ایسے پاگل جنھیں…

وہ اچھے لوگوں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور مفاد پرست ٹولے کو اپنا عکس مانتے ہیں۔


انیس منصوری August 09, 2015
[email protected]

بڑے بڑے حکمرانوں کو طاقت کے نشے نے ایسا ہاتھی بنادیا کہ انھیں معلوم ہی نہیں ہوا وہ پاگل ہوچکے ہیں۔ ایسے پاگل جنھیں اپنے علاوہ کسی میں وفا نظر نہیں آتی۔ انھیں ہر جگہ سازش کی بو آتی ہے۔

وہ اچھے لوگوں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور مفاد پرست ٹولے کو اپنا عکس مانتے ہیں۔ جو لوگ ہر بات میں جی حضوری کرتے ہیں وہ شان و شوکت کی زندگی گزارتے ہیں۔ جب کہ سچے لوگ جیلوں میں بند کردیے جاتے ہیں۔ ایسے میں انھیں کیسے علم ہوگا کہ ان کی پیٹھ میں چھری گھونپ دی گئی ہے۔ جب تک وہ اس سازش کو سمجھنے لگتے ہیں تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ کام ختم ہونے سے پہلے جس سازش کا راز فاش ہوجائے وہ کبھی بھی کامیاب نہیں رہتی۔ لیکن اس کا مطلب ہرگز ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ سازشوں کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے۔

ایران کے آخری بادشاہ محمد رضا شاہ پہلوی کو کون نہیں جانتا۔ ان کی تخت نشینی سے لے کر جلاوطنی تک کی داستان سیاست کے تمام طالبعلموں کے لیے سبق ہے۔ کیسے وراثت میں تخت ملتا ہے۔ کس طرح سے اندرونی سازشیں اس تخت کو چھین لیتی ہیں۔ کون باہر سے آکر مسیحا بننے کا احسان کرتا ہے۔ کیوں ایک بار پھر اس کو بادشاہ بنادیا جاتا ہے۔

جس کو وہ خطرہ سمجھ رہا ہوتا ہے وہ تو صرف دکھانے کے دانت ہوتے ہیں۔ اس میں اب کوئی شک نہیں کرسکتا کہ ایران کے اندر مذہبی رہنماؤں نے انقلاب کے ذریعے اقتدار حاصل کیا۔ لیکن بادشاہ کو کبھی بھی ان سے خطرہ نہیں تھا۔ یہ تو آخری کے چند برس تھے جب وہ کھل کر سامنے آئے۔

بادشاہ کا ماننا یہ تھا کہ مذہبی رہنما تو ہر وقت ان کے ساتھ ہیں۔ یہ بات 1945 کی ہے جب رضا شاہ کے والد نے ایران کو جمہوری نظام دینے کا فیصلہ کیا تو اس وقت کے ہزاروں مذہبی رہنماؤں نے یہ کہا تھا کہ دین کی حفاظت بادشاہ کا کام ہے، جمہوریہ یا عوام کا نہیں اور انقلاب سے محض ایک سال قبل جب مشہد کی سالانہ تقریب میں وہ گئے تو انھیں ہزاروں علما نے متفقہ طور پر اپنی حمایت کا یقین دلایا تھا۔

جب انھیں اس طرف سے خطرہ نہیں تھا تو پھر انھیں کیا ڈر تھا؟ شاہ کو ہر وقت اس بات کا خوف رہتا تھا کہ امریکا کا دوست ہونے کی وجہ سے روس ان کے خلاف سازش کررہا ہے اور یہاں کے کمیونسٹ بہت زیادہ مضبوط ہیں اور اس شک کی کئی وجوہات بھی تھیں۔ رضا شاہ پر کئی قاتلانہ حملے ہوئے تھے اور وہ اس میں بچ گئے تھے۔

یہ 10 اپریل 1964 کی بات ہے۔ وہ اپنے کمرے میں بیٹھے کتاب پڑھ رہے تھے کہ انھیں فائرنگ کی آواز آئی۔ ابھی وہ یہ سمجھنے کی کوشش ہی کررہے تھے کہ فائرنگ کہاں ہوئی، ایک شخص ان کے کمرے میں داخل ہوا اور فائرنگ شروع کردی۔ گولی ان کے بازو کو چھوتی ہوئی گزر گئی۔ سیکیورٹی اہلکار پہنچ گئے، فائرنگ کے تبادلے میں دو اہلکار ہلاک ہوئے اور حملہ آور بھی مارا گیا۔ حملہ کرنے والے کا نام شام آبادی تھا۔ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ خودکش حملہ آور کے طور پر آنیوالے شخص کا تعلق کمیونسٹ جماعت سے ہے۔ اس لیے بادشاہ کا پختہ یقین تھا کہ ان کے خلاف سازشوں میں روس کا ہاتھ ہے۔

کیونکہ انھیں ان کے قریبی دوست امریکا نے یہ ہی سکھایا تھا۔ایسا بھی نہیں تھا کہ ایران میں مذہبی جماعتوں کی جانب سے سیاسی تحریک موجود نہیں تھی۔ تمام مذہبی اور سیاسی جماعتیں تھیں لیکن شاہ کو اصل خطرہ کمیونسٹوں سے ہی تھا اور ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ کمیونسٹ اور مذہبی جماعتیں ایک ہوجائیں گی۔ شاہ کے پورے دور حکومت میں ایران کے اندر مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہے۔

7 مارچ 1951 کو اس وقت کے وزیراعظم جنرل رزم کو مسجد کے اندر قتل کردیا گیا تھا۔ ایک اور وزیر اعظم علی منصور کو 1965 میں ایک مدرسہ کے طالبعلم محمد بخاری نے قتل کردیا تھا۔ اس کے علاوہ 1972 میں تین امریکی اہلکاروں کو تہران کے بازار میں قتل کردیا گیا تھا۔ کہنے کی بات یہ ہے کہ کارروائیوں کا سلسلسہ بھی جاری تھا۔ یہ تو وہ محرکات تھے کہ جو ایران میں موجود تھے لیکن امریکا اور اس کے اتحادی شاہ کے مکمل ساتھ تھے۔

پھر اچانک سب بدلنے لگا۔ اس بدلاؤ کا پہلا مرحلہ یہ تھا کہ ایران کے اندر ہونے والی چھوٹی چھوٹی کارروائیوں کو باہر کا میڈیا بہت زیادہ مصالحے کے ساتھ لگانے لگا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑا کرکے پیش کیا جانے لگا۔ وہ میڈیا جو ہر وقت کمیونزم کے سامنے شاہ کو ایک بڑی دیوار کے طور پر پیش کررہا تھا، شاہ کے مظالم کی کہانیاں بتانے لگا۔ یہ بات غور طلب ہے کہ ابھی ایران کے اندر ایسا کچھ نہیں ہورہا تھا جو چند عشروں سے الگ ہو۔ لیکن عالمی میڈیا نے اسے حد سے زیادہ کوریج دینا شروع کر دی۔ شاہ نے خود ایک بار کہا کہ سمجھ نہیں آتا کہ برطانوی نشریاتی ادارے کا بٹن کس نے دبا دیا ہے۔

یہ پہلا مرحلہ تھا، جب شاہ کو عالمی سطح پر ہیرو سے زیرو کرنے کی کوشش شروع ہوئی۔ عین اسی وقت 1976 میں جب یہ میڈیا مہم چل رہی تھی، عالمی اداروںنے ایرانی حکومت سے رابطہ کیا کہ وہ ایران میں آکر ساری صورتحال کا جائزہ لینا چاہتے ہیں۔ شاہ نے سب کو اجازت دے دی۔

اور پھر ایک دم خاموشی ہوگئی۔ دہشت گردی کے واقعات ایک دم رک گئے، یوں لگنے لگا جیسے کسی نے ایک اشارے پر سمندر کو رکنے کا کہہ دیا ہو اور پھر سمندر کا ایک قطرہ بھی اپنی جگہ سے نہ ہلا ہو۔ یقیناً یہ سمندر کی خاموشی ایک بڑے طوفان کا پیش خیمہ تھی۔ شاہ کی جی حضوری کرنیوالے اسے فتح قرار دے رہے تھے۔ مگر سازش کرنیوالے یہ بات سمجھ چکے تھے کہ اب دو چار دہشتگردی کی کارروائیوں سے بہتر ہے کہ سیاسی محاذ کھڑا کیا جائے کیونکہ پہلے مرحلے میں عالمی میڈیا اپنا کام کرچکا تھا اور دوسرے مرحلے میں انسانی حقوق کے سارے علمبردار پہنچ چکے تھے۔

اور پھر خاموشی ٹوٹ گئی۔ ایک دم سے سیاسی محاذ کھل گیا۔ اور پارلیمانی جمہوریت کا نعرہ بلند ہونے لگا۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اس بار کی اس سیاسی محاذ آرائی میں مذہبی رہنماؤں اور کمیونسٹوں کے بجائے بڑے بڑے سرمایہ دار داخل ہوگئے۔ شاہ کو اب شک ہوچکا تھا کہ اس کے خلاف محاذ مغرب سے بنا ہے کیونکہ ان سب لوگوں کے وہاں بہت گہرے تعلقات تھے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں تھا کہ یہ تمام وہ لوگ تھے جنھوں نے شاہ سے ذاتی فائدے حاصل کیے تھے۔ مگر اب پانی گزر چکا تھا۔ جیسے ہی سیاسی محاذ تیز ہوا ویسے ہی خونی تصادم کا بھی آغاز ہوگیا۔ روز کی بنیادوں پر مظاہرے اور پھر ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ ایک دوسرے کے سخت دشمن دائیں اور بائیں بازو مل چکے تھے۔

عوامی رائے عامہ مکمل طور پر شاہ کے خلاف ہوچکی تھی۔ شاہ کے لیے یہ ہی دھچکا بہت تھا کہ جب اس سے امریکا میں ایک صحافی نے پوچھا تھا کہ امریکا کا مسئلہ تو تیل ہے اور سنا یہ گیا ہے کہ آپ کی حکومت جانے کے بعد روس کے ساتھ یہ طے ہوگیا ہے کہ امریکا کا تیل جاری رہے گا، جس پر بڑے مایوسی کے انداز میں شاہ نے کہا تھا کہ اگر دوست کا تختہ پلٹ دیا جائے تو کیا امریکا برداشت کرلے گا؟ مگر میرا سوال بس اتنا تھا کہ کیا اس وقت تک امریکا شاہ کا دوست رہا تھا؟ یا نہیں۔

بات بس اتنی سی کہنی ہے کہ ہمارے خطے میں کچھ بدلنے سے پہلے عالمی میڈیا میں بہت کچھ بدلنے لگتا ہے۔ ایسی مثالیں میں آپ کو پاکستان کے ہر دورِ حکومت کی دے سکتا ہوں۔ لیکن کہنا اتنا ہے کہ کوئی خاموشی کو اپنی جیت نا سمجھے۔ شاہ بھی یہ ہی سمجھا تھا اور اس کے حواری بھی اسے یہ ہی بتاتے تھے کہ آپ جیت چکے ہیں۔ مگر منصوبہ تو اب شروع ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔