سیاسی پارٹیاں اور این جی اوز
این جی اوز اور سیاسی پارٹیاں دنیا بھر میں کارکردگی کے اعتبار سے الگ الگ زمینی دائرہ کار رکھتی ہیں۔
قبل اس کے کہ نفس مضمون کی طرف بڑھا جائے اردو زبان کا شکریہ، جس نے کس آسانی سے تذکیر و تانیث، واحد جمع کو خواہ وہ دیگر زبانوں سے مستعار ہیں ان کو با آسانی حل کر لیا جاتا ہے، جیسے انگریزی زبان کا لفظ نان گورنمنٹل آرگنائزیشن (Non Governmental Organisation) ''این جی او'' (NGO) اور اس کو جمع کے صیغے کے طور پر این جی اوز (این جی اوز NGO's) صرف انگریزی کے حرف ایس "S" کو تصرف میں لا کے جمع کا صیغہ بنا دیا جاتا ہے۔
این جی اوز اور سیاسی پارٹیاں دنیا بھر میں کارکردگی کے اعتبار سے الگ الگ زمینی دائرہ کار رکھتی ہیں۔ آئیے پہلے این جی اوز کے دائرہ کار کو موضوع گفتگو بناتے چلتے ہیں۔ این جی اوز جو پاکستان میں عام رجسٹرڈ کی جاتی ہیں ان میں صوبائی نوعیت اور شہری نوعیت کی ہوتی ہیں۔ مثلاً پاکستان کے چاروں صوبوں میں اور پھر ان کے شہری یا دیہی دائرہ کار پر منحصر ہوتی ہیں آئیے کراچی سے اس گفتگو کا آغاز کرتے چلیں حکومت سندھ کا سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ ہے یعنی سماجی بہبود کا محکمہ، جو اس کو رجسٹر کراتا ہے۔
بعض تنظیمیں کراچی شہر تک کام کرتی ہیں اور بعض دوسرے دیہی علاقوں میں کراچی سمیت۔ ان کے دست و بازو کچھ اس طرح ہوتے ہیں صدر، نائب صدر، سیکریٹری، خزانچی اور 12 بنیادی گورننگ باڈی کے ارکان جو الگ الگ سماجی، تنظیمی خدمات انجام دیتے ہیں۔ کوئی صحت اور تعلیم پر، کوئی قیدیوں کی بہبود پر تو کوئی بے زمین لوگوں کے لیے مکانوں کی تعمیر پر۔ غرض یہ کہ ہر ایک این جی او الگ عوامی بہبود پروگرام بناتی ہیں اور اس کے لیے عوام سے چندہ جمع کرتی ہیں۔ خواہ وہ ورائٹی پروگرام کے ذریعے یا بچوں کے پروگراموں کے ذریعے عوام کو اپنی جانب مائل کریں۔
اسپتال اور اسکولوں کی تعمیر، کوچنگ سینٹر اور غریب یا دکھی انسان کی خدمت۔ ان میں بھی کچھ کالی بھیڑیں ہوتی ہیں جو ان مقاصد کے حصول کے ساتھ ساتھ تخریبی کارروائیوں میں مصروف ہوتی ہیں جن کے چہروں پر پڑی دیر یا سویر نقاب کشائی ہو ہی جاتی ہے۔ لیکن مجموعی طور پر این جی اوز اپنے مثبت کاموں میں مصروف رہتی ہیں۔ وہ مقامی ہوں یا صوبائی یا بین الاقوامی ہر ایک کے فلاحی مقاصد ہوتے ہیں۔ ان کے نعروں میں اولیت فلاح کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتی۔ بالکل ایسے ہی جیسے فلاحی انجمنوں یعنی این جی اوز اور ٹرسٹ کے مقاصد ہوتے ہیں۔
یہ سب حکومت اور عوام کی معاونت سے اپنی منزلیں طے کرتے ہیں۔ مگر رجسٹریشن اتھارٹی ان کے حساب کتاب کو آڈٹ رپورٹ سے چیک کرتی ہیں۔ جب کہ سیاسی پارٹیاں کسی ملکی اتھارٹی سے کم از کم ہمارے ملک میں نہ آڈٹ کراتی ہیں اور نہ ان کا کوئی احاطہ کیا جاتا ہے نہ کوئی ضابطے موجود ہیں نہ قانون، کہ جس کے تحت ان کے اثاثوں، ناموں کی تصدیق کی جا سکے اس میں کوئی صاحب ثروت شخص کوئی نعرہ لے کر اٹھتا ہے اور لوگ ایک غول کی صورت میں اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔
خاص طور سے جب سے تعلیمی اداروں میں انتخابات بند ہوئے ہیں اور رفتہ رفتہ وہ گروہ سیٹوں پر قبضہ کر لیتا ہے اس کی واضح مثال ہمارے ملک کی مسلم لیگ کو لیں جس جماعت نے پاکستان بنایا جس کے کئی دھڑے ہوتے گئے اور اب یہ کئی ''پ، ن، ش، ق'' وغیرہ بن گئے پیپلز پارٹی، اسی طرح ف گروپ، جمعیت اسلام اور کئی حصے نعرے لگا کر نسلوں، رنگوں اور فرقوں کی بنیاد پر پارٹیوں کا نام اور اگر کوئی پارٹی کالعدم قرار دے دی جائے تو پھر وہ نئے نام سے فعال۔
پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں مسائل کو حل کرنے کے لیے پارٹیاں تشکیل نہیں دی جاتیں بلکہ نسل پرستی کی بنیاد پر پارٹیاں تشکیل دی جاتی ہیں۔ اگر پارٹیوں کو کالعدم کر دیا جائے تو پھر لفظوں کو آگے پیچھے کرکے نئی پارٹی بنا دیا جائے مثلاً نیشنل عوامی پارٹی کو کالعدم قرار دے دیا گیا جو بعد ازاں عوامی نیشنل پارٹی پھر تازہ دم پہلے نیشنل عوامی پارٹی میں ہر زبان کے بولنے والے موجود تھے جیسے حبیب جالب، محمود الحق عثمانی، اختر رضوی، احمد الطاف انسان، عطا اللہ مینگل لیکن جب یہ پشتو زبان بولنے والی پارٹی بن گئی تو پھر خوب چلنے پھلنے پھولنے لگی اور پہلی مرتبہ فرنٹیئر کو خیبرپختونخوا کا نام اس نے صوبے کو عطا کیا۔
اس میں کوئی برائی نہ تھی مگر نام رکھ کر صوبہ کو نام تو ملا اور بے نام این ڈبلیو ایف پی (NWFP) تو گیا یہ بھی انگریز سرکار کا دیا ہوا نام تقریباً ساٹھ سال چلتا رہا۔ یہ بھی عجب مذاق تھا مگر جب پنجاب نے کالا باغ ڈیم کا مسئلہ پیش کیا تو بغیر تحقیق کیے کالا باغ کے خلاف لیڈران اپنی اپنی بولی بولتے رہے سیلاب آتے گئے لوگ مرتے گئے۔
یہ بھی عجب مذاق۔ کالا باغ ڈیم نامنظور اب ہزاروں لوگوں کا بہہ جانا منظور۔ لیڈروں کی جہالت محض مقبول ہونے کے لیے منفی نعرے لگانے والے کہاں ہیں پن بجلی ناپید ملک اندھیرا بجلی مہنگی لیکن کالا باغ نا منظور اور منفی سیاست محض پنجاب کے خلاف۔ سردیوں میں سندھ اور کے پی کے برباد ہو جائیں گے سندھ کے تمام علاقے سیلاب کی تباہ کاریوں سے برباد دریائی سطح مٹی سے ہر سال ایک فٹ سے آدھا فٹ بلند ہو رہی ہے۔
اب سندھ اور کے پی کے ڈوب رہا ہے شہروں میں پانی اور سیلاب ندی، نالے کچرے کے ڈھیر سے بھر گئے اگر کراچی میں تیز بارش ہوتی تو 1974ء کی طرح کراچی کے نالے مزید ابلتے۔ ندی نالوں پر پھر سیکڑوں لوگ بہیں گے اس کے علاوہ تین ہٹی پر پل کے نیچے گھر بن گئے اور پانی کا راستہ تنگ ہو گیا ہے۔
کالا باغ کے خلاف شور مچانے والے کیا سوغات لے کر آئے ہیں۔ بجلی غائب اور مہنگی تمام اشیائے صرف مہنگی۔ آخر لیڈروں کا کیا وژن ہے نگاہ کی پستی تو ایک معمولی این جی او کے ارکان سے بھی پست، محض ووٹ کے لیے نکتہ دانی سیاسی پارٹیوں کی نکتہ دانی کا حشر تو کسی اشیائے صرف کی کمپنی کی پروڈکٹ سے بھی بدتر ہے۔
جو ایک پرانے خیال کو نئے انداز میں پیش کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ ابھی کوئی خاص بات نہیں کہ فوج کو مجبوراً مداخلت کرنی پڑی اور سزاؤں کے قوانین کو اپنے ہاتھ میں لینا پڑا اور نہ صرف سویلینز محاذ پر کارروائی کرنی پڑی بلکہ میجر جنرل کے لیول تک کارروائی کرنی پڑی (NLC) میں جو کارروائی کی گئی یقینا یہ حیرت کا مقام ہے۔
سیاست دانوں کی غیر دانشمندی کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے طالبان کو مذاکرات کے بعد حکومت تقریباً حوالے کر دی تھی۔ مختلف چینلوں سے ایسی ہی گفتگو ہو رہی تھی۔ مگر ضرب عضب نے تمام صورت حال کو یکسر بدل دیا اور وزارت خارجہ کا جو قلم دان خالی تھا ایسا لگتا ہے کہ اس کے بعض حصوں کو جنرل راحیل نے پر کر دیا، خصوصاً روس کے عسکری اداروں سے تعلقات کا احیا، برازیل کے دورہ اور جنوبی افریقہ کا دورہ کافی اہمیت کا حامل ہے۔
جب کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی لیڈرشپ ابھی تک سیاسی طور پر بالغ نہیں ہو سکی محض ان میں اس بات کی پختگی تو ضرور پیدا ہو چکی ہے کہ روپیہ کیسے جمع کیا جاتا ہے محلات بنانے کا کلچر خاندان کے لوگوں کو سیاست اور کاروبار میں لگانا اور بے وقت کی راگنی جیسے نیا کاروباری ٹیکس کا لگانا، اور پٹرولیم مصنوعات میں مزید کمی نہ کیا جانا جب کہ ایران پر پابندیاں اٹھنے کے اعلان نے پٹرول کی عالمی قیمت میں 35 فی صد مزید کمی کر دی ہے۔ ضرب عضب کی کامیابی سے اسٹاک ایکسچینج کے انڈکس میں نمایاں تیزی ہوئی ہے۔
ایسے موقعے پر مارکیٹ کو مزید تقویت کی ضرورت ہے۔ اب جب کہ اغوا برائے تاوان اور اس قسم کی پُرہول وارداتیں ملک سے رخصت ہوتی جا رہی ہیں حکومت کو چاہیے تاجروں سے مزید ود ہولڈنگ ٹیکس ایک برس کے لیے ختم کر دیا جائے اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخ میں مزید کمی کر دی جائے تا کہ مارکیٹ میں استحکام پیدا ہو۔
اگر تجزیہ کیا جائے کہ ایک دوسرے درجے کی این جی او سے بھی لیڈران کی نگاہ کوتاہ ہے اب آپ سوچیں گے کہ عمران خان این جی او کو کامیابی سے کیوں چلا سکے اور شوکت خانم اسپتال چلا رہے ہیں یہ محض کرکٹ کی مشہوری کا نتیجہ ہے جس پر انھوں نے رقم اکٹھا کر لی مگر وہ اکیلے نہیں چل سکتے تھے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی بنیاد پر وہ کھڑے تھے ورنہ ڈی چوک کا دھرنا نتائج ضرور لے آتا پھر بھی ڈی چوک کے دھرنے کی وجہ سے یونین کمیٹی کی سیٹوں پر ان کی کارکردگی اچھی رہی وقت گزرنے کے بعد کیا محض عمران خان کے علاوہ لوگ روایتی سیاسی اننگ کھیل رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن کے مقابلے میں پھر بھی وزیر اعظم نواز شریف میں دور اندیشی زیادہ ہے کیونکہ وہ عمران خان کو ایوان میں آنے دینے کے مسئلے پر بردباری سے کام لے رہے ہیں۔ ورنہ اسمبلی قبل از وقت اپنا وجود کھو بیٹھتی۔ یہ ایک طویل گفتگو ہے کہ کیوں اور کیسے؟ بہرحال عمران خان Loose Shot لوز شاٹ کھیلنے کے عادی ہیں۔ اس لیے کہ وہ این جی او کے انداز میں سیاسی پارٹی چلا رہے ہیں۔