سب اچھا رپورٹ
کسی فوجی یونٹ میں سب سے سینئر جے سی او کو ’’صوبیدار میجر‘‘(ایس ایم) کہا جاتاہے۔
برطانیہ کا کہنا تھا کہ برطانوی افسروں اور برٹش انڈیا فوج کے مقامی دستوں میں بات چیت کی افہام و تفہیم میں جو خلا تھا اس کی وجہ سے برٹش ایسٹ انڈیا آرمی میں بغاوت ہو گئی جو کہ بعدازاں 1857ء کی جنگ آزادی پر منتج ہوئی۔ 1857ء کے بعد برطانوی شاہی حکمرانی قائم کرنے کی خاطر انڈین وائسرائے کمشنڈ افسر (وی سی او) کا رینک تخلیق کیا گیا تا کہ موثر رابطہ استوار ہو سکے۔ 1947ء میں آزادی کے بعد اس کو جونیئر کمشنڈ افسر (جے سی او) کا نام دیا گیا۔ بنگلہ دیش فوج نے افسر اور سپاہی کے درمیان غیر ضروری رکاوٹ کو ختم کر دیا تاہم بھارت' پاکستان اور نیپال کی فوج میں جے سی او اب بھی موجود ہے۔
کسی فوجی یونٹ میں سب سے سینئر جے سی او کو ''صوبیدار میجر''(ایس ایم) کہا جاتاہے۔ یہ منفرد عہدیدار ایک یونٹ کے اندر کمان کے سلسلے کو عبور کر کے کمانڈنگ افسر (سی او) کو روزمرہ رپورٹ دیتا ہے۔ صوبیدار میجر جو رپورٹیں دیتا ہے وہ زیادہ تو اس نوعیت کی ہوتی ہیں۔
مثلاً -1 فلاں افیسر بغیر چھٹی کے غیر حاضر ہے (2) (AWOL) ایک افسر ڈرائیونگ لائسنس یا سی او کی اجازت کے بغیر گاڑی چلا رہا ہے (3) فلاں افسر ممنوعہ علاقے میں گیا ہے (4) راشن یا پٹرول یا اسٹور کے سامان کا غلط استعمال ہوا (5) گاڑیوں کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا وغیرہ وغیرہ اور اس رپورٹ کا اختتام بالعموم اس جملے پر ہوتا ہے کہ ''باقی سب اچھا ہے صاحب''۔
یہ صوبیدار میجر کسی بھی یونٹ کے ایس ایم کی ایک عمومی مثال ہے یعنی لاہور میں 1965ء میں میرے یونٹ کے ایس ایم نے میرے کمانڈنگ افسر لیفٹیننٹ کرنل (بعد ازاں بریگیڈئیر) ظاہر حسین (میجر جنرل شکیل حسین کے والد جو سری لنکا میں ہمارے ہائی کمشنر بھی رہے) اس نے یہ زبانی رپورٹ دی ''چاند صاحب نے گزشتہ روز یونٹ کی ساکھ بچا لی۔
ایک پاگل عورت فورٹریس اسٹیڈیم کے نزدیک ریلوے پل کے اوپر 70 میل فی گھنٹہ سے بھی زیادہ کی رفتار سے گاڑی چلا رہی تھی کہ اس نے اچانک اپنی گاڑی روک دی۔ اگر چاند صاحب کو گاڑی چلانے میں اتنی مہارت نہ ہوتی جو جیپ پر اس عورت کے پیچھے تھے اور انھوں نے بڑی خوبی سے جیپ روک لی ورنہ بہت مہلک حادثہ ہو سکتا تھا۔ لیکن اس نے کمانڈنگ افسر کو حقیقت میں جو بتایا وہ یہ تھا کہ اکرام سہگل اس عورت کا پیچھا کر رہے تھے جو کمانڈنگ افسر کی جیپ 70 میل فی گھنٹہ سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے چلا رہی تھی اور اس کے پاس فوج کا ڈرائیونگ لائسنس بھی نہیں تھا۔
جوڈیشل کمیشن کی انتخابات کے بارے میں تحقیقات الیکشن کمیشن آف پاکستان (ECP) کے لیے نقصان دہ تھیں اور ان میں داخلی طور پر تضاد بھی موجود تھا مثلاً 1 ای سی پی نے جو اضافی عملہ لیا وہ بلا ضرورت تھا۔ 2 پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان نے بغیر منصوبہ بندی کے 20ملین (دو کروڑ) بیلٹ پیپر عین آخری وقت تک پاکستان پوسٹ فاؤنڈیشن پریس سے چھپوا لیے۔ اس میں کسی غلط استعمال کا ثبوت تو نہیں ملا لیکن ناقص منصوبہ بندی کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ 3 اضافی بیلٹ پیپرز کا چھپوانا قانوناً درست نہیں تھا۔ 4 نادرا کی رپورٹ کے مطابق فارم نمبر 15 سمیت دیگر بہت سے ضروری دستاویزات پولنگ بیگز میں موجود نہیں تھیں۔ جن کا کہ غلط استعمال کیا جانا ممکن ہے۔
5 جوڈیشل کمیشن کے مطابق واقعاتی شہادت صورت حال کا نتیجہ برآمد کرنے میں کلیدی اہمیت رکھتی ہے۔ 6 انمٹ مقناطیسی سیاہی کی مناسب طور پر پڑتال نہیں کی گئی تھی کیونکہ اس کے لیے ٹیکنالوجی کی کمی تھی جس کے نتیجے میں انگوٹھوں کے نشانات کی پڑتال نہیں کی جا سکی۔7انتخابی عملے کی تربیت کا فقدان اور ریٹرننگ افسروں اور پریذائیڈنگ افسروں پر کام کا ضرورت سے زیادہ بوجھ ان کے لیے انتخابی قوانین پر مناسب طریقے سے عمل درآمد کرانے میں رکاوٹ رہا۔ 8 ای سی پی اور پی ای سی کے مابین تعاون کا فقدان 9 ای سی پی نے قانون کے مطابق صاف' شفاف اور دیانتدارانہ انتخابات کرائے تاہم جے سی صاف شفاف کی وضاحت نہیں کر سکا کہ اس نے یہ نتیجہ کن اصولوں کی بنا پر اخذ کیا۔
جوڈیشل کمیشن صاف شفاف کے لفظ کا عمومی مطلب ہی اخذ کر سکتا تھا لیکن ای سی پی کو انتخابی عمل کے دوران بہت سی رکاوٹیں درپیش تھیں۔ 10 جوڈیشل کمیشن نے قرار دیا کہ تحریک انصاف کی طرف سے انتخابات میں دھاندلی کا الزام ثابت نہیں ہوا۔ 11جوڈیشل کمیشن نے اس نتیجے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مجموعی طور پر انتخابات قانون اور ضابطے کے مطابق تھے البتہ کراچی میں ایم کیو ایم کے بعض انتخابی حلقوں میں انتخابات مکمل طور پر صاف شفاف نہیں تھے۔
میں نے 23 جولائی 2015ء کو جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے آنے سے قبل ''مستقبل کا نقشہ'' کے عنوان سے ایک آرٹیکل لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ فراڈ تو یقیناً ہوا لیکن اس کے ثبوت واضح نہیں ہیں جس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا۔ لیکن انتخابات کے بعد جو بحران پیدا ہوا اس کو لاپرواہی کا نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
جس کی ذمے داری الیکشن کمیشن پر عائد ہوتی ہے اور ایسے لگتا ہے کہ اس کا مقصد مسلم لیگ ن کو فائدہ پہنچانا تھا۔ آئین میں بیلٹ بکس کے تقدس پر بہت زور دیا گیا ہے جب کہ ووٹ ایک مقدس اعتماد کی حیثیت رکھتے ہیں جن کی گنتی مکمل یک جہتی کے ساتھ کی جانی چاہیے لیکن 2013ء کے انتخابی عمل میں بہت سی خامیاں تھیں اور یہ ایک ایسی مشق تھی جس میں بدانتظامی نمایاں تھی لہذا ان انتخابات کی بنیاد پر وجود میں آنے والی حکومت آئین کی خلاف ورزی کے مترادف ہے''۔
صوبیدار میجر جو معلومات فراہم کرتا ہے ان کے ساتھ کمانڈنگ افسر کو بالعموم ایک سفارش بھی پیش کرتا ہے لیکن جوڈیشل کمیشن نے کوئی سفارشات پیش نہیں کیں حالانکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی کارکردگی کے بارے میں اس کی رائے منفی نوعیت کی تھی۔ لہذا جوڈیشل کمیشن کی طرف سے سب اچھا کی رپورٹ کسی نتیجے کے بغیر جاری کی گئی ہے۔ اور ''سب اچھا'' اختتامیہ ایک نئے معیار کی مثال ہے۔
بددیانتی اور فراڈ کی ہر کوئی مذمت کر سکتا تھا وہ بھی جس پر نا اہلی اور بری کارکردگی کا الزام ہو۔ تحریک انصاف کی حکمت عملی بھی بڑے پیمانے پر نقصان کا باعث بنی انھیں 45 دن کے اندر اندر انتخابی اصلاحات کے لیے جانا چاہیے تھا جس کا کہ مسلم لیگ ن نے اگست 2014ء سے پہلے وعدہ کیا تھا لیکن جب انھوں نے جوڈیشل کمیشن (جے سی) کے قیام کا مطالبہ کر دیا تو انھیں اپنی شرائط (TORs) کو واضح کرنا چاہیے تھا۔
میں نے 23 جولائی 2015ء کو جو آرٹیکل لکھا تھا اس میں کہا گیا تھا کہ ''انتخابی عمل کی اصلاح کے بغیر ہمارا موجودہ جمہوری نظام کے تحت سماجی اور اقتصادی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ جوڈیشل کمیشن کو آئینی خطوط پر جمہوریت کی بحالی کے لیے ایک نقشہ راہ (روڈ میپ) دینا چاہیے جس میں ناکامی کی صورت میں ہمارا انجام بھی لیبیا' شام' یمن' عراق اور افغانستان وغیرہ جیسا ہو سکتا ہے۔