ہماری ڈرامہ انڈسٹری ’’تب‘‘ اور ’’اب‘‘

ریٹنگ کی جنگ میں تمام چینلز نے ’کوالٹی‘ کے بجائے ’کوانٹیٹی‘ پر زور دیا تاکہ زیادہ سے زیادہ اشتہارات مل سکیں۔

اب صرف معیار ہی نہیں گرا بلکہ جو ڈرامے ٹی وی پرنشر ہو رہے ہیں ان میں پاکستانی ثقافت کو بھی مکمل نظر انداز کردیا گیا ہے۔

ایک وقت تھا جب پاکستان میں صرف ایک چینل PTV ہوا کرتا تھا۔ اسی چینل پر ہمارے وہ تمام پروگرام اور ڈرامے نشر ہوئے جنہوں نے دنیا بھر میں اپنا نام کمایا اور بلندیوں کی چوٹیوں تک پہنچے۔ جن میں تنہائیاں، دھواں، عینک والا جن، ففٹی ففٹی، الف نون، گیسٹ ہاؤس، اسٹوڈیو پونے تین، سلور جوبلی مقبول ترین ڈرامے ہیں۔ اسی چینل کے ذریعے وہ تمام فنکار آئے جنہوں نے دنیا بھر میں اپنی قابلیت کا لوہا منوایا اور ہر جگہ جانے پہچانے گئے جیسے کہ معین اختر، بشریٰ انصاری، قوی خان، کمال احمد رضوی، اسماعیل تارہ، ماجد خان وغیرہ۔

یہ وقت پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری کے عروج کا دور تھا۔ اس وقت کی تمام نشریات، تمام فنکار اور تمام لکھاری نہایت اعلیٰ پائے کے ہوا کرتے تھے اور اس وقت کی نشریات میں پاکستانی ثقافت کو دکھایا جاتا تھا۔

اب ذرا بات ہوجائے موجودہ دور کی۔ اِس وقت پاکستان میں ان گنت چینل چل رہے ہیں اور ہوسکتا ہے مستقبل میں اور بھی بہت سارے چینل آجائیں۔ ان تمام چینل کی نشریات 24 گھنٹے چلا کرتی ہیں اور تھوک کے حساب سے ہر چینل پر بے تحاشا ڈرامے نشر کئے جارہے ہیں۔ فنکاروں کی بھی ایک بڑی کھیپ موجود ہے۔ ظاہر ہے جب چینل اتنی بڑی تعداد میں آگئے ہیں تو ڈرامہ انڈسٹری کو تو بڑھنا ہی تھا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ آجکل کا معیار پہلے کے مقابلے میں اتنا گر گیا ہے؟ کوئی ایک فنکار بھی معین اختر یا اسماعیل تارہ کے مقابل نظر نہیں آتا اور جو ڈرامے آج کل نشر کئے جارہے ہیں ان میں سے اکثریت کا معیار پرانے ڈراموں جیسا نہیں ہے۔



موجودہ دور میں کوئی ایک لکھاری بھی ایسا نہیں ہے جو کہ حسینہ معین، امجد اسلام امجد یا انورمقصود کی طرح ڈرامہ لکھ پائے۔ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ ڈرامہ انڈسٹری جس تیزی سے پھلی پھولی ہے اُسی اعتبارسے معیاری ڈرامے بھی بنتے اور پہلے سے زیادہ ٹیلنٹ اُبھر کر سامنے آتا مگر افسوس ایسا نہ ہوسکا۔ ریٹنگ کی جنگ میں تمام چینلز نے 'کوالٹی' کے بجائے 'کوانٹیٹی' پر زور دیا تاکہ زیادہ سے زیادہ اشتہارات مل سکیں۔


اب صرف معیار ہی نہیں گرا بلکہ جو ڈرامے ٹی وی پرنشر ہو رہے ہیں ان میں پاکستانی ثقافت کو بھی مکمل نظر انداز کردیا گیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ہمارا پڑوسی ملک بھارت جو کہ آئے روز ورکنگ باؤنڈری کی خلاف ورزی کرتا ہے اور جس سے ہم اب تک چار جنگیں لڑ چکے ہیں ہمارے چینلز نے اپنے 24 گھنٹے پورے کرنے کے لئے ان کے ڈرامے بھی نشر کرنا شروع کردئیے اور انہی کے ڈرامے دیکھ کر وہی روایات ہمارے ڈراموں میں لائی جارہی ہیں، انہی کی ثقافت کو ہمارے ڈراموں میں پیش کیا جارہا ہے۔

ایک وقت تھا جب بھارتی یونیورسٹیوں کے نصاب میں پاکستانی ڈرامے دکھائے جاتے تھے اور بھارتی اداکاروں سے کہا جاتا تھا کہ اگر آپ اچھے اداکار بننا چاہتے ہیں تو پاکستانی ڈرامے دیکھیں اور اب یہ حالت ہوگئی ہے کہ ہم نے ان کے غیر معیاری ڈرامے دکھانے شروع کردئیے ہیں جو کہ سالوں چلتے ہیں اور جس میں کہانی کا کوئی سر پیر ہی نہیں ہوتا۔

اگر اب بھی ہماری ڈرامہ انڈسٹری صحیح سمت اختیار کرلے، ڈرامے کم کرکے معیار اچھا کردے اور ریٹنگ کے چکر میں تمام ڈراموں کو نشر کرنا چھوڑ دے تو معاملہ اب بھی سنبھل سکتا ہے۔ لیکن اگر معاملات کو ٹھیک نہیں کیا تو کمانے والے تو خوب دولت کمالیں گے مگر ہماری ثقافت کی قربانی کی قیمت پر۔

[poll id="588"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔


اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

Load Next Story