عبداللہ حسین… وقت کے کٹہرے میں

تخلیقی عظمت کا راز کیا ہے؟ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا کہا گیا لیکن اس قضیے کی زیادہ کڑیاں راز ہی ہیں۔

تخلیقی عظمت کا راز کیا ہے؟ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا کہا گیا لیکن اس قضیے کی زیادہ کڑیاں راز ہی ہیں۔ البتہ یہ ضرور دیکھا کہ غیر معمولی تخلیقی کام سرانجام دینے والے بیشتر غیر معمولی حالات سے گزر کر آتے ہیں، غیر معمولی انسانی تجربات اور وارداتوں کی ایسی کٹھنائیوں سے گزر کر آتے ہیں کہ دل و دماغ کی دنیا بدل جاتی ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ ایسے حالات میں سے بہترے گزرے لیکن تخلیقی عظمت کا موتی خال خال کسی سیپ میں ہوتا ہے۔

کتنے بچے ہوں گے جو پانچویں بیوی کی اولاد تھے؟ جو چھ ماہ کی عمر میں والدہ سے محروم ہوگئے؟ جو 25 سال کی عمر میں والد سے بھی محروم ہوئے؟ کتنے ان صدمات سے ہونے والے نروس بریک ڈاؤن سے مضبوط ہوکر اٹھے؟ کتنے ہوں گے جنہوں نے تقسیم ملک کے موقع پر سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں اپنے سامنے اپنے ہی علاقے کے ایک شخص کے ہاتھوں اپنے ایک استاد کو ریلوے پلیٹ فارم پر بے دردی سے چاقو کے پے در پے وار سے گھائل ہوتے اور خون سے لت پت ہوتے دیکھا؟ ایسے واقعات اور تجربات کے بعد معمول کی زندگی گزارنا بھی مشکل ہوجاتی ہے لیکن کچھ خال خال تخلیق کار تجربات کی ان بھٹیوں سے کندن بن کر نکلتے ہیں۔ تجربات اورجذباتی وارداتوں کا یہ غیر معمولی سلسلہ ان میں چھپے غیر معمولی تخلیقی جہاں کو ڈھونڈ نکالتا ہے۔ انھیں میں سے ایک عبداللہ حسین ہے۔

تعلیم کے اعتبار سے سائنس کے طالب علم اور پیشے کے اعتبار سے کیمسٹ تھے۔ خاندان میں پڑھنے لکھنے کی روایت نہ تھی۔ البتہ والد نے نپولین بونا پارٹ کی سوانح عمری پڑھ رکھی تھی۔ گجرات کے آس پاس شکارگاہوں میں میلوں اکٹھے چلتے انھوں نے باپ سے بار بار اس کا ذکر سنا۔ شکار کی انھی پگڈنڈیوں پر انھوں نے گھپ اندھیرے، پھیلتی چاندنی اور دھیرے دھیرے پھوٹنے والی صبح کی کرنوں کے جلو میں انسانوں جانوروں اور زمین پر پھیلے درختوں اور پھولوں کے سلسلوں کے بارے میں اپنے باپ سے بھی سنا اورخود بھی دریافت کیا۔ یوں ستائیس اٹھائیس سال کی عمر میں جب اداس نسلیں لکھنے بیٹھے تو منظر نگاری اور کردار نگاری کی حیرت انگیز تفصیلات اور باریکیاں آپ سے آپ نوک قلم میں سے نکلنے لگیں۔

32 سال کی عمر میں اداس نسلیں جیسا شاہکار ناول تخلیق کیا تو ایک عالم کوچونکا دیا۔ لہجے میں مخصوص دیہی مزاج کا کھردرا پن اور تراکیب کے استعمال کو قبول عام میں کچھ وقت ضرور لگا لیکن پھر یہی انداز اور لہجہ ان کی انفرادیت اور شناخت ٹھہرا۔ باگھ اور نادار لوگ مزید ناول تحریر کیے۔ نشیب اور فریب کے افسانے بھی اسی تخلیقی تسلسل کا اظہار تھے۔ ہم نے زندگی میں ناول کم ہی پڑھے لیکن جن ناول نگاروں کے سحر میں آج تک گرفتار ہیں ان میں عبداللہ حسین پہلا نام تھا۔

کالج کے دنوں میں جب دل ہر نئے تجربے کو جاننے پر مصر اور دماغ ان وارداتوں کو سمجھنے پر بضد تھا، انھی دنوں میں ہم نے لائبریری کو کھنگالنا شروع کیا۔ رحیم یار خاں کی خاموش شاموں اور طویل گرم راتوں میں ہم نے اداس نسلیں پڑھا۔ سچی بات ہے کچھ سمجھ آیا، کچھ اوپر سے گزرگیا لیکن اس کے کرداروں اور کہانی میں گندھی اداسی اور رائیگانی نے انمٹ تاثر چھوڑا۔ بعد میں کئی ان گنت راتیں دیگر ناول اور افسانے پڑھنے میں گزریں۔ اس سرشاری میں یہ بھول ہی گئے کہ یہ سب محنت تو ایف ایس سی کے لیے مخصوص تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ والدین کی ڈاکٹر بننے کی خواہش کے لیے درکار محنت اور وقت ادھر ادھر گنوا بیٹھے اور خود بھی اداس نسلیں کے ایک غیر اہم کردار کی سی میٹھی اداسی اور ہلکی ہلکی کسک کو ہی حاصل وصول سمجھا۔

اس سال لاہور میں لاہور لٹریری فیسٹیول میں ہماری عبداللہ حسین سے اچانک مختصر سی ملاقات بھی ہوئی۔ چند بار انھیں مختلف موقعوں پر دیکھا ضرور تھا لیکن ملاقات کی صورت نہ بن پائی۔ لاہور لٹریری فیسٹیول میں اس بار ادب کے شائقین اور ''ناظرین'' خوب امڈ کر آئے۔ بیشتر اوقات الحمراء کے لان میں ہجوم میں سے راستہ ڈھونڈنا مشکل ہوجاتا۔ نمایاں پروگراموں میں داخلے کے لیے لمبی لمبی قطاروں نے توقعات کو کرکرا کردیا۔ہم داخلہ گیٹ سے گزر کر ہجوم میں راستہ ڈھونڈنے پر غور کررہے تھے کہ اتنے میں عبداللہ حسین اپنی لاٹھی ٹیکتے ہوئے داخل ہوئے۔ ان کے ساتھ ان کی صاحب زادی بھی تھی۔ لپک کر سلام کیا اور اپنا تعارف کروایا۔


گرم جوشی سے جواب دیا۔ ہم نے قدردانی کا بوجھ ہلکا کرتے ہوئے کہا کہ آج تک اداس نسلیں کی گرفت میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہلکی سی مسکراہٹ ان کے چہرے پر آئی۔ ان کی نوازش کہ کچھ دیر کے لیے رکے، ہماری وارفتگی اور سرشاری کو اپنی گفتگو سے نوازا۔ پوچھے کہاں رہتے ہیں؟ بتایا کہ اسی لاہور میں، اپنی جائے رہائش کا بتایا۔ بولے، میں بھی وہیں رہتا ہوں۔

آپ آئیں کسی وقت، بیٹھ کر تفصیل سے بات کریں گے۔ ان کی بیٹی نے ایڈریس لکھوایا۔ چند گلیاں چھوڑ کر ان کا مکان تھا۔ چند ہفتوں بعد ملنے کا سوچا تو معلوم ہوا طبیعت ناساز ہے۔ سو ملنے کا ارادہ ملتوی کیا۔ بعد میں چند بار یہی کوشش کی۔ یہی جھجھک آڑے آگئی کہ ناسازی طبع پر مزید بوجھ کیا بننا لیکن ان کی وہ ایک مختصر ملاقات نے چار دہائیوں قبل کی راتوں سے شروع ہوئی اداسی کو دور کردیا۔ یوں لگا جیسے ایک دائرہ مکمل ہوگیا۔

اداس نسلیں پہلی جنگ عظیم سے لے کر تقسیم کے کچھ بعد تک کے پس منظر میں لکھا ہوا ناول ہے۔ آج کی تیز دنیا اور تاریخ سے بے رغبتی نے ہم میں سے بیشتر کو امروز اور فردا کے جھمیلوں میں یوں الجھا دیا ہے کہ کہاں ان واقعات کو گاہے گاہے زیر مطالعہ رکھیں۔ تقسیم اور ہجرت کا تجربہ المناک اور خون آشام تھا۔ ایک نسل ان تجربات سے گزری۔

اس زمانے کا ادب ان کیفیات سے بھر پور ہے لیکن پھر یوں ہوا کہ نفسا نفسی اور چھینا جھپٹی کا وہ دور شروع ہوا جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ کوئی سرپھرا ان تجربات کی بات کرے تو اکثر اوقات چہروں پر ناآشنائی کا تاثر بات کو بڑھنے سے روک دیتا ہے۔ یہی رائیگانی شاید اداس نسلیں کا حاصل بھی ہے۔

عبداللہ حسین خوش قسمت تھے کہ جئے تو اردو ناول اور افسانے کا وقار بن کر زندہ رہے۔ فوت ہوئے تو ایک عالم نے ان سے جڑی اپنی یادیں تازہ کیں، کالم تحریر کیے، مضامین شایع ہوئے، خاکے لکھے گئے، موت برحق اور سب کے لیے معین ہے مگر ایسی سج دھج کم کم لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔ کسی ادبی شہ پارے کی عظمت کے لیے یہی کافی ہے کہ پچاس پچپن سالوں سے یہ ناول آن بان کے ساتھ زندہ ہے۔ عبداللہ حسین کی وفات پر ان کے ادبی مقام کا تذکرہ کم و بیش ہر تحریر اور گفتگو میں رہا لیکن ہمیں حیرت ہوئی کہ کچھ احباب نے ان کے ادبی مقام کا تعین ان کے جنازے میں شرکاء سے جوڑا یا پھر اس پہلو سے وابستہ ان کی نجی زندگی کو موضوع بنایا۔ اداس نسلیں لکھنے کے بعد عبداللہ حسین چالیس سال برطانیہ میں رہے۔

ایک ہی بیٹا ہے جو وہیں مقیم ہے۔ واپس لوٹے تو محفل گریز رہے سوائے اپنے مخصوص احباب سے ملنے کے۔ جنازے کے فرض کفایہ میں کتنے لوگ شریک ہوئے اور ان میں سے قبرستان میں تدفین کے وقت کتنے تھے، اس سے ان احباب کی نکتہ آفرینی کا شوق تو پورا ہوگیا لیکن اس کا ان کے ادبی مقام سے کیا تعلق؟ اس ایک نکتے سے ''معمول'' کی زندگی کے لیے کئی سبق اخذ کرکے سنا دیے گئے لیکن کیا کریں کہ تخلیقی عظمت کا راز اور مقام ''معمول'' کی اس مردم شمار کا مرہون منت نہیں۔ وقت ہی سب سے بڑا فیصلہ ساز ہے۔
Load Next Story