ریلوے نے ہدف سے4 ارب روپے زیادہ کمالیے سعد رفیق
حکومت پنجاب نے 57کروڑ روپے بغیر پھاٹکوں کے ریلوے ٹریک کی کراسنگ روکنے کے لیے دیے ہیں، سعد رفیق
وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ پاکستان ریلویز نے گزشتہ سال حکومتی ہدف سے4ارب روپے زائد کمائے۔رواں سال ہمیں 32 ارب روپے کمانے کا ہدف دیا گیا ہے لیکن ہم 38ارب روپے سے زائد کا ہدف پورا کرینگے۔
ریلوے کے14ہزارپلوں میں سے 159کمزور،73بن چکے،50 بننے والے ہیں۔ریلویز ہیڈ کوارٹرز میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سگنل سسٹم منصوبے کو آئندہ سال مکمل کرلیا جائے گا جبکہ اس سال کے آخر تک لاہور سے کراچی تک دو رویہ ٹریفک بھی شروع ہوجائے گی۔حکومت پنجاب نے 57کروڑ روپے بغیر پھاٹکوں کے ریلوے ٹریک کی کراسنگ روکنے کے لیے دیے ہیں جبکہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے بھی 14، 15کروڑ روپے دینے کا وعدہ کیا ہے۔
میری سندھ اور بلوچستان سے اپیل ہے کہ وہ بھی اس حوالے سے معاونت کریں تاکہ حادثات کو روکا جا سکے۔انھوں نے کہا کہ ریلوے کو گزشتہ سال ساڑھے 32 ارب روپے تک خرچ کرنے کی اجازت تھی جبکہ اس سال 59ارب 17کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔
زمینوں کا ریکارڈ درست کرنے میں سندھ ریونیو بورڈ تعاون نہیں کررہا جبکہ خیبرپختونخوامیں90فیصد ریلوے زمین کا ریکارڈ درست کرلیا گیا۔ خواہش ہے کہ تمام ٹرینوں کی آمدوروفت کو کنٹرول روم میں ایک بڑی اسکرین پر مانیٹر کیا جائے۔دوسے تین مسافر ٹرینوں کو پرائیویٹ سیکٹر میں دیا جائے گا۔
ریلوے کے14ہزارپلوں میں سے 159کمزور،73بن چکے،50 بننے والے ہیں۔ریلویز ہیڈ کوارٹرز میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سگنل سسٹم منصوبے کو آئندہ سال مکمل کرلیا جائے گا جبکہ اس سال کے آخر تک لاہور سے کراچی تک دو رویہ ٹریفک بھی شروع ہوجائے گی۔حکومت پنجاب نے 57کروڑ روپے بغیر پھاٹکوں کے ریلوے ٹریک کی کراسنگ روکنے کے لیے دیے ہیں جبکہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے بھی 14، 15کروڑ روپے دینے کا وعدہ کیا ہے۔
میری سندھ اور بلوچستان سے اپیل ہے کہ وہ بھی اس حوالے سے معاونت کریں تاکہ حادثات کو روکا جا سکے۔انھوں نے کہا کہ ریلوے کو گزشتہ سال ساڑھے 32 ارب روپے تک خرچ کرنے کی اجازت تھی جبکہ اس سال 59ارب 17کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔
زمینوں کا ریکارڈ درست کرنے میں سندھ ریونیو بورڈ تعاون نہیں کررہا جبکہ خیبرپختونخوامیں90فیصد ریلوے زمین کا ریکارڈ درست کرلیا گیا۔ خواہش ہے کہ تمام ٹرینوں کی آمدوروفت کو کنٹرول روم میں ایک بڑی اسکرین پر مانیٹر کیا جائے۔دوسے تین مسافر ٹرینوں کو پرائیویٹ سیکٹر میں دیا جائے گا۔