2018 کا سیلاب اور انتخابات
انتہائی ادب و احترام کے ساتھ کہ خالد انور ہمارے نامی گرامی آئینی ماہر ہیں
یہ 2018 ہے انتخابات کا سال۔ ملک بھر میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہونے والے ہیں۔ مگر صوبہ خیبرپختونخوا سے جنوبی پنجاب تک شدید ترین بارشوں اور سیلابی پانی نے تباہیاں مچا دی ہیں۔ چترال شہر مکمل تباہ ہوگیا ہے،کچے اورکمزور مکانات کو سیلاب بہا کر لے گیا ہے۔ دریا کے تیز بہاؤ نے کئی پلوں کو بھی توڑ پھوڑ ڈالا۔ بنوں، میانوالی، پشاور اور دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں سیلابی پانی کھڑا ہے۔ لوگ بے یارومددگار۔ صوبائی حکومت کی راہ دیکھ رہے ہیں، مگر حکومت گزشتہ پانچ سالوں کی طرح سیاسی لڑائی جھگڑوں میں مصروف ہے۔
راولپنڈی میں بھی ہر سال کی طرح مشہور زمانہ نالالئی بھی اپنے کناروں سے نکل کر گھروں میں گھس گیا ہے، پورا پنجاب پانی میں ڈوبا ہوا ہے اور ہمارے خادم اعلیٰ شہباز شریف حسب روایت ربڑ کے لمبے سیاہ بوٹ پہن کر قریہ قریہ، گاؤں گاؤں، لٹے پٹے سیلاب زدگان کی مدد کے لیے پہنچ رہے ہیں۔ پاکستان کے تمام خشک دریاؤں میں لبالب پانی بھرا ہوا ہے۔ تمام سال پانی کو ترستے دریا واقعی دریا نظر آنے لگے ہیں۔ لاہور بھر کا فضلہ سمیٹنے والا نورجہاں کا مقبرہ اور بارہ دری شدید گندگی اور تعفن کا گڑھ ہے۔ سیلابی پانی دریائے راوی کے سارے گند کو اپنے ساتھ بہاکر لے گیا ہے۔ شہر لاہور کے لوگ راوی کے کنارے خوبصورت دریا کا نظارہ کرنے آرہے ہیں کیونکہ یہ نظارہ چند ہی دنوں کا مہمان ہے بعد میں پھر وہی فیکٹریوں کا زہریلا فضلہ ہوگا۔ راوی، گندا نالہ راوی ہوگا۔ راوی کی کھگا مچھلی خواب وخیال ہوچکی ہے۔
ابھی ہم اپنے ہی سیلاب سے تباہ ہو رہے تھے، ہمارے مال مویشی مر رہے تھے کہ ہر سال کی طرح ہمارے پڑوسی ہندوستان نے لاکھوں کیوسک پانی ہماری طرف چھوڑ دیا ہے۔ سیلابی پانی کا تازہ دم حملہ شروع ہوگیا ہے۔ وسطی پنجاب کے گاؤں کے گاؤں اور کھڑی فصلوں کو برباد کرکے اب پانی جنوبی پنجاب پہنچ گیا ہے۔ ملتان، مظفر گڑھ کے اردگرد، چھوٹے بڑے قصبے ہر سال کی طرح پھر سے پانی کی نذر ہوگئے ہیں۔ نحیف و نزار، مرجھائے چہروں والے غریب غربا، فوج کی مدد سے کشتیوں کے ذریعے محفوظ مقامات پر پہنچا دیے گئے ہیں جہاں گزشتہ کئی سالوں کی طرح خیمے لگ گئے ہیں اور ان خیموں میں بھوکے پیاسے، بوڑھے اور شیرخوار بچے خوراک کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ پتا چلا ہے کہ ابھی کچھ ہی دیر بعد وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کھانا، پانی اور دودھ لے کر آنے والے ہیں۔ بڑی بڑی گاڑیاں آنا شروع ہوگئی ہیں۔ عمدہ شامیانے لگ چکے ہیں، قالین بچھ چکے ہیں، صاف ستھرے صوفے اور کرسیاں سجا دی گئی ہیں اور وزیر اعظم صاحب بھی آگئے ہیں۔
ہر سال کی طرح تباہی و بربادی کا وہی منظر ہے۔ وزیر اعظم لٹے پٹے غریب عوام کو دیکھ کر ہمیشہ کی طرح افسردہ نظر آرہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں ''ہم کوشش کریں گے کہ ان سیلابوں کو ہمیشہ کے لیے تباہی پھیلانے سے روکا جائے، مگر جب تک مزید کچھ سال ایسا نہیں ہوتا، ہم آپ کے تباہ شدہ مکانات دوبارہ بنا کے دیتے رہیں گے۔آپ کے نقصانات کا ازالہ کریں گے۔ میرا دل آپ کی حالت زار پر رو رہا ہے۔ مگر آپ گھبرائیں نہیں میں اپنی جان دے دوں گا، میں آپ کے ساتھ ہوں۔ میرے بہادر عوام! انتخابات سر پر ہیں، ہم نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں بہت سے کام کیے ہیں مگر ہم مکمل یکسوئی کے ساتھ ملک و قوم کی خدمت نہیں کرسکے، کیونکہ ہم ضرب عضب میں مصروف رہے۔ الحمد للہ ہم نے طالبان کا خاتمہ کردیا ہے اور دوسرا کراچی میں دہشت گردی، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ کا خاتمہ بھی ہوگیا ہے۔
کراچی پاکستان کا دل ہے۔ ہم نے اس کی سرجری کرکے بند شریانیں کھول دی ہیں۔ اب کراچی پرانا والا روشنیوں کا شہر بن چکا ہے۔ اب آیندہ ہمارے منصوبے ہیں کہ ہم رہی سہی لوڈ شیڈنگ بھی ختم کردیں گے۔ اور یہ جو سیلابی پانی ہے یہ بڑا قیمتی پانی ہے۔ اس پانی سے ہم اپنی معیشت کو اتنا مضبوط کرسکتے ہیں کہ ہم دنیا کو قرضہ دینے والا ملک بن سکتے ہیں۔ مگر کیا کروں پشاور والے اور سندھ والے ڈیم نہیں بنانے دیتے۔ بہرحال میں آپ لوگوں سے درخواست کروں گا کہ 2023 تک کے لیے ہمیں ووٹ دے کر کامیاب کریں تاکہ ہم آپ کی مزید ''خدمت'' کرسکیں۔ اللہ حافظ! اب میں سندھ کے سیلاب زدگان سے ملنے جا رہا ہوں۔ آپ لوگوں کے لیے وافر مقدار میں کھانے پینے کی اشیا موجود ہیں، آپ کھانا کھائیں، بچوں کو دودھ پلائیں اور ہمیں ووٹ دینا مت بھولیے گا۔''
کارندوں نے وزیر اعظم کے جاتے ہی ٹینٹ، صوفے، قالین کرسیاں سمیٹنا شروع کردی ہیں اور بھوکے پیاسے لوگ کھانے کے ٹرکوں پر ٹوٹ پڑے ہیں۔
سال 2018 کا سیلاب سندھ میں بھی داخل ہوچکا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ اپنے کانوائے کی لش پش گاڑیوں کے ساتھ سیلاب زدگان کے خبرگیری دورے کر رہے ہیں۔ سندھ میں بھی ہر سال کی طرح غریبوں کے کچے گھر اور جھونپڑے بہہ گئے ہیں۔ بلاول بھی لانگ شوز پہن کر اپنے والد آصف زرداری کے ساتھ سیلابی پانی میں اتر گیا ہے۔ اخبار والے کھٹا کھٹ تصویریں بنا رہے ہیں۔ ٹی وی والے فلمیں بنا رہے ہیں۔اور ہر سال کی طرح یہ تصویریں اخبارات میں شایع ہوں گی۔ اور ٹی وی چینل پر فلمیں چلیں گی۔ خیمے لگیں گے۔ شامیانے سجیں گے، صوفے اور قالین بچھیں گے، وزیر اعلیٰ قبلہ شاہ صاحب آئیں گے۔ خطاب کریں گے۔ بھوکے ننگے عوام کھانے کے ٹرکوں پر ٹوٹ پڑیں گے اور کارندے خیمے تمبو قناطیں صوفے قالین سمیٹ کر اگلے شو کے لیے روانہ ہوجائیں گے۔
2018 انتخابات کا بھی سال ہے۔ جئے بھٹو کے نعرے گونج رہے ہیں۔ گاؤں گاؤں وڈیروں کی تصویروں کے ساتھ مرحوم بھٹو، نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو کے ساتھ بلاول، آصف زرداری ودیگر کے بینر آویزاں ہیں۔ اور وہی سب کچھ ہو رہا ہے، وہی سیلاب کی تباہ کاریاں ہیں اور وہی 2018 کے انتخابات کے دنگل ہیں۔ سندھ میں 2023 تک حکومت کرنے کا حق حاصل کرنے کے لیے روایتی حکمران ووٹ مانگ رہے ہیں۔ ''یہ جہاں یوں ہی رہے گا۔''
سندھ کی دوسری بڑی جماعت متحدہ قومی موومنٹ بھی سیلاب زدگان کے لیے امدادی کیمپ لگائے ہوئے ہے، اور انتخابی مہم بھی جاری ہے۔ خیبرپختونخوا، پنجاب، سندھ ، بلوچستان کے ''بڑے'' ملوں کے مالک ہیں۔ آج 2018 کا سیلاب آیا ہوا ہے اور اتنے سال گزرنے کے بعد بھی سیلاب کی تباہ کاریاں جوں کی توں موجود ہیں۔ حبیب جالب کے انتقال کو 25 سال ہوچکے جب وہ زندہ تھے اور آخری ایام سے گزرتے ہوئے شیخ زید اسپتال /سروسز اسپتال لاہور میں پڑے ہوئے تھے۔ میں اسپتال میں موجود تھا۔ معروف ادیب احمد بشیر عیادت کو آئے اور رندی ہوئی آواز میں بولے ''اوئے جالب! تم یہاں پڑے ہو، پورا پنجاب بہہ گیا۔'' مجھے یاد ہے اس وقت کے حکمران نے روایتی فقرہ بولا تھا ''میں سیلاب زدگان کے لیے دل و جان قربان کردوں گا۔'' اور جالب نے بستر مرگ سے آواز لگائی تھی ''نہ دل دے دو، نہ جان دے دو، بس اپنی ایک مل دے دو۔'' آج 25 سال گزرنے کے بعد بھی دل و جان دینے والے حکمران پہلے سے زیادہ مستحکم ہوکر موجود ہیں اور سیلاب میں لاکھوں غریب مزید برباد ہوگئے۔ بہت سے مر کھپ گئے، بہت سے موت کے انتظار میں زندہ ہیں۔ 2018 کے انتخابات بائیومیٹرک مشینوں کے استعمال کے ساتھ ہونے جا رہے ہیں تاکہ الیکشن شفاف ہوں، مگر ''دھاندلے'' کرنے والے بھی ''نئی مشینوں'' کے ساتھ انتخابی دنگل میں اترنے کو بالکل تیار ہیں۔
(نوٹ: یہ کالم 2018 کے تناظر میں لکھا گیا ہے۔)
راولپنڈی میں بھی ہر سال کی طرح مشہور زمانہ نالالئی بھی اپنے کناروں سے نکل کر گھروں میں گھس گیا ہے، پورا پنجاب پانی میں ڈوبا ہوا ہے اور ہمارے خادم اعلیٰ شہباز شریف حسب روایت ربڑ کے لمبے سیاہ بوٹ پہن کر قریہ قریہ، گاؤں گاؤں، لٹے پٹے سیلاب زدگان کی مدد کے لیے پہنچ رہے ہیں۔ پاکستان کے تمام خشک دریاؤں میں لبالب پانی بھرا ہوا ہے۔ تمام سال پانی کو ترستے دریا واقعی دریا نظر آنے لگے ہیں۔ لاہور بھر کا فضلہ سمیٹنے والا نورجہاں کا مقبرہ اور بارہ دری شدید گندگی اور تعفن کا گڑھ ہے۔ سیلابی پانی دریائے راوی کے سارے گند کو اپنے ساتھ بہاکر لے گیا ہے۔ شہر لاہور کے لوگ راوی کے کنارے خوبصورت دریا کا نظارہ کرنے آرہے ہیں کیونکہ یہ نظارہ چند ہی دنوں کا مہمان ہے بعد میں پھر وہی فیکٹریوں کا زہریلا فضلہ ہوگا۔ راوی، گندا نالہ راوی ہوگا۔ راوی کی کھگا مچھلی خواب وخیال ہوچکی ہے۔
ابھی ہم اپنے ہی سیلاب سے تباہ ہو رہے تھے، ہمارے مال مویشی مر رہے تھے کہ ہر سال کی طرح ہمارے پڑوسی ہندوستان نے لاکھوں کیوسک پانی ہماری طرف چھوڑ دیا ہے۔ سیلابی پانی کا تازہ دم حملہ شروع ہوگیا ہے۔ وسطی پنجاب کے گاؤں کے گاؤں اور کھڑی فصلوں کو برباد کرکے اب پانی جنوبی پنجاب پہنچ گیا ہے۔ ملتان، مظفر گڑھ کے اردگرد، چھوٹے بڑے قصبے ہر سال کی طرح پھر سے پانی کی نذر ہوگئے ہیں۔ نحیف و نزار، مرجھائے چہروں والے غریب غربا، فوج کی مدد سے کشتیوں کے ذریعے محفوظ مقامات پر پہنچا دیے گئے ہیں جہاں گزشتہ کئی سالوں کی طرح خیمے لگ گئے ہیں اور ان خیموں میں بھوکے پیاسے، بوڑھے اور شیرخوار بچے خوراک کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ پتا چلا ہے کہ ابھی کچھ ہی دیر بعد وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کھانا، پانی اور دودھ لے کر آنے والے ہیں۔ بڑی بڑی گاڑیاں آنا شروع ہوگئی ہیں۔ عمدہ شامیانے لگ چکے ہیں، قالین بچھ چکے ہیں، صاف ستھرے صوفے اور کرسیاں سجا دی گئی ہیں اور وزیر اعظم صاحب بھی آگئے ہیں۔
ہر سال کی طرح تباہی و بربادی کا وہی منظر ہے۔ وزیر اعظم لٹے پٹے غریب عوام کو دیکھ کر ہمیشہ کی طرح افسردہ نظر آرہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں ''ہم کوشش کریں گے کہ ان سیلابوں کو ہمیشہ کے لیے تباہی پھیلانے سے روکا جائے، مگر جب تک مزید کچھ سال ایسا نہیں ہوتا، ہم آپ کے تباہ شدہ مکانات دوبارہ بنا کے دیتے رہیں گے۔آپ کے نقصانات کا ازالہ کریں گے۔ میرا دل آپ کی حالت زار پر رو رہا ہے۔ مگر آپ گھبرائیں نہیں میں اپنی جان دے دوں گا، میں آپ کے ساتھ ہوں۔ میرے بہادر عوام! انتخابات سر پر ہیں، ہم نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں بہت سے کام کیے ہیں مگر ہم مکمل یکسوئی کے ساتھ ملک و قوم کی خدمت نہیں کرسکے، کیونکہ ہم ضرب عضب میں مصروف رہے۔ الحمد للہ ہم نے طالبان کا خاتمہ کردیا ہے اور دوسرا کراچی میں دہشت گردی، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ کا خاتمہ بھی ہوگیا ہے۔
کراچی پاکستان کا دل ہے۔ ہم نے اس کی سرجری کرکے بند شریانیں کھول دی ہیں۔ اب کراچی پرانا والا روشنیوں کا شہر بن چکا ہے۔ اب آیندہ ہمارے منصوبے ہیں کہ ہم رہی سہی لوڈ شیڈنگ بھی ختم کردیں گے۔ اور یہ جو سیلابی پانی ہے یہ بڑا قیمتی پانی ہے۔ اس پانی سے ہم اپنی معیشت کو اتنا مضبوط کرسکتے ہیں کہ ہم دنیا کو قرضہ دینے والا ملک بن سکتے ہیں۔ مگر کیا کروں پشاور والے اور سندھ والے ڈیم نہیں بنانے دیتے۔ بہرحال میں آپ لوگوں سے درخواست کروں گا کہ 2023 تک کے لیے ہمیں ووٹ دے کر کامیاب کریں تاکہ ہم آپ کی مزید ''خدمت'' کرسکیں۔ اللہ حافظ! اب میں سندھ کے سیلاب زدگان سے ملنے جا رہا ہوں۔ آپ لوگوں کے لیے وافر مقدار میں کھانے پینے کی اشیا موجود ہیں، آپ کھانا کھائیں، بچوں کو دودھ پلائیں اور ہمیں ووٹ دینا مت بھولیے گا۔''
کارندوں نے وزیر اعظم کے جاتے ہی ٹینٹ، صوفے، قالین کرسیاں سمیٹنا شروع کردی ہیں اور بھوکے پیاسے لوگ کھانے کے ٹرکوں پر ٹوٹ پڑے ہیں۔
سال 2018 کا سیلاب سندھ میں بھی داخل ہوچکا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ اپنے کانوائے کی لش پش گاڑیوں کے ساتھ سیلاب زدگان کے خبرگیری دورے کر رہے ہیں۔ سندھ میں بھی ہر سال کی طرح غریبوں کے کچے گھر اور جھونپڑے بہہ گئے ہیں۔ بلاول بھی لانگ شوز پہن کر اپنے والد آصف زرداری کے ساتھ سیلابی پانی میں اتر گیا ہے۔ اخبار والے کھٹا کھٹ تصویریں بنا رہے ہیں۔ ٹی وی والے فلمیں بنا رہے ہیں۔اور ہر سال کی طرح یہ تصویریں اخبارات میں شایع ہوں گی۔ اور ٹی وی چینل پر فلمیں چلیں گی۔ خیمے لگیں گے۔ شامیانے سجیں گے، صوفے اور قالین بچھیں گے، وزیر اعلیٰ قبلہ شاہ صاحب آئیں گے۔ خطاب کریں گے۔ بھوکے ننگے عوام کھانے کے ٹرکوں پر ٹوٹ پڑیں گے اور کارندے خیمے تمبو قناطیں صوفے قالین سمیٹ کر اگلے شو کے لیے روانہ ہوجائیں گے۔
2018 انتخابات کا بھی سال ہے۔ جئے بھٹو کے نعرے گونج رہے ہیں۔ گاؤں گاؤں وڈیروں کی تصویروں کے ساتھ مرحوم بھٹو، نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو کے ساتھ بلاول، آصف زرداری ودیگر کے بینر آویزاں ہیں۔ اور وہی سب کچھ ہو رہا ہے، وہی سیلاب کی تباہ کاریاں ہیں اور وہی 2018 کے انتخابات کے دنگل ہیں۔ سندھ میں 2023 تک حکومت کرنے کا حق حاصل کرنے کے لیے روایتی حکمران ووٹ مانگ رہے ہیں۔ ''یہ جہاں یوں ہی رہے گا۔''
سندھ کی دوسری بڑی جماعت متحدہ قومی موومنٹ بھی سیلاب زدگان کے لیے امدادی کیمپ لگائے ہوئے ہے، اور انتخابی مہم بھی جاری ہے۔ خیبرپختونخوا، پنجاب، سندھ ، بلوچستان کے ''بڑے'' ملوں کے مالک ہیں۔ آج 2018 کا سیلاب آیا ہوا ہے اور اتنے سال گزرنے کے بعد بھی سیلاب کی تباہ کاریاں جوں کی توں موجود ہیں۔ حبیب جالب کے انتقال کو 25 سال ہوچکے جب وہ زندہ تھے اور آخری ایام سے گزرتے ہوئے شیخ زید اسپتال /سروسز اسپتال لاہور میں پڑے ہوئے تھے۔ میں اسپتال میں موجود تھا۔ معروف ادیب احمد بشیر عیادت کو آئے اور رندی ہوئی آواز میں بولے ''اوئے جالب! تم یہاں پڑے ہو، پورا پنجاب بہہ گیا۔'' مجھے یاد ہے اس وقت کے حکمران نے روایتی فقرہ بولا تھا ''میں سیلاب زدگان کے لیے دل و جان قربان کردوں گا۔'' اور جالب نے بستر مرگ سے آواز لگائی تھی ''نہ دل دے دو، نہ جان دے دو، بس اپنی ایک مل دے دو۔'' آج 25 سال گزرنے کے بعد بھی دل و جان دینے والے حکمران پہلے سے زیادہ مستحکم ہوکر موجود ہیں اور سیلاب میں لاکھوں غریب مزید برباد ہوگئے۔ بہت سے مر کھپ گئے، بہت سے موت کے انتظار میں زندہ ہیں۔ 2018 کے انتخابات بائیومیٹرک مشینوں کے استعمال کے ساتھ ہونے جا رہے ہیں تاکہ الیکشن شفاف ہوں، مگر ''دھاندلے'' کرنے والے بھی ''نئی مشینوں'' کے ساتھ انتخابی دنگل میں اترنے کو بالکل تیار ہیں۔
(نوٹ: یہ کالم 2018 کے تناظر میں لکھا گیا ہے۔)