اکیسویں صدی ’’اردو میں عظیم ادب تخلیق ہوگا‘‘
زبان کےبارے میں سب سے پہلے اس بات کی تشویش ہوتی ہے کہ کمپیوٹر نے انگریزی کی طرف ہماری توجہ زیادہ کر دی ہے، جملی جالبی
August 10, 2015
غلط کو صحیح سے، نا درست کو درست سے، جھوٹ کو سچ سے الگ کرنے کا نام ہے، جمیل جالبی فوٹو: فائل
CHICAGO:
یہ انٹرویو فروری 2000 میں چھپا تھا۔ اکیسویں صدی کے حوالے سے علی حیدر ملک نے جمیل جالبی صاحب سے کچھ سوالات کیے تھے۔ صدی کو تو آخر ہونے میں ابھی پچاسی برس اور ہیں لیکن ان پندرہ برسوں میں جمیل صاحب کے اندیشہ و رجاء کی حقیقت کیا رہی، کیا ان کے کچھ آثار (مبہم ہی سہی) نظر آئے؟ جن کی طرف ایک دانش ور نے اشارہ کیا ہے۔۔۔۔۔۔؟۔
علی حیدر ملک: نئی صدی سائنس اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے تو یقیناً زیادہ ترقی یافتہ ہو گی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا علم و ادب کے لحاظ سے بھی یہ ترقی یافتہ ثابت ہوگی؟
جمیل جالبی: دوسری جنگ عظیم کے بعد سائنس کی ترقی کو پر لگ گئے اور پچاس سال کے عرصے میں سائنس اور ٹیکنالوجی نے کائنات کو مسخر کرنے کے ساتھ ساتھ نئی دریافتوں سے انسان کے لیے بھی بہت سی ایجادات اور دریافتیں کیں مثلاً ناقابل علاج امراض کی دوائیں۔ سست رفتاری پر قابو پانے کے لیے پروں پر اڑنے والے تیز رفتار جہاز۔ خلا کو پار کرنے والے راکٹ وغیرہ۔ ان کے زیراثر ہم دیکھتے ہیں کہ شاعری ترقی یافتہ اقوام کی سماجی زندگی میں اتنی اہم نہیں رہی جتنی پہلے تھی۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ شاعری انسان کا تزکیہ کرتی ہے۔ شاعری کی رفتار دھیمی ہے۔ انسان کی غیر فطری تیز رفتاری کو یہ اپنے آہنگ سے دھیما کر دیتی ہے۔ یہی شاعری کا اثر ہے جو وہ انسان کے ذہن اور اعصاب پر ڈالتی ہے اور اسی وجہ سے شاعری پہلے کی طرح مقبول نہیں رہی۔ آج کا انسان ٹی وی دیکھ کر اپنی بہت سی خواہشوں اور ذہنی ضرورتوں کو آسودہ کر لیتا ہے اور چوں کہ ٹی وی پر ہر طرح کی معلومات اور ہر طرح کے پروگرام پیش کیے جاتے ہیں جن سے ہر مزاج کا ناظر اپنے اپنے مزاج کے مطابق آسودگی حاصل کرتا ہے اس لیے ادب سے وہ اب اتنا قریب نہیں رہا جتنا پہلے تھا۔ پہلے تعلیم یافتہ انسان خواہ وہ پیشے کے لحاظ سے کچھ بھی ہو ادب کو ضرور پڑھتا اور اس میں دل چسپی لیتاتھا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے ادب کو عام تعلیم یافتہ انسان سے یقیناً دور کیا ہے۔ اکیسویں صدی میں یہی صورت برقرار رہے گی لیکن ادب کی تخلیق بند نہیں ہو گی جب تک انسان اپنی موجودہ صورت میں زندہ ہے۔ جب تک انسان کے اندر احساس و جذبہ موجود ہے۔ جب تک انسان میں نئے نئے تجربوں سے متاثر ہونے اور ان کے سمجھنے کا شعور موجود ہے، ادب تخلیق ہوتا رہے گا۔ یہ صورت اکیسویں صدی میں بھی برقرار رہے گی۔ اسی طرح اس بات کا امکان ہے کہ تیزی سے بدلتی ہوئی زندگی کے رنگا رنگ جلوے انسان کو نئے نئے تجربوں سے روشناس کرائیں جن پر عظیم ادب اپنی عمارت تعمیر کر سکے۔ اس کا امکان بہت قوی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی جو انسانی سماج اور انسانی مزاج کو بدل کر نئے رجحانات اور نئے میلانات کو جنم دے رہی ہے اس کا پورا اظہار بیسویں صدی میں نہیں ہوا۔ مجھے یقین ہے کہ اکیسویں صدی میں اس نئے سماج سے عظیم ادب تخلیق ہو سکے گا اور اس عظمت کی وجہ سے ادب پھر سے مقبولیت حاصل کرے گا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے زیراثر پیدا ہونے والے انسان کا اظہار اب تک ادب میں نہیں ہوا ہے اور یہ کام اکیسویں صدی میں ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
علی حیدر ملک: ادب کا مرحلہ تو بعد میں آتا ہے۔ اس وقت تو زبان ہی کے بارے میں تشویش لاحق ہونے لگی ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
جمیل جالبی: زبان کے بارے میں سب سے پہلے اس بات کی تشویش ہوتی ہے کہ کمپیوٹر نے انگریزی کی طرف ہماری توجہ زیادہ کر دی ہے، جو بچے یا بڑے کمپیوٹر استعمال کرتے ہیں ان کی زبان پر وہی الفاظ اور اصطلاحات چڑھی ہوتی ہیں جن سے کمپیوٹر کا قفل کھلتا ہے۔ پھر ساری جدید تحقیق مغربی دنیا میں ہو رہی ہے۔ ہمارے ہاں جو کچھ ہو رہا ہے وہ دنیا کی نظر میں قابل ذکر نہیں ہے۔ نئی نئی اصطلاحات نئے نئے علوم کے ساتھ وجود میں آ رہی ہیں اور طلبہ ان ہی اصطلاحات سے سیکھ اور پڑھ رہے ہیں۔ ڈش، ٹی وی اور جدید ایجادات سب کے ذریعہ انگریزی زبان تیزی سے پھیل کر اس کے الفاظ کو ہماری زبان میں شامل کر رہی ہے۔ اس طرح ہماری زبان میں ہزاروں کی تعداد میں انگریزی الفاظ اور اصطلاحات شامل ہو جائیں گی۔ یہ کام اردو زبان نے ہمیشہ کیا ہے کہ دوسری زبانوں کے الفاظ لے کر اپنے اندر سمیٹ لے لیکن ایک ذرا سا فرق یہ ہے کہ آج سے پچیس تیس سال پہلے تک ہم انگریزی کے لفظوں کو جب قبول کرتے تھے تو انہیں اپنے صوتی نظام میں ڈھال لیتے تھے۔ اس طرح وہ لفظ اردو زبان کا جزو بن جاتا تھا۔ اب ہم یہ کام نہیں کر رہے ہیں۔ نہ نئے الفاظ وضع کر رہے ہیں اور نہ انگریزی لفظوں کو اپنی زبان کے صوتی نظام میں ڈھال رہے ہیں۔ یہ بات میری نظر میں تشویش کا باعث ہے۔ ہم اس وقت انگریزی زبان سے دب رہے ہیں اور اپنی زبان کی صلاحیت کے سلسلے میں شدید احساس کم تری میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ اس طرح اقوام مغرب ہمیں اس دلدل میں دھکیل رہی ہیں جس میں گر کر انسان اور معاشرہ اپنی شناخت اپنی پہچان اپنی آن گم کر دیتا ہے۔ اہل دانش کو اس بات پر غور کرنا چاہیے۔ ہمیں یہ تو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ ہم سو سال میں بھی انگریزی کو اپنے معاشرے میں اس طرح نہ بول سکیں گے جس طرح ہم اپنی زبان بولتے ہیں۔ زندہ قومیں اپنی شناخت کو ہر صورت میں باقی رکھتی ہیں۔ اسے نہ گم کرتی ہیں اور نہ مٹاتی ہیں اور نہ مٹانے دیتی ہیں۔ زندہ زبانوں میں تبدیلی آتی رہی ہے۔ اردو زبان میں بھی مسلسل اور بڑی تبدیلیاں آ رہی ہیں مگر ہمیں خصوصاً اہل دانش کو ان تبدیلیوں کو سمجھ لینا چاہیے۔
علی حیدر ملک: آپ کے انداز کے مطابق نئی صدی میں اردو کی صورت حال کیا ہو گی؟ فکری اور فنی طور پر ادب میں کیا تبدیلیاں رونما ہوں گی اور کون سی صنف یا اصناف زیادہ ترقی کریں گی؟
جمیل جالبی: ان باتوں کاجواب دینا پیشن گوئی کے مترادف ہو گا لیکن اتنا میں ضرور کہوں گا کہ اکیسویں صدی میں اردو میں عظیم ناول لکھے جائیں گے اور جب میں ناول کی بات کرتا ہوں تو اس میں ناولٹ اور افسانے بھی شامل ہوتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ فکر کی نئی تشکیل کی ضرورت پڑے گی تاکہ ہم اپنی شناخت کو باقی رکھ سکیں۔ گہرے سماجی، تہذیبی اور سیاسی مسائل پر اچھی تصانیف وجود میں آئیں گی۔ ایسی کتابیں ہماری ضرورت ہوں گی۔ فکری اور فنی سطح پر اکیسویں صدی کا زمانہ ہمارے ملک میں ایک نئے سماج کا زمانہ ہو گا جو ہمیں ہمارے انداز نظر، انداز فکر ہماری معاشرت اور کلچر سب کو بدل دے گا۔ ادب اس عمل کا سب سے بڑا اظہار ہو گا۔
علی حیدر ملک: تحقیق و تنقید کا مستقبل کیا ہے؟
جمیل جالبی: تحقیق، غلط کو صحیح سے، نا درست کو درست سے، جھوٹ کو سچ سے الگ کرنے کا نام ہے۔ تحقیق ادب کے الجھے ہوئے مسائل کو حل کرنے کا بھی راستہ ہے اور ادب والوں کے سامنے ان سچائیوں کو ان حقائق کو بھی پیش کرنے کا نام ہے جو اب تک نظروں سے اوجھل تھے۔ اسی طرح تنقید کے دو حصے ہیں۔ ایک حصے میں ادب، اس کی تخلیقات اور ادیبوں، شاعروں کے کاموں کا تجزیہ و مطالعہ کیا جاتا ہے۔ جب تک ادب تخلیق ہوتا رہے گا یہ کام ہوتا رہے گا۔ اس میں کئی نئی یا پرانی صدی کی بات نہیں ہے۔ تنقید کا دوسرا حصہ یادوسرا کام یہ ہے کہ وہ اپنے معاشرے کے انسان کے لیے اپنے سماج اپنی تہذیب اور اپنے کلچر کے حوالے سے نئی فکر کو تلاش کرے تاکہ معاشرہ تبدیل ہو کر بدلتے زمانے کے ساتھ ساتھ ارتقا کرتا رہے۔ یہ بات واضح رہے کہ وہ اصول، معیار، پیمانے اور اقدار جن سے ادب کا مطالعہ کیا جاتا ہے، وہی اصول و اقدار سماجی تنقید کے بھی کام آتی ہیں۔ اس لیے نقاد ایک طرف اپنے ادب کا مطالعہ کرتا ہے اور ساتھ ہی دوسری طرف وہ حکمت و دانش، فکر و اقدار اور سماجی عوامل پر بھی غور کرتا ہے۔ اسی لیے نقاد دانشور ہوتا ہے۔ ساری دنیا کی زبانوں میں نقاد آج بھی یہی کردار ادا کر رہا ہے اور آنے والی صدی میں بھی وہ یہی کردار ادا کرے گا۔ اس لیے نقاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ نہ صرف اپنی زبان کے ادب سے پوری طرح واقف ہو۔ وہ نہ صرف اپنے نظام فکر سے باخبر ہو بل کہ اس سے بھی واقف ہو کہ دوسری زبانوں اور دوسرے معاشروں میں کیا ہو رہا ہے۔ وہ کون سی تبدیلیاں ہیں جو دوسرے معاشروں میں آ رہی ہیں اور وہ کون سے عوامل ہیں جن سے انسان بدل رہا ہے۔ نقاد کا انسانی معاشرے میں ایک بڑا کردار ہے۔ ہمارے نقاد کو بھی یہی راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ انہیں ادب کے علاوہ دوسرے علوم سے بھی دل چسپی لینی چاہیے۔
علی حیدر ملک: کیا تنقید حسب سابق آئندہ بھی سماجی علوم مثلاً عمرانیات، نفسیات اورفلسفہ وغیرہ سے ہی استفادہ کرتی رہے گی یا ان کی بنیادیں تبدیل ہو کر خاص سائنسی علوم مثلاً طبیعات وغیرہ پر استوار ہوں گی؟
جمیل جالبی: تنقید کا تعلق سماجی علوم خصوصاً عمرانیات، نفسیات، تاریخ اور فلسفہ سے تو ہمیشہ باقی رہے گا لیکن سائنس اور ٹیکنالوجی کے زیراثر جس طرح معاشرہ تبدیل ہو رہا ہے، انسان کے ذہن و فکر بدل رہے ہیں، نئے نئے علوم سامنے آ رہے ہیں ان سب کا اثر بھی انہیں قبول کرنا ہوگا۔ مابعد الطبیعیات کا مطالعہ تو ہماری تنقید کرتی رہی ہے لیکن طبیعیات نے براہ راست وہ اثر نہیں ڈالا ہے جو آنے والے دور میں بائیو ٹیکنالوجی ڈالے گی یا ڈی این اے کے زیراثر نیورو ٹیکنالوجی پیدا کرے گی۔ طبیعیات نے انسانی زندگی کو بے شمار ایجادات دی ہیں۔ ان کا اثر سماج اور فرد پر پڑا ہے جس کے اثرات ادب پر پڑے ہیں۔ جیسا میں نے عرض کیا کہ عمرانی علوم سے تعلق تو باقی رہے گا لیکن سائنس اور ٹیکنالوجی کے اثرات بھی اس میں شامل ہوں گے کیوں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے اثر سے جو نئے مسائل انسان کے سامنے آئیں گے ان پر غورو فکر کرنا یا ان کا تجزیہ کرنا یقیناً تنقید کا کام ہے اور ہو گا۔ میں نے ابھی کہا تھا کہ تنقید صرف ادب تک محدود نہیں ہے بل کہ پوری زندگی کے انسانی مسائل پر غور و فکر اس کا کام ہے۔ اسی لیے میں یہ کہتا رہا ہوں کہ تنقید کا کام تنقید حیات ہے۔ (بشکریہ: شبخون)