پیپلزپارٹی نے ایم کیو ایم کے ساتھ7 سالہ مفاہمتی پالیسی ختم کردی

سندھ اسمبلی میں الطاف حسین کیخلاف مذمتی قرارداد منظور کراکے پیپلزپارٹی نے اپنی راہ متعین کرلی


عامر خان August 08, 2015
سندھ اسمبلی میں الطاف حسین کیخلاف مذمتی قرارداد منظور کراکے پیپلزپارٹی نے اپنی راہ متعین کرلی۔ فوٹو : فائل

پیپلز پارٹی نے قائد متحدہ الطاف حسین کے قومی سلامتی کے اداروں کے بارے میں حالیہ متنازع بیانات کے بعد ایم کیو ایم کے ساتھ7 برسوں سے زائد جاری اپنی مفاہمتی پالیسی کو تبدیل کردیا، نئی پالیسی کے بعد پیپلز پارٹی نے جمعہ کو سندھ اسمبلی میں الطاف حسین کے خلاف مذمتی قراردادکو تحریک انصاف،مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ف ) کے ساتھ مل کر منظور کرایا۔

اس طرح دونوں جماعتوں کا7 برسوں سے جاری رہنے والا مفاہمتی و اتحادی سفر اختتام پذیر ہوگیا ،پیپلز پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی ایم کیو ایم کے ساتھ اب دوستانہ سیاسی پالیسی نہیں اختیارکرے گی بلکہ اسکی تنقید کاجواب دیا جائے گا،پیپلزپارٹی اورسندھ حکومت کراچی آپریشن وسیکیورٹی اداروں کی حمایت جاری رکھے گی اور ان پر تنقید کی پر سطح پر مذمت کی جائے گی ،کسی بھی سطح سے پیپلز پارٹی حکومتی امورکیلیے ایم کیو ایم سے رابطہ نہیں کرے گی، اگر ایم کیو ایم نے قومی سلامتی کے اداروں پرتنقید کی پالیسی پر نظرثانی کی تو پھر مفاہمت کی پالیسی کے تحت بات چیت کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے۔

ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ کراچی آپریشن اور قومی سلامتی وقانون نافذ کرنے والے اداروں سے متعلق ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے سخت اور منتازع بیانات کی پالیسی سامنے آنے کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت نے اس معاملے کا تفصیلی جائزہ لیا ہے اور مشاورت میں یہ رائے سامنے آئی کہ ایم کیو ایم کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ کی پالیسی کوتبدیل کیا جائے ،2008میں آصف علی زرداری کے دورہ نائن زیروکے بعد پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان اتحادی سیاست کا آغاز ہوا تھا اور ایم کیو ایم مرکزا ورسندھ حکومتوں میں شامل ہوئی ۔

اس دوران کئی مرتبہ تعلقات میں اتارچڑھاؤ آیا لیکن دونوں جماعتوں کی اتحادی گاڑی رواں دواں رہی،2013 کے انتخابات سے قبل یہ اتحاد ختم ہوگیا اور اس الیکشن کے بعد پیپلز پارٹی نے دوبارہ سندھ حکومت کی بھاگڈور سنھبالی اور ایم کیو ایم ایک مرتبہ پھرسندھ حکومت میں شامل ہوگئی،تاہم2014میں بلاول بھٹو زرداری کی وطن واپسی کے بعد انھوں نے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین اور دیگر سیاسی قائدین کیخلاف عید اور18اکتوبرکو عوامی اجتماعات میںسخت تنقید کانشانہ بنایا اور جس پر ایم کیو ایم کی قیادت ناراض ہوگئی اور19اکتوبرکو ایم کیو ایم نے سندھ حکومت سے علیحدگی اختیار کرلی ۔

اس کے بعدبلاول بھٹو زرداری بیرون ملک چلے گئے ،رواں سال میں آصف علی زرداری نے ایک مرتبہ پھر الطاف حسین کے ساتھ مفاہمتی پالیسی کاآغاز کرنے کیلیے رابطے کیے ،ان رابطوں میں60اور40 کے فارمولے کے مطابق سندھ حکومت میں شمولیت کے معاملے پر اتفاق ہوگیا،تاہم ایم کیو ایم کے ساتھ تعلقات بہتر نہ ہوسکے اور یہ معاملات التواکا شکار ہوگئے ،سینیٹ کے الیکشن کے دوران دونوں جماعتوں میں مفاہمتی پالیسی دیکھنے میں آئی ،تاہم11 مارچ کو ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر چھاپے کے بعد دونوں جماعتوں میں سیاسی تعلقات کی صورتحال کشیدہ ہوگئی اور بیان بازی کاسلسلہ جاری رہا ۔

اس دوران طویل عرصے بعد آصف علی زرداری اور الطاف حسین کے درمیان دوبارہ رابطہ ہوا اور مختلف امور پر ساتھ چلنے پر اتفاق ہوا لیکن معاملات مثبت سمت میں آگے نہیں بڑھ سکے ۔

کچھ عرصہ قبل بلاول بھٹوزرداری کی وطن واپسی کے بعد انھوں نے دوبارہ ایم کیو ایم کے خلاف سخت سیاسی پالیسی اختیار نہیں کی اور تنظیمی امور پر پر توجہ دی گذشتہ ماہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے سندھ حکومت کے اداروں میں کرپشن کے خلاف کی گئی کارروائیوں پر اختیارات کے معاملے پر بھی پیپلز پارٹی نے احتجاج کیا اوردونوں جماعتیں ان اداروں کے اختیارات کے معاملے پر ساتھ نظر آئیں لیکن الطاف حسین کی حالیہ تقریر کے بعد پارٹی قیادت نے تفصیلی مشاورت کے بعد ایم کیو ایم کے ساتھ مفاہمتی پالیسی کو ختم کردیا اور سندھ اسمبلی میں قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف الطاف حسین کی حالیہ تقریر کے خلاف مذمتی قرار داد منظور کرائی گئی، واضح رہے کہ اس وقت پیپلز پارٹی کے تمام تنظیمی وسیاسی امور بلاول بھٹو زرداری دیکھ رہے ہیں ۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔