21ویں ترمیم بنیادی ڈھانچہ اور قانون کی حکمرانی پہلا حصہ

جس دن بالآخر یہ فیصلہ ہوا کہ ہمارے آئین کا ایک بنیادی ڈھانچہ ہے۔

Jvqazi@gmail.com

چار اگست کو سپریم کورٹ کے سنائے گئے فیصلے سے پہلے بھی پاکستان کی آئینی تاریخ میں بعض اقدامات کو نظریہ ضرورت کے تحت قانونی حیثیت دی گئی ہے مگر چار اگست کو سنائے گئے فیصلے نے بالآخر آئین کے بنیادی ڈھانچے کی حیثیت کو اکثریتی فیصلے سے مان لیا ۔ یہ اور بات ہے کہ یہ پھر ایک اور مکتب فکر (اسی فیصلے میں) 21 ویں ترمیم کو اول تو نہیں مانتی کہ یہ بنیادی ڈھانچے سے ٹکراؤ میں ہے اور پھر ان سے آخر میں جڑ جاتی ہے ۔

جیساکہ چیف جسٹس وغیرہ جو یہ مانتے ہی نہیں ہیں کہ آئین کا کوئی ''بنیادی ڈھانچہ'' وغیرہ ہے اور جب ہے ہی نہیں تو 21 ویں ترمیم پر سپریم کورٹ کا جوڈیشل نظرثانی والا حق کاہے کا؟ بنیادی ڈھانچے کے ضمن میں جسٹس عظمت سعید لکھتے ہیں کہ جب 21 ویں ترمیم مستقل نوعیت کی ہے ہی نہیں تو پھر اس کو وسیع تناظر میں دیکھنے کی ضرورت اس لیے بھی نہیں کہ یہ مخصوص لوگوں کو اپنے زمرے میں لیتی ہے۔

جس کے لیے خود سپریم کورٹ آف امریکا بھی کہتی ہے کہ جب ملک حالت جنگ میں ہو تو پھر مخصوص مدت کے لیے گنجائش نکالنی پڑتی ہے۔ابھی تفصیلی فیصلہ ہمارے پاس آیا نہیں، اس لیے اس کے بہت سے پہلوؤں پر بحث ابھی ہوگی۔ لیکن بنیادی نقطہ تھا نظریہ ضرورت اور بنیادی ڈھانچہ آئین کا۔ ظفر علی شاہ کیس میں واضح انداز میں کورٹ نے نظریہ ضرورت کو ایک طرف مانا کہ جنرل مشرف کے شب خون کو Context ہے مگر اب جب آپ آگئے ہیں تو پھر آئین میں تین سال تک الٹ پھیر بھی کرسکتے ہیں۔

وہ یہ (ترمیم) اس حد تک بھی نہیں کرسکتے کہ ایسے پھیر پھار آئین کے روح کو بھی مسخ کردے یا دوسرے الفاظ میں یہ کہ وہ ہیر پھیر یا ترمیم اتنی گہری بھی نہ ہو کہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کو زبوں حال کردے، اس میں دراڑیں ڈال دے۔ ظفر علی شاہ کیس رہا ایک طرف جب اچکزئی کیس وغیرہ کسی سے زیادہ بڑھ کر آئین کا جب بنیادی ڈھانچہ وضع کر رہا تھا تو دوسری طرف نظریہ ضرورت سے بھی کام لے رہا تھا یعنی جنرل مشرف کے شب خون کو ایڈہاک اقدام تھا جو بالآخر پارلیمنٹ نے سترہویں ترمیم کرکے آئین کا حصہ بنایا (جس کو آگے جا کے اٹھارہویں ترمیم نے آئین سے خارج کیا) چار اگست پاکستان کی تاریخ میں چودہ اگست تو نہیں مگر اس ملک کے چار یا پانچ بڑے تاریخی دنوں میں شمار ہوتا ہے۔

جس دن بالآخر یہ فیصلہ ہوا کہ ہمارے آئین کا ایک بنیادی ڈھانچہ ہے۔ لیکن نظریہ ضرورت کچھ اس طرح سے استعمال ہوتا ہے کہ محترم ججوں نے یہ کہا کہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہے مگر 21 ویں ترمیم آئین کے اس بنیادی ڈھانچے سے ٹکراؤ میں نہیں۔ اور اس طرح چیف جسٹس ناصر الملک جیسے جج صاحبان جو یہ مانتے ہی نہیں کہ ہمارے آئین کا بنیادی ڈھانچہ جب ہے ہی نہیں تو پارلیمنٹ جس حد تک چاہے ترمیم کرسکتی ہے ۔

ایسی صورت میں سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں ترامیم پر نظر ثانی (Judicial Review) کرنے کا اختیار بھی نہیں، تو دوسری طرف شیخ عظمت سعید جیسے جج صاحبان کے ریمارکس بھی اس اکثریتی فیصلے میں کچھ اس طرح آتے ہیں جب وہ کہتے ہیں کہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ تو ہے مگر 21 ترمیم چونکہ محدود مدت کے لیے ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس لیے جسٹس ناصر الملک کی سوچ والے جج صاحبان اور جسٹس شیخ عظمت سعید جیسی سوچ رکھنے والے جج صاحبان اپنے فکری دائرے میں ایک سوچ رکھتے ہیں اور اس طرح 21 ویں ترمیم کو کالعدم نہیں قرار دیا جاسکتا جس کی وجہ سے میاں صاحب کی ساکھ برباد نہیں ہوئی ۔

مگر اکثریتی ججوں نے جس میں جسٹس جواد خواجہ کی سوچ والے تین جج اور باقی اور تین اختلافی جج اور پھر جسٹس شیخ عظمت سعید کی سوچ رکھنے والے جج پھر ایک Identical Set یا یوں کہیے کہ یک رائے ہوجاتے ہیں کہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہے، یا یوں کہیے کہ پارلیمنٹ soveriegnنہیں، یا یوں کہیے کہ آئین سپریم ہے یا یوں کہیے کہ پارلیمنٹ کو اتنا اختیار نہیں کہ وہ آرٹیکل 238 اور 239 کے تحت صرف اس حد تک ترمیم کرسکتی ہے کہ سپریم کورٹ کے Judicial Review کا دائرہ اختیار اتنا وسیع ہے کہ وہ پارلیمنٹ کی۔


کی ہوئی ترمیم کا Judicial Review بھی کرسکتی ہے اور اگر یہ پایا گیا کہ آئین کی ایسی ترمیم آئین کے بنیادی ڈھانچے سے اگر تصادم میں ہے تو اسے کالعدم بھی قرار دے سکتی ہے اور اس بات کو سرجان مارشل کی زبان میں کچھ اس طرح کہا جاسکتا ہے"any amendment which is.... repugnant to the constitution is vio ab immito لیکن ہاں بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ اور ہندوستان کی سپریم کورٹ کے برعکس ہم نے ابھی تک کوئی بھی آئین میں کی ہوئی اس ترمیم کو اول تو کبھی بنیادی ڈھانچے سے ٹکراؤ میں دیکھا ہی نہیں ( جیسا کہ ضیا الحق کی آٹھویں ترمیم کے ذریعے جو آئین کا چہرہ مسخ ہے۔

اس پر چپ ہیں) اور اگر دیکھا بھی تو اسے پارلیمنٹ کے پاس درستگی کے لیے واپس بھیج دیا (جیساکہ اٹھارویں ترمیم میں ججوں کی تقرری پر سپریم کورٹ کے اٹھائے ہوئے اعتراض سے 19 ویں ترمیم سامنے آئی کل) مگر حال ہی میں یعنی 2010 میں بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ میں بالآخر جرأت پیدا ہوئی اور انھوں نے جنرل ضیا الرحمن آمر کی کی ہوئی ساری ترامیم کو آئین کے بنیادی ڈھانچے کو وضع کرتے ہوئے اکھاڑ کے آئین سے باہر پھینک دیا۔

بنگلہ دیش کی کورٹ ہماری کورٹ کی طرح یا ہندوستان کی کورٹ کی طرح Doctrine of Implied Limitation سے سہارا نہیں لینا پڑا اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی آئین ساز اسمبلی نے یہ محدودیت expressly ڈالی ہوئی تھی۔ فرق صرف یہ تھا کہ جب بنگلہ دیش کی کورٹ کو یہ محسوس ہوا کہ اب اس ملک میں آمریت آنے کے راستے بند ہوئے تو بے خوف و خطر یہ کام بھی کرلیا۔ لیکن ہندوستان کی سپریم کورٹ کے پاس ایسی صورتحال نہ تھی۔

اول تو آئین کے اعتبار سے تین ستون یعنی عدلیہ، مقننہ اور حکومت یا کابینہ یعنی Parliament, Judiciary, Executive موجود تھے ہمارے یا بنگلہ دیش کی طرح Executive برانچ فوج اور سول Executive کے درمیان مخاصمانہ تضاد نہ تھے مگر ہم ان تین ملکوں میں اب بھی اسی اعتبار سے پسماندہ ہیں کہ یہاں Executive برانچ میں یعنی سول اور ملٹری قیادت میں مخاصمانہ تضاد موجود ہیں۔ ہماری عدالت ماضی میں سول قیادت کے ساتھ اس تضاد میں نہیں کھڑی ہوئی جوکہ اپنی روح میں de jure تھی۔ اس کے برعکس وہ de facto یعنی فوجی پاور کے ساتھ کھڑی رہی۔

لیکن آج اس طرح نہیں ہے۔ جس کی مثال 2013 کے الیکشن پر جوڈیشل انکوائری کی بھی دی جاسکتی ہے جس میں ایک طرف تو انھوں نے پنجاب کے اندر ECP کی نااہلی کو واضح بھی کیا تو سسٹم کو پٹڑی سے اترنے بھی نہ دیا۔ بالکل اسی طرح ہماری کورٹ 21 ویں ترمیم کو اگر کالعدم قرار دے دیتی تو اس سے خود شب خون براہ راست کھلتے تھے جب کہ آج کل ملک میں اور خصوصاً نرم شب خون یا بالواسطہ شب خون کے شواہدات ملتے ہیں۔

کورٹ سول قیادت کی نااہلی سے بہ خوبی واقف ہے اس لیے de facto اور de jure میں بڑھتے ہوئے فاصلے پر مخصوص مدت تک خاموش رہنا چاہتی ہے۔ اور اس لیے وہ PPA پر یا 21 ویں ترمیم پر ہاتھ ملتا رہنا چاہتی ہے یہ اپنے آپ کو باور کراتے ہوئے کہ یہ محدود مدت کے لیے ہے اس ساری حقیقت کی تشریح مورخ کچھ اس طرح بھی کرسکتا ہے کہ یہ سب نظریہ ضرورت تھا۔

(جاری ہے)
Load Next Story