ریٹائرڈ اسکول بوائز
سید عبدالمعطی بخاری نے گریجویشن کے بعد قانون پڑھا لیکن بینک آفیسر ہو گئے۔ وہ اسی بینک سے منسلک رہے
KHARTOUM:
یکم اگست 2015 بروز ہفتہ کو سید عبدالمعطی بخاری کا ٹیلیفون آیا کہ ہمارا اسکول کے زمانے کا دوست جاوید ارشد اسلام آباد سے لاہور آیا ہوا ہے اور اس وقت اتفاق سے پانچویں کلاس سے میٹرک تک گورنمنٹ ہائی اسکول سیالکوٹ میں اکٹھے پڑھے ہوئے نو دوست شہر میں موجود ہیں اور اس نے میرے علاوہ تمام کو اتوار کی صبح 11 بجے ایونٹ ہال ذوج میں چائے کی دعوت دے دی ہے، میں وہاں پہنچا اور دیکھا کہ اسکول کے 8بچے پرانی یادیں تازہ کر رہے تھے۔
ہمارا مہمان خصوصی اس روز جاوید ارشد تھا ۔ جاوید ارشد مرزا نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم ایس سی کی اور پھر 1969 میں گلاسگو سے نیوکلیئر فزکس میں ڈاکٹریٹ کی۔ وہ اٹامک انرجی کمیشن میں ڈپٹی چیئرمین اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز کے منصب پر فائز ہوا اور پھر جناب قدیر خاں کے بعد 2001میں 5سال کے لیے چیئرمین مقرر ہو گیا۔ سن 2006 میں جاوید 2سال کے لیے PCSIR کا چیئرمین بھی رہا، ریٹائرمنٹ کے بعد اس نے کچھ عرصہ ٹیچنگ جاب کی اور آج کل فارغ ہے۔
ڈاکٹر سلیم اقبال علوی نے UET لاہور سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد برطانیہ سے مکینیکل انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کی اور واپس آ کر ٹیکسلا انجینئرنگ کالج میں بطور پرنسپل تعینات ہوئے،انقرہ یونیورسٹی میں بھی بطور استاد خدمات انجام دیں۔ علوی نے ڈاکٹریٹ سے پہلے ٹورانٹو سے ماسٹرز ڈگری حاصل کی وہ ٹیکسلا کے بعد یونیورسٹی آف انجینئرنگ و ٹیکنالوجی میں تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد ہائیرایجوکیشن کمیشن اور انجینئرنگ کونسل سے بھی منسلک رہے۔
قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینے کے بعد سے وہ معروف پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں پڑھانے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ڈاکٹر صوفی منیر احمد نے لاہور میں UET سے الیکٹریکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی اور الاباما امریکا سے ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد اوہایو (امریکا) میں تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ پنسلوینیا سے 2001 میں ریٹائر ہو کر پاکستان لوٹ آئے اور مقامی یونیورسٹیوں میں پڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا۔
سید عبدالمعطی بخاری نے گریجویشن کے بعد قانون پڑھا لیکن بینک آفیسر ہو گئے۔ وہ اسی بینک سے منسلک رہے اور منیجر، جنرل منیجر، کمرشل ہیڈ کے بعد سینئر وائس پریذیڈنٹ کے عہدے تک ترقی پا کر اسی بینک سے ریٹائر ہوئے۔ بخاری نے بینک سے ریٹائر ہونے کے بعد اپنی ساری جمع پونجی ایک اسکول اور ایونٹ ہاؤس میں لگا دی ہے اور اب وہ پہلے سے بھی زیادہ مصروف ہوتے ہیں۔سلیم مرزا اسکول کے دنوں ہی سے اسپورٹس مین ہیں۔ وہ میٹرک کے اسٹوڈنٹ تھے جب وہ کرکٹ کے حوالے سے گورنمنٹ ہائی اسکول کی پہچان تھے۔
جب ہم لوگ سیالکوٹ سے کراچی کا چکر لگا آتے تو اتراتے تھے جب کہ وہ لندن اور یورپ گھوم آئے ہوتے تھے۔ وہ اپنی جمع پونجی شاہانہ انداز سے خرچ کرتے رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ باقی بچا ایک رہائشی مکان لیکن سلیم مرزا اب بھی جو بزنس کرتے ہیں وہ اس کی آمدنی پر قناعت کرتے اور ایک اسپورٹس مین کی طرح مسکرانے اور قہقہے لگاتے رہنے کا حوصلہ اور جذبہ رکھتے ہیں۔محمد سعید چوہدری بھی ہماری طرح سیالکوٹ سے گریجویشن کے بعد لاہور آ گیا تھا۔ اس نے BNR میں ملازمت کرنے کے ساتھ قانون کی ڈگری حاصل کر لی اور پھر قانونی پریکٹس شروع کر دی۔
اسکول کے دنوں میں استاد نے اسے پانچویں کلاس میں ہمارا کلاس مانیٹر مقرر کر دیا اور اس نے یہ فریضہ اتنی خوش اسلوبی سے نبھایا کہ استاد کے کلاس سے غیر موجودگی میں ڈکٹیٹر بن کر ہر روز اپنے پانچ سات ساتھیوں کی ماسٹر صاحب سے شکایت کر کے انھیں پھینٹی لگواتا۔ نتیجتاً وہ دسویں کلاس تک مانیٹر مقرر ہوتا رہا۔ وکالت میں کامیابی حاصل کی تو حکومت نے اسے ڈائریکٹ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تعینات کر دیا۔ اس کی ترقی ہوئی اور وہ ڈسٹرکٹ جج بنا دیا گیا۔ پھر وہ جج بینکنگ کورٹ مقرر ہوا تو اس کے بچے باپ کی قابلیت سے INSPIRE ہو کر بینکنگ پروفیشن ہی سے منسلک ہو گئے۔ سعید چوہدری نے بطور کنسلٹنٹ صوبائی اور وفاقی محتسب محکموں میں بھی خدمات انجام دیں۔
خواجہ محمد شریف نے بحیثیت سول جج اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور کئی اضلاع میں تعیناتی کے بعد ترقی پا کر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ و سیشن جج مقرر ہوا۔ اس نے صوبائی محتسب آفس میں بھی بحیثیت کنسلٹنٹ کام کیا۔امداد احمد نے بطور سینئر آڈیٹر ملازمت کا آغاز کیا۔ محنتی اور قابل افسر ہونے کی وجہ سے ترقی پا کر آڈٹ افیسر حکومت پنجاب کی حیثیت سے کئی سال خدمات انجام دیتا رہا۔
میرے یہ اسکول میں پانچویں کلاس سے دسویں جماعت تک کے دوست اس روز عبدالمطیع کی دعوت پر دو گھنٹے تک گپ شپ کرتے اوراپنے اچھے برے تجربات سنتے اور سناتے رہے۔
ایسی دلچسپ اور فکر انگیز محفل اب ہر ماہ منعقد ہوتی اور جمتی رہے گی لیکن سب نے اپنے اسکول کے تین ساتھیوں کی کمی ان کے ملک سے اس روز باہر ہونے کی وجہ سے شدت سے محسوس کی۔ ان میں توقیر حسین تھا جو فارن سروس میں منتخب ہو کر کئی ملکوں کے سفارتخانوں میں اور برازیل و جاپان میں سفیر تعینات رہا، شفقت بخاری تھا جو ملکی اور بین الاقوامی بینک میں اعلیٰ عہدوں پر کام کرتا رہا اور شیخ محمد افضل تھا جو PTCL کی سینئر پوسٹوں پر کام کرنے کے علاوہ کئی سال برونائی میں بھی ڈییپوٹیشن پر رہا۔
یکم اگست 2015 بروز ہفتہ کو سید عبدالمعطی بخاری کا ٹیلیفون آیا کہ ہمارا اسکول کے زمانے کا دوست جاوید ارشد اسلام آباد سے لاہور آیا ہوا ہے اور اس وقت اتفاق سے پانچویں کلاس سے میٹرک تک گورنمنٹ ہائی اسکول سیالکوٹ میں اکٹھے پڑھے ہوئے نو دوست شہر میں موجود ہیں اور اس نے میرے علاوہ تمام کو اتوار کی صبح 11 بجے ایونٹ ہال ذوج میں چائے کی دعوت دے دی ہے، میں وہاں پہنچا اور دیکھا کہ اسکول کے 8بچے پرانی یادیں تازہ کر رہے تھے۔
ہمارا مہمان خصوصی اس روز جاوید ارشد تھا ۔ جاوید ارشد مرزا نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم ایس سی کی اور پھر 1969 میں گلاسگو سے نیوکلیئر فزکس میں ڈاکٹریٹ کی۔ وہ اٹامک انرجی کمیشن میں ڈپٹی چیئرمین اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز کے منصب پر فائز ہوا اور پھر جناب قدیر خاں کے بعد 2001میں 5سال کے لیے چیئرمین مقرر ہو گیا۔ سن 2006 میں جاوید 2سال کے لیے PCSIR کا چیئرمین بھی رہا، ریٹائرمنٹ کے بعد اس نے کچھ عرصہ ٹیچنگ جاب کی اور آج کل فارغ ہے۔
ڈاکٹر سلیم اقبال علوی نے UET لاہور سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد برطانیہ سے مکینیکل انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کی اور واپس آ کر ٹیکسلا انجینئرنگ کالج میں بطور پرنسپل تعینات ہوئے،انقرہ یونیورسٹی میں بھی بطور استاد خدمات انجام دیں۔ علوی نے ڈاکٹریٹ سے پہلے ٹورانٹو سے ماسٹرز ڈگری حاصل کی وہ ٹیکسلا کے بعد یونیورسٹی آف انجینئرنگ و ٹیکنالوجی میں تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد ہائیرایجوکیشن کمیشن اور انجینئرنگ کونسل سے بھی منسلک رہے۔
قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینے کے بعد سے وہ معروف پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں پڑھانے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ڈاکٹر صوفی منیر احمد نے لاہور میں UET سے الیکٹریکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی اور الاباما امریکا سے ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد اوہایو (امریکا) میں تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ پنسلوینیا سے 2001 میں ریٹائر ہو کر پاکستان لوٹ آئے اور مقامی یونیورسٹیوں میں پڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا۔
سید عبدالمعطی بخاری نے گریجویشن کے بعد قانون پڑھا لیکن بینک آفیسر ہو گئے۔ وہ اسی بینک سے منسلک رہے اور منیجر، جنرل منیجر، کمرشل ہیڈ کے بعد سینئر وائس پریذیڈنٹ کے عہدے تک ترقی پا کر اسی بینک سے ریٹائر ہوئے۔ بخاری نے بینک سے ریٹائر ہونے کے بعد اپنی ساری جمع پونجی ایک اسکول اور ایونٹ ہاؤس میں لگا دی ہے اور اب وہ پہلے سے بھی زیادہ مصروف ہوتے ہیں۔سلیم مرزا اسکول کے دنوں ہی سے اسپورٹس مین ہیں۔ وہ میٹرک کے اسٹوڈنٹ تھے جب وہ کرکٹ کے حوالے سے گورنمنٹ ہائی اسکول کی پہچان تھے۔
جب ہم لوگ سیالکوٹ سے کراچی کا چکر لگا آتے تو اتراتے تھے جب کہ وہ لندن اور یورپ گھوم آئے ہوتے تھے۔ وہ اپنی جمع پونجی شاہانہ انداز سے خرچ کرتے رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ باقی بچا ایک رہائشی مکان لیکن سلیم مرزا اب بھی جو بزنس کرتے ہیں وہ اس کی آمدنی پر قناعت کرتے اور ایک اسپورٹس مین کی طرح مسکرانے اور قہقہے لگاتے رہنے کا حوصلہ اور جذبہ رکھتے ہیں۔محمد سعید چوہدری بھی ہماری طرح سیالکوٹ سے گریجویشن کے بعد لاہور آ گیا تھا۔ اس نے BNR میں ملازمت کرنے کے ساتھ قانون کی ڈگری حاصل کر لی اور پھر قانونی پریکٹس شروع کر دی۔
اسکول کے دنوں میں استاد نے اسے پانچویں کلاس میں ہمارا کلاس مانیٹر مقرر کر دیا اور اس نے یہ فریضہ اتنی خوش اسلوبی سے نبھایا کہ استاد کے کلاس سے غیر موجودگی میں ڈکٹیٹر بن کر ہر روز اپنے پانچ سات ساتھیوں کی ماسٹر صاحب سے شکایت کر کے انھیں پھینٹی لگواتا۔ نتیجتاً وہ دسویں کلاس تک مانیٹر مقرر ہوتا رہا۔ وکالت میں کامیابی حاصل کی تو حکومت نے اسے ڈائریکٹ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تعینات کر دیا۔ اس کی ترقی ہوئی اور وہ ڈسٹرکٹ جج بنا دیا گیا۔ پھر وہ جج بینکنگ کورٹ مقرر ہوا تو اس کے بچے باپ کی قابلیت سے INSPIRE ہو کر بینکنگ پروفیشن ہی سے منسلک ہو گئے۔ سعید چوہدری نے بطور کنسلٹنٹ صوبائی اور وفاقی محتسب محکموں میں بھی خدمات انجام دیں۔
خواجہ محمد شریف نے بحیثیت سول جج اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور کئی اضلاع میں تعیناتی کے بعد ترقی پا کر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ و سیشن جج مقرر ہوا۔ اس نے صوبائی محتسب آفس میں بھی بحیثیت کنسلٹنٹ کام کیا۔امداد احمد نے بطور سینئر آڈیٹر ملازمت کا آغاز کیا۔ محنتی اور قابل افسر ہونے کی وجہ سے ترقی پا کر آڈٹ افیسر حکومت پنجاب کی حیثیت سے کئی سال خدمات انجام دیتا رہا۔
میرے یہ اسکول میں پانچویں کلاس سے دسویں جماعت تک کے دوست اس روز عبدالمطیع کی دعوت پر دو گھنٹے تک گپ شپ کرتے اوراپنے اچھے برے تجربات سنتے اور سناتے رہے۔
ایسی دلچسپ اور فکر انگیز محفل اب ہر ماہ منعقد ہوتی اور جمتی رہے گی لیکن سب نے اپنے اسکول کے تین ساتھیوں کی کمی ان کے ملک سے اس روز باہر ہونے کی وجہ سے شدت سے محسوس کی۔ ان میں توقیر حسین تھا جو فارن سروس میں منتخب ہو کر کئی ملکوں کے سفارتخانوں میں اور برازیل و جاپان میں سفیر تعینات رہا، شفقت بخاری تھا جو ملکی اور بین الاقوامی بینک میں اعلیٰ عہدوں پر کام کرتا رہا اور شیخ محمد افضل تھا جو PTCL کی سینئر پوسٹوں پر کام کرنے کے علاوہ کئی سال برونائی میں بھی ڈییپوٹیشن پر رہا۔