پاکستانی اور بھارتی فلمیں
’’بجرنگی بھائی جان‘‘ میں امن، پیار اور محبت کا پیغام بھی ہے۔
لاہور:
بھارت اور پاکستان میں سلمان خان کی فلم ''بجرنگی بھائی جان'' کی مقبولیت نے ثابت کر دیا کہ کسی بھی فلم کا اسکرپٹ مضبوط ہو، موسیقی جاندار ہو، اور ڈائریکشن میں ہر پہلو کا خیال رکھا گیا ہو، تو وہ فلمیں ضرور کامیاب ہوتی ہیں۔ ''بجرنگی بھائی جان'' میں امن، پیار اور محبت کا پیغام بھی ہے۔
جو یقینا انڈیا اور پاکستان کے ہر امن پسند شہری کا خواب بھی ہے لیکن کچھ ایسی قوتیں بھی ہیں، جنھیں امن کا ایجنڈا کسی بھی ملک سے قبول نہیں۔ میاں نواز شریف کی حکومت کی بعض پالیسیوں اور بعض افراد کے بڑے اداروں کے سربراہ بنانے کے غلط فیصلوں سے اختلاف کے باوجود ان کی ایک بات کی میں نے ہمیشہ تعریف کی ہے اور انھیں سراہا بھی ہے اور وہ ہے ہمسایوں سے اچھے تعلقات کی کوششیں۔ انھوں نے بعض اوقات بڑی جرأت سے کام لے کر ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات استوار کیے ہیں۔
جب کہ ایک مخصوص لابی کو ان کی یہ بات کبھی پسند نہیں آئی اور وہ جو صرف خود کو ہی سچا مسلمان سمجھتے ہیں۔ وہ ان ارشادات نبویؐ کو بھول جاتے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ''سلام میں سبقت کرنے والے کو تیس اور جواب دینے والے کو دس نیکیاں ملتی ہیں۔''۔۔۔۔۔۔ ''مسلمان کے لیے جو کام سب سے زیادہ مغفرت کا ہو گا، وہ کشادہ روی اور شیریں زبانی ہے۔''۔۔۔۔۔''ہر ایک قوم کے معزز آدمی کی تعظیم کر''۔
دوست اور ہمسایہ ممالک میں اچھے اور دیرپا تعلقات کے لیے تجارت کے علاوہ فنون لطیفہ سے وابستہ تمام گروپوں کی ایک سے دوسرے ملک میں آمد و رفت بھی اچھے تعلقات کا نہ صرف باعث بنتی ہے بلکہ اس طرح طائفوں اور فلموں کے تبادلے اور آمد و رفت سے بھی معاشی فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ آج کل ہمارے ملک میں ایک طرف تو آپریشن ''ضرب عضب'' کامیابی سے جاری ہے۔ (کاش یہ آپریشن بہت پہلے شروع ہو جاتا تو پشاور میں آرمی پبلک اسکول کا المناک سانحہ وقوع پذیر نہ ہوتا)۔ دوسری طرف بھارتی فلمیں بھی سینما گھروں میں کامیابی سے چل رہی ہیں۔
کیا ہی اچھا ہو کہ ڈراموں کے ساتھ ساتھ ایرانی اور ترکی فلمیں بھی یہاں دکھائی جائیں تا کہ لوگوں کو معیاری فلمیں دیکھنے کو ملیں اور ان فلموں سے ہمارے فلم سازوں کو بھی ایک طرح سے تربیت ملے۔ اگر وہ سیکھنا چاہیں تو۔۔۔۔ بدقسمتی سے ہماری فلمی صنعت میں پڑھے لکھے اور سنجیدہ لوگوں کی بہت کمی ہے۔ سچ کہیے تو ''کنوئیں کے مینڈک'' والی مثال صادق آتی ہے۔ بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش کی پابندی سے یہ نقصان ہوا کہ یہاں کے فلمی گاڈ فادر اور قبضہ مافیا نے اپنے لیے میدان کھلا سمجھا۔ اب کوئی مقابلے پہ تو تھا نہیں لہٰذا نہایت بے تکی فلمیں بننے لگیں، جن میں کہانی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی تھی۔
بس بڑے بڑے نام شامل کیے اور اوٹ پٹانگ فلمیں بنا دیں۔ یہ سوچ کر کہ ایک ہی فلم میں زیبا، محمد علی، ندیم، شاہد، بابرا شریف اور شبنم کو یکجا کرنے سے ان کے پرستار سینما گھروں کا رخ کریں گے۔ اس لیے نہ کہانی کی ضرورت ہے نہ اچھی دل موہ لینے والی موسیقی کی اور نہ معیاری ڈائریکشن کی۔ نتیجہ کیا ہوا؟ کہ بڑے ناموں اور بڑے بجٹ کے باوجود فلمیں فلاپ ہو گئیں اور آہستہ آہستہ سینما گھر ٹوٹ کر شادی ہال اور شاپنگ سینٹرز میں تبدیل ہو گئے۔
فلمی دنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ بعض اوقات صرف معیاری پروڈکشن اور مضبوط اسکرپٹ کی بنا پر نہایت کم بجٹ کی فلمیں نئے ہیرو، ہیروئن کے ساتھ کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔ مثال کے طور پر نامور اداکار محمد علی کی فلمیں ''چراغ جلتا رہا'' اور ''خاموش رہو'' اسی طرح بھارتی فلمساز یش چوپڑہ کی مایہ ناز فلم ''سلسلہ'' جو بڑے اداکاروں امیتابھ بچن، جیا بچن، ریکھا اور سنجیو کمار کی شمولیت کے ساتھ ساتھ نہایت اعلیٰ درجے کی لوکیشن، کیمرہ ورک اور دلکش موسیقی کی بنا پر بہت کامیاب رہی تھی اور خوب بزنس کیا تھا۔ اس فلم کی آمدنی کو ٹیکس سے بچانے کے لیے انھوں نے ایک بالکل نئی اداکارہ کو لے کر ''نوری'' بنائی یہ اداکارہ تھی پونم ڈھلوں، جس نے فلم ''ترشول'' میں ایک مختصر سا رول کیا تھا لیکن یش چوپڑہ نے اسے فاروق شیخ کے ساتھ ہیروئن لے لیا، کہ نئی ہیروئن کی فلم دیکھنے بھلا کون آئے گا۔
یہ فلم نہایت کم بجٹ کی تھی جس میں کوئی بڑا سیٹ یا تام جھام نہیں تھا۔ کشمیر کے مسلم پس منظر میں فلمائی جانے والی ایک رومانی کہانی۔ چوپڑہ نے یہ سوچ کر فلم بنائی تھی کہ اس فلم کا خسارہ دکھا کر وہ انکم ٹیکس والوں سے بچ جائیں گے لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس۔ نہایت جاندار کہانی، مضبوط اسکرپٹ اور لازوال موسیقی کی بنا پر ''نوری'' نے ''سلسلہ'' سے کہیں زیادہ بزنس کیا۔ یہ کامیابی ثابت کرتی ہے کہ فلم بین صرف ہیروئن کو دیکھنے نہیں آتے بلکہ سینما گھر تک لانے اور جیب سے پیسے نکلوا کر ٹکٹ خریدنے تک میں بہت ساری چیزوں کا حصہ ہوتا ہے۔
جو فلم ساز اس حقیقت کو سمجھ لیتا ہے۔ اس کی کوئی فلم ناکام نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ مقابلے سے ڈرتا ہے۔ فلم کی کامیابی میں کروڑوں کا بجٹ نہیں بلکہ مہارت، تکنیکی صلاحیت، جاندار کہانی اور دلوں کو چھو لینے والی موسیقی کا برابر کا حصہ ہوتا ہے۔ ماضی میں پاکستان میں شباب کیرانوی، حسن طارق اور فضل احمد کریم فضلی نے نہایت کامیاب فلمیں شائقین کو دی ہیں۔ ان کے علاوہ شہید ، فرنگی، نیند ،کوئل، انسان اور آدمی۔ انصاف اور قانون۔ خاموش رہو، وعدہ، چراغ جلتا رہا، قاتل۔ گمنام، نائلہ۔ ہیر رانجھا اور قسمت جیسی معیاری فلموں نے ہر سطح پر بہت اچھا بزنس کیا، لیکن اب معاملات بہت دگرگوں ہیں۔
جہاں تک بھارتی فلموں سے مقابلے کا سوال ہے تو یہ ایک احمقانہ اور بچکانہ سوچ ہے۔ مقابلہ ہمیشہ برابر والوں میں ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ ایک نامور پہلوان کا مقابلہ اکھاڑے میں اترے نو آموز شاگرد سے کروا دیا جائے۔ لیکن چند کرائے کے لیڈروں نے یہ بات دماغ میں بٹھا دی ہے کہ اگر بھارتی فلمیں پاکستان میں ریلیز ہوئیں، تو پاکستانی فلمی صنعت بیٹھ جائے گی۔ جب کہ وہ تو اسی وقت سے بیٹھ گئی تھی جب سے پابندی لگی تھی۔ آپ مقابلے کا کیوں سوچتے ہیں۔
ایک ماسٹر ڈگری ہولڈر سے آٹھویں جماعت کا طالب علم بھلا کیونکر مقابلہ کر سکتا ہے۔ مقابلے کو ذہن سے خارج کر کے معیاری فلمیں اگر بنیں گی، تب ہی فلم بین سینما کا رخ کریں گے۔
عاقبت نااندیش، تنگ نظر اور اکثر ان پڑھ لوگ پاکستانی فلمی صنعت پہ قابض ہیں۔ پڑھے لکھے لوگوں کو یہ آگے نہیں آنے دیتے۔ روحی بانو جیسی اداکارہ اگر بھارت میں ہوتی تو شبانہ اعظمی اور سمیتا پاٹل سے زیادہ باصلاحیت ثابت ہوتی اور کئی نیشنل ایوارڈ حاصل کر چکی ہوتی۔ لیکن قبضہ گروپ کے رویوں سے دل برداشتہ روحی بانو آج کن حالوں کو پہنچی ہوئی ہے، سب جانتے ہیں۔ لیکن کوئی اس کی مدد کو نہیں آتا۔
سب سے بڑی اور اہم بات یہ کہ سینما گھروں سے بے شمار لوگوں کا روزگار اور رزق وابستہ ہے۔ سینما گھروں کے ٹوٹنے سے وہ ٹیکنیشن اور دیگر لوگ کیا کریں گے؟ اور کس طرح اپنا گھر چلائیں گے؟ یہ بھی تو سوچنا چاہیے۔
اگر بھارتی فلموں کی نمائش سے سینما انڈسٹری سے وابستہ ہزاروں گھروں کے چولہے روشن ہو گئے ہیں تو اس پر واویلا اور اعتراض کیوں؟ جو چند خود ساختہ لیڈر کچھ لوگوں کے کہنے پر ایسے بیانات دے رہے ہیں۔ انھیں ان لوگوں کا خیال کیوں نہیں آتا جو سینما گھروں کے ٹوٹنے سے فاقوں کا شکار ہو گئے تھے۔ پاکستانی فلم سازوں کو چاہیے کہ تعلیم یافتہ لوگوں کو سامنے لائیں ہیرا منڈی کی نمائش کا زمانہ ختم ہو گیا۔ آج کا انسان معیاری اور مقصدی فلمیں دیکھنا چاہتا ہے۔
بھارت اور پاکستان میں سلمان خان کی فلم ''بجرنگی بھائی جان'' کی مقبولیت نے ثابت کر دیا کہ کسی بھی فلم کا اسکرپٹ مضبوط ہو، موسیقی جاندار ہو، اور ڈائریکشن میں ہر پہلو کا خیال رکھا گیا ہو، تو وہ فلمیں ضرور کامیاب ہوتی ہیں۔ ''بجرنگی بھائی جان'' میں امن، پیار اور محبت کا پیغام بھی ہے۔
جو یقینا انڈیا اور پاکستان کے ہر امن پسند شہری کا خواب بھی ہے لیکن کچھ ایسی قوتیں بھی ہیں، جنھیں امن کا ایجنڈا کسی بھی ملک سے قبول نہیں۔ میاں نواز شریف کی حکومت کی بعض پالیسیوں اور بعض افراد کے بڑے اداروں کے سربراہ بنانے کے غلط فیصلوں سے اختلاف کے باوجود ان کی ایک بات کی میں نے ہمیشہ تعریف کی ہے اور انھیں سراہا بھی ہے اور وہ ہے ہمسایوں سے اچھے تعلقات کی کوششیں۔ انھوں نے بعض اوقات بڑی جرأت سے کام لے کر ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات استوار کیے ہیں۔
جب کہ ایک مخصوص لابی کو ان کی یہ بات کبھی پسند نہیں آئی اور وہ جو صرف خود کو ہی سچا مسلمان سمجھتے ہیں۔ وہ ان ارشادات نبویؐ کو بھول جاتے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ''سلام میں سبقت کرنے والے کو تیس اور جواب دینے والے کو دس نیکیاں ملتی ہیں۔''۔۔۔۔۔۔ ''مسلمان کے لیے جو کام سب سے زیادہ مغفرت کا ہو گا، وہ کشادہ روی اور شیریں زبانی ہے۔''۔۔۔۔۔''ہر ایک قوم کے معزز آدمی کی تعظیم کر''۔
دوست اور ہمسایہ ممالک میں اچھے اور دیرپا تعلقات کے لیے تجارت کے علاوہ فنون لطیفہ سے وابستہ تمام گروپوں کی ایک سے دوسرے ملک میں آمد و رفت بھی اچھے تعلقات کا نہ صرف باعث بنتی ہے بلکہ اس طرح طائفوں اور فلموں کے تبادلے اور آمد و رفت سے بھی معاشی فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ آج کل ہمارے ملک میں ایک طرف تو آپریشن ''ضرب عضب'' کامیابی سے جاری ہے۔ (کاش یہ آپریشن بہت پہلے شروع ہو جاتا تو پشاور میں آرمی پبلک اسکول کا المناک سانحہ وقوع پذیر نہ ہوتا)۔ دوسری طرف بھارتی فلمیں بھی سینما گھروں میں کامیابی سے چل رہی ہیں۔
کیا ہی اچھا ہو کہ ڈراموں کے ساتھ ساتھ ایرانی اور ترکی فلمیں بھی یہاں دکھائی جائیں تا کہ لوگوں کو معیاری فلمیں دیکھنے کو ملیں اور ان فلموں سے ہمارے فلم سازوں کو بھی ایک طرح سے تربیت ملے۔ اگر وہ سیکھنا چاہیں تو۔۔۔۔ بدقسمتی سے ہماری فلمی صنعت میں پڑھے لکھے اور سنجیدہ لوگوں کی بہت کمی ہے۔ سچ کہیے تو ''کنوئیں کے مینڈک'' والی مثال صادق آتی ہے۔ بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش کی پابندی سے یہ نقصان ہوا کہ یہاں کے فلمی گاڈ فادر اور قبضہ مافیا نے اپنے لیے میدان کھلا سمجھا۔ اب کوئی مقابلے پہ تو تھا نہیں لہٰذا نہایت بے تکی فلمیں بننے لگیں، جن میں کہانی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی تھی۔
بس بڑے بڑے نام شامل کیے اور اوٹ پٹانگ فلمیں بنا دیں۔ یہ سوچ کر کہ ایک ہی فلم میں زیبا، محمد علی، ندیم، شاہد، بابرا شریف اور شبنم کو یکجا کرنے سے ان کے پرستار سینما گھروں کا رخ کریں گے۔ اس لیے نہ کہانی کی ضرورت ہے نہ اچھی دل موہ لینے والی موسیقی کی اور نہ معیاری ڈائریکشن کی۔ نتیجہ کیا ہوا؟ کہ بڑے ناموں اور بڑے بجٹ کے باوجود فلمیں فلاپ ہو گئیں اور آہستہ آہستہ سینما گھر ٹوٹ کر شادی ہال اور شاپنگ سینٹرز میں تبدیل ہو گئے۔
فلمی دنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ بعض اوقات صرف معیاری پروڈکشن اور مضبوط اسکرپٹ کی بنا پر نہایت کم بجٹ کی فلمیں نئے ہیرو، ہیروئن کے ساتھ کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔ مثال کے طور پر نامور اداکار محمد علی کی فلمیں ''چراغ جلتا رہا'' اور ''خاموش رہو'' اسی طرح بھارتی فلمساز یش چوپڑہ کی مایہ ناز فلم ''سلسلہ'' جو بڑے اداکاروں امیتابھ بچن، جیا بچن، ریکھا اور سنجیو کمار کی شمولیت کے ساتھ ساتھ نہایت اعلیٰ درجے کی لوکیشن، کیمرہ ورک اور دلکش موسیقی کی بنا پر بہت کامیاب رہی تھی اور خوب بزنس کیا تھا۔ اس فلم کی آمدنی کو ٹیکس سے بچانے کے لیے انھوں نے ایک بالکل نئی اداکارہ کو لے کر ''نوری'' بنائی یہ اداکارہ تھی پونم ڈھلوں، جس نے فلم ''ترشول'' میں ایک مختصر سا رول کیا تھا لیکن یش چوپڑہ نے اسے فاروق شیخ کے ساتھ ہیروئن لے لیا، کہ نئی ہیروئن کی فلم دیکھنے بھلا کون آئے گا۔
یہ فلم نہایت کم بجٹ کی تھی جس میں کوئی بڑا سیٹ یا تام جھام نہیں تھا۔ کشمیر کے مسلم پس منظر میں فلمائی جانے والی ایک رومانی کہانی۔ چوپڑہ نے یہ سوچ کر فلم بنائی تھی کہ اس فلم کا خسارہ دکھا کر وہ انکم ٹیکس والوں سے بچ جائیں گے لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس۔ نہایت جاندار کہانی، مضبوط اسکرپٹ اور لازوال موسیقی کی بنا پر ''نوری'' نے ''سلسلہ'' سے کہیں زیادہ بزنس کیا۔ یہ کامیابی ثابت کرتی ہے کہ فلم بین صرف ہیروئن کو دیکھنے نہیں آتے بلکہ سینما گھر تک لانے اور جیب سے پیسے نکلوا کر ٹکٹ خریدنے تک میں بہت ساری چیزوں کا حصہ ہوتا ہے۔
جو فلم ساز اس حقیقت کو سمجھ لیتا ہے۔ اس کی کوئی فلم ناکام نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ مقابلے سے ڈرتا ہے۔ فلم کی کامیابی میں کروڑوں کا بجٹ نہیں بلکہ مہارت، تکنیکی صلاحیت، جاندار کہانی اور دلوں کو چھو لینے والی موسیقی کا برابر کا حصہ ہوتا ہے۔ ماضی میں پاکستان میں شباب کیرانوی، حسن طارق اور فضل احمد کریم فضلی نے نہایت کامیاب فلمیں شائقین کو دی ہیں۔ ان کے علاوہ شہید ، فرنگی، نیند ،کوئل، انسان اور آدمی۔ انصاف اور قانون۔ خاموش رہو، وعدہ، چراغ جلتا رہا، قاتل۔ گمنام، نائلہ۔ ہیر رانجھا اور قسمت جیسی معیاری فلموں نے ہر سطح پر بہت اچھا بزنس کیا، لیکن اب معاملات بہت دگرگوں ہیں۔
جہاں تک بھارتی فلموں سے مقابلے کا سوال ہے تو یہ ایک احمقانہ اور بچکانہ سوچ ہے۔ مقابلہ ہمیشہ برابر والوں میں ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ ایک نامور پہلوان کا مقابلہ اکھاڑے میں اترے نو آموز شاگرد سے کروا دیا جائے۔ لیکن چند کرائے کے لیڈروں نے یہ بات دماغ میں بٹھا دی ہے کہ اگر بھارتی فلمیں پاکستان میں ریلیز ہوئیں، تو پاکستانی فلمی صنعت بیٹھ جائے گی۔ جب کہ وہ تو اسی وقت سے بیٹھ گئی تھی جب سے پابندی لگی تھی۔ آپ مقابلے کا کیوں سوچتے ہیں۔
ایک ماسٹر ڈگری ہولڈر سے آٹھویں جماعت کا طالب علم بھلا کیونکر مقابلہ کر سکتا ہے۔ مقابلے کو ذہن سے خارج کر کے معیاری فلمیں اگر بنیں گی، تب ہی فلم بین سینما کا رخ کریں گے۔
عاقبت نااندیش، تنگ نظر اور اکثر ان پڑھ لوگ پاکستانی فلمی صنعت پہ قابض ہیں۔ پڑھے لکھے لوگوں کو یہ آگے نہیں آنے دیتے۔ روحی بانو جیسی اداکارہ اگر بھارت میں ہوتی تو شبانہ اعظمی اور سمیتا پاٹل سے زیادہ باصلاحیت ثابت ہوتی اور کئی نیشنل ایوارڈ حاصل کر چکی ہوتی۔ لیکن قبضہ گروپ کے رویوں سے دل برداشتہ روحی بانو آج کن حالوں کو پہنچی ہوئی ہے، سب جانتے ہیں۔ لیکن کوئی اس کی مدد کو نہیں آتا۔
سب سے بڑی اور اہم بات یہ کہ سینما گھروں سے بے شمار لوگوں کا روزگار اور رزق وابستہ ہے۔ سینما گھروں کے ٹوٹنے سے وہ ٹیکنیشن اور دیگر لوگ کیا کریں گے؟ اور کس طرح اپنا گھر چلائیں گے؟ یہ بھی تو سوچنا چاہیے۔
اگر بھارتی فلموں کی نمائش سے سینما انڈسٹری سے وابستہ ہزاروں گھروں کے چولہے روشن ہو گئے ہیں تو اس پر واویلا اور اعتراض کیوں؟ جو چند خود ساختہ لیڈر کچھ لوگوں کے کہنے پر ایسے بیانات دے رہے ہیں۔ انھیں ان لوگوں کا خیال کیوں نہیں آتا جو سینما گھروں کے ٹوٹنے سے فاقوں کا شکار ہو گئے تھے۔ پاکستانی فلم سازوں کو چاہیے کہ تعلیم یافتہ لوگوں کو سامنے لائیں ہیرا منڈی کی نمائش کا زمانہ ختم ہو گیا۔ آج کا انسان معیاری اور مقصدی فلمیں دیکھنا چاہتا ہے۔