افغانستان اور سعودی عرب میں دہشتگردی

سعودی عرب اور افغانستان میں ہونے والی دہشت گردی کی خاص بات یہ ہے کہ دونوں میں سیکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا ہے

نائیجریا اور ہمسایہ ممالک میں بوکوحرام ہے، صومالیہ وغیرہ میں الشباب ہے جب کہ افغانستان میں طالبان ہیں۔فوٹو : فائل

گزشتہ روز کابل کی پولیس اکیڈمی اور فوجی کمپاؤنڈ کے باہر کیے جانے والے ہولناک دھماکوں میں پچاس سے ساٹھ کے درمیان اہلکار لقمہ اجل بن گئے۔

پولیس تربیتی ادارے پر ہونے والا دھماکا خودکش تھا جس میں حملہ آور نے خود بھی پولیس یونیفارم پہن رکھی تھی۔ ایک روز قبل سعودی عرب کی فوجی مسجد میں ایک خودکش دھماکے میں بھی درجنوں ہلاکتیں ہوئیں۔ اس دھماکے کی ذمے داری داعش نے قبول کر لی جب کہ کابل میں ہونے والے دھماکوں کی ذمے داری طالبان نے قبول کی ہے۔


افریقی ملک مالی کے ایک ہوٹل میں بھی دہشت گردوں نے قبضہ کر لیا جس میں غیرملکی مقیم تھے۔ ان پے درپے وارداتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی ممالک میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ایک بار پھر اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جب کہ وطن عزیز پاکستان میں آپریشن ضرب عضب کے باعث اس قسم کی وارداتوں میں خاصی کمی ہو چکی ہے لیکن سعودی مملکت میں جو کہ مشرق وسطیٰ کا سب سے زیادہ پرامن ملک تھا، اس کی مساجد میں تواتر کے ساتھ حملوں کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ بعض مبصرین کے نزدیک اس کی وجہ سعودی عرب کا یمن کی چپقلش میں شریک ہونا بتایا جاتا ہے۔

سعودی عرب اور افغانستان میں ہونے والی دہشت گردی کی خاص بات یہ ہے کہ دونوں میں سیکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ افغانستان تو گزشتہ تیس برس سے دہشت گردی کا شکار ہے لیکن سعودی عرب پہلی بار اس قسم کی صورت حال سے دوچار ہوا ہے۔ مسلم ممالک میں دہشت گردی کرنے والی تنظیموں کے نام مختلف ہیں لیکن ان کا مشن یکساں ہے۔ عراق و شام اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک میں داعش ہے۔ نائیجریا اور ہمسایہ ممالک میں بوکوحرام ہے، صومالیہ وغیرہ میں الشباب ہے جب کہ افغانستان میں طالبان ہیں۔ غور کیا جائے تو ان سب کا طریقہ واردات ایک ہے اور مقصد بھی ایک ہی ہے۔ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی مسلم ممالک کو متحد ہونا پڑے گا۔
Load Next Story