اے راہ حق کے شہیدو

جب بھی ملک کی آزادی کے حوالے سے مختلف واقعات و حالات کا مطالعہ کرتے ہیں تو آنکھیں خود بخود نم ہوجاتی ہیں

shehla_ajaz@yahoo.com

ISLAMABAD:
رمضان المبارک کے مہینے کے بعد شادیوں کا سیزن شروع ہوجاتا ہے یہ ایک فطری عمل ہے کہ انسان خوشی کے موقعے کو خوب اچھی طرح انجوائے کرتا ہے اور اس میں اپنے اپنے حصے کی خوشیاں بھی شامل کرکے اس کے مزے کو دوبالا کردیتے ہیں۔ اس عید کے بعد اس سیزن کی گہما گہمی کے ساتھ ہی آزادی کے خوبصورت مہینے یعنی اگست کی خوشیاں بھی آملیں، ہم کتنا ہی ملک سے دور چلے جائیں اپنے مسئلے مسائل یا الجھنوں میں گھرے رہیں ماحول میں ایک عجیب سی تازگی ایک فرحت کا احساس اگست کے مہینے کو نکھار دیتا ہے۔

جب بھی ملک کی آزادی کے حوالے سے مختلف واقعات و حالات کا مطالعہ کرتے ہیں تو آنکھیں خود بخود نم ہوجاتی ہیں ہم اپنے ان ہزاروں لاکھوں شہدا کی قربانیوں کو بھلا کیسے اپنے وجود سے علیحدہ کرسکتے ہیں جن کی وجہ سے اس سرزمین کو پنپنے کا موقعہ ملا یہ ان کے وجود کی سچائیاں، خلوص، یقین اور اعتماد تھا جو مرا نہیں نجانے کیسے کب کہاں مجھ میں، آپ میں اور ہزاروں کی تعداد میں انسانی خون میں رچ بس گیا، ان فضاؤں میں ان کی خواہشات، آزادی کا قرار، سکون اب بھی ہمک رہا ہے ورنہ ہم اور ہماری نسل کے لوگ اس مقدس آزادی کے جذبے کی پہچان ہی بھول جائیں۔

''یہ دنیا ایک سرائے کی مانند ہے اور زندگی محدود وقت کا دورانیہ (جو بالآخر ختم ہوجائے گی) تو پھر کیوں نہ ہم اس میں سے دوڑتے ہوئے نکل جائیں تاکہ جو کچھ بھی ہمارے اختیار میں ہے وہ کرسکیں اور آنے والی نسلیں ہمیں عظیم لوگوں میں شمار کرکے یاد رکھیں ہم ہمیشہ زندہ نہیں رہ سکتے اور ایک نہ ایک روز مرنا ضرور ہے تو پھر کیوں نہ ہم اپنی زندگی وطن پر نچھاور کردیں اور یہ تو ہم آسانی سے کرسکتے ہیں۔''

یہ ایک انگریزی نظم کا اردو ترجمہ ہے جو راشد منہاس شہید (نشان حیدر) نے تحریر کی تھی، راشد منہاس ایک نوجوان پائلٹ تھے جنھوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے اپنے ملک کی حرمت کی حفاظت کی۔

یہ نظم پڑھ کر یہ احساس اجاگر ہوتا ہے کہ ایک چھوٹا سا لڑکا اپنے ملک کے لیے کتنا حساس ہے یہ درست ہے کہ ان کی شہادت کو ایک عرصہ گزر چکا ہے لیکن 20 اگست 1971 کو جب انھوں نے جام شہادت نوش کیا تھا اس وقت ان کی عمر غالباً اٹھارہ انیس برس کی تھی یہ وہ عمر ہوتی ہے جب انسان میں خواہشات کا ایک ڈھیر ہوتا ہے۔

نازک خوبصورت حساس جذبات پروان چڑھتے ہیں ایسے میں ایک چھوٹا سا نوجوان لڑکا، ہینڈسم، اسمارٹ ایک پرکشش ادارے میں کام کرتا ہوا نجانے کیا کچھ سوچتا تھا لیکن ان تمام خوبصورت باتوں کا تذکرہ ان کی یادداشت میں نظر آتا تھا یا نہیں لیکن مختلف بڑی شخصیات کے ملک و آزادی کے حوالے سے مقولے ان کی ڈائری کے اوراق میں محفوظ تھے کیا راشد منہاس شہید ایک عام سا نوجوان نہ تھا۔ کیا انھوں نے اپنے مستقبل کے لیے خوبصورت خواب نہیں بُن رکھے تھے۔

کیا انھیں اس بات کا احساس نہ تھا کہ وہ بھی اپنی ماں کی نگاہوں کا مرکز ہیں لیکن وہ سب کچھ ایک جذبے میں تحلیل ہوگیا اور وہ جذبہ تھا اپنے ملک کی عزت کی حفاظت ، پاک سرزمین کی حفاظت۔ بعد میں کتنے ہی لوگ تحقیق کرلیں تعریف کرلیں ان کے ماضی کو کھنگال لیں لیکن اس ایک جذبے کو ہم ایک ایک پاکستانی کے وجود میں تلاش کریں تو ہمیں شاید سمجھ نہ آئے ۔

اسے تحریر کرتے بھی شاید دقت ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ ملک سے سچی محبت کا جذبہ انسان کو بزرگی کے درجات میں شمار کرتا ہے کیونکہ اس محبت میں سچائی، صداقت، ایمانداری، انصاف کے تقاضے شامل ہوتے ہیں جن کی کڑیاں ایک ہی مرکز سے جاکر ملتی ہیں جس کی بنیاد پر پاکستان کا وجود دنیا کے نقشے پر ابھرا۔


شہادت کے درجے کو رب العزت نے شاید اسی لیے بلند درجات میں رکھا ہے کہ اس کے لیے وہ اپنے بندوں کو خود منتخب کرتے ہیں، راشد منہاس کے آخری الفاظ جو بدین کے کنٹرول ٹاور پر سنے گئے وہ کچھ اس طرح تھے "Allah-o-Akbar! This Plane will not go to India"(اللہ اکبر! یہ طیارہ بھارت نہیں جائے گا۔''

ان الفاظ سے واضح پتہ چلتا ہے کہ ان کا طیارہ اتفاقاً نہیں گرا تھا بلکہ اس میں ان کی اپنی ذاتی کوشش کا عمل دخل تھا ۔ مطیع الرحمن نے طیارے کو ہائی جیک کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ وہ ایک سینئر آفیسر تھا اس کی نظروں میں راشد منہاس ایک چھوٹا سا لڑکا تھا جسے وہ باآسانی کنٹرول کرسکتا تھا یہ اتفاق تھا کہ مطیع الرحمن کی نظر شجاعت پر تھی لیکن شجاعت کی جگہ راشد منہاس نے وہ طیارہ سنبھالا یہ اتفاق نہ تھا کہ راشد منہاس نے اپنے طیارے کی بجائے شجاعت کے طیارے کو ترجیح دی کیونکہ رب العزت کی جانب سے انھیں ایک بڑی ذمے داری سونپ دی گئی تھی۔

مطیع الرحمن کے کلوروفام سنگھانے کے باوجود بھی وہ دشمن کے ہدف پر پہنچنے سے پہلے ہی ہوش میں آگئے وہ جانتے تھے کہ ان کا آخری قدم انھیں زندگی کی ڈور سے الگ کردے گا لیکن یہ قدم ان کے لیے بہت اہم تھا کیونکہ اس کے پیچھے بدنامی، رسوائی اور بزدلی تھی۔ اس بہادر نوجوان کے ذہن پر صرف اور صرف اپنے ملک کی عزت کی حفاظت تھی اور یہ کر گزرنے پر آج انھیں اس طرح یاد رکھا گیا کہ ہم اور ہم جیسے کتنے لوگ ان پر مضمون لکھتے ہیں، آج بھی ان کی وہ عظیم قربانی ہمارے ذہنوں میں محفوظ ہے۔ سلام ہے اس عظیم نوجوان پر اور لاکھوں مسلمانوں پر جنھوں نے اپنے وطن کی خاطر جام شہادت نوش کیا۔

علامہ اقبال نے جنگ طرابلس میں فوجیوں کو پانی پلاتے ہوئے شہید ہونے والی ایک عرب لڑکی فاطمہ بنت عبداللہ سے متاثر ہوکر ایک دل کو چھونے والی نظم لکھی تھی جنگ طرابلس 1912 میں ہوئی تھی پر آج بھی ہم فاطمہ کو جانتے ہیں۔

یہ کلی بھی اس گلستان خزاں منظر میں تھی
ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی!
اقبال مزید کہتے ہیں:
جن کی تابانی میں انداز کہن بھی' نو بھی ہے
اور تیرے کوکب تقدیر کا پرتو بھی ہے

اگست کا یہ مہینہ ہمیں اپنے ان تمام شہدا کی یاد دلاتا ہے اور کہتا ہے کہ اے پاکستان میں بسنے والو! اس ملک کی قدر کرو کہ یہ ہمارے جذبوں، ہمارے خون کے رنگ سے سینچا گیا ہے اس کی مٹی میں اب بھی ہمارے لہو کی مہک شامل ہے، شہید ہمیشہ دلوں میں بس جاتے ہیں، فضاؤں میں شامل ہوجاتے ہیں کہ وہ مرتے نہیں۔ مر کر بھی زندہ رہتے ہیں۔
Load Next Story