صوبہ پنجاب اور سندھ کے وزرائے اعلیٰ
شہباز شریف حکومتی مشینری کا وہ پرزہ ہے جو اس دم بھی کام پر جُتا رہتا ہے جب مشین بند ہوتی ہے۔
شہباز شریف حکومتی مشینری کا وہ پرزہ ہے جو اس دم بھی کام پر جُتا رہتا ہے جب مشین بند ہوتی ہے۔ بلکہ اگر سچ پوچھیں تو حکومتی مشین ایک عرصے سے بند ہی چلی آرہی ہے۔ کبھی کبھار وقفے وقفے سے چند دن کام ہوتا ہے اور پھر ایک طویل المیعاد وقفہ آ جاتا ہے۔ بڑا مستری عمرے پر چلا جاتا ہے اور ورکشاپ کے تمام ''چھوٹے'' یورپ اور امریکا جا کر فراغت کی تھکن اتارتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ملکی صورتحال اس قدر مخولیہ نہ ہوتی۔
ایسی پریشان کن کیفیت میں حضرت شہباز شریف صاحب ایک نابغہ روزگار ہستی کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ موصوف بہت تھوڑا کھاتے اور برائے نام سوتے ہیں اور اپنے سٹاف سے بھی اسی راہبانہ استقامت کی توقع رکھتے ہیں۔ پوری دنیا میں روایت ہے کہ حکمران کا سٹاف افسر بننے پر افسر کو اس کا ساتھی اور دوست تہنیت کے پیغام بھیجتے ہیں، یہاں تعزیت کرنے پہنچ جاتے ہیں کہ بھائی اللہ کو یہی منظور تھا!
پنجاب فوڈ اتھارٹی کی سینئر افسر عائشہ ممتاز میں بھی کچھ ایسے ہی خصائل پائے جاتے ہیں کہ موصوفہ نے بھی پچھلے چند ہفتوں سے بیچارے ہوٹل اور ریستوران مالکان کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ بھئی اگر یہ ''معززین'' ناقص اور مضر صحت کھانا فروخت کرتے ہیں تو اس پر آپ کیوں ہلکان ہوتی جا رہی ہیں۔ بیماری اور خواری تو عوام کا مقدر ہے، انھیں خوار ہونے دیں۔ مگر آپ نے تو فائیواسٹار ہوٹلوں کی بھی ایک نہیں سنی۔
اس سے پہلے اسلحہ کی نمائش اور فائرنگ وغیرہ پر پابندی کے نام پر بھی ''شریف شہریوں '' کو کافی تنگ کیا جاتا رہا ہے۔ اس حوالے سے تقریباً اڑھائی سو شرفا آج بھی جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ یہ بھی ایک ظالمانہ حرکت ہے جس سے پاکستان کا منفی تاثر دنیا میں ابھرتا ہے۔ اس سے بیرونی سرمایہ کاری خطرے میں پڑ سکتی ہے اور ویسے بھی ہمارے وزیراعظم نے اس قدر مشکلوں کے ساتھ چینی صدر و دیگر سرمایہ کاروں کو گھیرا ہے، ہیں جی؟
اب جعلی ادویہ کے حوالے سے پکڑ دھکڑ کا ایک نیا اور لامتناہی سلسلہ چل نکلا ہے۔ ہر روز چھاپے، ہر پل گرفتاریاں، اب دیکھ لیجیے گا درجنوں جعلی دواساز فیکٹریاں سیل ہو جائیں گی اور غریب مریض بیچارے سرکاری اسپتالوں میں ایڑیاں رگڑتے رہیںگے۔ آپ مانیں نہ مانیں، ان بد نصیبوں کو آرام بھی صرف جعلی دوائیوں سے ہی آتا ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے ان کے افلاس زدہ جسموں نے خالص دوا اور خالص غذا کا ذائقہ چکھا ہی نہیں۔ انھیں تو خالص ہوا اور صاف پانی کے تصور سے بھی بد ہضمی ہونے لگتی ہے۔ مگر شہباز شریف صاحب ہیں کہ مصر ہیں ہر چیز کو خالص کرنے پر۔
ادھر لاؤڈ اسپیکر ایکٹ کے نام پر بیچارے مولوی کی زبان بندی کر دی گئی ہے۔ اب وہ مسجد میں بیٹھ کر اپنے مسلک کا پرچار بھی نہیں کر سکتا ہے۔ اب تو اسپیکر آن کر کے وہ صرف اذان دے سکتا ہے اور یا پھر جمعہ کا خطبہ۔ ہمارے گاؤں کا مولوی جمعہ کی علی الصبح لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے بھیک وغیرہ مانگنے کا سلسلہ شروع کر دیا کرتا تھا، اب خاموش بیٹھا اپنی قسمت کو کوستا ہے۔ مخالف مسلک کو لتاڑنے کے لیے بیچارے کی زبان ترستی تو بہت ہے مگر علاقے کا تھانیدار بھی کافی ڈاڈھا ہے اس لیے صبح ہوتے ہی مولوی صاحب سارا غصہ اپنے گلے پر نکالتے ہیں۔ اسپیکر کا ایمپلی فائر آن کر کے مائک کے آگے وہ اس تزک و احتشام کے ساتھ اپنا گلا صاف کرتا ہے کہ آواز گھر میں پڑے گہری نیند سوئے تھانیدار کو بری طرح جھنجھوڑ بلکہ بھنبھوڑ کر جگا دیتی ہے۔ مگر وہ مولوی صاحب پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا کیونکہ لاؤڈ اسپیکر ایکٹ کا اطلاق کھانسی، کھنگورے و دیگر فطری حرکات پر نہیں ہوتا۔ بہرحال، اس ایکٹ کے سبب علاقے میں سکون تو ہو گیا ہے مگر قبرستان کی سی خامشی بھی تو مطلوب نہیں۔ اس سے بھی ہمارا منفی تاثر ابھر سکتا ہے۔ مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کے حوالے سے بھی شہباز شریف حکومت پر انگلیاں اٹھ سکتی ہیں۔ نجانے کون مشیر ہے میاں صاحب کا ۔۔کہ انھیں سمجھاتا ہی نہیں؟
شہباز شریف کو چاہیے کہ اتنا کام کرکر کے بیچارے افسروں اور شہریوں کا جینا حرام کرنے کی بجائے اپنے سندھی ہم منصب سید قائم علی شاہ صاحب سے ہی کچھ سیکھ لیں۔ یعنی صوبے کی صورتحال خواہ کتنی ہی دگرگوں کیوں نہ ہو جائے اپنے شاہ جی کے کشادہ ماتھے پر ایک بل بھی دکھائی نہیں دے گا۔ آپ نے تو لگتا ہے کوک اسٹوڈیو والے انور مقصود کا وہ عجیب الخلقت قول پلے باندھ رکھا ہے کہ یہ ملک بنایا اللہ تبارک و تعالی نے ہے اور اس کی حفاظت بھی وہ خود ہی کرے گا۔ بلکہ شاہ جی تو اس سے بھی ایک ہاتھ آگے جاتے ہوئے شاید یہ بھی سمجھ بیٹھے ہیں کہ انھیں صوبے کا وزیراعلیٰ بنایا آصف علی خان زرداری نے ہے تو پھر صوبے کو چلائیں گے بھی آصف علی خان زرداری ہی اور وہ تو پھر ایسا ہی چلائیں گے جیسا کہ چل رہا ہے!!!!!!!
٭٭٭٭٭
ایسی پریشان کن کیفیت میں حضرت شہباز شریف صاحب ایک نابغہ روزگار ہستی کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ موصوف بہت تھوڑا کھاتے اور برائے نام سوتے ہیں اور اپنے سٹاف سے بھی اسی راہبانہ استقامت کی توقع رکھتے ہیں۔ پوری دنیا میں روایت ہے کہ حکمران کا سٹاف افسر بننے پر افسر کو اس کا ساتھی اور دوست تہنیت کے پیغام بھیجتے ہیں، یہاں تعزیت کرنے پہنچ جاتے ہیں کہ بھائی اللہ کو یہی منظور تھا!
پنجاب فوڈ اتھارٹی کی سینئر افسر عائشہ ممتاز میں بھی کچھ ایسے ہی خصائل پائے جاتے ہیں کہ موصوفہ نے بھی پچھلے چند ہفتوں سے بیچارے ہوٹل اور ریستوران مالکان کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ بھئی اگر یہ ''معززین'' ناقص اور مضر صحت کھانا فروخت کرتے ہیں تو اس پر آپ کیوں ہلکان ہوتی جا رہی ہیں۔ بیماری اور خواری تو عوام کا مقدر ہے، انھیں خوار ہونے دیں۔ مگر آپ نے تو فائیواسٹار ہوٹلوں کی بھی ایک نہیں سنی۔
اس سے پہلے اسلحہ کی نمائش اور فائرنگ وغیرہ پر پابندی کے نام پر بھی ''شریف شہریوں '' کو کافی تنگ کیا جاتا رہا ہے۔ اس حوالے سے تقریباً اڑھائی سو شرفا آج بھی جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ یہ بھی ایک ظالمانہ حرکت ہے جس سے پاکستان کا منفی تاثر دنیا میں ابھرتا ہے۔ اس سے بیرونی سرمایہ کاری خطرے میں پڑ سکتی ہے اور ویسے بھی ہمارے وزیراعظم نے اس قدر مشکلوں کے ساتھ چینی صدر و دیگر سرمایہ کاروں کو گھیرا ہے، ہیں جی؟
اب جعلی ادویہ کے حوالے سے پکڑ دھکڑ کا ایک نیا اور لامتناہی سلسلہ چل نکلا ہے۔ ہر روز چھاپے، ہر پل گرفتاریاں، اب دیکھ لیجیے گا درجنوں جعلی دواساز فیکٹریاں سیل ہو جائیں گی اور غریب مریض بیچارے سرکاری اسپتالوں میں ایڑیاں رگڑتے رہیںگے۔ آپ مانیں نہ مانیں، ان بد نصیبوں کو آرام بھی صرف جعلی دوائیوں سے ہی آتا ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے ان کے افلاس زدہ جسموں نے خالص دوا اور خالص غذا کا ذائقہ چکھا ہی نہیں۔ انھیں تو خالص ہوا اور صاف پانی کے تصور سے بھی بد ہضمی ہونے لگتی ہے۔ مگر شہباز شریف صاحب ہیں کہ مصر ہیں ہر چیز کو خالص کرنے پر۔
ادھر لاؤڈ اسپیکر ایکٹ کے نام پر بیچارے مولوی کی زبان بندی کر دی گئی ہے۔ اب وہ مسجد میں بیٹھ کر اپنے مسلک کا پرچار بھی نہیں کر سکتا ہے۔ اب تو اسپیکر آن کر کے وہ صرف اذان دے سکتا ہے اور یا پھر جمعہ کا خطبہ۔ ہمارے گاؤں کا مولوی جمعہ کی علی الصبح لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے بھیک وغیرہ مانگنے کا سلسلہ شروع کر دیا کرتا تھا، اب خاموش بیٹھا اپنی قسمت کو کوستا ہے۔ مخالف مسلک کو لتاڑنے کے لیے بیچارے کی زبان ترستی تو بہت ہے مگر علاقے کا تھانیدار بھی کافی ڈاڈھا ہے اس لیے صبح ہوتے ہی مولوی صاحب سارا غصہ اپنے گلے پر نکالتے ہیں۔ اسپیکر کا ایمپلی فائر آن کر کے مائک کے آگے وہ اس تزک و احتشام کے ساتھ اپنا گلا صاف کرتا ہے کہ آواز گھر میں پڑے گہری نیند سوئے تھانیدار کو بری طرح جھنجھوڑ بلکہ بھنبھوڑ کر جگا دیتی ہے۔ مگر وہ مولوی صاحب پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا کیونکہ لاؤڈ اسپیکر ایکٹ کا اطلاق کھانسی، کھنگورے و دیگر فطری حرکات پر نہیں ہوتا۔ بہرحال، اس ایکٹ کے سبب علاقے میں سکون تو ہو گیا ہے مگر قبرستان کی سی خامشی بھی تو مطلوب نہیں۔ اس سے بھی ہمارا منفی تاثر ابھر سکتا ہے۔ مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کے حوالے سے بھی شہباز شریف حکومت پر انگلیاں اٹھ سکتی ہیں۔ نجانے کون مشیر ہے میاں صاحب کا ۔۔کہ انھیں سمجھاتا ہی نہیں؟
شہباز شریف کو چاہیے کہ اتنا کام کرکر کے بیچارے افسروں اور شہریوں کا جینا حرام کرنے کی بجائے اپنے سندھی ہم منصب سید قائم علی شاہ صاحب سے ہی کچھ سیکھ لیں۔ یعنی صوبے کی صورتحال خواہ کتنی ہی دگرگوں کیوں نہ ہو جائے اپنے شاہ جی کے کشادہ ماتھے پر ایک بل بھی دکھائی نہیں دے گا۔ آپ نے تو لگتا ہے کوک اسٹوڈیو والے انور مقصود کا وہ عجیب الخلقت قول پلے باندھ رکھا ہے کہ یہ ملک بنایا اللہ تبارک و تعالی نے ہے اور اس کی حفاظت بھی وہ خود ہی کرے گا۔ بلکہ شاہ جی تو اس سے بھی ایک ہاتھ آگے جاتے ہوئے شاید یہ بھی سمجھ بیٹھے ہیں کہ انھیں صوبے کا وزیراعلیٰ بنایا آصف علی خان زرداری نے ہے تو پھر صوبے کو چلائیں گے بھی آصف علی خان زرداری ہی اور وہ تو پھر ایسا ہی چلائیں گے جیسا کہ چل رہا ہے!!!!!!!
٭٭٭٭٭