کنوئیں سے پانی بھروانا تھا۔۔۔۔شادی کرلی

ان ’’بہادر‘‘اور’’ذہین‘‘ مردوں میں ساکھا رام بھگت بھی شامل ہے، جس نے water wife کو تمام مسائل کا بہترین حل قرار دیا ہے۔


Mirza Zafar Baig August 09, 2015
بھارتی گاؤں میں قلت آب نے نئی رسم جنم دے دی ۔ فوٹو : فائل

پانی سے محروم مغربی ہندوستان (مہاراشٹر) کے ایک خشک اور بنجر گاؤںDenganmal میں پینے کا صاف پانی صرف دو کنوؤں سے حاصل کیا جاتا ہے جن میں سے ایک کنواں قریبی سنگلاخ اور چٹانی پہاڑی کے دامن میں واقع ہے، مگر وہ بھی اتنا قریب نہیں ہے جتنا ہم شہر والے سمجھتے ہیں، بلکہ وہاں تک پیدل چل کرجانے اور پھر قطار میں لگ کر پانی بھرنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کرنے میں گھنٹوں لگ جاتے ہیں۔ گویا سارا دن ہی پینے کے صاف پانی کے حصول میں لگ جاتا ہے۔

مذکورہ گاؤں Denganmal ممبئی سے لگ بھگ 85 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ انڈیا کی ریاست مہاراشٹر میں واقع ہے۔ اس گاؤں کے رہنے والے مردوں نے اپنی ضرورت اور اپنی فیملی کی ضرورت پوری کے لیے پانی کے آسان حصول کا یہ راستہ نکالا ہے کہ وہ پانی بھرنے کے لیے ایک سے زیادہ شادیاں کررہے ہیں جس کے بعد انہیں پانی بھرنے والی بیویاں مفت ہی میں مل جاتی ہیں۔ان ''بہادر'' اور ''ذہین'' مردوں میں ساکھا رام بھگت بھی شامل ہے، جس نے water wife کو تمام مسائل کا بہترین حل قرار دیا ہے۔



66سالہ ساکھا رام بھگت بہادر کی ایک نہیں، بلکہ تین بیویاں ہیں جن کے نام ہیں: سکھری، ٹوکی اور بھاگی۔ ان میں سے آج کل پانی بھرنے کی یہ سخت ڈیوٹی ساکھا رام بھگت کی دوسری بیوی سکھری انجام دے رہی ہے جو بے چاری گاؤں کے کنویں سے دھات کا بھاری گھڑا پانی سے بھرکر اپنے سر پر رکھ کر لاتی ہے۔ ویسے سکھری کے علاوہ حسب ضرورت ساکھا رام بھگت کی تیسری بیوی بھاگی بھی یہ کام انجام دیتی ہے اور بعض اوقات تو دونوں مل کر اپنے گھر کی ضرورت کا پانی کنویں سے بھر کر لاتی ہیں۔

ساکھا رام بھگت اپنے گاؤں کے پڑوس میں واقع ایک دوسرے گاؤں کے ایک کھیت میں یومیہ اجرت پر مزدوری کا کام کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے:''اس وقت میری تین بیویاں ہیں، جن میں سے دو سے میں نے صرف اس لیے شادی کی ہے کہ وہ میرے لیے Water wives کی خدمات انجام دیں اور میرے گھر کے لیے پانی بھرنے کا فریضہ انجام دیں، ورنہ مجھے ان سے شادی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ مجھے خوشی ہے کہ وہ اپنا یہ فرض پوری دل جمعی سے پورا کررہی ہیں۔

یہ تینوں مل کر پینے کا صاف پانی اتنی مقدار میں بھرلیتی ہیں کہ وہ پینے اور کھانا پکانے کے لیے کافی ہوجاتا ہے۔ مجھے اپنے گھر کے لیے پانی کی شدید ضرورت تھی۔ اگر میں اس کے لیے شادی نہ کرتا تو اور کیا کرتا؟ میری پہلی بیوی بے چاری پہلے ہی اپنے بچوں میں لگی ہوئی تھی، جب میری دوسری بیوی بھی بیمار ہوگئی تو پینے کے صاف پانی کا مسئلہ پیدا ہوگیا اور مجھے مجبوراً تیسری شادی کرنی پڑی، تب کہیں جاکر یہ مسئلہ حل ہوسکا۔''



انڈیا کے دوسرے دیہات کی طرح ساکھا رام بھگت کے گاؤں میں پینے کے صاف پانی کی شدید کمی ہے۔ اس گاؤں میں نل کا پانی تو ہے ہی نہیں، بلکہ یہاں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم نے زندگی میں کبھی نلکے کا پانی نہیں دیکھا، ہمارے ہاں پینے کا صاف پانی حاصل کرنے کا واحد ذریعہ کنویں ہیں جن سے پانی کھینچنا کوئی آسان کام نہیں ہے، اس میں بڑی سخت محنت اور مشقت لگتی ہے، مگر ہماری باہمت خواتین یہ کام بڑی محنت سے انجام دے رہی ہیں اور کبھی ان کے ماتھے پر شکن نہیں آتی۔ وہ کبھی یہ تک نہیں کہتیں کہ وہ کوئی جانور نہیں ہیں جو یہ کام کریں، بل کہ وہ بڑی خوشی سے یہ کام کررہی ہیں۔

اس وقت ویسے تو پورا انڈیا ہی سخت گرمی کی لپیٹ میں ہے، اوپر سے پانی کی کمی نے صورت حال کو مزید سنگین بنادیا ہے۔ مہاراشٹر انڈیا کی وہ ریاست ہے جسے لگ بھگ ایک عشرے سے پانی کی کمی کا سامنا ہے۔مہاراشٹر کے Denganmal نامی اس گاؤں میں Namdeo نامی ایک شخص نے بھی پانی کے حصول کی خاطر دو شادیاں کررکھی ہیں۔

اس کی دونوں بیویاں شوراتری اور بگا بائی دونوں ہی گھر کی ضرورت کا سارا پانی اسی کنویں سے بھر کر لاتی ہیں اور کبھی شکوہ نہیں کرتیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس سخت کام سے ان کا جسم دکھتا ہے اور انہیں بیماریوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے، مگر یہ بے چاریاں پانی کی بیویاں بن کر خوش ہیں۔ اگر ہم غور کریں تو اس گاؤں کی خواتین کو ایک ساتھ کئی کئی کام کرنے پڑتے ہیں۔



مثال کے طور پر شیوراتری جو Namdeo کی دوسری بیوی ہے، وہ اپنے سر پر گھڑا رکھ کر پانی بھرنے بھی جاتی ہے اور ساتھ ہی اس کی گود میں اس کا پوتا بھی ہوتا ہے۔ پانی کے گھڑے اور پوتے کو ایک ساتھ سنبھالنا کوئی آسان کام نہیں، مگر شیوراتری یہ کام بڑی خوشی سے کررہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ چوں کہ مجھے معلوم ہے کہ یہ کام مجھی کو کرنا ہے تو اس میں نہ مجھے کوئی تکلیف ہوتی ہے۔

گذشتہ سال انڈیا کی حکومت نے ایک تفصیلی سروے کے بعد یہ رپورٹ تیار کی تھی کہ مہاراشٹر میں 19,000 سے زیادہ ایسے دیہات موجود ہیں جن کی پینے کے صاف پانی تک بالکل رسائی نہیں ہے اور طویل عرصے سے ان دیہات میں پانی کا مسئلہ موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سال انڈیا کو قحط اور شدید خشک سالی کا سامنا ہے۔ماہرین موسمیات کا کہنا ہے کہ اس سال بارشیں بھی معمول سے کہیں کم ہوں گی جس سے یہ صورت حال اور بھی بدتر ہوسکتی ہے۔

مہاراشٹر کا یہ گاؤں Denganmal لگ بھگ سو گھروں کا ایک جھرمٹ سا ہے اور یہ سب گھر مٹی سے لیپ پوت کر بنائے گئے ہیں، جن میں رہنے والوں کی سلامتی کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ اس گاؤں کے زیادہ تر مرد کھیتوں پر مزدوری کرتے ہیں جن کی اجرت انتہائی معمولی ہے جس سے ان کی دو وقت کی روٹی بھی بہ مشکل چل پاتی ہے۔

یہ مرد دن میں اپنے کام پر چلے جاتے ہیں تو پانی بھرنے کا مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے جس کا آسان حل ان لوگوں نے یہی نکالا ہے کہ یہ شادیاں کرتے رہتے ہیں اور آنے والی بیویوں سے گھر کی ضرورت کا پانی بھرواتے رہتے ہیں، چاہے اس کے لیے انہیں کتنی ہی مشقت کرنی پڑے۔ گاؤں کے لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمارے گاؤں میں پانی بھرنے کے لیے شادی کرنے کا رواج کئی برس سے جاری ہے اور آج تک اس پر کسی عورت نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ وہ بے چاریاں تو اسی بات پر خوش ہیں کہ ان کی شادی تو ہورہی ہے، اگر اس کے بدلے انہیں ساری زندگی بھی پانی بھرنا پڑے تو وہ اس کے لیے تیار ہیں۔

ساکھا رام بھگت کی تینوں بیویاں اس کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتی ہیں، لیکن بھگت نے ان کے کمرے اور ان کے کچن الگ الگ کررکھے ہیں۔ سکھری جو بھگت کی دوسری بیوی ہے، گھر کے تمام جھوٹے برتن باہر لے جاکر دھوتی ہے۔ یہ اس کی ڈیوٹی ہے۔ زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ ساکھا رام بھگت کی تینوں بیویاں ٹوکی، سکھری اور بھاگی اس کے ساتھ خوش ہیں اور انہیں اپنی سخت اور مشکل زندگی پر اس سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ انہیں اس بات کی خوشی ہے کہ وہ اپنی ''پتی دیوتا'' کی ''سیوا'' کرکے اپنے بھگوان کو خوش کررہی ہیں اور اس طرح خود کو ''سورگ'' کا حق دار قرار دے رہی ہیں۔



بھگت کی یہ تینوں بیویاں آپس میں مل جل کر رہتی ہیں۔ ان کے درمیان آپس میں کبھی لڑائی جھگڑا نہیں ہوتا، بلکہ یہ ہر کام میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔ پانی بھرنا، گھر کی صفائی ستھرائی کرنا، کھانا پکانا، بچوں کی دیکھ بھال اور دوسرے گھریلو کام انجام دینا ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ویسے تو انڈیا میں ایک سے زیادہ شادیاں غیرقانونی ہیں، مگر اس گاؤں میں water wivesایک عام رواج ہے جس پر کبھی کسی بھی حکومت نے کوئی اعتراض نہیں کیا، بلکہ بعض لوگ اسے ایک ''مشکل مسئلے'' کا اچھا ''حل'' قرار دے رہے ہیں۔

ہم اوپر کی سطور میں بتاچکے ہیں کہ اسی گاؤں کے ایک دوسرے باشندے Namdeo نے بھی دو شادیاں کررکھی ہیں اور یہ دوسری شادی اس نے پانی کی مسئلے پر قابو پانے کے لیے کی ہے۔ اس حوالے سے اس کا کہنا ہے:''اگر آپ کے گھر میں پانی نہ ہو تو بڑی فیملی رکھنا کوئی مذاق نہیں ہے، اس کے لیے سب سے بڑی ضرورت پانی ہے۔ اگر خواتین خود ہی پانی بھرنے کے لیے شادی پر رضامند ہیں تو ہمیں بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔''

دوسری جانب ساکھی رام بھگت کہتا ہے:''ایک سے زیادہ شادیوں نے عورتوں کا مسئلہ بھی کسی حد تک حل کردیا ہے، کیوں کہ ہمارے ہاں جو عورتیں بیوہ ہوجاتی ہیں یا انہیں طلاق ہوجاتی ہے تو پھر ان کی بقیہ زندگی کسی بے قیمت جانور کی طرح ہوجاتی ہے۔ اگر اس رواج نے انہیں دوبارہ شادی کا موقع دیا ہے تو اس میں ہمیں ناراض ہونے کے بجائے خوش ہونا چاہیے۔ اس سے بہت سے مسائل پیدا ہونے سے پہلے ہی حل ہوجائیں گے۔ اس طرح ان بے چاریوں کے گھر ایک بار پھر آباد ہورہے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ تمام خواتین بھی اس نئے سسٹم سے خوش ہیں۔''

بھگت کی پہلی بیوی ٹوکی کہتی ہے:''ہم تینوں بہنوں کی طرح مل جل کر رہتی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے درمیان کبھی کوئی جھگڑا نہیں ہوتا، مگر ہم اس کا حل سوچ سمجھ کر خود ہی نکال لیتے ہیں۔ بعض اوقات تو ہمارے پتی کو بھی پتا نہیں چلتا کہ ہمارے درمیان کوئی اختلاف ہوا تھا۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |