ایچ آر سی پی ایک شاندار کتاب

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان سے میرا بہت پرانا دلی تعلق ہے۔


Zahida Hina August 09, 2015
[email protected]

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان سے میرا بہت پرانا دلی تعلق ہے۔ ان کے مختلف سیمیناروں میں شرکت کرنا ہمیشہ میں نے اپنی ذمے داری سمجھی ہے۔ عاصمہ جہانگیر، حسین نقی، آئی اے رحمان، حنا جیلانی اور اس سے جڑے ہوئے دوسرے لوگوں کے کام کو سراہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ چند دن پہلے جب مجھے کمیشن کی ایک کتاب 'آنے والی نسلوں کے لیے انتہا پسندی سے پاک پُر امن معاشرے کا قیام' موصول ہوئی تو جی خوش ہو گیا کیونکہ اس کے ساتھ جناب حسین نقی کا ایک خط بھی منسلک تھا جس میں اس خواہش کا اظہار کیا گیا تھا کہ میں اس رپورٹ کے بارے میں کچھ لکھوں۔

انتہا پسندی ہمارے سماج کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے اور اس کی خوفناکیوں کے بارے میں قلم اٹھانا ایک لکھنے والے کے طور پر میں ذاتی ذمے داری سمجھتی ہوں اور جب اس کی فرمائش حسین نقی کریں تو اس ذمے داری میں دلی راحت بھی شامل ہو جاتی ہے۔

جناب حسین نقی میرے لیے ایک ایسے ہیرو ہیں، جن سے میری ملاقات سالہا سال بعد ہوئی لیکن ایک با ضمیر فرد کے طور پر انھوں نے سماج کو سنوارنے کی جو لڑائی قیام پاکستان کے ابتدائی دنوں سے لڑی، اس نے لوگوں کی نظر میں ان کا قامت بہت بلند کر دیا۔ آج وہ لگ بھگ 80 برس کے ہو چکے، اپنی طالب علمی کے زمانے میں وہ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے وابستہ ہوئے اور طلبہ کے حقوق کے لیے لڑتے رہے۔

ان کی ابتدائی زندگی کا یہ واقعہ آج ناقابل یقین محسوس ہوتا ہے کہ جب کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے 3 بلوچ طلبہ کو 3 برس کے لیے یونیورسٹی سے خارج کر دیا تو حسین نقی اس وقت کراچی یونیورسٹی کی طلبہ تنظیم کے صدر تھے۔

انھوں نے وائس چانسلر کی خدمت میں عرض کیا کہ وہ ان طالبعلموں کو معاف کر دیں لیکن جب وی سی اس بات کے لیے راضی نہ ہوئے تو آخر کار یہ مسئلہ اس طرح طے ہوا کہ ان 3 بلوچ طلبہ کی سزا منسوخ کر دی گئی اور ان کی جگہ حسین نقی 3 سال کے لیے یونیورسٹی سے خارج کر دیے گئے۔ بعد میں انھوں نے صحافت کا شعبہ اختیار کیا اور پاکستان کے اہم اخباروں سے وابستہ رہے۔ پاکستان کی حکمران اشرافیہ کو ناراض کرنے کے سبب کئی مرتبہ جیل گئے اور اب ایک عرصے سے انسانی حقوق کے لیے ان کی سرگرمیاں آج تک زور شور سے جاری ہیں۔

زیر نظر کتاب پاکستان میں انتہا پسندی کے پھیلاؤ کو روکنے اور بطور خاص نئی نسل کو اس سے محفوظ رکھنے کے لیے مختلف لکھنے والوں کی ان تحریروں کا مجموعہ ہے، جو ہیومن رائٹس کمیشن کے مختلف سیمیناروں میں پڑھی گئیں۔

مضامین کے اس مجموعے میں انتہا پسندی کے حوالے سے ریاست اور میڈیا کے کردار پر کئی لکھنے والوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے لیکن ہمارا نصاب انتہا پسندی کے پھیلاؤ میں کس قدر منفی کردار ادا کر رہا ہے، اس کا جائزہ ندیم عباس نے تفصیل سے لیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کو جس نوعیت کا نصاب پڑھایا جا رہا ہے اس سے وہ سماج کے مختلف عناصر سے جُڑنے کی بجائے، ان سے دور ہو جاتے ہیں، سماج دشمنی کم عمری سے ان کے ذہنوں میں جڑ پکڑ لیتی ہے۔ٍ

ملک کے تمام روشن خیال اور روادار افراد بار بار اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ نصاب سے 'تاریخ ' جیسے اہم موضوع کو خارج کر کے اور اس کی جگہ کسی اور نام سے مسخ شدہ تاریخ پڑھا کر جمہوریت پسند 'روادار' انسان دوست اور انسانی حقوق پر یقین رکھنے والی نئی نسل کو زہر آلود کیا جا رہا ہے۔

اس اہم ترین مسئلے کے بارے میں ندیم عباس نے کھل کر لکھا ہے کہ نصابی کتابوں میں مسلمان سپہ سالاروں کی ہندو راجاؤں کے خلاف عسکری مہمات کی جھوٹ پر مبنی مدح سرائی سے طالب علموں میں متشددانہ جذبات کو فروغ دیا جاتا ہے اور انھیں مذہب کے نام پر غیر مسلموں پر دھاوا بولنے کا جواز مہیا کیا جاتا ہے۔ محمد بن قاسم، شہاب الدین غوری، سلطان محمود غزنوی، احمد شاہ ابدالی کی ہندو راجاؤں کے خلاف لڑی جانے والی جنگوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔

حالانکہ طلبا کو یہ بتانا چاہیے کہ مسلمان حکمرانوں نے جہاں ہندو راجاؤں کے خلاف جنگیں کی تھیں، وہیں وہ اپنے مخالف مسلمان حکمرانوں کے خلاف بھی صف آراء ہوئے تھے۔ ظہیر الدین بابر نے برصغیر میں اقتدار کسی غیر مسلم سے نہیں بلکہ ایک مسلمان ابراہیم لودھی سے چھینا تھا اور اسے قتل بھی کیا تھا۔

اسی طرح شیر شاہ سوری نے ہمایوں کو شکست دی تھی جو کہ غیر مسلم نہیں تھا۔ اورنگ زیب اپنے مسلمان باپ کو تا مرگ زنداں میں ڈال کر اور اپنے بھائیوں کو قتل کر کے مسند اقتدار پر بیٹھا تھا۔ یہ مثالیں ثابت کرتی ہیں کہ یہ درحقیقت اقتدار کی جنگ تھی جس کو ہماری نصابی کتابیں مذہبی لڑائی کے طور پر بیان کرتی ہیں۔

وہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں جماعت ہفتم کی اردو کتاب میں خواتین ہیروز میں صرف فاطمہ جناح اور بیگم رعنا لیاقت علی شامل ہیں گویا ان دو کے علاوہ گزشتہ 62 برسوں میں پاکستان کوئی بڑی خاتون شخصیت پیدا نہیں کر سکا۔ ان میں سے بھی رعنا لیاقت علی خان کا صرف ایک بار جب کہ فاطمہ جناح کا محض چار بار ذکر کیا گیا ہے۔

ہمارا نصاب پاکستان کے کسی غیر مسلم کو بھی بطور ملکی ہیرو پیش نہیں کر سکا۔ پاکستان کو نوبیل انعام کا اعزاز دلوانے والے ڈاکٹر عبدالسلام ، 1971ء کی جنگ میں ملک کا دفاع کرنے والے گروپ کیپٹن سیسل چوہدری اور میروین مڈلکوٹ، معروف قانون دان جوگندر ناتھ منڈل، جسٹس اے کے کارنیلیس، جسٹس رانا بھگوان داس، اردشیر کاؤس جی، جولیس سالک، بپسی سدھوا میں سے کوئی بھی ہمارا قومی ہیرو نہیں ہے۔

نہ ہی دیوان بہادر ایس پی سنگھا، فضل الٰہی اور سی ای گبن ہمارے ہیرو ہیں جنھوں نے 1947ء میں پاکستان کی حمایت میں ووٹ ڈالے تھے۔ محض اس وجہ سے کہ ہمارے وہ ہیرو مسلمان نہیں بلکہ غیر مسلم تھے۔

آگے چل کر اس رپورٹ میں ایک کالم نگار حسن گیلانی کی ایک تحریر دی گئی ہے، جس میں انھوں نے بیسویں صدی کے اوائل میں لاہور سے شایع ہونے والے معروف روزنامے ''پیسہ اخبار'' کے ایڈیٹر منشی محبوب عالم کے اس سفر نامے کا اقتباس نقل کیا ہے، جو انھوں نے 1905ء میں یورپ کے سفر کے بعد لکھا تھا۔ اس اقتباس سے مسلم دنیا کی اس پسماندگی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں جو آج بھی اس کا مقدر بنا ہوا ہے۔ منشی محبوب عالم لکھتے ہیں۔

'' یورپ کے جس ملک میں بھی گئے، وسیع و عریض، صاف ستھری سڑکیں بڑی بڑی عمارتیں، کالج، یونیورسٹیاں اسپتال اور ہر طرف بڑے بڑے کارخانے اور ان کی اونچی بلند و بالا دھواں اگلتی چمنیاں دیکھیں۔ جب ہم فرانس پہنچے تو وہاں ان دنوں صنعتی نمائش کا اہتمام کیا گیا تھا۔ جب ہم نمائش میں پہنچے تو یورپ کے تقریباً ہر ملک کی نمائندگی تھی۔

چمڑا سازی، شیشہ سازی، گھڑی سازی، کارسازی و جہاز رانی کے علاوہ برقی آلات و زراعت تک جدید صنعت و حرفت کے شاہکار دیکھنے کو ملے۔ اسی دوران ایک کونے میں موجود اسٹال پر برادر اسلامی ملک ترکی کا بورڈ پڑھا تو بے انتہا خوشی ہوئی کہ ممالک اسلامیہ میں کوئی تو ہے جسے جدید دور کے تقاضوں کا احساس ہے۔ یہی سوچتے ہوئے جب ہم وہاں پہنچے اس یہ لمحاتی خوشی کا احساس دکھ اور مایوسی میں تبدیل ہوا جب وہاں جدید صنعت و حرفت کی جگہ قدیم تلواریں، توڑے دار بندوقیں، زرہ بکتر اور چند شاہی لباس آویزاں دیکھے۔''

منشی محبوب عالم آگے کا حال یوں لکھتے ہیں ''جب ہم یورپ کی حدود سے نکل کر اسلامی ممالک کی حدود میں داخل ہوئے تو وہاں کارخانوں کی دھواں اگلتی اونچی چمنیوں کی جگہ ہر طرف بڑی بڑی مساجد اور ان کے اونچے فلک بوس مینار دیکھنے کو ملے۔''

آج ایک صدی گزر جانے کے بعد اس سفر نامے کی روشنی میں مسلم دنیا پر نگاہ ڈالیں تو وہ تصویر جو منشی محبوب عالم نے اپنے مذکورہ سفر نامے میں پیش کی تھی، اس میں کوئی بنیادی تبدیلی نظر نہیں آئے گی۔

اس مضمون میں سید سبط حسن کی تحریر کا اقتباس بھی شامل کیا گیا ہے جس میں انھوں نے کھلم کھلا لکھا ہے کہ ظلمت پرست خدا کی حاکمیت کی آڑ میں تنگ نظر ملاؤں کا راج قائم کرنا چاہتے ہیں۔ فیوڈل ازم اور فیوڈل قدروں کو دوبارہ زندہ چاہتے ہیں اور عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنا چاہتے ہیں، 221 صفحوں پر مشتمل یہ ریویو ایسے ہی خیالات و افکار کا احاطہ کرتی ہے۔ اس کی ترتیب و تدوین کے لیے حسین نقی اور آئی اے رحمان صاحبان قابل مبارکباد ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں