وزیر اعلیٰ کی رٹ
جنوبی پنجاب سے متصل گھوٹکی کے اطراف کے علاقے میں دریا ئے سندھ کی لہروں نے تباہی مچا دی۔
حکومت سندھ نے اپنی رٹ قائم کر دی ہے۔ صوبے میں 11 اگست تک اسکول کالج بند رہنے کے فیصلے پر عمل درآمد ہو گیا اور وزیر اعلیٰ ہاؤس میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ اگر کسی نے پرائیویٹ اسکول اس دوران کھولا تو اس کے مالکان کو گرفتار کر لیا جائے گا اور ایک تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ شہر کو فراہم کے جانے والے پانی میں مہینوں سے کلورین نہیں ملائی جا رہی ہے اس بناء پر دماغ کو کھانے والے خلیے کی افزائش سے 11 سے زیادہ افراد مر چکے ہیں۔
محکمہ تعلیم کے سالانہ تعلیمی کلینڈر کے مطابق 2 مہینوں کی تعطیلات کے بعد یکم اگست سے تعلیمی ادارے بھی دوبارہ کھلنے تھے۔ جولائی کے آخری عشرے میں کراچی سمیت سندھ بھر میں بارشوں کی پیشگوئی ذرایع ابلاغ کی زینت بنی۔ اندرون سندھ شہروں میں خوب بارش ہوئی۔ محکمہ موسمیات نے کراچی میں خوفناک بارشوں کی پیشگوئی کی اور آفات کی روک تھام کے ادارے نے کراچی میں سیلاب کی وارننگ جاری کر دی مگر کراچی میں ایک دن بمشکل ایک گھنٹے سے بھی کم بارش ہوئی۔ جنوبی پنجاب سے متصل گھوٹکی کے اطراف کے علاقے میں دریا ئے سندھ کی لہروں نے تباہی مچا دی۔
وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ جب ان علاقوں کے دورے پر گئے تو انھوں نے واضح کیا کہ صوبے میں کسی بڑے سیلاب کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ گھوٹکی اور اس کے مضافاتی علاقوں میں ایسی صورتحال ہر سال پیدا ہوتی ہے۔ یوں موسم کی مجموعی صورتحال میں کراچی سمیت صوبے بھر میں کوئی ہنگامی صورتحال نہیں تھی کہ 30 جولائی کی شام کو محکمہ تعلیم نے 11اگست تک اسکول بند کرنے کا اعلان کیا۔ پرائیویٹ اسکولوں کی انجمن نے حکومت کے احکامات نہ ماننے کا فیصلہ کیا۔ انجمن کے عہدیداران کا کہنا تھا کہ کراچی سمیت صوبے بھر میں موسم کی کوئی غیر معمولی صورتحال نہیں ہے پھر ستمبر تک بارشیں ہوتی ہیں۔
کراچی شہر میں امن و امان کی صورتحال غیر یقینی رہتی ہے، سیاسی جماعتوں کی جانب سے شہر میں ہڑتال ایک معمول کا مشغلہ ہے پھر انھی مہینوں میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے بھی امکانات ہیں، اگر یکم اگست سے کلاسیں شروع کی جائیں گی تو نصاب کی تکمیل ہو جائے گی۔
صوبائی محکمہ تعلیم کے سیکریٹری جن پر کرپشن کے الزامات نہیں ہیں اس منطق سے متفق ہوئے اور وزیر اعلیٰ سے فیصلہ تبدیل کرنے کی استدعا کی مگر سندھ میں اس وقت کوئی وزیر تعلیم نہیں یوں وزیر اعلیٰ کو اپنی رٹ قائم کرنے کا موقع مل گیا۔ سندھ گزشتہ سالوں سے اچھی طرز حکومت سے محروم ہے اور بری طرز حکومت کا شکار ہے۔ یوں تو تمام محکمے متاثر ہوئے ہیں مگر انسانی زندگی سے قریب محکمے تعلیم اور بلدیات خصوصی طور پر متاثر ہوئے ہیں ۔ سندھ میں اب بھی کئی ہزار کے قریب گھوسٹ اسکول موجود ہیں، ان اسکولوں میں اساتذہ اور غیر تدریسی عملہ کا باقاعدہ تقرر ہے اور ہر سال کروڑوں روپے تنخواہوں اور دیگر اخراجات کی مد میں ادا ہوتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق پیپلز پارٹی کے بانی اور پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے آبائی شہر لاڑکانہ میں بھی ایسے گھوسٹ موجود ہیں۔ اسکولوں میں غیر حاضر استاد کا ادارہ بدستور موجود ہے۔ کراچی میں کام کرنے والے بعض صحافیوں کے نام اندرون سندھ کے اضلاع میں اسکول ٹیچر کی تنخواہوں کے رجسٹر پر موجود ہیں اور ہر ماہ سرکاری تنخواہ وصول کرتے ہیں۔
کراچی میں بعض افراد مختلف ناموں سے سرکاری اسکولوں میں ملازمت کرتے ہیں۔ اس طرح سندھ کے کئی ہزار اسکولوں میں بنیادی سہولتیں موجود نہیں ہیں۔ تعلیم پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیمیں (NGOs) سندھ کے بارے میں رپورٹس جاری کرتی ہیں ان پر بار بار یہ تحریر ہوتا ہے کہ بہت سے اسکول پینے کے صاف پانی سمیت بیت الخلاء اور چار دیواری جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔
وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کے گزشتہ دور میں بھی پیر مظہر الحق وزارت تعلیم کے نگراں مقرر ہوئے۔ ان کے دور میں نائب قاصد سے لے کر ڈائریکٹر تک کی اسامی مبینہ طور فروخت ہوئی۔ کئی ہزار افراد کو لاکھوں روپے لے کر بغیر کسی ٹیسٹ / انٹرویو کے استاد کے درجے پر فائز کیا گیا۔ اس کے ساتھ اساتذہ کی تنخواہوں اور ان کی پینشن کے فنڈز میں خوردبرد کی گئی۔ اب نیب اور ایف آئی اے ان معاملات کی تحقیقات کر رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے دور میں نجی تعلیمی اداروں کو من مانی کی اجازت رہی۔ ان تعلیمی اداروں میں فیس کا کوئی معیاری نظام موجود نہیں۔ ٹیوشن فیس کے علاوہ مختلف مدوں میں والدین سے رقوم وصول کی جاتی ہیں۔
مخصوص دکانوں سے کتابیں کاپیاں اور یونیفارم کی خریداری کو لازمی قرار دیا جاتا ہے۔ اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کی تنخواہ اور مراعات کا کائی باضابطہ نظام موجود نہیں ہے۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ کی تنخواہوں اور مراعات کے بارے میں کوئی قانون موجود نہیں نہ لیبر قوانین کا ان اسکولوں پر اطلاق ہوتا ہے۔ نہ مستقبل میں کسی قانون بننے کی امید ہے۔
اگر والدین کسی بڑے پرائیویٹ اسکول کے خلاف محکمہ تعلیم سے رجوع کرتے ہیں تو متعلقہ افسران کے پاس ٹال مٹول اور والدین کو مایوس کرنے کے علاوہ کوئی اور کردار نہیں ہوتا۔ گزشتہ حکومت نے بھارت کی طرح پرائیویٹ اسکولوں میں میرٹ کی بنیاد پر ان بچوں کے لیے نشستیں مختص کرنے کا فیصلہ کیا تھا جن کا تعلق غریب طبقات سے ہو گا مگر سندھ حکومت اس فیصلے پر عمل درآمد نہیں کر واپائی۔
صوبے میں ہر سال جب میٹرک اور انٹر کے نتائج آتے ہیں تو بچوں کے والدین یہ الزام لگاتے ہیں کہ بورڈ میں بڑے پیمانے پر کرپشن ہوتی ہے۔ اسی طرح محکمہ بلدیات اس صوبے میں زوال پذیر ہے۔ کراچی کے ہر محلے میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر جمع ہیں۔ ہر چھوٹی بڑی شاہراہ پر گٹر کا پانی جمع رہتا ہے۔ کراچی کو پانی فراہم کرنے والا ادارہ پانی کھینچنے والی مشینوں کو مسلسل چلانے کے لیے جنریٹر فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے اس طرح شہر میں پمپنگ اسٹیشن پر بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ کے نقصان کو روکنے کے لیے کسی قسم کے جنریٹر فراہم نہیں ہوئے۔
واٹر بورڈ کا عملہ لوڈشیڈنگ کی آڑ میں نچلے درجہ کی، متوسط اور غریب بستیوں پر پانی کی سپلائی منقطع کر دیتا ہے اور پھر ٹینکروں کے ذریعے پانی فروخت ہوتا ہے۔ پانی نہ ہونے سے صفائی کا معیار گرتا ہے اور بیماریاں پھیلتی ہیں۔ ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کراچی میں پانی کو صاف کرنے کے لیے کلورین ملانے کا عمل مہینوں سے بند ہے کیونکہ متعلقہ افراد کلورین کی خریداری کے لیے مختص کروڑوں روپے خوردبرد کر چکے ہیں۔ یوں نگلیریا کا مرض پھیل رہا ہے۔
یہ مرض پانی ناک میں جانے سے دماغ کو کھانے والے خطرناک بیکٹیریا سے پیدا ہوتا ہے۔ اس کا علاج ہر صورت میں پانی میں کلورین کا ملانا ہے۔ اس مرض میں اس سال 11 سے زیادہ افراد جاں بحق ہوئے۔ اگر فوری طور پر پانی میں کلورین ملانے کا عمل شروع نہ ہوا تو یہ نگلیریا وبائی مرض بن سکتا ہے مگر وزیر اعلیٰ کو محکمہ تعلیم اور محکمہ بلدیات کو بہتر بنانے کے لیے اختیارات استعمال کرنے کا خیال نہیں۔ وزیر اعلیٰ نے بچوں اور نوجوانوں کو تعلیم سے روک کر اپنی رٹ قائم کر دی ہے۔ کاش وہ محکمہ تعلیم اور محکمہ بلدیات اور دوسرے محکموں کو فعال کر کے وہاں بھی اپنی رٹ قائم کر دیں۔
محکمہ تعلیم کے سالانہ تعلیمی کلینڈر کے مطابق 2 مہینوں کی تعطیلات کے بعد یکم اگست سے تعلیمی ادارے بھی دوبارہ کھلنے تھے۔ جولائی کے آخری عشرے میں کراچی سمیت سندھ بھر میں بارشوں کی پیشگوئی ذرایع ابلاغ کی زینت بنی۔ اندرون سندھ شہروں میں خوب بارش ہوئی۔ محکمہ موسمیات نے کراچی میں خوفناک بارشوں کی پیشگوئی کی اور آفات کی روک تھام کے ادارے نے کراچی میں سیلاب کی وارننگ جاری کر دی مگر کراچی میں ایک دن بمشکل ایک گھنٹے سے بھی کم بارش ہوئی۔ جنوبی پنجاب سے متصل گھوٹکی کے اطراف کے علاقے میں دریا ئے سندھ کی لہروں نے تباہی مچا دی۔
وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ جب ان علاقوں کے دورے پر گئے تو انھوں نے واضح کیا کہ صوبے میں کسی بڑے سیلاب کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ گھوٹکی اور اس کے مضافاتی علاقوں میں ایسی صورتحال ہر سال پیدا ہوتی ہے۔ یوں موسم کی مجموعی صورتحال میں کراچی سمیت صوبے بھر میں کوئی ہنگامی صورتحال نہیں تھی کہ 30 جولائی کی شام کو محکمہ تعلیم نے 11اگست تک اسکول بند کرنے کا اعلان کیا۔ پرائیویٹ اسکولوں کی انجمن نے حکومت کے احکامات نہ ماننے کا فیصلہ کیا۔ انجمن کے عہدیداران کا کہنا تھا کہ کراچی سمیت صوبے بھر میں موسم کی کوئی غیر معمولی صورتحال نہیں ہے پھر ستمبر تک بارشیں ہوتی ہیں۔
کراچی شہر میں امن و امان کی صورتحال غیر یقینی رہتی ہے، سیاسی جماعتوں کی جانب سے شہر میں ہڑتال ایک معمول کا مشغلہ ہے پھر انھی مہینوں میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے بھی امکانات ہیں، اگر یکم اگست سے کلاسیں شروع کی جائیں گی تو نصاب کی تکمیل ہو جائے گی۔
صوبائی محکمہ تعلیم کے سیکریٹری جن پر کرپشن کے الزامات نہیں ہیں اس منطق سے متفق ہوئے اور وزیر اعلیٰ سے فیصلہ تبدیل کرنے کی استدعا کی مگر سندھ میں اس وقت کوئی وزیر تعلیم نہیں یوں وزیر اعلیٰ کو اپنی رٹ قائم کرنے کا موقع مل گیا۔ سندھ گزشتہ سالوں سے اچھی طرز حکومت سے محروم ہے اور بری طرز حکومت کا شکار ہے۔ یوں تو تمام محکمے متاثر ہوئے ہیں مگر انسانی زندگی سے قریب محکمے تعلیم اور بلدیات خصوصی طور پر متاثر ہوئے ہیں ۔ سندھ میں اب بھی کئی ہزار کے قریب گھوسٹ اسکول موجود ہیں، ان اسکولوں میں اساتذہ اور غیر تدریسی عملہ کا باقاعدہ تقرر ہے اور ہر سال کروڑوں روپے تنخواہوں اور دیگر اخراجات کی مد میں ادا ہوتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق پیپلز پارٹی کے بانی اور پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے آبائی شہر لاڑکانہ میں بھی ایسے گھوسٹ موجود ہیں۔ اسکولوں میں غیر حاضر استاد کا ادارہ بدستور موجود ہے۔ کراچی میں کام کرنے والے بعض صحافیوں کے نام اندرون سندھ کے اضلاع میں اسکول ٹیچر کی تنخواہوں کے رجسٹر پر موجود ہیں اور ہر ماہ سرکاری تنخواہ وصول کرتے ہیں۔
کراچی میں بعض افراد مختلف ناموں سے سرکاری اسکولوں میں ملازمت کرتے ہیں۔ اس طرح سندھ کے کئی ہزار اسکولوں میں بنیادی سہولتیں موجود نہیں ہیں۔ تعلیم پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیمیں (NGOs) سندھ کے بارے میں رپورٹس جاری کرتی ہیں ان پر بار بار یہ تحریر ہوتا ہے کہ بہت سے اسکول پینے کے صاف پانی سمیت بیت الخلاء اور چار دیواری جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔
وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کے گزشتہ دور میں بھی پیر مظہر الحق وزارت تعلیم کے نگراں مقرر ہوئے۔ ان کے دور میں نائب قاصد سے لے کر ڈائریکٹر تک کی اسامی مبینہ طور فروخت ہوئی۔ کئی ہزار افراد کو لاکھوں روپے لے کر بغیر کسی ٹیسٹ / انٹرویو کے استاد کے درجے پر فائز کیا گیا۔ اس کے ساتھ اساتذہ کی تنخواہوں اور ان کی پینشن کے فنڈز میں خوردبرد کی گئی۔ اب نیب اور ایف آئی اے ان معاملات کی تحقیقات کر رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے دور میں نجی تعلیمی اداروں کو من مانی کی اجازت رہی۔ ان تعلیمی اداروں میں فیس کا کوئی معیاری نظام موجود نہیں۔ ٹیوشن فیس کے علاوہ مختلف مدوں میں والدین سے رقوم وصول کی جاتی ہیں۔
مخصوص دکانوں سے کتابیں کاپیاں اور یونیفارم کی خریداری کو لازمی قرار دیا جاتا ہے۔ اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کی تنخواہ اور مراعات کا کائی باضابطہ نظام موجود نہیں ہے۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ کی تنخواہوں اور مراعات کے بارے میں کوئی قانون موجود نہیں نہ لیبر قوانین کا ان اسکولوں پر اطلاق ہوتا ہے۔ نہ مستقبل میں کسی قانون بننے کی امید ہے۔
اگر والدین کسی بڑے پرائیویٹ اسکول کے خلاف محکمہ تعلیم سے رجوع کرتے ہیں تو متعلقہ افسران کے پاس ٹال مٹول اور والدین کو مایوس کرنے کے علاوہ کوئی اور کردار نہیں ہوتا۔ گزشتہ حکومت نے بھارت کی طرح پرائیویٹ اسکولوں میں میرٹ کی بنیاد پر ان بچوں کے لیے نشستیں مختص کرنے کا فیصلہ کیا تھا جن کا تعلق غریب طبقات سے ہو گا مگر سندھ حکومت اس فیصلے پر عمل درآمد نہیں کر واپائی۔
صوبے میں ہر سال جب میٹرک اور انٹر کے نتائج آتے ہیں تو بچوں کے والدین یہ الزام لگاتے ہیں کہ بورڈ میں بڑے پیمانے پر کرپشن ہوتی ہے۔ اسی طرح محکمہ بلدیات اس صوبے میں زوال پذیر ہے۔ کراچی کے ہر محلے میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر جمع ہیں۔ ہر چھوٹی بڑی شاہراہ پر گٹر کا پانی جمع رہتا ہے۔ کراچی کو پانی فراہم کرنے والا ادارہ پانی کھینچنے والی مشینوں کو مسلسل چلانے کے لیے جنریٹر فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے اس طرح شہر میں پمپنگ اسٹیشن پر بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ کے نقصان کو روکنے کے لیے کسی قسم کے جنریٹر فراہم نہیں ہوئے۔
واٹر بورڈ کا عملہ لوڈشیڈنگ کی آڑ میں نچلے درجہ کی، متوسط اور غریب بستیوں پر پانی کی سپلائی منقطع کر دیتا ہے اور پھر ٹینکروں کے ذریعے پانی فروخت ہوتا ہے۔ پانی نہ ہونے سے صفائی کا معیار گرتا ہے اور بیماریاں پھیلتی ہیں۔ ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کراچی میں پانی کو صاف کرنے کے لیے کلورین ملانے کا عمل مہینوں سے بند ہے کیونکہ متعلقہ افراد کلورین کی خریداری کے لیے مختص کروڑوں روپے خوردبرد کر چکے ہیں۔ یوں نگلیریا کا مرض پھیل رہا ہے۔
یہ مرض پانی ناک میں جانے سے دماغ کو کھانے والے خطرناک بیکٹیریا سے پیدا ہوتا ہے۔ اس کا علاج ہر صورت میں پانی میں کلورین کا ملانا ہے۔ اس مرض میں اس سال 11 سے زیادہ افراد جاں بحق ہوئے۔ اگر فوری طور پر پانی میں کلورین ملانے کا عمل شروع نہ ہوا تو یہ نگلیریا وبائی مرض بن سکتا ہے مگر وزیر اعلیٰ کو محکمہ تعلیم اور محکمہ بلدیات کو بہتر بنانے کے لیے اختیارات استعمال کرنے کا خیال نہیں۔ وزیر اعلیٰ نے بچوں اور نوجوانوں کو تعلیم سے روک کر اپنی رٹ قائم کر دی ہے۔ کاش وہ محکمہ تعلیم اور محکمہ بلدیات اور دوسرے محکموں کو فعال کر کے وہاں بھی اپنی رٹ قائم کر دیں۔