لال ٹوپی سفید رومال اور کالا عقال
حیرت ہوتی ہے کہ آخر ان فارسی دان بزرگوں کو یہ کیسے پتہ تھا کہ ایک دن ٹھیک ایسا ہی ظہور پذیر ہونے والا ہے۔
یہ فارسی والے بڑے ہی ذہین و فطین پیش گو و پیش بین بلکہ دوربین اور خورد بین قسم کے لوگ تھے، ہر موقع اور ہر صورت حال کے لیے کچھ نہ کچھ کہہ کر گئے ہیں اور بہترین بات کہہ گئے ہیں۔ جیسا کہ پچھلے دنوں ہم نے حضرت شیخ سعدی کے حوالے سے اس مشہور و معروف مقولے کا ذکر کیا تھا جو خالص پاکستان کے بارے میں تھا اور جسے فیض احمد فیض نے اردو میں ترجمہ کیا تھا یعنی
ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظم بست وکشاد
کہ سنگ وخشت مقید ہیں اور سگ آزاد
اور آج ایک اور معرکتہ الارا قول زریں سنانا مقصود ہے، یہ قول زریں شعر میں ہے اور اس کے دو الگ الگ حصے ہیں جو حیرت انگیز طور پر آج کل پورے ہو رہے ہیں، حیرت ہوتی ہے کہ آخر ان فارسی دان بزرگوں کو یہ کیسے پتہ تھا کہ ایک دن ٹھیک ایسا ہی ظہور پذیر ہونے والا ہے۔ چلیے پہلے وہ پیش گوئی سن لیجیے ۔
تاکہ مرد سخن نہ گفتہ باشد
عیب و ہنرش نہفتہ باشد
یعنی جب کوئی بولتا نہیں تب تک اس کا ''عیب و ہنر'' چھپا رہتا ہے، یہ تو بجنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ طنبورہ ہے یا ڈھولک، طبلہ ہے یا ہارمونیم اور یہ کہ پھٹا ہوا تو نہیں ہے یا بے سر بے تال تو نہیں، اس لیے بزرگوں نے کہا ہے کہ موقع دیکھ کر ''بجنا'' چاہیے یعنی بولنے سے پہلے ''تولنا'' چاہیے، خود کو بھی اور سننے والوں کو بھی کیوں کہ ہر جگہ ہائیڈ پارک یا پاکستان نہیں ہوتی کہ جو چاہا ''بجا'' دیا اور جو جی میں آیا ''گا'' دیا، اس کے بعد شعر یا قول زریں کا پارٹ ٹو یا اصل بات یوں کہی گئی ہے کہ
ہر بیشہ گماں مبرد کہ خالی ست
شاید کہ پلنگ خفتہ باشد
یعنی اے لال ٹوپی اور کالے رومال والے ہر جنگل پاکستان نہیں ہوتا اور اس کی خاموشی پر مت جا ہوسکتا ہے کہ اس میں ایک خطرناک شیر اس وقت سویا پڑا ہو اور تمہارے بولنے پر اٹھ کر ایسا کام کر کے جس کا کوئی مداوا نہ ہو، لیکن توبہ کیجیے آخر بولنے کی عادت بھی تو کوئی چیز ہے، کوئی پتہ نہیں کہ کب کہاں اور کیسے کھجلی کر بیٹھیں اور جسے تم انناس سمجھ رہے ہو، وہ عورت نکلے اور ناک خطرناک بن جائے، ٹھیک ہے چلو مان لیتے ہیں کہ دور جدید کے راج کپور کو شہر جانا ضروری ہو گیا تھا، اس حد تک بھی ٹھیک سمجھئے کہ وہ راستے میں گانا گائے جارہا تھا کیونکہ وہاں کوئی نہ تھا اس لیے
میرا جوتا ہے جاپانی
یہ پتلون انگلستانی
سر پہ لال ٹوپی روسی پھر بھی دل ہے احمقستانی، گانے میں کوئی حرج نہیں تھا، جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا، جنگل میں تو کوئی ایسا دل نہیں جو لال ٹوپی نے زخمی نہ کیا ہو کیوں کہ اس جنگل میں کوئی شیر سویا ہوا نہیں تھا لیکن شہر میں تو ذرا سوچ سمجھ کر اور سر تال دیکھ کر گانا چاہیے تھا کیونکہ پتہ نہیں کون غصہ کر جائے۔
دراصل لال ٹوپی کو غلط فہمی ہو گئی تھی کہ پاکستان کی طرح ہر جنگل ایسا ہی ہو گا کیوں کہ اس نے اس جنگل میں آنکھ کھولی تھی جہاں سویا یا جاگا کسی بھی قسم کا شیر نہیں تھا، حکومت کے نام پر اس جنگل میں جو مصنوعی شیر نظر آتے تھے، وہ اصل میں رنگے ہوئے تھے لیکن یہی عادت لے کر جب وہ اس جنگل میں پہنچا جہاں شیر تھا اور وہ بھی جاگا ہوا لہٰذا اس کے سوا اور کیا ہو سکتا تھا جو ہوا، واقعہ میں کچھ سازش اور بیرونی ہاتھ کی بو بھی محسوس ہو رہی ہے اور اس ''بو'' کو آپ کی ناک تک پہنچانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسے ایک قصے میں لپیٹ کر آپ کی کھوپڑی کو رسید کر دیںتاکہ اچھی طرح سمجھ آ جائے ۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک گاؤں میں وہاں کی لال ٹوپی کا لڑکا بڑا شریر ہو گیا ۔ گلی کوچوں میںشریف لوگوں کو تنگ کرتا رہتا اور پھر تالیاں پیٹ پیٹ کر خوشی کا اظہار کرتا، لوگ بچارے صبر کر لیتے۔ یوں شرارتی لڑکا مزید شیرہو گیا' ہ سمجھا کہ مجھے کوئی بھی کچھ نہیں کہے گا 'وہ یہ سمجھنے میں حق بجانب بھی تھا کیونکہ سارے لوگ اس کی شرارتوں کو برداشت کر لیتے تھے اور کسی جگہ شکایت بھی نہیں کرتے تھے' ایک دن گاؤں میں باہر کا مہمان آیا ۔
لڑکے نے اس سے بھی شرارت کی اور کلکاریاں مار کر ہنسنے لگا، مہمان نے حالات کا جائزہ لیا اور پھر اچانک مسکرا پڑا، اسے پتہ چل گیا کہ معاملہ گڑ بڑ ہے اور اگر اس نے کچھ کہا تو گاؤں والے کچھ نہیں کہیں گے۔ بندہ سمجھ دار تھا 'اس نے جیب سے ایک روپیہ نکال کر اس نے لڑکے کو دیا اور ساتھ ہی شاباش بھی دی کہ لگے رہو منا بھائی ۔۔۔۔ اپنی حرکت پر ایک روپے کا انعام پا کر لڑکا اور بھی شیر ہو گیا، کیوں کہ معاملہ ٹو ان ون ہو گیا یعنی شرارت کی شرارت اور کمائی کی کمائی، اور پھر اس نے اپنا دائرہ کار بھی بڑھا لیا۔
اب وہ ہر ایک کے ساتھ کوئی نہ کوئی شرارت کر لیتا تھا ' ایک دن کہیں سے ایک مسلح شخص گاؤں کی مسجد میں آیا جو اصل میں سرکاری آدمی تھا۔ نماز پڑھتے وقت جب لڑکے نے اس کے ساتھ بھی شرارت کی تو اس نے فوراً سلام پھیر کر اپنی تلوار کھنیچی اور اس کی گردن اڑا دی۔ یوں شرارت کا انجام بہت برا ہوا۔ لڑکے کو اگر پہلے ہی سمجھا لیا جاتا یا اسے سختی سے منع کر لیا جاتا تو وہ اس انجام سے دوچار نہ ہوتااور گاؤں کی عزت بھی برقرار رہتی۔
بھئی ٹھیک ہے پاکستان نامی ہائیڈ پارک میں کچھ بولیے کچھ بھی لگایئے بلکہ کھایئے پیئے لیکن ہر جگہ تو ہائیڈ پارک نہیں ہوتی،حکومتوں کا کام ہوتا ہے کہ وہ اپنا کنٹرول برقرار رکھے اور حدود کا تعین کریں تاکہ کوئی بھی ان حدود کو کراس نہ کر سکے۔ اس میں ملک کا بھی بھلا ہوتا ہے ۔
عوام کا بھی اور شرارتی لوگوں کا بھی کیونکہ وہ بھی ڈسپلن اور قواعد و ضوابط کے عادی ہو جاتے ہیں اور غلط کام کرنے سے گریز کرتے ہیں۔امن قائم کرنے کی ضمانت بھی یہی ہوتی ہے کہ ملک میں حکومت ہو اور اس رٹ بھی ہو۔ پاکستان کے ہائیڈ پارک میں حکومت نامی کوئی چیز کبھی نہ آئی ہے نہ آنے کی توقع ہے۔
ایک ''گینگ وار'' ہے جو ستر سال سے چل رہی ہے ،جس کے منہ میں جو آتا ہے وہ کہہ کر فارغ ہو جاتا ہے۔بھانت بھانت کی سیاسی جماعتیں ہیں'بھانت بھانت کی تنظیمیں ہیں'کچھ گروہ ہیں'کچھ کالعدم ہیں'کچھ شخصیات ہیں'سب آزاد ہیں۔جو کالعدم ہے وہ سب کچھ کر رہا ہے اور جو قانونی ہے وہ گھبرا رہا ہے اور خوفزدہ ہے۔ یہ پاکستان نامی ہائیڈ پارک ہے۔
کوئی کچھ بھی کہے کہتا رہے لیکن جہاں حکومت ہوتی ہے وہاں قانون بھی ہوتا ہے اور جہاں قانون ہوتا ہے وہاں ہائیڈ پارک نہیں ہوتا، اب یہ الگ بات ہے کہ حکومت کیسی ہے، اچھی ہے، بری ہے، شاہی ہے، جمہوری ہے، آمرانہ ہے، عوامیانہ ہے وہ ہر ایک ملک کا اپنا اپنا معاملہ ہوتا ہے۔
برطانیہ کی شاہی جمہوریت، برطانویوں کو پسند ہے تو ہمیں کیا ۔۔۔ اگر جاپان والے اپنی مقدس جمہوریت کو سورج دیوتا کی کرنوں سے منور کرنا پسند کر رہے ہیں تو کسی اور کو کیا، امریکی جمہوریت، چینی جمہوریت، مصر کی جمہوریت، صدام و قذافی کی جمہورتیں اور پھر ہمارے اپنے مملکت خداداد پاکستان کی اسلامی عوامی جمہوریہ ۔ زباں پہ بار خدایا، مطلب یہ کہ ہر گلے را رنگ بوئے ۔۔۔ دیگر ست ۔ آخر لال ٹوپی جانے اور سفید رومال اور کالا عقال، ہم کون ہوتے ہیں بیچ میں یوں یوں کرنے والے ۔۔۔ نہ ''گل'' ہماری رشتہ دار ہے نہ ''صنوبر'' سے کوئی ناطہ ہے جو جی چاہے ''گل'' صنوبر کے ساتھ کرے اور جو صنوبر چاہے وہ گل کے ساتھ کرے کہ پیر و مرشد نے ویسے بھی کہا ہے کہ
رموز مصلحت ملک خسرواں دانند
گدائے گوشہ نشینی تو حافظا مخروش