اقلیتوں کا پاکستان
مذہب سب سے پہلے کب ؟ کہاں ؟اور کیسے وجود میں آیا ؟اس کا موجدِ اول کون تھا ؟ دور کون سا تھا ؟
SOFIA:
آپ تاریخ انسانی کے کسی بھی دور سے گزریے اور دنیا کے کسی خطے پر نظر دوڑائیں ، ایک چیز آپ کو ہر مقام اور ہر زمانے میں بطور قدرِ مشترک ملے گی یعنی لوگوں نے کوئی نہ کوئی ہستی (محسوس چیز یا غیر مرئی وغیر محسوس تصوراتی قوت ) ایسی تجویز کر رکھی ہوگی جس کے سامنے وہ جھکنے پر مجبور ہوں ، جس کی پرستش کرتے ہوں ، راہِ نجات کا ذریعہ سمجھتے ہوں ۔
عالمِ بشریت کی کسی ذہنیت ، روش اور طرزِ فکر کو جس میں اس نے اپنے لیے کسی غیبی یا الہامی شے یا قوت کو(Object of worship)کی حیثیت دے رکھی ہو ۔ بالعموم مذہب کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ کانٹ کہتا ہے ۔''ہر فریضہ کو خدائی حکم سمجھنا مذہب ہے اور مذہب عین اخلاق ہے ۔'' پروفیسر اے این وائٹ ہیڈ نے مذہب کے متعلق مختلف مقامات پر بے شمار تصریحات بیان کی ہیں ۔ ایک جگہ وہ لکھتا ہے کہ '' انسان جو کچھ اپنی ذات کی تنہائی سے کرتا ہے مذہب ہے ۔
دوسری جگہ لکھتا ہے '' مذہب عقیدے کی اس قوت کا نام ہے جس سے انسان کو اندرونی پاکیزگی حاصل ہو جاتی ہے ۔'' مذہب کے لفظی معنی روشن یا طریقہ اختیار کرنا یا کسی ہستی پر مکمل اعتقاد غرض کسی شے کو مقدس سمجھنا مذہب کے زمرے میں آتا ہے، جو بلاشبہ ایک انسانی فطرت ہے۔ مذہب سب سے پہلے کب ؟ کہاں ؟اور کیسے وجود میں آیا ؟اس کا موجدِ اول کون تھا ؟ دور کون سا تھا ؟ خطہ کیا تھا ؟ ایک ایسے سوالیہ شکل میں ہنوز تاریخ کے دروازے پر منتظر ، ایک دائمی حقیقت ہے۔
ابتدائے انسانیت سے طلوع اسلام تک دنیا میں جتنے بھی مذاہب وجود میں آئے ان کے صحیح اعدادوشمار کا کسی کو بھی علم نہیں ۔ کچھ مذاہب وقت کے ساتھ ساتھ مٹ گئے ۔ علمائے تحقیق کے مطابق عصرِ حاضر یا عصرِ جدید میں باقی رہ جانے والے نمایاں مذاہب میں ہندومت ، سکھ ، بدھ مت ، جین مت ، زرتشت یا پارسی ، یہودیت ، عیسائیت اور ہمارا دینِ حنیف اسلام ۔ عالمگیر سطح پر دو مذاہب عیسائیت اور اسلام کا عددی شمار ہوتا ہے ۔
دنیا کا بیشتر خطہ انھی مختلف مذاہب کو ماننے والے اکثریتی اوراقلیتی آبادیوں میں منقسم ہیں ۔ کہیں کچھ مذہب کو ماننے والے غالب اکثریت میں ہیں کہیں اقلیتی تعداد میں ۔ لیکن عام مشاہدے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ قلیل تعداد میں ہوتے ہوئے بھی وہ لوگ ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں اہم اور شاندار کارنامے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رقم کر جاتے ہیں اور اپنی قومی شناخت کا بین ثبوت چھوڑ جاتے ہیں ، قطع نظر اس کے ان کا کس زبان ، مسلک یا ثقافت سے تعلق ہو مجموعی طور پر محبِ وطن ہو نے کی حیثیت میں قومی سوچ رکھتے ہوئے اپنا مقصد ِ حیات پورا کر جاتے ہیں ۔ دنیا میں عقائد یا مذہبی عددی شماریات کے اعتبار سے سرِ فہرست عیسائیت اور مسلم ریاستوں کے علاوہ مخصوص مذاہب ہندو، بدھ مت کی ریاستوں کا وجود ہے جو اپنے عقائد کے اکثریت ہونے کا ثبوت پیش کر رہی ہیں ۔
عیسوی سال 2015 کا رواں دواں مہینہ اگست ہے اس مہینے کی خصوصیت و اہمیت یہ ہے کہ اس ماہ کے چودھویں دن ہماری نظریاتی ریاست اسلامی مملکت جمہوریہ دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ ایشیا کے جنوب میں برِ صغیر کی کوکھ سے جنم لینے والی ریاست اور برطانوی حاکمیت سے آزادی حاصل کرنے والی یہ سلطنت اپنی عمر کے قیمتی 68سال مکمل کر چکی ہے جو خالصتاًاسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا ۔ اس آزاد سرزمین میں مسلمانوں کی غالب اکثریت 98 فیصد ہے جب کہ 2 فیصد آبادی غیر مسلمین عیسائی ، ہندو اور پارسیوں کی قلیل تعداد پر مشتمل ہے جس کو ہم سرکاری زبان میں اقلیت کہتے ہیں ۔
قیام پاکستان کے بعد بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناح نے مجلسِ دستور ساز پاکستان کا پہلا صدر منتخب ہونے پر 11اگست 1947کو اپنے افتتاحی خطاب میں اقلیتوں کے بارے میں اس عزم کا اظہار کیا تھا:'' آج بھی ایسے ممالک موجود ہیں جہاں ایک مخصوص فرقے سے امتیاز برتا جاتا ہے اور ان پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں ۔ خدا کا شکر ہے کہ ہم نے ایسے حالتِ سفرکا آغاز نہیں کیا ہے ہم اس زمانے میں یہ ابتداء کر رہے ہیں جب اس طرح کی تفریق روا نہیں رکھی جاتی ہے ۔ دو فرقوں کے مابین کوئی امتیاز نہیں ۔ مختلف ذاتوں اور عقائد میں کوئی تفریق نہیں کی جاتی ۔ ہم اس بنیادی اصول کے ساتھ ابتداء کر رہے ہیں کہ ہم سب شہر ی ہیں اور ایک مملکت کے یکساں شہری ہیں ۔''
یہ تھا مجلسِ دستور سے پاکستان کے پہلے اجلاس میں بانیِ پاکستان کا پہلا رہنما خطاب جس میں پاکستان کے بنیادی اصول اور مذہبی اقلیتوں کے ساتھ رواداری و بقائے باہمی کی ضمانت کی طرف رہنمائی کی گئی تھی۔ مزید برآں اس مجلس سے 14اگست 1947 کو خطاب کرتے ہوئے اقلیتوں کے تمام خدشات کو دور کیا ۔ انھوں نے تاریخ سے مثال دے کر اقلیتوں کو اطمینان دلایا کہ ان کے حقوق کی پاسداری ہماری روایت ہی نہیں بلکہ ہمارا دینی فریضہ بھی ہے جو ہر مسلمان پر لازم ہے ۔ پھر فرمایا '' بحیثیت ِ خادمانِ پاکستان ہم انھیں خوشیاں فراہم کریں گے اور ان کے ساتھ وہی سلوک روا رکھا جائے گا جو اپنی قومیت والوں سے ہو گا۔''
معروف مغل شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر نے تمام غیر مسلموں کے ساتھ رواداری اور حسنِ سلوک کا مظاہرہ کیا ۔ یہ کوئی نئی بات نہ تھی بلکہ اس کا آغاز آج سے 1400 سال قبل ہمارے پیغمبر حضرت محمد ﷺ نے کردیا تھا ۔
تاریخ کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ دور قدیم میں غالب اکثریت اقتدار میں آتے ہی سب سے پہلا کام یہ کرتی تھی کہ اقلیت کو بری طرح نظرانداز کرتی تھی۔ اسی لیے پاکستان کے دستور میں ترجیحی بنیادوں پر اس امر پر زور دیاگیاکہ اقلیت کسی بھی نوعیت کی ہو ان کے انسانی اوربنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے۔
وفاقی سطح پر اقلیتوں کے تحفظ کے لیے وزارت اقلیتی امور کا قیام اور اقلیتی امور کی وزارت کا قلمدان بھی کسی اقلیتی امیدوار کو ہی سونپنا پاکستان میںاقلیتوں کے تحفظ کی واضح دلیل ہے۔ملک کا ہر شعبہ خواہ وہ تعلیمی ہو، ثقافتی ہو، تجارتی ہو، معاشی ہو یاکوئی اور شعبہ ہو ہر شعبے میں اقلیتی کوٹہ مختص کیاجاتاہے اور اس پر عمل درآمد بھی کیاجاتاہے۔
ہمارے ملک کی معززاقلیتی برادری ''پارسی'' کا جشن نوروز یوم آزادی کے چوتھے روز یعنی 18اگست کو منایا جا رہاہے۔ ملک کی تعمیر وترقی میں جہاں دوسرے مذاہب کے لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے، وہاں پارسیوں نے بھی ملک کی اقتصادیات کو بڑھانے میں اہم کردار اداکیاہے۔ پاکستان کا سب سے پہلا میئر جمشید نسروان جی مہتا پارسی تھے۔پاکستان میں پارسیوں کی کل تعداد بارہ سو ہے۔
کراچی کے مرکزی کمرشل حب میں واقع معیاری تعلیمی وعلمی درسگاہ ''بی وی ایس ماما پارسی ہائی اسکول، آردیشر کوواسجی کی تعمیر کردہ کراچی کی معروف انجینئرنگ یونیورسٹی نادرشاہ ایڈلجی دین شاہ (NED) تعمیرات کی دنیا میں مشہورومعروف صدرایم ایس مارکیٹ کے مدمقابل گھڑیالی بلڈنگ، طب کے شعبے میں انکل سریا اسپتال کا قیام، فن نقش ونگاری کا شعبہ، سیاحت کے شعبے میں پانچ ستارے معیارکے اقامتی ہوٹلز، بیچ لگژری ہوٹلز کے علاوہ ملک کے انتہائی حساس ودفاعی شعبہ جات، پاکستان آرمی، پاک بحریہ میں جنگی خدمات پیش کرچکے ہیں۔ جن میں نمایاں نام پاک فوج کے میجر جنرل کیزادسپاری والا کو نمایاں عسکری خدمات پر نشان امتیاز (ملٹری) عطا کیا جا چکا ہے۔ پاک فضائیہ کے ایرکموڈور پرسی ویرجی، پاک بحریہ کے کمانڈر ایف ڈی ہریکہ اور کیپٹن نوشیر جہانگیرخدمات انجام دے چکے ہیں۔ ان معززین کا تعلق بھی پارسی مذہب سے تھا۔
میرے ہم وطنو! یادرکھنا اکثریت کے گھمنڈ میں رہ کر ان قلیل تعداد میں اپنے اقلیتی بھائیوں کو فراموش کرنا بہت بڑی غلطی ہوگی۔ ملک کے لیے کم تعداد میں ہونے کے باوجود اقلیتوں کا کنٹری بیوشن روز روشن کی طرح عیاں ہے، اگرہم ایمانداری کے ساتھ ان کی خدمات کاجائزہ لیں تو وہ بھی کسی طرح ہم سے پیچھے نظرنہیں آتے۔ آج سے اس سچائی اورحقیقت کادل سے اعتراف کریں کہ ''پاکستان کی سرزمین اقلیتیوں کی بھی ہے۔''
آپ تاریخ انسانی کے کسی بھی دور سے گزریے اور دنیا کے کسی خطے پر نظر دوڑائیں ، ایک چیز آپ کو ہر مقام اور ہر زمانے میں بطور قدرِ مشترک ملے گی یعنی لوگوں نے کوئی نہ کوئی ہستی (محسوس چیز یا غیر مرئی وغیر محسوس تصوراتی قوت ) ایسی تجویز کر رکھی ہوگی جس کے سامنے وہ جھکنے پر مجبور ہوں ، جس کی پرستش کرتے ہوں ، راہِ نجات کا ذریعہ سمجھتے ہوں ۔
عالمِ بشریت کی کسی ذہنیت ، روش اور طرزِ فکر کو جس میں اس نے اپنے لیے کسی غیبی یا الہامی شے یا قوت کو(Object of worship)کی حیثیت دے رکھی ہو ۔ بالعموم مذہب کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ کانٹ کہتا ہے ۔''ہر فریضہ کو خدائی حکم سمجھنا مذہب ہے اور مذہب عین اخلاق ہے ۔'' پروفیسر اے این وائٹ ہیڈ نے مذہب کے متعلق مختلف مقامات پر بے شمار تصریحات بیان کی ہیں ۔ ایک جگہ وہ لکھتا ہے کہ '' انسان جو کچھ اپنی ذات کی تنہائی سے کرتا ہے مذہب ہے ۔
دوسری جگہ لکھتا ہے '' مذہب عقیدے کی اس قوت کا نام ہے جس سے انسان کو اندرونی پاکیزگی حاصل ہو جاتی ہے ۔'' مذہب کے لفظی معنی روشن یا طریقہ اختیار کرنا یا کسی ہستی پر مکمل اعتقاد غرض کسی شے کو مقدس سمجھنا مذہب کے زمرے میں آتا ہے، جو بلاشبہ ایک انسانی فطرت ہے۔ مذہب سب سے پہلے کب ؟ کہاں ؟اور کیسے وجود میں آیا ؟اس کا موجدِ اول کون تھا ؟ دور کون سا تھا ؟ خطہ کیا تھا ؟ ایک ایسے سوالیہ شکل میں ہنوز تاریخ کے دروازے پر منتظر ، ایک دائمی حقیقت ہے۔
ابتدائے انسانیت سے طلوع اسلام تک دنیا میں جتنے بھی مذاہب وجود میں آئے ان کے صحیح اعدادوشمار کا کسی کو بھی علم نہیں ۔ کچھ مذاہب وقت کے ساتھ ساتھ مٹ گئے ۔ علمائے تحقیق کے مطابق عصرِ حاضر یا عصرِ جدید میں باقی رہ جانے والے نمایاں مذاہب میں ہندومت ، سکھ ، بدھ مت ، جین مت ، زرتشت یا پارسی ، یہودیت ، عیسائیت اور ہمارا دینِ حنیف اسلام ۔ عالمگیر سطح پر دو مذاہب عیسائیت اور اسلام کا عددی شمار ہوتا ہے ۔
دنیا کا بیشتر خطہ انھی مختلف مذاہب کو ماننے والے اکثریتی اوراقلیتی آبادیوں میں منقسم ہیں ۔ کہیں کچھ مذہب کو ماننے والے غالب اکثریت میں ہیں کہیں اقلیتی تعداد میں ۔ لیکن عام مشاہدے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ قلیل تعداد میں ہوتے ہوئے بھی وہ لوگ ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں اہم اور شاندار کارنامے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رقم کر جاتے ہیں اور اپنی قومی شناخت کا بین ثبوت چھوڑ جاتے ہیں ، قطع نظر اس کے ان کا کس زبان ، مسلک یا ثقافت سے تعلق ہو مجموعی طور پر محبِ وطن ہو نے کی حیثیت میں قومی سوچ رکھتے ہوئے اپنا مقصد ِ حیات پورا کر جاتے ہیں ۔ دنیا میں عقائد یا مذہبی عددی شماریات کے اعتبار سے سرِ فہرست عیسائیت اور مسلم ریاستوں کے علاوہ مخصوص مذاہب ہندو، بدھ مت کی ریاستوں کا وجود ہے جو اپنے عقائد کے اکثریت ہونے کا ثبوت پیش کر رہی ہیں ۔
عیسوی سال 2015 کا رواں دواں مہینہ اگست ہے اس مہینے کی خصوصیت و اہمیت یہ ہے کہ اس ماہ کے چودھویں دن ہماری نظریاتی ریاست اسلامی مملکت جمہوریہ دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ ایشیا کے جنوب میں برِ صغیر کی کوکھ سے جنم لینے والی ریاست اور برطانوی حاکمیت سے آزادی حاصل کرنے والی یہ سلطنت اپنی عمر کے قیمتی 68سال مکمل کر چکی ہے جو خالصتاًاسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا ۔ اس آزاد سرزمین میں مسلمانوں کی غالب اکثریت 98 فیصد ہے جب کہ 2 فیصد آبادی غیر مسلمین عیسائی ، ہندو اور پارسیوں کی قلیل تعداد پر مشتمل ہے جس کو ہم سرکاری زبان میں اقلیت کہتے ہیں ۔
قیام پاکستان کے بعد بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناح نے مجلسِ دستور ساز پاکستان کا پہلا صدر منتخب ہونے پر 11اگست 1947کو اپنے افتتاحی خطاب میں اقلیتوں کے بارے میں اس عزم کا اظہار کیا تھا:'' آج بھی ایسے ممالک موجود ہیں جہاں ایک مخصوص فرقے سے امتیاز برتا جاتا ہے اور ان پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں ۔ خدا کا شکر ہے کہ ہم نے ایسے حالتِ سفرکا آغاز نہیں کیا ہے ہم اس زمانے میں یہ ابتداء کر رہے ہیں جب اس طرح کی تفریق روا نہیں رکھی جاتی ہے ۔ دو فرقوں کے مابین کوئی امتیاز نہیں ۔ مختلف ذاتوں اور عقائد میں کوئی تفریق نہیں کی جاتی ۔ ہم اس بنیادی اصول کے ساتھ ابتداء کر رہے ہیں کہ ہم سب شہر ی ہیں اور ایک مملکت کے یکساں شہری ہیں ۔''
یہ تھا مجلسِ دستور سے پاکستان کے پہلے اجلاس میں بانیِ پاکستان کا پہلا رہنما خطاب جس میں پاکستان کے بنیادی اصول اور مذہبی اقلیتوں کے ساتھ رواداری و بقائے باہمی کی ضمانت کی طرف رہنمائی کی گئی تھی۔ مزید برآں اس مجلس سے 14اگست 1947 کو خطاب کرتے ہوئے اقلیتوں کے تمام خدشات کو دور کیا ۔ انھوں نے تاریخ سے مثال دے کر اقلیتوں کو اطمینان دلایا کہ ان کے حقوق کی پاسداری ہماری روایت ہی نہیں بلکہ ہمارا دینی فریضہ بھی ہے جو ہر مسلمان پر لازم ہے ۔ پھر فرمایا '' بحیثیت ِ خادمانِ پاکستان ہم انھیں خوشیاں فراہم کریں گے اور ان کے ساتھ وہی سلوک روا رکھا جائے گا جو اپنی قومیت والوں سے ہو گا۔''
معروف مغل شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر نے تمام غیر مسلموں کے ساتھ رواداری اور حسنِ سلوک کا مظاہرہ کیا ۔ یہ کوئی نئی بات نہ تھی بلکہ اس کا آغاز آج سے 1400 سال قبل ہمارے پیغمبر حضرت محمد ﷺ نے کردیا تھا ۔
تاریخ کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ دور قدیم میں غالب اکثریت اقتدار میں آتے ہی سب سے پہلا کام یہ کرتی تھی کہ اقلیت کو بری طرح نظرانداز کرتی تھی۔ اسی لیے پاکستان کے دستور میں ترجیحی بنیادوں پر اس امر پر زور دیاگیاکہ اقلیت کسی بھی نوعیت کی ہو ان کے انسانی اوربنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے۔
وفاقی سطح پر اقلیتوں کے تحفظ کے لیے وزارت اقلیتی امور کا قیام اور اقلیتی امور کی وزارت کا قلمدان بھی کسی اقلیتی امیدوار کو ہی سونپنا پاکستان میںاقلیتوں کے تحفظ کی واضح دلیل ہے۔ملک کا ہر شعبہ خواہ وہ تعلیمی ہو، ثقافتی ہو، تجارتی ہو، معاشی ہو یاکوئی اور شعبہ ہو ہر شعبے میں اقلیتی کوٹہ مختص کیاجاتاہے اور اس پر عمل درآمد بھی کیاجاتاہے۔
ہمارے ملک کی معززاقلیتی برادری ''پارسی'' کا جشن نوروز یوم آزادی کے چوتھے روز یعنی 18اگست کو منایا جا رہاہے۔ ملک کی تعمیر وترقی میں جہاں دوسرے مذاہب کے لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے، وہاں پارسیوں نے بھی ملک کی اقتصادیات کو بڑھانے میں اہم کردار اداکیاہے۔ پاکستان کا سب سے پہلا میئر جمشید نسروان جی مہتا پارسی تھے۔پاکستان میں پارسیوں کی کل تعداد بارہ سو ہے۔
کراچی کے مرکزی کمرشل حب میں واقع معیاری تعلیمی وعلمی درسگاہ ''بی وی ایس ماما پارسی ہائی اسکول، آردیشر کوواسجی کی تعمیر کردہ کراچی کی معروف انجینئرنگ یونیورسٹی نادرشاہ ایڈلجی دین شاہ (NED) تعمیرات کی دنیا میں مشہورومعروف صدرایم ایس مارکیٹ کے مدمقابل گھڑیالی بلڈنگ، طب کے شعبے میں انکل سریا اسپتال کا قیام، فن نقش ونگاری کا شعبہ، سیاحت کے شعبے میں پانچ ستارے معیارکے اقامتی ہوٹلز، بیچ لگژری ہوٹلز کے علاوہ ملک کے انتہائی حساس ودفاعی شعبہ جات، پاکستان آرمی، پاک بحریہ میں جنگی خدمات پیش کرچکے ہیں۔ جن میں نمایاں نام پاک فوج کے میجر جنرل کیزادسپاری والا کو نمایاں عسکری خدمات پر نشان امتیاز (ملٹری) عطا کیا جا چکا ہے۔ پاک فضائیہ کے ایرکموڈور پرسی ویرجی، پاک بحریہ کے کمانڈر ایف ڈی ہریکہ اور کیپٹن نوشیر جہانگیرخدمات انجام دے چکے ہیں۔ ان معززین کا تعلق بھی پارسی مذہب سے تھا۔
میرے ہم وطنو! یادرکھنا اکثریت کے گھمنڈ میں رہ کر ان قلیل تعداد میں اپنے اقلیتی بھائیوں کو فراموش کرنا بہت بڑی غلطی ہوگی۔ ملک کے لیے کم تعداد میں ہونے کے باوجود اقلیتوں کا کنٹری بیوشن روز روشن کی طرح عیاں ہے، اگرہم ایمانداری کے ساتھ ان کی خدمات کاجائزہ لیں تو وہ بھی کسی طرح ہم سے پیچھے نظرنہیں آتے۔ آج سے اس سچائی اورحقیقت کادل سے اعتراف کریں کہ ''پاکستان کی سرزمین اقلیتیوں کی بھی ہے۔''