سپریم کورٹ سے ناکام قراردی گئی بلوچستان حکومت بدستورقائم
بلوچستان حکومت خودنہیں جاتی تو وفاق کوفیصلے پرعمل کراناہوگا،افتخارگیلانی
GENEVA:
سپریم کورٹ کی طرف سے ناکام قرار دیے جانے کے بعد بلوچستان حکومت کی قانونی حیثیت کے بارے میں قانون دانوں کی رائے متضاد ہے۔
عدالت کے عبوری حکم کو چھ دن گزر چکے ہیں لیکن حکومت بدستورقائم ہے۔اٹارنی جنرل سمیت کچھ قانون دان اس بارے میں سپریم کورٹ کے عبوری حکم کو حکومتی معاملات میں مداخلت اور نا قابل عمل سمجھتے ہیں جبکہ کچھ کی رائے ہے کہ بلوچستان حکومت قانونی اور اخلاقی جوازکھو چکی ہے اس لیے اگر صوبائی حکومت خود فیصلہ تسلیم نہیںکرتی تو وفاقی حکومت کو اپنا کردار ادا کر نا چاہیے۔
ایکسپریس نے بلوچستان حکومت اور عدالتی فیصلے کے بارے میں جب اٹارنی جنرل عرفان قادر سے تبصرے کیلیے کہا تو پہلے تو انھوں نے انکارکیا اورکہا کہ وہ جوکہیںگے عدالت کے اندرکہیںگے لیکن جب اس نمائندے نے انھیں یاد دلایا کہ حکومت پاکستان کے سب سے بڑے وکیل کے طور پر قانونی سوالات پر موقف دینا ان کی ذمہ داری ہے تو انھوں نے بتایا دو ستمبر 2009کو سپریم جوڈیشل کونسل نے ججوںکیلیے جو ضابطہ اخلاق جاری کیا ہے اس کے مطابق جج کسی مباحثے میں ملوث نہیں ہو سکتے نہ ہی کسی سیاسی سوال پر رائے زنی کر سکتے ہیںگوکہ اس کا تعلق کسی قانونی سوال سے ہو۔
اٹارنی جنرل نے کہا اگر جج ایسا کریںگے تو یہ ان کے حلف کی خلاف ورزی ہوگا۔انھوں نے بتایا جج آئین کی حدود سے باہر نہیں جا سکتے ،انھیں حکومتوںکی کارکردگی کے بارے میں آبزرویشن نہیں دینی چاہیے۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا حکومتیں عدالتوںکے ماتحت نہیں اور نہ ہی عدالت کی آبزرویشن سے حکومتیں ختم ہو سکتی ہیں،اس کیلیے آئین میں طریقہ کار موجود ہے۔سنیئر وکیل اعتزاز احسن کی رائے بھی کم و بیش یہی تھی لیکن ان کا کہنا تھا کہ عدالت حکومت کی کارکردگی پر آبزرویشن دے سکتی ہے لیکن عدالت کی آبزرویشن سے حکومت ختم نہیں ہو سکتی۔سابق وزیر قانون افتخارگیلانی نے بتایا کہ بلوچستان حکومت قانونی اور اخلاقی جوازکھو چکی ہے۔
سپریم کورٹ کی طرف سے ناکام قرار دیے جانے کے بعد بلوچستان حکومت کی قانونی حیثیت کے بارے میں قانون دانوں کی رائے متضاد ہے۔
عدالت کے عبوری حکم کو چھ دن گزر چکے ہیں لیکن حکومت بدستورقائم ہے۔اٹارنی جنرل سمیت کچھ قانون دان اس بارے میں سپریم کورٹ کے عبوری حکم کو حکومتی معاملات میں مداخلت اور نا قابل عمل سمجھتے ہیں جبکہ کچھ کی رائے ہے کہ بلوچستان حکومت قانونی اور اخلاقی جوازکھو چکی ہے اس لیے اگر صوبائی حکومت خود فیصلہ تسلیم نہیںکرتی تو وفاقی حکومت کو اپنا کردار ادا کر نا چاہیے۔
ایکسپریس نے بلوچستان حکومت اور عدالتی فیصلے کے بارے میں جب اٹارنی جنرل عرفان قادر سے تبصرے کیلیے کہا تو پہلے تو انھوں نے انکارکیا اورکہا کہ وہ جوکہیںگے عدالت کے اندرکہیںگے لیکن جب اس نمائندے نے انھیں یاد دلایا کہ حکومت پاکستان کے سب سے بڑے وکیل کے طور پر قانونی سوالات پر موقف دینا ان کی ذمہ داری ہے تو انھوں نے بتایا دو ستمبر 2009کو سپریم جوڈیشل کونسل نے ججوںکیلیے جو ضابطہ اخلاق جاری کیا ہے اس کے مطابق جج کسی مباحثے میں ملوث نہیں ہو سکتے نہ ہی کسی سیاسی سوال پر رائے زنی کر سکتے ہیںگوکہ اس کا تعلق کسی قانونی سوال سے ہو۔
اٹارنی جنرل نے کہا اگر جج ایسا کریںگے تو یہ ان کے حلف کی خلاف ورزی ہوگا۔انھوں نے بتایا جج آئین کی حدود سے باہر نہیں جا سکتے ،انھیں حکومتوںکی کارکردگی کے بارے میں آبزرویشن نہیں دینی چاہیے۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا حکومتیں عدالتوںکے ماتحت نہیں اور نہ ہی عدالت کی آبزرویشن سے حکومتیں ختم ہو سکتی ہیں،اس کیلیے آئین میں طریقہ کار موجود ہے۔سنیئر وکیل اعتزاز احسن کی رائے بھی کم و بیش یہی تھی لیکن ان کا کہنا تھا کہ عدالت حکومت کی کارکردگی پر آبزرویشن دے سکتی ہے لیکن عدالت کی آبزرویشن سے حکومت ختم نہیں ہو سکتی۔سابق وزیر قانون افتخارگیلانی نے بتایا کہ بلوچستان حکومت قانونی اور اخلاقی جوازکھو چکی ہے۔