کُردوں کی مکمل آزادی کا وقت آگیا
داعش کے خلاف محاذ ٹھنڈا ہوگیا تو پہلے کی طرح کردوں کو پوری قوت کے ساتھ کچلنے کا سلسلہ شروع ہوجائے گا
عراق شکستہ حال ہے، اس کی اینٹ سے اینٹ بج چکی ہے۔ اپنے پاؤں پر کب کھڑا ہوسکے گا، کوئی نہیں بتا سکتا۔ شام کھنڈر کا منظر پیش کر رہا ہے، فوجی باپ کے بعد فوجی بیٹا تخت نشیں ہوا، خوں ریزی کا سلسلہ تھمنے میں نہیں آتا۔ ترکی میں، جس کی اصل حکم راں وہاں کی فوج ہے، اور جو ہمیشہ امریکا کی گود میں بیٹھا رہا ہے۔
کردوں کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹیHDP الیکشن میں 80 نشستیں لے اڑی، خلفشارختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ امریکا سے ''نیوکلیائی'' معاہدے کے بعد ایران اشک شوئی کی منزل سے گزر رہا ہے۔ معاہدہ امریکی شرائط پر ہوا ہے، مغربی ممالک تالیاں بجا رہے ہیں۔ اس پس منظر کے ساتھ، یہ سب مشترکہ طور پر ''اسلامی ریاست'' کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔جواپنے پنجے پھیلاتی جا رہی ہے۔ ان ملکوں کے درمیان اس نکتے پر بھی ہم آہنگی پائی جاتی ہے کہ اس جنگ میں کردوں کو محض اپنے فرماں بردار پیادوں کی حیثیت سے استعمال کیا جائے۔ وہ تین کروڑ کردوں کی مکمل حق خود ارادیت یا آزاد ریاست کا مطالبہ سننے کے روادار نہیں ہیں۔ جہاں تک کردوں کا تعلق ہے، ان کے پاس اس جنگ سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا کوئی راستہ نہیں، کیوں کہ داعش والے انھیں پسند نہیں کرتے، انہیں ملیا میٹ کر دینا چاہتے ہیں۔ چناںچہ شام، ترکی اور عراق میں داعش کے خلاف محاذ پر کرد جنگ جُو فیصلہ کن کردار ادا کررہے ہیں۔
داعش کے خلاف محاذ ٹھنڈا ہوگیا تو پہلے کی طرح کردوں کو پوری قوت کے ساتھ کچلنے کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ ترکی نے تو پہل بھی کردی ہے۔ قومی الیکشن میں کرد پارٹی کی حیران کن کام یابی کے بعد برسراقتدار طیب اردوان کی حکومت نے کردوں سے کیا گیا جنگ بندی کا معاہدہ طاق پر رکھ دیا ہے۔
گزشتہ دو سال سے اس معاہدے پر عمل ہورہا تھا۔ لیکن گزشتہ دنوں طیب اردوان نے کہا کہ HPD کے سرکردہ لوگوں کو قیمت ادا کرنی ہوگی، ترکی کی ریاست نام نہاد سیاست دانوں اور نام نہاد دانش وَروں سے اپنے شہداء کے خون کا بدلہ لے گی۔ ساتھ ساتھ انھوں نے HDP کو کام یابی کے ثمرات سے محروم کرنے کے لیے اس کے پارلیمانی ارکان کو Immunity سے محروم کرنے کی مہم بھی چلا رکھی ہے۔
اس پر HDP کے سربراہ صلاح الدین دیمیرتاس نے الزام لگایا ہے کہ AKP کی حکومت ترکی کو علاقائی جنگ کی طرف دھکیل رہی ہے اور سول بغاوت کی راہ ہم وار کرکے اپنی سیاسی ساکھ کو مستحکم کرنا چاہتی ہے۔ اگر AKP اپنے پارلیمانی ارکان کے لیے Immunity کا حق واپس لیتی ہے تو ہم بھی اپنے ارکان کا حق واپس کردیں گے۔
یہ ایک بڑی دل چسپ صورت حال ہے۔ طیب اردوان کی پارٹی اس وقت حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے، کیوں کہ اس کے پاس مطلوبہ نشستیں نہیں ہیں۔ HDP نے الیکشن میں 80 نشستیں جیتی ہیں، اور وہ اسے اپنی حمایت فراہم کرنے پر تیار نہیں ہے۔ اس خطے میں کردوں کی آبادی تین کروڑ ہے۔ وہ کہتے ہیں، ہم پوری دنیا میں سب سے بڑی اقلیت ہیں، جنہیں مسلسل چاروں طرف سے ظلم کا نشانہ بنایا گیا ہے اور انھیں اپنے لیے الگ وطن کے حق سے محروم رکھا گیا ہے، بلکہ وہ تو بنیادی انسانی حقوق کے لیے ترس رہے ہیں۔
یہ درست ہے کہ شمالی عراق میں ایک خطہ ایسا ہے، جہاں کردوں کو بڑی حد تک انتظامی اختیارات حاصل ہیں۔ یہاں تک کہ ان کا اپنا تعلیمی نظام ہے، اپنی فوج اور اپنی خارجہ پالیسی ہے، اپنا قومی پرچم اور قومی ترانہ بھی ہے، لیکن اس کے پاس اپنی کرنسی نہیں ہے اور معیشت اس کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ تیل کی آمدنی کا بڑا حصہ اسے بغداد میں قائم مرکزی حکومت سے شیئر کرنا پڑتا ہے۔
ستم بالائے ستم یہ کہ دو سال پہلے کردستان ورکرز پارٹی اور ترکی کی حکومت کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تھا اور اس پر کام یابی سے عمل بھی ہو رہا تھا۔ لیکن طیب اردوان کی حکومت نے الیکشن میں غیرمعمولی زک اٹھانے کے بعد اس معاہدے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عراق اور شام میں کرد جنگ جُوؤں کی پوزیشنوں پر حملہ کردیا، جس سے کشیدگی برقرار رہنے کے امکانات اور نمایاں ہوگئے ہیں۔
ایک طرف امریکا اور ترکی کو داعش کے خلاف لڑائی جیتنے کے لیے کردوں کی مدد درکار ہے تو دوسری طرف ترکی کردوں کو قتل کرنے کے مشن سے دست بردار بھی نہیں ہونا چاہتا۔ فی الوقت طیب اردوان کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (AKP) حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور اسے حیرت انگیز کام یابی سمیٹنے والی کردوں کی پارٹی HDP کے آگے دست طلب دراز کرنا بھی گوارا نہیں ہے کہ اسے مشترکہ حکومت بنانے کی دعوت دے۔
AKP ترکی میں 2002 سے برسراقتدار ہے اور یہ درست ہے کہ ماضی کی حکومتوں کے مقابلے میں اس نے کردوں کے ساتھ کسی قدر نرم رویہ اختیار کیا تھا۔ لیکن کردوں کے لیے ایک خودمختار ملک یا مکمل حق خود اختیاری رکھنے والی حکومت دیکھنا اسے منظور نہیں ہے۔
پچھلے سال جولائی میں کرد قیادت نے ''خود اختیاری حکومت'' (Autonomy) کے لیے ریفرنڈم کرانے کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن علاقائی تنازعات کی گرم بازاری میں یہ معاملہ پیچھے چلاگیا۔ تاہم، یہ طے ہے کہ کرد آٹو نومی لینے کے بعد ہی مطمئن ہوں گے۔ وہ مختلف سیاسی پارٹیوں میں ضرور منقسم ہیں، لیکن ان کے درمیان یہ ہدف مشترکہ ہے کہ وہ اپنے خطے میں ایک آزاد ریاست قائم کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اب ہوسکتا ہے مڈل ایسٹ کے موجودہ بحران میں ان کے لیے نجات کا کوئی راستہ زیادہ آسان ہوجائے۔
ان کو سب، ترکی، ایران، عراق اور شام اپنے پیادوں کی طرح استعمال کرنا چاہتے ہیں لیکن ایک طویل عرصے سے آزادی کے لیے برسر پیکار کرد اس سارے کھیل میں محض پیادوں کی حیثیت قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوں گے۔ گویا، اس خطے میں جنگ کئی جہتوں اور زاویوں سے جاری رہے گی۔ کم از کم مستقبل قریب میں مستحکم امن قائم ہونے کا خواب پورا ہونے کا کوئی امکان نہیں۔
ان سارے ممالک کو، جن کے ساتھ امریکا بھی اس خطے میں ایک اہم پارٹنر بن چکا ہے، سنجیدگی کے ساتھ کردوں کے مسئلے پر توجہ دینی ہوگی، کیوں کہ وہ ان کی جغرافیائی حدود کے اندر بھی آباد ہیں۔ اس کے علاوہ عالمی افق پر بھی یہ احساس اب اور شدید ہوگیا ہے کہ عالمی برادری نے ایک طویل عرصے سے کردوں کو نظر انداز کر رکھا ہے، اور خطے کی طاقتوں نے جو مظالم ان پر روا رکھے ہیں، ان کے خلاف اب زیادہ شدت اور طاقت کے ساتھ آواز اٹھانی ہوگی۔
جہاں تک مغربی ممالک کا تعلق ہے، ان کے لیے کردوں کی یہ خصوصیت کشش انگیز ہے کہ ان کے درمیان ''اسلامی ریاست'' سے لگاؤ کے رجحانات نہیں پائے جاتے۔ کوئی بعید نہیں کہ ان کے درمیان کردستان ریجنل گورنمنٹ کو زیادہ اختیارات دینے کا مطالبہ زور پکڑلے کہ اس کے پاس اپنی کرنسی ہونی چاہیے اور اقوام متحدہ میں بھی اسے ایک نشست ملنی چاہیے۔
1946 میں کردوں نے ایرانی شہر ماہ آباد میں ایک آزاد ریاست کی بنیاد ڈالی تھی، جہاں دس ماہ تک ان کی حکومت قائم رہی۔ یہ ستر سال پہلے کا واقعہ ہے۔ اس دوران بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہے۔
کردوں کو ہدف بنانے والی علاقائی طاقتیں اب خود مشکل میں ہیں۔ ایران کو امریکا کی شرائط پر معاہدہ کرنا پڑا، ترکی کے الیکشن میں پہلی بار کردوں نے سیٹیں جیت کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے، اور شام اور عراق کا سیاسی، اقتصادی اور سماجی نظام سلطنت خوف ناک آندھیوں کی زد پر ہے، سب کچھ یقینی طور اندر سے کھوکھلا ہوچکا ہے۔ ایک طرح سے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ایک طویل عرصے سے ان ملکوں میں جو خوف ناک آمریت نافذ رہی ہے، اس کی تلخ فصل اب وہ کاٹ رہے ہیں۔ جہاں تک ایران کا تعلق ہے، کرد ریجنل گورنمنٹ کے شہروں سے ایک عرصے سے یہ دل چسپ نعرہ گونج رہا ہے، ''ایران کو جمہوریت دو، اور کردستان کو آٹو نومی!''
امریکا ایک زمانے میں کردوں کے مطالبات کی ہم نوائی کرتا تھا، لیکن اب داعش کے خلاف جنگ چھڑنے کے بعد وہ حسب معمول موقع پرستی اختیار کر رہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کرد آنکھیں بند کرکے اس جنگ میں سرگرمی سے اپنا حصہ ادا کرتے رہیں، لیکن عراق سے علیحدہ آزاد ریاست بنانے کے ارادے سے باز رہیں۔
بہ ظاہر، مشرق وسطیٰ کی اس پیچیدہ صورت حال میں یہ مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آتا، لیکن کردوں نے اپنی آزادی کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں، اور ان کے پاس سرفروشوں اور دیانت دار لیڈروں کی کمی نہیں ہے، جن میں بیس کتابوں کا مصنف عبداللہ اوجلان بھی شامل ہے، جو سزائے موت سے بچ نکلنے کے بعد ترکی میں عمر قید کی سزا بھگت رہا ہے۔
کردوں کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹیHDP الیکشن میں 80 نشستیں لے اڑی، خلفشارختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ امریکا سے ''نیوکلیائی'' معاہدے کے بعد ایران اشک شوئی کی منزل سے گزر رہا ہے۔ معاہدہ امریکی شرائط پر ہوا ہے، مغربی ممالک تالیاں بجا رہے ہیں۔ اس پس منظر کے ساتھ، یہ سب مشترکہ طور پر ''اسلامی ریاست'' کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔جواپنے پنجے پھیلاتی جا رہی ہے۔ ان ملکوں کے درمیان اس نکتے پر بھی ہم آہنگی پائی جاتی ہے کہ اس جنگ میں کردوں کو محض اپنے فرماں بردار پیادوں کی حیثیت سے استعمال کیا جائے۔ وہ تین کروڑ کردوں کی مکمل حق خود ارادیت یا آزاد ریاست کا مطالبہ سننے کے روادار نہیں ہیں۔ جہاں تک کردوں کا تعلق ہے، ان کے پاس اس جنگ سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا کوئی راستہ نہیں، کیوں کہ داعش والے انھیں پسند نہیں کرتے، انہیں ملیا میٹ کر دینا چاہتے ہیں۔ چناںچہ شام، ترکی اور عراق میں داعش کے خلاف محاذ پر کرد جنگ جُو فیصلہ کن کردار ادا کررہے ہیں۔
داعش کے خلاف محاذ ٹھنڈا ہوگیا تو پہلے کی طرح کردوں کو پوری قوت کے ساتھ کچلنے کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ ترکی نے تو پہل بھی کردی ہے۔ قومی الیکشن میں کرد پارٹی کی حیران کن کام یابی کے بعد برسراقتدار طیب اردوان کی حکومت نے کردوں سے کیا گیا جنگ بندی کا معاہدہ طاق پر رکھ دیا ہے۔
گزشتہ دو سال سے اس معاہدے پر عمل ہورہا تھا۔ لیکن گزشتہ دنوں طیب اردوان نے کہا کہ HPD کے سرکردہ لوگوں کو قیمت ادا کرنی ہوگی، ترکی کی ریاست نام نہاد سیاست دانوں اور نام نہاد دانش وَروں سے اپنے شہداء کے خون کا بدلہ لے گی۔ ساتھ ساتھ انھوں نے HDP کو کام یابی کے ثمرات سے محروم کرنے کے لیے اس کے پارلیمانی ارکان کو Immunity سے محروم کرنے کی مہم بھی چلا رکھی ہے۔
اس پر HDP کے سربراہ صلاح الدین دیمیرتاس نے الزام لگایا ہے کہ AKP کی حکومت ترکی کو علاقائی جنگ کی طرف دھکیل رہی ہے اور سول بغاوت کی راہ ہم وار کرکے اپنی سیاسی ساکھ کو مستحکم کرنا چاہتی ہے۔ اگر AKP اپنے پارلیمانی ارکان کے لیے Immunity کا حق واپس لیتی ہے تو ہم بھی اپنے ارکان کا حق واپس کردیں گے۔
یہ ایک بڑی دل چسپ صورت حال ہے۔ طیب اردوان کی پارٹی اس وقت حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے، کیوں کہ اس کے پاس مطلوبہ نشستیں نہیں ہیں۔ HDP نے الیکشن میں 80 نشستیں جیتی ہیں، اور وہ اسے اپنی حمایت فراہم کرنے پر تیار نہیں ہے۔ اس خطے میں کردوں کی آبادی تین کروڑ ہے۔ وہ کہتے ہیں، ہم پوری دنیا میں سب سے بڑی اقلیت ہیں، جنہیں مسلسل چاروں طرف سے ظلم کا نشانہ بنایا گیا ہے اور انھیں اپنے لیے الگ وطن کے حق سے محروم رکھا گیا ہے، بلکہ وہ تو بنیادی انسانی حقوق کے لیے ترس رہے ہیں۔
یہ درست ہے کہ شمالی عراق میں ایک خطہ ایسا ہے، جہاں کردوں کو بڑی حد تک انتظامی اختیارات حاصل ہیں۔ یہاں تک کہ ان کا اپنا تعلیمی نظام ہے، اپنی فوج اور اپنی خارجہ پالیسی ہے، اپنا قومی پرچم اور قومی ترانہ بھی ہے، لیکن اس کے پاس اپنی کرنسی نہیں ہے اور معیشت اس کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ تیل کی آمدنی کا بڑا حصہ اسے بغداد میں قائم مرکزی حکومت سے شیئر کرنا پڑتا ہے۔
ستم بالائے ستم یہ کہ دو سال پہلے کردستان ورکرز پارٹی اور ترکی کی حکومت کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تھا اور اس پر کام یابی سے عمل بھی ہو رہا تھا۔ لیکن طیب اردوان کی حکومت نے الیکشن میں غیرمعمولی زک اٹھانے کے بعد اس معاہدے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عراق اور شام میں کرد جنگ جُوؤں کی پوزیشنوں پر حملہ کردیا، جس سے کشیدگی برقرار رہنے کے امکانات اور نمایاں ہوگئے ہیں۔
ایک طرف امریکا اور ترکی کو داعش کے خلاف لڑائی جیتنے کے لیے کردوں کی مدد درکار ہے تو دوسری طرف ترکی کردوں کو قتل کرنے کے مشن سے دست بردار بھی نہیں ہونا چاہتا۔ فی الوقت طیب اردوان کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (AKP) حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور اسے حیرت انگیز کام یابی سمیٹنے والی کردوں کی پارٹی HDP کے آگے دست طلب دراز کرنا بھی گوارا نہیں ہے کہ اسے مشترکہ حکومت بنانے کی دعوت دے۔
AKP ترکی میں 2002 سے برسراقتدار ہے اور یہ درست ہے کہ ماضی کی حکومتوں کے مقابلے میں اس نے کردوں کے ساتھ کسی قدر نرم رویہ اختیار کیا تھا۔ لیکن کردوں کے لیے ایک خودمختار ملک یا مکمل حق خود اختیاری رکھنے والی حکومت دیکھنا اسے منظور نہیں ہے۔
پچھلے سال جولائی میں کرد قیادت نے ''خود اختیاری حکومت'' (Autonomy) کے لیے ریفرنڈم کرانے کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن علاقائی تنازعات کی گرم بازاری میں یہ معاملہ پیچھے چلاگیا۔ تاہم، یہ طے ہے کہ کرد آٹو نومی لینے کے بعد ہی مطمئن ہوں گے۔ وہ مختلف سیاسی پارٹیوں میں ضرور منقسم ہیں، لیکن ان کے درمیان یہ ہدف مشترکہ ہے کہ وہ اپنے خطے میں ایک آزاد ریاست قائم کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اب ہوسکتا ہے مڈل ایسٹ کے موجودہ بحران میں ان کے لیے نجات کا کوئی راستہ زیادہ آسان ہوجائے۔
ان کو سب، ترکی، ایران، عراق اور شام اپنے پیادوں کی طرح استعمال کرنا چاہتے ہیں لیکن ایک طویل عرصے سے آزادی کے لیے برسر پیکار کرد اس سارے کھیل میں محض پیادوں کی حیثیت قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوں گے۔ گویا، اس خطے میں جنگ کئی جہتوں اور زاویوں سے جاری رہے گی۔ کم از کم مستقبل قریب میں مستحکم امن قائم ہونے کا خواب پورا ہونے کا کوئی امکان نہیں۔
ان سارے ممالک کو، جن کے ساتھ امریکا بھی اس خطے میں ایک اہم پارٹنر بن چکا ہے، سنجیدگی کے ساتھ کردوں کے مسئلے پر توجہ دینی ہوگی، کیوں کہ وہ ان کی جغرافیائی حدود کے اندر بھی آباد ہیں۔ اس کے علاوہ عالمی افق پر بھی یہ احساس اب اور شدید ہوگیا ہے کہ عالمی برادری نے ایک طویل عرصے سے کردوں کو نظر انداز کر رکھا ہے، اور خطے کی طاقتوں نے جو مظالم ان پر روا رکھے ہیں، ان کے خلاف اب زیادہ شدت اور طاقت کے ساتھ آواز اٹھانی ہوگی۔
جہاں تک مغربی ممالک کا تعلق ہے، ان کے لیے کردوں کی یہ خصوصیت کشش انگیز ہے کہ ان کے درمیان ''اسلامی ریاست'' سے لگاؤ کے رجحانات نہیں پائے جاتے۔ کوئی بعید نہیں کہ ان کے درمیان کردستان ریجنل گورنمنٹ کو زیادہ اختیارات دینے کا مطالبہ زور پکڑلے کہ اس کے پاس اپنی کرنسی ہونی چاہیے اور اقوام متحدہ میں بھی اسے ایک نشست ملنی چاہیے۔
1946 میں کردوں نے ایرانی شہر ماہ آباد میں ایک آزاد ریاست کی بنیاد ڈالی تھی، جہاں دس ماہ تک ان کی حکومت قائم رہی۔ یہ ستر سال پہلے کا واقعہ ہے۔ اس دوران بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہے۔
کردوں کو ہدف بنانے والی علاقائی طاقتیں اب خود مشکل میں ہیں۔ ایران کو امریکا کی شرائط پر معاہدہ کرنا پڑا، ترکی کے الیکشن میں پہلی بار کردوں نے سیٹیں جیت کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے، اور شام اور عراق کا سیاسی، اقتصادی اور سماجی نظام سلطنت خوف ناک آندھیوں کی زد پر ہے، سب کچھ یقینی طور اندر سے کھوکھلا ہوچکا ہے۔ ایک طرح سے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ایک طویل عرصے سے ان ملکوں میں جو خوف ناک آمریت نافذ رہی ہے، اس کی تلخ فصل اب وہ کاٹ رہے ہیں۔ جہاں تک ایران کا تعلق ہے، کرد ریجنل گورنمنٹ کے شہروں سے ایک عرصے سے یہ دل چسپ نعرہ گونج رہا ہے، ''ایران کو جمہوریت دو، اور کردستان کو آٹو نومی!''
امریکا ایک زمانے میں کردوں کے مطالبات کی ہم نوائی کرتا تھا، لیکن اب داعش کے خلاف جنگ چھڑنے کے بعد وہ حسب معمول موقع پرستی اختیار کر رہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کرد آنکھیں بند کرکے اس جنگ میں سرگرمی سے اپنا حصہ ادا کرتے رہیں، لیکن عراق سے علیحدہ آزاد ریاست بنانے کے ارادے سے باز رہیں۔
بہ ظاہر، مشرق وسطیٰ کی اس پیچیدہ صورت حال میں یہ مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آتا، لیکن کردوں نے اپنی آزادی کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں، اور ان کے پاس سرفروشوں اور دیانت دار لیڈروں کی کمی نہیں ہے، جن میں بیس کتابوں کا مصنف عبداللہ اوجلان بھی شامل ہے، جو سزائے موت سے بچ نکلنے کے بعد ترکی میں عمر قید کی سزا بھگت رہا ہے۔