ہے تو اس فیڈریشن کو بھی فنڈز ملے جبکہ تاریخ میں سب سے زیادہ فنڈز قاسم ضیاء کے دور میں ملے ہیں لیکن ہم پھر بھی ورلڈ کپ سے باہر رہے۔
کہتے ہیں جس ملک کے کھیل کے میدان آباد ہوں وہاں کے ہسپتال ویران ہوتے ہیں۔ کھیلوں کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے دنیا کا ہر ملک اپنی اپنی حیثیت اور استطاعت کے مطابق خرچ کرتا ہے۔
بعض ممالک تو ایسے بھی ہیں جنہوں نے خالصتاََ کھیلوں کے ذریعے اپنی الگ پہچان اور شناخت بنائی۔ پاکستان بھی ان چند ممالک میں سے ایک ہے جس کے کھلاڑیوں نے اپنے کھیل کے ذریعے دنیا بھر میں سبز ہلالی پرچم لہرایا ۔
اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1994ء میں ہمارے پاس کرکٹ ، ہاکی ، سکواش اور سنوکر کے کھیلوں میں چار عالمی اعزازت تھے اور ہاکی وہ کھیل تھاجس میں ہم نے سب سے زیادہ فتوحات حاصل کیں۔کامیابیوں کا یہ سلسلہ پاکستان بننے کے فوری بعد شروع ہوا اور 1994 تک جاری رہا۔پاکستان اب تک 3 اولمپکس ، 4 عالمی کپ، 3 چیمپئنز ٹرافی، 7 ایشین گیمز ، 3 ایشیا کپ اور بڑی تعداد میں عالمی سطح کے ٹورنامنٹس اور سیریز جیت چکا ہے۔
تاہم گزشتہ کچھ برسوں سے اس تواترکے ساتھ شکستیں ہوئیں کہ کھلاڑی یہ تک بھول گئے ہیں کہ جیت کا مزہ کیا ہوتا ہے۔1960 ، 1968 اور 1984 کے اولمپکس کی فاتح پاکستان کی ہاکی کا گراف نیچے کی جانب جا رہا ہے، پاکستان کا آخری اولمپک ہاکی میں میڈل کانسی کا ہے جو اس نے 1992 میں حاصل کیا تھا۔
بعد ازاں قومی کھیل زوال کے پاتال میں ایسا گرا کہ نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ جب سے شکستوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے، چند انفرادی کوششیں ضرور نظر آئیں ہیں مگر کھلاڑی ایک متوازن ٹیم میں نہیں ڈھل سکے۔ قومی ٹیم میں شامل بیشتر کھلاڑی فٹنس اور مہارت کا وہ معیار نہیں رکھتے جو دیگر انٹرنیشنل ٹیموں کے کھلاڑیوں کو حاصل ہے اوراسی لئے کارکردگی میں تسلسل کا فقدان نظر آتا ہے۔ایک ، دو کھلاڑی اچھا کھیل پیش بھی کریںتو دیگرکی نااہلی ان کی محنت پر پانی پھیر دیتی ہے۔
ارباب اختیار اگلے ٹورنامنٹ میںخامیاں دور کر لینے کے دعوے کرتے ہیں لیکن کھلاڑی وہی غلطیاں بار بار دہراتے اور شکستوں کی رسوائی اٹھاتے رہے ہیں ۔ایک وقت تو یہ معیار اتنا گر گیا تھا کہ 1998 میں پاکستان اپنا ایشیائی اعزاز بھی گنوا بیٹھا لیکن اب تو صورتحال اس سے بھی زیادہ گھمبیر ہو چکی ہے اور گزشتہ برس ورلڈکپ سے باہر ہونے کے بعد گرین شرٹس تاریخ میں پہلی بار ریو اولمپکس2016ء کی دوڑ سے بھی باہر ہو چکی ہے۔
قومی کھیل کے اس گرتے ہوئے گراف اور مایوس کن صورتحال میں ''ہاکی کے مستقبل'' کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں پاکستان ہاکی فیڈریشن کے عہدیداروں،ٹیم مینجمنٹ اور سابق اولمپئنز نے شرکت کی۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
چوہدری اختر رسول
(صدر پاکستان ہاکی فیڈریشن)
2013ء میں جب میں نے فیڈریشن کے صدر کا عہدہ سنبھالا تو فیڈریشن کے پاس 35کھلاڑیوں کی کیمپ ٹریننگ کی فہرست تھی اور ہر مرتبہ اس میں سے ہی کھلاڑیوں کی سلیکشن ہوتی ہے۔
میں نے پاکستان کے ان کھلاڑیوں کو موقع دینے کا سوچا جو کسی وجہ سے اپنے صوبے کی طرف سے نہیں کھیل سکے یا ڈپارٹمنٹ کی نمائندگی نہیں کرسکے کہ ان کا اوپن ٹرائل کرکے ایک بہتر ٹیم تشکیل دی جائے۔ پھر ہم نے کوئٹہ، کراچی، بہاولپور، لاہور اور پشاور میں اوپن ٹرائل کیے اور کوشش کی کہ کچھ نئے کھلاڑی مل جائیں جو اچھا کھیلنے والے ہوں۔ کھلاڑیوں کے اوپن ٹرائل اور سلیکشن کے عمل کے بعد جو بہترین ٹیم تشکیل دی گئی وہ ان کھلاڑیوں میں سے ہی بنی جن کی فہرست پہلے سے ہی فیڈریشن کے پاس موجود تھی کیونکہ ہمیں پورے پاکستان سے ایسا ٹیلنٹ نہیں ملا جو اچھا ہو اور ٹیم سے باہر بیٹھا ہو۔
فیڈریشن نے بکھری ہوئی ہاکی فیملی کو اکٹھا کیااور اب بھی ہم سب کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ ہم نے سینئر اور جونیئر کھلاڑیوں سے رابطے کیے اورمیں خواجہ ذکاء الدین کا بھی مشکور ہوں کہ انہوں نے بھی ہماری مدد کی۔ ہم نے سابق اولمپئن کھلاڑیوں پر مشتمل ایک آزاد سلیکشن کمیٹی بنائی جس کے سربراہ سابق کپتان صلاح الدین تھے جبکہ مینجمنٹ کی ذمہ داری شہناز شیخ کو دی گئی۔ فیڈریشن نے سلیکشن کمیٹی اور مینجمنٹ کو یہ یقین دہانی کروائی کہ فیڈریشن ان کے معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی اور نہ ہی کسی کھلاڑی کو ٹیم میں شامل کرنے کیلئے دباؤ ڈالا جائے گا۔
ہم نے مینجمنٹ پر بھی دباؤ نہیں ڈالا البتہ کوچنگ کے حوالے سے تجاویز ضرور پیش کیں ۔ اس طرح فیڈریشن نے اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کیا تاکہ لوگوں میں خود اعتمادی پیدا ہو اور وہ بہتر کارکردگی دکھا سکیں۔ ٹیم نے ایشین گیم میں بھارت کو پول میچ میں شکست دی لیکن فائنل میں ہار گئی اور سلور میڈل حاصل کیا۔ اسی طرح ورلڈ چیمپئن ٹرافی میں ہماری ٹیم نے بھارت کو اس کی ہوم گراؤنڈ میں شکست دی اور فائنل میں سلور میڈل حاصل کیا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری ٹیم میں سپارک موجود ہے لیکن بد قسمتی سے فنڈز کی کمی کے باعث انٹرنیشنل ٹریننگ نہ ہونے کی وجہ سے اس ٹورنامنٹ میں ٹیم وہ پرفارم نہیں کرسکی جو ایشین گیمز اور چیمپئن ٹرافی میں اس کی پرفارمنس تھی لہٰذاپوری قوم کی طرح ہمارے دل بھی غمگین ہیں کہ ہاکی ٹیم نے اولمپکس کے لیے کوالیفائی نہیں کیا۔ بڑے ٹورنامنٹ سے پہلے نیشنل اور انٹرنیشنل ٹریننگ کروائی جاتی ہے، اذلان شاہ کا دورہ ہمارے پلان میں شامل تھا مگر فنڈز کی کمی کی وجہ سے وہاں نہیں جاسکے۔ ہم پلان کررہے تھے کہ ٹیم کو اسپین بھیجیں تاکہ کھلاڑی اسپین کی ٹیموں کے ساتھ کھیل کا تجربہ حاصل کریں۔
گزشتہ چندسالوں سے ہمیں فنڈز کی کمی کا مسئلہ درپیش ہے۔ اب ہم نے ادھار لے کر ٹیم کو آسٹریلیا اور کوریا بھیجا۔ اخراجات اور کھلاڑیوں کی تنخواہیں ابھی تک ادا نہیں کی جاسکیں لہٰذا میں نے ٹکٹوں کے پیسے اور کھلاڑیوں کی تنخواہوں کا کیس بنا کر سیکرٹری آئی پی سی کو بھجوا دیا ہے۔ میرے نزدیک فنڈز کی کمی ٹیم کو ''اپ لفٹ'' کرنے میں رکاوٹ بنی ہے اور یہ ایک ٹیکنیکل بات ہے۔
یہ افسوسناک بات ہے کہ پرائیوٹ سیکٹر ہاکی کے فروغ کیلئے کوئی کام نہیں کررہا۔ میں نے تمام بڑے بڑے بینکاروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں سے رابطہ کیا مگر کسی نے تعاون نہیں کیا لہٰذا اگر ہاکی کو بچانا ہے تو بال پکر سے لے کر وزیراعظم پاکستان تک سب کو مل کرکام کرنا ہوگا۔ کسی کے استعفوں سے ہاکی ٹھیک نہیں ہوگی بلکہ کارکردگی کو بہتر بنانا ہوگا۔ اس لیے کھلاڑیوں کو چاہیے کہ اپنی کارکردگی کو بہتر بنائیں اور میڈیا کو بھی چاہیے کہ کھلاڑیوں کی کارکردگی پر بھی بات کرے ۔
میرے نزدیک ہاکی کو بروقت اقدامات سے بچایا جاسکتا ہے۔ اس وقت ٹیم کو پڑھے لکھے کھلاڑیوں کی ضرورت ہے اس کے لیے سکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں کھیلوں کی بنیاد پر داخلے کرنے چاہئیں۔ ہاکی کے فروغ کے لیے نچلی سطح پر فنڈز فراہم کرنے چاہئیں اور ڈومیسٹک ہاکی کو فروغ دینا چاہیے۔ ہم ہر مہینے ایک آل پاکستان ٹورنامنٹ کررہے ہیں لہٰذا جو نئی ٹیم بن جائے اسے زیادہ سے زیادہ انٹرنیشنل میچوں میں حصہ لینا چاہیے۔ اس کے علاوہ تمام کھلاڑیوں کو ایک دوسرے کی عزت کرنی چاہیے اور کھلاڑیوں کو سیاست کی بجائے کھیل پر بات چیت کرنی چاہیے۔
دنیا بہت آگے نکل چکی ہے، وہاں ہاکی یونیورسٹیاں بن گئی ہیں کیونکہ ان کی ترجیحات میں ہاکی شامل ہے لیکن بدقسمتی سے ہماری ترجیحات میں کھیل شامل نہیں ہے لہٰذا ہمیں اپنی ترجیحات کو درست کرنا ہوگا۔ہار اور جیت کھیل کا حصہ ہوتی ہے لیکن مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ قوم کو ٹیم کی ہار پر دکھ ہے کیونکہ وہ قومیں ترقی نہیں کرسکتیں جو ہار پر دکھ کا اظہار نہ کریں اور جیت کی خوشی نہ منائیں۔
2013ء کے انتخابات کے بعد میں نے ہاکی کی بہتری کیلئے ایک مفصل پلان تیار کیا جس کا خرچ 65کڑور تھا اور اس کے ہرپروگرام کے آگے اس کا خرچ لکھا ہوا تھا۔ اس میں سکول ، کالج، یونیورسٹی ، ڈسٹرکٹ و صوبائی سطح کے لیے اقدامات کی تجاویز بھی دی۔ میں نے یہ پلان سیکرٹری آئی پی سی کو پیش کیاتو انہوں نے میرے پلان کی تعریف کی۔ میرے نزدیک سسٹم میں رہ کر ترقی کی جاسکتی ہے لیکن مخالفت سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
میرے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں اور میں سب کو مل کر کام کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔ گزشتہ چار پانچ سالوں میں کھلاڑیوں کی لڑائیوں اور ایک دوسرے پر الزامات نے حکام کے دل میں وسوسے ڈالے اور یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں فنڈز کی کمی کا سامنا ہے۔ یہ کھیل ہماری زندگی ہے، ہم ہر چیز چھوڑ سکتے ہیں لیکن کھیل کا میدان نہیں چھوڑ سکتے۔میں فیڈریشن میں رہوں یا نہ رہوں ہاکی کیلئے فنڈز کی بات ضرور کرتا رہوں گاکیونکہ فنڈز کے بغیر ہاکی ترقی نہیں کرسکتی۔ دنیا جدید طریقہ کار استعمال کررہی ہے جبکہ ہم ابھی تک سہولیات کے فقدان کا شکار ہیں لہٰذا اگر ہمیں ان کا مقابلہ کرنا ہے تو کھلاڑیوں کو جدید سہولیات فراہم کرنا ہوں گی۔
یہاں فنڈز کی بات کی جاتی ہے کہ کڑوروں کے فنڈز جاری کیے گئے، اگر اخراجات دیکھیں تو بیرون ملک ایک دورے کا خرچ اڑھائی کڑور روپے سے زیادہ ہوتا ہے لہٰذا اگر ہاکی کو فروغ دینا ہے تو قومی ٹیم کو سال میں کم از کم چھ بیرونی دورے کرنا ہوں گے جبکہ جونیئر ٹیم کو بھی چار دورے کرنا ہوں گے۔ میرا حکومت کو یہ پیغام ہے کہ ہاکی کی ترقی کے لیے فنڈز فراہم کرے اور خواتین کی ہاکی ٹیم کو بھی فروغ دے۔
کمیٹی نے ہاکی کی ترقی کیلئے اپنی سفارشات میں دس سال کی بات کی لیکن ہم نے صرف ڈیڑھ سال میں یہ رزلٹ دیا ہے۔ ہمیں دکھ ہے کہ ہم اولمپکس سے باہر ہوگئے ہیں اور میری احساسات بھی پوری قوم کے ساتھ ہیں۔ میں ہاکی کی ترقی کے لیے سفارشات کا کیس دوبارہ جمع کروانے کی تیاری کررہا ہوں اور بہت جلد وزیراعظم سے ملاقات کروں گا۔
خواجہ ذکاء الدین
(سابق اولمپئن)
غیر ملکی ٹیمیں جب بری طرح ہارتی ہیں تو ذمہ دار خود ہی مستعفی ہو جاتے ہیں لہٰذا ہمارے موجودہ عہدیداروں کو بھی یہی کرنا چاہیے۔ہاکی میرے خون میں رچی بسی ہے، اس لئے ریٹائرمنٹ لینے کے باوجود کسی نہ کسی صورت میں اس کھیل کے ساتھ وابستہ رہا اور جہاں تک ممکن ہو سکا اپنا کردار ادا کیا۔میں نے اپنی زندگی میں قومی کھیل کا عروج دیکھا ہے،انٹرنیشنل ایونٹس میں گرین شرٹس کی فتح کے بعد جب پاکستان کا ترانہ بجتا تھا تو اس کی کیفیت الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔
قومی ٹیم کی موجودہ صورتحال دیکھتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے، شہناز شیخ اپنے دور کے بڑے کھلاڑی رہے ہیں، انہوں نے ورلڈ ہاکی لیگ کے لئے سخت محنت کی لیکن بدقسمتی سے کھلاڑی عمدہ پرفارم نہ کر سکے۔ قومی ٹیم کی مایوس کن کارکردگی کے باوجود ہاکی کے مستقبل سے مایوس نہیں ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ پی ایچ ایف کو پروفیشنل انداز میں چلایا جائے، ''رائٹ مین فار دی رائٹ جاب'' کی پالیسی اپنائی جائے توماضی میں غیر معمولی کارکردگی دوبارہ دہرائی جا سکتی ہے۔
دانش کلیم
(کوچ قومی ہاکی ٹیم)
کوالیفائی راؤنڈ سے باہر ہوئے ٹیم کو ایک مہینہ گزر گیا ہے لیکن ابھی تک استعفوں کی باتیں ہورہی ہیں اور کسی نے کھلاڑیوں اور مینجمنٹ کی کارکردگی پر کوئی بات نہیں کی اور نہ ہی بہتری کیلئے کوئی تجاویزدیں۔ ثقلین چار سال سے پنجاب یونیورسٹی کا کوچ تھا جبکہ ٹیم چار سالوں میں پہلا میچ ہار گئی لیکن ٹیم کی اس پرکارکردگی پر پرنسپل کو فارغ نہیں کیا گیا بلکہ اس کا ذمہ دار کوچ کو قرار دیا گیا اور اس کے بعد ذمہ داری منیجر اورکھلاڑیوں پر عائد ہوئی۔
میرا سب کو یہ مشورہ ہے کہ آپس میں بیٹھ کر مسائل کے حل کے لیے بات کریں اور ہاکی کی بہتری کیلئے تجاویز دیں۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ جس طرح گھر چلانے کیلئے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح ایسوسی ایشن اور فیڈریشن کو بھی کام کرنے کیلئے فنڈز کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی ٹیم تین مرتبہ پوڈیم پر پہنچی لیکن کوئی کمیٹی نہیں بنی اور کسی سابق اولمپئن نے اس حوالے سے بات نہیں کی کہ کھلاڑیوں کو پیسے دیے جائیں۔ میرے نزدیک غلطی دونوں طرف سے ہے کیونکہ حکومت کی جانب سے بھی فنڈز فراہم نہیں کیے گئے۔ اب جو کمیٹی بنائی گئی ہے اس نے بھی ابھی تک ہاکی کی بہتری کیلئے کوئی بات نہیں کی۔
دنیا سات سو آسٹروٹر ف تک پہنچ چکی ہے جبکہ ہم ابھی تک بارہ آسٹروٹرف پر ہاکی کی بقاء کے لیے لڑ رہے ہیں۔ میرے نزدیک چہرے بدلنے سے بہتری نہیں آئے گی بلکہ یہ مسائل یونہی چلتے رہیں گے لہٰذا ہمیں مسائل کے حل کے لیے کام کرنا چاہیے۔ہاکی کی بہتری کے لیے پروفیشنل اکیڈمیاں بنائی جائیں اور نیشنل لیول پر کم از کم چار اکیڈمیاں ہونی چاہئیں۔ اس کے علاوہ کھلاڑیوں اور مینجمنٹ پر بھی پروفیشنل طریقے سے چیک اینڈ بیلنس ہونا چاہیے اور پرفارمنس کے لحاظ سے انہیں پیسے ملنے چاہئیں۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ فیڈریشن کو فنڈز فراہم کرے تاکہ معاملات چلائے جا سکیں۔
میں ثقلین کی بات کی تائید کرتا ہوںکہ ''رائٹ جائب فار رائٹ پرسن'' ہونی چاہیے اور پرفارمنس کی بنیاد پر تقرری ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ سکولوں کالجوں میں بھی ہاکی کی بنیاد پر داخلوں کا کوٹہ ہونا چاہیے اور آسٹروٹرف کی تعداد میں اضافہ بہت ضروری ہے۔ جب پاکستان میں ہاکی اپنے عروج پر تھی تو اس وقت پاکستان کی ہر گلی، سکول، کالج میں کھیل کا میدان ہوتا تھا لیکن اب اس کا الٹ ہوگیا ہے۔
جرمنی و دیگر ممالک میں ہر پانچ کلومیٹر پر ایک آسٹروٹرف ہے اور وہاں 14برس کی عمر میں ہی کھلاڑی ابھر کر آرہے ہیں لیکن ہمارے ہاں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے 18سال کی عمر میں کھلاڑی پہلی مرتبہ آسٹروٹرف پر آتا ہے۔ ہم حکومت سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہاکی کونیشنل پلان میں شامل کیا جائے اور اس کے فروغ کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں۔
طارق شیخ
(سابق اولمپئن)
اگر کھلاڑی 250میچ کھیلنے کے بعد بھی اچھی کارکردگی نہ دکھائے تو پھر مینجمنٹ کو سوچنا چاہیے کہ کھلاڑی اچھی کارکردگی کیوں نہیں دکھا پا رہے اور خود کھلاڑیوں کو بھی اپنی کارکردگی پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ پرفارمنس کی بنیاد پر کھلاڑیوں کو پیسے ملنے چاہئیں جبکہ یورپ میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔
ہم یورپ کی باتیں تو بہت کرتے ہیں لیکن ہمیں ان سے کچھ سیکھنا بھی چاہیے، وہاں ان کی نیشنل چیمپئن لیگ چھ ماہ پر مشتمل ہوتی ہے ، اگر ہم فنڈز کی کمی کی وجہ سے چھ ماہ تک نہیں کرسکتے تو ہمیں کم از کم دو ماہ تک نیشنل ہاکی چیمپئن شپ ضرور کروانی چاہیے ۔ ہر عام و خاص آکریہ میچ دیکھے تاکہ غلطیوں کو درست کیا جاسکے۔ میرے نزدیک ہاکی کے فروغ کیلئے حکومت کو اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس کے لیے وفاقی و صوبائی حکومتوںکو چاہیے کہ اپنی اپنی سطح پر فنڈز فراہم کریں۔
محمد ثقلین
(سابق کپتان قومی ہاکی ٹیم)
ہاکی کے زوال کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے ابھی تک اپنی شکست کو تسلیم نہیں کیا لہٰذا جب تک ہم اپنی شکست کو تسلیم نہیں کریں گے ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ابھی تک ہم صفائی پیش کرتے ہیںجبکہ فیڈریشن، کوچ اور کھلاڑی ایک دوسرے پر اس کی ذمہ داری ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
انہیں چاہیے کہ اپنی کارکردگی بہتر کریں۔ ہماری خامی یہ ہے کہ فیڈریشن کا غیر پیشہ ورانہ رویہ ہے جبکہ دہلی میں کھیلے گئے جونیئر ورلڈ کپ کی ٹیم فیڈریشن میں عہدوں پر فائز ہے۔ ٹیم سلیکشن میں صرف دوستیاں نبھائی گئی ہیں جبکہ تنخواہیں وہاں بھی دی جاتی رہیںجہاں ٹریننگ نہیں ہورہی تھی اور حیران کن بات یہ ہے کہ گزشتہ 6سالوں میں اکیڈمیوں سے ایک بھی اچھا کھلاڑی نہیں نکل سکا لہٰذا جب تک صحیح آدمی صحیح جگہ نہیں ہوگا تب تک ہاکی بہتر نہیں ہوسکتی۔
آسٹریلیا کے خلاف آخری تین میچوں میں ہم نے21گول کھائے ہیں لیکن ہم پرفارمنس کی بجائے فنڈز کی کمی کی باتیں سن رہے ہیں۔ یہ وہ کھلاڑی ہیں جو 250سے زیادہ میچ کھیلے ہوئے ہیں،میرے نزدیک انہیں انٹرنیشنل ٹریننگ کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے ۔
ہمارا المیہ تو یہ ہے کہ ہم نے پولینڈ جیسی ٹیم سے آخری منٹ میں گول کرکے میچ جیتا ہے لہٰذا یہ فنڈز کی وجہ سے نہیں بلکہ کھلاڑیوں کی بری کارکردگی کا نتیجہ ہے۔ ہم نے ایشین گیم میں سلور میڈل جیتا لیکن ہم یہ بھول رہے ہیں کہ اس سے پہلے ہم ایشین گیم کے چیمپئن رہے ہیں۔ ایشیاء کپ میں تو ہم ہمیشہ سے فائنسلٹ رہے ہیں اور اس میں ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
اصل مسئلہ تو تب ہوتا ہے جب ہم یورپی ممالک کے ساتھ کھیلتے ہیں، ہمارے کھلاڑیوں کے پاس جدید مہارت نہیں ہے اور نہ ہی ان کا فٹنس لیول ایسا ہے کہ ان کے ساتھ مقابلہ کرسکیں۔ہاکی میں ساری ذمہ داری فیڈریشن کے سیکرٹری جنرل پر ہوتی ہے اور اس نے ہی فیصلہ لینا ہوتا ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ فنڈز نہیں ملے حالانکہ حکومت پنجاب نے 22کڑور روپے کے فنڈز جاری کیے اور ابھی ان میں کرپشن کے الزامات کے حوالے سے تحقیقات ہورہی ہیں لہٰذا جب تک پیسہ کھلاڑیوں پر استعمال نہیں ہوگا ، میرٹ پر سلیکشن نہیں ہوگی اور پرفارمنس کی بنیاد پر کوچ نہیں بنایا جائے گا تب تک ہاکی میں بہتری نہیں آسکتی۔ کوچ کی تقرری کے لیے یہ معیار ہونا چاہیے کہ نیشنل چیمپئن کو کوچ بنایا جائے گا ۔
2010ء میں جب ہم بارہویں نمبر پر آئے تو ہم نے قوم سے وعدہ کیا کہ آئندہ ورلڈ کپ میںہم ٹاپ 4میں ہوں گے لیکن ہمارا نتیجہ یہ رہتا ہے کہ ہم چار سال کے بعد ورلڈ کپ سے ہی باہر ہو جاتے ہیں ۔ پھر ہم وعدہ کرتے ہیں کہ اولمپکس میں فائنلسٹ ہوں گے اور اب ہم اولمپکس سے ہی باہر ہوگئے ہیں لہٰذا ہاکی کی یہ صورتحال افسوسناک اور توجہ طلب ہے۔ جہاں تک فنڈز کی بات ہے تو اس فیڈریشن کو بھی فنڈز ملے جبکہ تاریخ میں سب سے زیادہ فنڈز قاسم ضیاء کے دور میں ملے ہیں لیکن ہم پھر بھی ورلڈ کپ سے باہر رہے۔