جرم ضعیفی کی سزا

ارباب اختیار نے ’’ظالم مارے اورمارنےکے بعد رونے بھی نہ دے‘‘ کی کہاوت کچی آبادی کے مظلوموں کے ساتھ عملاً دہردیا


Shakeel Farooqi August 11, 2015
[email protected]

میاں جہاں بھی رہو شاد رہو
کراچی میں رہو یا اسلام آباد رہو

یہ دعا ہمیں ایک چاہنے والے بزرگ نے اس وقت دی تھی جب ہم کراچی سے تبادلے کے بعد پہلی مرتبہ اسلام آباد جارہے تھے۔ تب ہمیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ کراچی بدر ہوکر ہمیں اسلام آباد میں اتنا طویل عرصہ گزارنا پڑے گا کہ یہ شہر ہمارا دوسرا گھر بن جائے گا۔ اس حقیقت سے تو انکار ممکن نہیں کہ اسلام آباد پاکستان کا سب سے حسین شہر ہے۔

اس کے حسن کی تعریف محض مقامی لوگ ہی نہیں کرتے بلکہ بے شمار غیر ملکیوں کو بھی ہم نے اس کے چرچے کرتے ہوئے سنا اور دیکھا ہے۔ ہمیں برسوں پرانی یہ بات آج تک یاد ہے کہ جب ہم پہلی مرتبہ زیرو پوائنٹ سے اسلام آباد میں داخل ہو رہے تھے تو ہماری نظر اس مقام پر جاکر رک گئی تھی جہاں انگریزی میں نہایت خوبصورت الفاظ میں لکھا ہوا تھا Islamabad The Beautiful۔

اسلام آباد واقعی جنت ارضی سے کم نہیں بشرطیکہ آپ ایک با حیثیت شخص ہوں۔ لیکن بڑی فیملی والے کم تنخواہ دار سرکاری ملازم کے لیے یہی جنت ارضی دوزخ سے بڑھ کر ہے اور جن لوگوں کو اس شہر میں سر چھپانے تک کے لیے بھی جگی میسر نہیں ان کی مشکلات تو بس بیان سے باہر ہیں۔ چنانچہ گزشتہ دنوں اسلام آباد کے آئی الیون سیکٹر کے کچی آبادی والے مکینوں کے ساتھ ارباب اختیار نے جو سلوک کیا اس پر ہمارا دل خون کے آنسو رو رہا ہے اور اس پس منظر میں یہ شعر نوک زباں پر آرہا ہے:

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے

''ظالم مارے اور مارنے کے بعد رونے بھی نہ دے'' والی کہاوت جو ہم نے اکثر اپنے بزرگوں کی زبانی سنی تھی، اسلام آباد کے ارباب اختیار نے آئی الیون کی کچی آبادی کے مظلوموں کے ساتھ عملاً دہرا کر دکھادی۔ چناں چہ جن مظلوموں نے اس ظلم کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا انھیں دہشت گردی کے الزام میں دھر لیا گیا۔ یہ تو ہُو بہ ہُو وہی ہوا کہ Give the dog a bad name and then kill him۔ مظلوموں کو عوامی حمایت اور ہمدردی سے محروم کرنے کے لیے بے دخل کرنے والوں نے اس آبادی کو ''افغان بستی'' کا نام دے دیا۔ چہ خوب!

تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

ہمارا بے دخل کرنے والوں سے سب سے پہلا اور معقول سوال یہ ہے کہ کیا یہ کچی آبادی راتوں رات معرض وجود میں آگئی تھی؟ جی نہیں۔ یہ محض دو چار برس نہیں بلکہ کئی عشروں پرانا قصہ ہے۔

تو کیا ارباب اختیار اس وقت نشے میں مدہوش تھے یا لمبی تان کر سو رہے تھے؟ انھوں نے فارسی کی مشہور کہاوت ''گربہ کُشتن روز اول'' کے مطابق بروقت کارروائی کیوں نہیں کی؟ کیا یہ سراسر دانستہ غفلت یا چشم پوشی کا ارتکاب نہیں ہے؟ اگر ہے تو پھر اصل قصوروار کون ہے؟ سیدھی بات یہ ہے کہ اگر متعلقہ محکمے کا عملہ اس کام میں ملوث نہ ہوتا تو یہ کچی آبادی کبھی بھی جنم نہ لیتی۔ یہ تو وہی ہوا کہ ''الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے''۔

کچی آبادیوں کا مسئلہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ اس کے ڈانڈے صبح آزادی کے ساتھ جاکر ملتے ہیں جب ترک وطن کرنے والوں کا ایک سیلاب اس مملکت خداداد کی طرف خاک و خون کا دریا عبور کرکے امڈ آیا تھا۔ اس کے بعد آبادی میں تیزی سے اضافے اور دیہات سے بڑے شہروں کی طرف روزگار کی تلاش میں ملک کے گوشے گوشے سے آنے والوں نے کچی آبادیوں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ کرنا شروع کردیا۔

چناں چہ کچی آبادیوں کا مسئلہ محض اسلام آباد تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ یہ لاہور اور کراچی سمیت وطن عزیز کے ہر بڑے اور صنعتی و کاروباری شہر کا سب سے گمبھیر مسئلہ ہے۔ سوچنے والی بات یہ بھی ہے کہ کچی آبادی کے ان ہی محنت کشوں کی کاوشوں کی بدولت بڑے بڑے امرا و رؤسا اپنے محل نما بنگلوں میں عیش و عشرت کی زندگی گزارتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا مراعات سے محروم طبقے کو سر چھپانے کے لیے اور اپنے بال بچوں کو پناہ دینے کے لیے جھگی، جھونپڑی بنانے کا بھی حق نہیں ہے؟ کیا خداوند کریم کی عطا کی ہوئی دھرتی صرف اہل ثروت اور صاحب حیثیت مراعات یافتگان کی اجارہ داری تک محدود ہے؟ ساحر لدھیانوی نے اسی صورتحال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ہی تو کہا تھا کہ:

رہنے کو گھر نہیں ہے' سارا جہاں ہمارا

اسلام آباد کے سیکٹر آئی الیون کے کچی آبادی کے مکینوں کو بے دخل کرنے والے ارباب اختیار خواہ اپنی من مانی کے دفاع میں کوئی بھی دلیل پیش کریں، اصل حقیقت یہ ہے کہ سر چھپانے کی جگہ حاصل کرنے کا حق زندہ رہنے کے حق کے بعد انسان کے بنیادی حقوق میں دوسرے نمبر پر شمار ہوتا ہے۔ کسی آبادی کو پل بھر میں اجاڑ دینا کوئی مشکل کام نہیں جب کہ کسی ویران جگہ کو آباد کرنے کے لیے برسوں کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ بقول شاعر!

بستی بسنا کھیل نہیں ہے
بستے بستے بستی ہے

اسلام آباد کی برسوں سے آباد بستی کو جس بے رحمی سے اجاڑا گیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے دل میں غریبوں کی کیا حیثیت اور وقعت ہے۔
انسانیت کا تقاضا تو یہ ہے کہ لوگوں کو بے گھر کرنے سے پہلے ان کے لیے متبادل رہائش گاہ کا بندوبست کیا جائے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک کے حکمرانوں کو اس کا کوئی احساس ہی نہیں ہے۔

البتہ کچھ انسان دوست اداروں کا وجود غنیمت ہے جن میں کراچی کا اورنگی پائلٹ پروجیکٹ، خدا کی بستی اسکیم اور آغا خان رورل سپورٹ پروگرام جیسے آبادکاری کے منصوبے سرفہرست اور قابل ذکر ہیں۔ ارباب اختیار کی خدمت میں ہماری چھوٹی سی گزارش صرف یہی ہے کہ خدارا محروموں کو جرم ضعیفی کی سزا دینے سے گریز کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں