نذیر عباسی کی جدوجہد
کراچی میں کامریڈ نذیر عباسی کو چوبیس برس کی عمر میں شدید جسمانی اذیت دے کر شہید کر دیا گیا تھا۔
کراچی میں کامریڈ نذیر عباسی کو چوبیس برس کی عمر میں شدید جسمانی اذیت دے کر شہید کر دیا گیا تھا۔ یہ دور جنرل ضیاالحق کی آمریت کا دور تھا۔ جب جنرل ضیا نے 1978 کی صحافیوں کی تحریک میں یہ کہا تھا کہ 'ہم کمیونسٹوں کو الٹا لٹکا دیں گے۔کامریڈ منہاج برنا اپنی طبعی موت مرے۔
کشتۂ آمریت نذیرعباسی ضلع ٹنڈوالہ یارکے ایک دیہات میں پیدا ہوئے۔ راقم الحروف کمیونسٹ پارٹی کرا چی سٹی کا سیکریٹری تھا تو نذیر عباسی سندھ کے سیکریٹری تھے۔ ہر چند کہ وہ مجھ سے چھ سال چھوٹے تھے لیکن اپنے شعور، آ گہی اور سرگرمی میں مجھ سے آگے تھے، شہادت کے وقت وہ جام شورو یونیورسٹی کے ایم اے سال دوئم علم سیاسیات کے طالب علم تھے۔ ان پر بغاوت، غداری، ملک میں افراتفری پھیلانے اور طبقاتی تضادات کو بڑھانے کے الزامات تھے۔
ان کی شہادت سے دو ماہ قبل ناظم آباد گول مارکیٹ میں کراچی سٹی کمیٹی کا ایک مختصر اور خفیہ اجلاس منعقد ہوا، جس میں جاوید شکور، عزیز الرحمن، نذیر عباسی اور راقم شریک تھے۔ نذیر عباسی کی جب بھی مجھ سے ملاقات ہوتی تو میرے کاندھے پر تھپکی مارکر قہقہہ لگا کر پوچھتے کہ کامریڈ شادی کب کر رہے ہو۔ اجلاس میں طے شدہ کام پر ہی سوال کرنے کی ان کی عادت تھی۔ ادھر ادھر کی فضول باتیں نہیں کرتے تھے۔ ہاں مگر اجلاس کے دوران چائے کا تقاضہ ضرورکرتے تھے۔
جہاں جاتے، جس سے ملتے اسے اپنا گرویدہ بنا لیتے، وہ انھیں کا ہو جاتا۔ تنگ نظری قوم پرستی تو ان کے پاس سے چھو کر بھی نہیں گذرتی تھی۔ اس وقت کمیونسٹ پارٹی کا نشرح'سرخ پرچم' نکلتا تھا جو وہ سندھ بھر میں تقسیم کرنے کے لیے اوروں کے حوالے نہیں کرتے تھے۔ اخبار کا بنڈل کاندھے پر لیے کچھ بائیں جانب جھکے ہوئے چال میں چلتے رہتے تھے۔ نازک دبلے مگر نظریاتی طور پر فولاد کی طرح مضبوط اور ہیرے کی طرح چہرے کی مسکراہٹ ہوا کرتی تھی۔ پتلی مونچھیں، گھنگریالے بال اور معمولی کپڑوں میں ملوث ہوتے تھے۔ انھوں نے اپنے خاندان، پڑوسی اور ذاتی دوستوں کو بھی ہم خیال بنا لیا تھا۔ انھوں نے جس لڑکی سے شادی کی تھی وہ بھی کامریڈ ہے، اس کا نام حمیدہ گھانگھرو ہے اور ان کی بیٹی زرقا بھی کمیونسٹ نظریات کی حامل ہیں۔
ایک بار نذیر عباسی جنرل ضیاالحق کے دور میں کوئٹہ کی ایک اذیت گاہ میں تھے تو ان کی بیگم کامریڈ حمیدہ گھانگھرو ان سے جیل میں ملنے گئیں اور اس کے کچھ عرصے بعد لیاری میں ان کی رہائی کے لیے ایک جلسہ منعقد ہوا جس میں حمیدہ گھانگھرو نے اپنی تقریر میں بڑی جرات مندانہ انکشاف کیا کہ 'میرے شوہرکو کہا گیا ہے کہ اگرتم نے کمیونسٹ نظریات کی سیاست نہیں چھوڑی تو آیندہ خیر نہیں' اس نظریات پر قائم رہتے ہوئے لبیک کہا اور اپنے اصولوں پر برقرار رہے مگر بعد میں یہی ہوا کہ ایجنسیوں کے افسران نے جو دھمکی دی اس پر عمل کر کے دیکھا دیا کہ وہ کس حد تک سامراج کے تابع ہیں۔
نذیر عباسی کے وکیل بیرسٹر سید عبدالودود ہوا کرتے تھے، وہ اس وقت کمیونسٹ پارٹی کراچی سٹی کمیٹی کے رکن تھے۔ میں نذیرعباسی کی حبس بیجا کی درخواست پر پارٹی کی طرف سے ہر تاریخ پر سندھ ہائی کورٹ جایا کرتا تھا۔ جب9 اگست 1980 میں سندھ ہائی کورٹ میں صبح آٹھ بجے پہنچا تو ودود جو نذیر عباسی کے وکیل اور پیارے ساتھی بھی تھے، میرے سامنے شام کا انگریزی اخبار 'اسٹار' پیش کرتے ہوئے کہا کہ 'لو انھوں نے نذیرکو مار ڈالا، میں پڑھ کر دم بخود ہوگیا۔ اسی وقت میں نے ساتھیوں کو فوری اطلاع دی اور سب سے پہلے ڈاؤ میڈیکل کالج میں این ایس ایف کی جانب سے نذیرعباسی کی شہادت پر ایک پرہجوم اور باوقار جلسہ منعقد ہوا، جو کہ بروقت ایک تاریخی جلسہ تھا۔ بی بی سی نے نذیرعباسی کی شہادت پر تفصیلی رپورٹ پیش کی۔
دو دن بعد عید کی نماز کے بعد انھیں تشدد کے ذریعے شہید کرنے کے خلاف سولجر بازار تک ایک جلوس نکالا، جس میں یہ نعرہ بہت مقبول ہوا کہ 'نذیر ہم شرمندہ ہیں، تیرے قاتل زندہ ہیں۔ نذیر عباسی کی شہادت کے خلاف دنیا میں ہندوستان، بنگلہ دیش، روس، نیپال، امریکا اور یورپ کے متعدد ملکوں اور شہروں جیسا کہ ایمسٹرڈم، کوپن ہیگن، برلن، لندن اور پیرس میں مظاہرے ہوئے۔ نذیر عباسی کے قتل کے خلاف سندھ ہائی کورٹ نے وہی فیصلہ سنایا جو 1960 میں کمیونسٹ پارٹی کے رہنما حسن ناصر کے بارے میں فیصلہ سنایا تھا۔ فیصلہ یہ تھا کہ حسن ناصر نے دیوارکی کھونٹی پر ازار بند باندھ کر خودکشی کی جب کہ کھونٹی پانچ فٹ کی اونچائی پر تھی اور حسن ناصر چھ فٹ کے تھے۔
اسی طرح نذیر عباسی کے بارے میں کہا گیا کہ ان کا حرکت قلب بند ہونے سے انتقال ہوا۔ جب کہ عبدالستارایدھی جنھوں نے انھیں غسل دیا تھا نے نواز بٹ کو بتایا کہ نذیر عباسی کے جسم پر متعدد چوٹیں، شیشے کی کھرونچے، زخم، خون کے دھبے اور جمے ہوئے خون کے نشان تھے۔ بہرحال نذیر عباسی کا قتل ہو یا 1886 کے شکاگو کے مزدوروں کا خون ہو یا اسپین کی عوامی جنگ کے سپاہیوں کا قتل ہو یا ہندوستان کے جہازیوں کی بغاوت کا خون ہو، یا سوات اور ہشت نگر کے شہدا کا خون ہو کبھی بھی رائیگاں نہیں جائے گا۔ ساحرلدھیانوی نے کہا تھا،
لاکھ بیٹھے کوئی چھپ چھپ کے کمیں گاہوں میں
خون خود دیتا ہے جلادوں کے مسکن کا سراغ
سازشیں لاکھ اڑھاتی رہیں ظلمت کے نقاب
بن کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ
ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
حکمرانوں نے سمجھا تھا کہ نذیرعباسی کو شہید کر کے کمیونسٹ تحریک اور عوام کے مسائل پر لڑنے وا لوں کو روکا جاسکتا ہے مگر انھیں 'تاریخ کا خاتمہ' کے بجائے 'تاریخ کی ابتدا' کا منہ دیکھنا پڑا۔ آج وال اسٹریٹ قبضہ تحریک نے دنیا کے 900 شہروں میں 'ہم ننانوے فیصد ہیں' کے نعرے کے ساتھ مظاہرہ کر کے یہ ثابت کر دیا کہ عوامی قوت توپوں اور بندوقوں کی قوت سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔ آج عالمی سرمایہ داری اپنی ضعیف العمری میں داخل ہوگئی ہے۔
یونان سے ہانگ کانگ، جرمنی سے جنوبی کوریا اور نیویارک سے جوہنس برگ کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دنیا بھر کے محنت کش اور پیداواری قوتیں اپنے استحصال کے خلاف جدوجہد میں برسرپیکار ہیں۔ پاکستان میں بھی تاجر، طلبہ، اساتذہ، قانون داں، معالج، کسان، نرسیز آئے روز اپنے مطالبات کے لیے شدید احتجاج میں مصروف ہیں۔ حکمران بوکھلائے ہوئے ہیں۔ اس لیے وہ نان ایشوز پر عوام کو بھڑکاتے رہتے ہیں، لیکن عوام زیادہ عرصہ ان بھول بھولیوں میں نہیں الجھیں گے۔ وہ پھر ایک بار اپنے حقیقی مسائل یعنی دال، دلیہ اور روزگار کی جانب متوجہ ہونگے۔
کشتۂ آمریت نذیرعباسی ضلع ٹنڈوالہ یارکے ایک دیہات میں پیدا ہوئے۔ راقم الحروف کمیونسٹ پارٹی کرا چی سٹی کا سیکریٹری تھا تو نذیر عباسی سندھ کے سیکریٹری تھے۔ ہر چند کہ وہ مجھ سے چھ سال چھوٹے تھے لیکن اپنے شعور، آ گہی اور سرگرمی میں مجھ سے آگے تھے، شہادت کے وقت وہ جام شورو یونیورسٹی کے ایم اے سال دوئم علم سیاسیات کے طالب علم تھے۔ ان پر بغاوت، غداری، ملک میں افراتفری پھیلانے اور طبقاتی تضادات کو بڑھانے کے الزامات تھے۔
ان کی شہادت سے دو ماہ قبل ناظم آباد گول مارکیٹ میں کراچی سٹی کمیٹی کا ایک مختصر اور خفیہ اجلاس منعقد ہوا، جس میں جاوید شکور، عزیز الرحمن، نذیر عباسی اور راقم شریک تھے۔ نذیر عباسی کی جب بھی مجھ سے ملاقات ہوتی تو میرے کاندھے پر تھپکی مارکر قہقہہ لگا کر پوچھتے کہ کامریڈ شادی کب کر رہے ہو۔ اجلاس میں طے شدہ کام پر ہی سوال کرنے کی ان کی عادت تھی۔ ادھر ادھر کی فضول باتیں نہیں کرتے تھے۔ ہاں مگر اجلاس کے دوران چائے کا تقاضہ ضرورکرتے تھے۔
جہاں جاتے، جس سے ملتے اسے اپنا گرویدہ بنا لیتے، وہ انھیں کا ہو جاتا۔ تنگ نظری قوم پرستی تو ان کے پاس سے چھو کر بھی نہیں گذرتی تھی۔ اس وقت کمیونسٹ پارٹی کا نشرح'سرخ پرچم' نکلتا تھا جو وہ سندھ بھر میں تقسیم کرنے کے لیے اوروں کے حوالے نہیں کرتے تھے۔ اخبار کا بنڈل کاندھے پر لیے کچھ بائیں جانب جھکے ہوئے چال میں چلتے رہتے تھے۔ نازک دبلے مگر نظریاتی طور پر فولاد کی طرح مضبوط اور ہیرے کی طرح چہرے کی مسکراہٹ ہوا کرتی تھی۔ پتلی مونچھیں، گھنگریالے بال اور معمولی کپڑوں میں ملوث ہوتے تھے۔ انھوں نے اپنے خاندان، پڑوسی اور ذاتی دوستوں کو بھی ہم خیال بنا لیا تھا۔ انھوں نے جس لڑکی سے شادی کی تھی وہ بھی کامریڈ ہے، اس کا نام حمیدہ گھانگھرو ہے اور ان کی بیٹی زرقا بھی کمیونسٹ نظریات کی حامل ہیں۔
ایک بار نذیر عباسی جنرل ضیاالحق کے دور میں کوئٹہ کی ایک اذیت گاہ میں تھے تو ان کی بیگم کامریڈ حمیدہ گھانگھرو ان سے جیل میں ملنے گئیں اور اس کے کچھ عرصے بعد لیاری میں ان کی رہائی کے لیے ایک جلسہ منعقد ہوا جس میں حمیدہ گھانگھرو نے اپنی تقریر میں بڑی جرات مندانہ انکشاف کیا کہ 'میرے شوہرکو کہا گیا ہے کہ اگرتم نے کمیونسٹ نظریات کی سیاست نہیں چھوڑی تو آیندہ خیر نہیں' اس نظریات پر قائم رہتے ہوئے لبیک کہا اور اپنے اصولوں پر برقرار رہے مگر بعد میں یہی ہوا کہ ایجنسیوں کے افسران نے جو دھمکی دی اس پر عمل کر کے دیکھا دیا کہ وہ کس حد تک سامراج کے تابع ہیں۔
نذیر عباسی کے وکیل بیرسٹر سید عبدالودود ہوا کرتے تھے، وہ اس وقت کمیونسٹ پارٹی کراچی سٹی کمیٹی کے رکن تھے۔ میں نذیرعباسی کی حبس بیجا کی درخواست پر پارٹی کی طرف سے ہر تاریخ پر سندھ ہائی کورٹ جایا کرتا تھا۔ جب9 اگست 1980 میں سندھ ہائی کورٹ میں صبح آٹھ بجے پہنچا تو ودود جو نذیر عباسی کے وکیل اور پیارے ساتھی بھی تھے، میرے سامنے شام کا انگریزی اخبار 'اسٹار' پیش کرتے ہوئے کہا کہ 'لو انھوں نے نذیرکو مار ڈالا، میں پڑھ کر دم بخود ہوگیا۔ اسی وقت میں نے ساتھیوں کو فوری اطلاع دی اور سب سے پہلے ڈاؤ میڈیکل کالج میں این ایس ایف کی جانب سے نذیرعباسی کی شہادت پر ایک پرہجوم اور باوقار جلسہ منعقد ہوا، جو کہ بروقت ایک تاریخی جلسہ تھا۔ بی بی سی نے نذیرعباسی کی شہادت پر تفصیلی رپورٹ پیش کی۔
دو دن بعد عید کی نماز کے بعد انھیں تشدد کے ذریعے شہید کرنے کے خلاف سولجر بازار تک ایک جلوس نکالا، جس میں یہ نعرہ بہت مقبول ہوا کہ 'نذیر ہم شرمندہ ہیں، تیرے قاتل زندہ ہیں۔ نذیر عباسی کی شہادت کے خلاف دنیا میں ہندوستان، بنگلہ دیش، روس، نیپال، امریکا اور یورپ کے متعدد ملکوں اور شہروں جیسا کہ ایمسٹرڈم، کوپن ہیگن، برلن، لندن اور پیرس میں مظاہرے ہوئے۔ نذیر عباسی کے قتل کے خلاف سندھ ہائی کورٹ نے وہی فیصلہ سنایا جو 1960 میں کمیونسٹ پارٹی کے رہنما حسن ناصر کے بارے میں فیصلہ سنایا تھا۔ فیصلہ یہ تھا کہ حسن ناصر نے دیوارکی کھونٹی پر ازار بند باندھ کر خودکشی کی جب کہ کھونٹی پانچ فٹ کی اونچائی پر تھی اور حسن ناصر چھ فٹ کے تھے۔
اسی طرح نذیر عباسی کے بارے میں کہا گیا کہ ان کا حرکت قلب بند ہونے سے انتقال ہوا۔ جب کہ عبدالستارایدھی جنھوں نے انھیں غسل دیا تھا نے نواز بٹ کو بتایا کہ نذیر عباسی کے جسم پر متعدد چوٹیں، شیشے کی کھرونچے، زخم، خون کے دھبے اور جمے ہوئے خون کے نشان تھے۔ بہرحال نذیر عباسی کا قتل ہو یا 1886 کے شکاگو کے مزدوروں کا خون ہو یا اسپین کی عوامی جنگ کے سپاہیوں کا قتل ہو یا ہندوستان کے جہازیوں کی بغاوت کا خون ہو، یا سوات اور ہشت نگر کے شہدا کا خون ہو کبھی بھی رائیگاں نہیں جائے گا۔ ساحرلدھیانوی نے کہا تھا،
لاکھ بیٹھے کوئی چھپ چھپ کے کمیں گاہوں میں
خون خود دیتا ہے جلادوں کے مسکن کا سراغ
سازشیں لاکھ اڑھاتی رہیں ظلمت کے نقاب
بن کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ
ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
حکمرانوں نے سمجھا تھا کہ نذیرعباسی کو شہید کر کے کمیونسٹ تحریک اور عوام کے مسائل پر لڑنے وا لوں کو روکا جاسکتا ہے مگر انھیں 'تاریخ کا خاتمہ' کے بجائے 'تاریخ کی ابتدا' کا منہ دیکھنا پڑا۔ آج وال اسٹریٹ قبضہ تحریک نے دنیا کے 900 شہروں میں 'ہم ننانوے فیصد ہیں' کے نعرے کے ساتھ مظاہرہ کر کے یہ ثابت کر دیا کہ عوامی قوت توپوں اور بندوقوں کی قوت سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔ آج عالمی سرمایہ داری اپنی ضعیف العمری میں داخل ہوگئی ہے۔
یونان سے ہانگ کانگ، جرمنی سے جنوبی کوریا اور نیویارک سے جوہنس برگ کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دنیا بھر کے محنت کش اور پیداواری قوتیں اپنے استحصال کے خلاف جدوجہد میں برسرپیکار ہیں۔ پاکستان میں بھی تاجر، طلبہ، اساتذہ، قانون داں، معالج، کسان، نرسیز آئے روز اپنے مطالبات کے لیے شدید احتجاج میں مصروف ہیں۔ حکمران بوکھلائے ہوئے ہیں۔ اس لیے وہ نان ایشوز پر عوام کو بھڑکاتے رہتے ہیں، لیکن عوام زیادہ عرصہ ان بھول بھولیوں میں نہیں الجھیں گے۔ وہ پھر ایک بار اپنے حقیقی مسائل یعنی دال، دلیہ اور روزگار کی جانب متوجہ ہونگے۔