قصور اسکینڈل متاثرین کو انصاف ملنا چاہیے

قصور زیادتی اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کا واقعہ ملک میں رونما ہونے والے سیکڑوں دردناک واقعات سے الگ نہیں ہے


Editorial August 10, 2015
بعض حکومتی حلقے اسے میڈیا کی مبالغہ آرائی قرار دے رہے ہیں،چنانچہ اصل حقیقت تک رسائی کے لیے سانحہ کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات ناگزیر ہے۔ فوٹو : فائل

وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے قصور میں بچوں سے زیادتی کے اسکینڈل کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دیا ہے، انھوں نے ہدایت کی کہ محکمہ داخلہ ، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی سطح پر انکوائری کمیشن تشکیل دینے کے لیے فوری درخواست کرے۔

اتوار کو اعلیٰ سطح کے اجلاس میں وزیراعلیٰ کو تحقیقاتی رپورٹ پیش کی گئی، وزیراعلیٰ نے کہا کہ ملزمان اپنے انجام اور قانون کی گرفت سے کسی صورت نہیں بچ پائیں گے، متاثرہ خاندانوں کو ہر قیمت پر انصاف فراہم کریں گے۔ وزیراعظم نواز شریف نے بھی مجرموں کو سخت سزا دینے کی ہدایت کی ہے۔ قصور زیادتی اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کا واقعہ ملک میں رونما ہونے والے سیکڑوں دردناک واقعات سے الگ نہیں ہے جن میں کم عمر لڑکوں اور معصوم بچیوں کو اغوا یا جنسی ہوس کا نشانہ بننے کے بعد بیدردی سے قتل کردیا گیا یا ان کی لاشیں جلادی گئیں۔

ان بہیمانہ واقعات سے جہاں ملکی معاشرے کے اخلاقی و تہذیبی زوال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے وہاں ملک کی بدنامی کا بھی کسی کو احساس نہیں ، یوں محسوس ہوتا ہے کہ گڈ گورننس کا صرف شور ہے جب کہ اندر ہی اندر پورا معاشرہ ہوسناکی کے اندھیروں میں گم ہوتا جارہا ہے،جب کہ نئی نسل کو جرائم کی نذر ہونے سے بچانے کا وقت ہے، پنجاب پولیس کے ارباب اختیار کے لیے یہ اسکینڈل سوالیہ نشان ہے۔ جنسی کجروی ایک عالمی وائرس ہے، بھارتی سیکولر سماج کی حالت دیکھئے، ادھر اٹک میں بھی ایک معصوم بچہ سے زیادتی کی ویڈیو سامنے آئی ہے۔

یہ کس قسم کا شرمناک ویڈیو کلچر جنم لے چکا ہے جس میں شریف اور معصوم طلبہ کو بلیک میل کرنے والے گروہ سائبر کرائمز کے شکنجہ میں نہیں لائے جا رہے، لازم ہے کہ قصور سانحہ کے اصل ملزمان کو بلاتاخیر قانون کے مطابق عبرت ناک سزا دلائی جائے۔ مذکورہ واقعہ علاقہ پولیس کے تساہل ، غفلت اور لاعلمی کا نتیجہ ہے، اگر 10 سال سے مجرمانہ گینگ اس دھندے میں ملوث تھا تو پولیس کیا کررہی تھی، سوچنا چاہیے کہ نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار کیوں ہے ۔

نئی نسل سے ایسے جرائم وابستہ ہونے یا ان کا دانستہ ارتکاب کرنے کے واقعات تواتر سے سامنے آتے رہے ہیں جن کی روک تھام کے لیے پولیس اور فعال این جی اوزکو اب مشترکہ طور پر کوئی میکنزم وضع کرنا چاہیے۔قصور واقعے میں گرفتار ہونے والے مرکزی ملزم سمیت دیگر ملزم شامل ہیں ، ایس پی انویسٹی گیشن سید ندیم عباس نے بتایا کہ ملزمان نے بچوں سے زیادتی اور ان کے ویڈیو کلپ بنا کر ان کے والدین کو بلیک میل کرنے کا اعتراف کرلیا ہے اور ان کے قبضہ سے فحش فلموں کی سی ڈی، موبائل فون، میموری کارڈ برآمد کرلیے ہیں، تفتیش کا دائرہ مزید وسیع کیا جائے گا۔

تاہم ڈی پی او قصور رائے بابر سعید نے کہا کہ پولیس کو صرف7 شکایات موصول ہوئی ہیں جن پر کارروائی کرتے ہوئے مقدمات درج کر لیے گئے ہیں، گرفتار ملزمان 2009 سے اِس طرح کے واقعات میں ملوث ہیں۔ پولیس کا موقف ہے کہ اس واقعہ میں بعض غلط فہمیاں موجود ہیں، متاثرہ بچوں کی تعداد 300 نہیں، جب کہ بچوں سے زیادتی کے 60 سے70 کلپس ملے ہیں، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ معاملہ بچوں سے زیادتی کا نہیں زمینوں پر قبضے کا ہے۔

بعض حکومتی حلقے اسے میڈیا کی مبالغہ آرائی قرار دے رہے ہیں،چنانچہ اصل حقیقت تک رسائی کے لیے سانحہ کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات ناگزیر ہے، متاثرہ بچوں اور ان کے والدین کی داد رسی ہر صورت ہونی چاہیے ۔ کاش پولیس چوکس رہتی ، اور علاقے کے سماج دشن عناصر پر کڑی نظر رکھی جاتی تو اس بات کی نوبت ہی نہ آتی، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ جو ہوا اس میں متاثرین سے انصاف ہو اور وہ نظر بھی آئے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں