ہمارے رسم و رواج

سادہ مہمان داری تھی گھر کی پکی ہوئی سبزی آلو اور گاجر، مچھلی جو قریبی ڈیم کی تھی اور پراٹھے جو ظاہر ہے



جب میں گورکھ ہل کے ''بے نظیر ویو پوائنٹ'' پر کھڑا تھا تو میرے سامنے خضدار کی وادی کے ہولناک نشیب تھے جن کے پہاڑوں کی دوسری طرف بلوچستان کے علاقے خضدار کی سرحد تھی بلکہ یہ نشیب ہی سندھ اور بلوچستان کی سرحد تھا ، تو میں سوچ رہا تھا ایسا کیوں کہ ہم آپس میں جب سرحد بندی کرتے ہیں تو نشیب درمیان میں کیوں آجاتے ہیں زمین کے یا نیت کے، میں چار سال خضدار رہا ہوں وہاں کے براہوی لوگوں سے واقف ہوں، سخت قوم پرست لوگ ہیں بالکل ایسے ہی جیسے پہاڑوں کے رہنے والوں کے مزاج ہوتے ہیں وہ نہ زمین کی تقسیم برداشت کرتے ہیں نہ تمدن و ثقافت کی، وہ نیا کچھ جذب تو کرلیں گے مگر پرانے سے دستبردار نہیں ہوں گے اور رسم و رواج کو ہرگز تبدیل نہیں کریں گے۔

ایک شادی میں بھی شریک ہوا تھا، وہی موسیقی، رسم و رواج انگلی پر دولہا کی مہندی لگانا، دعوت اور تمام رسمیں رات رات بھر جاری رہنے والی تقریبات، ادھر جب واہی پاندھی کے علاقے میسہو خان جمالی کے ایک اوطاق میں میر حسن جمالی اور دیگر بزرگوں کے ساتھ بیٹھا تھا تو یہاں بھی وہی رسم جو اس علاقے کی ہے مہمان داری اور مہمان کے آرام کا خیال اور پوری کوشش کہ اس علاقے سے وہ ایسا تاثر لے کر جائے کہ یہ علاقہ اور لوگ اسے یاد رہیں اور آج تک یاد ہیں۔

سادہ مہمان داری تھی گھر کی پکی ہوئی سبزی آلو اور گاجر، مچھلی جو قریبی ڈیم کی تھی اور پراٹھے جو ظاہر ہے اس گھی سے تیار تھے جو وہاں کی گائے بھینسوں کے دودھ سے نکالا گیا تھا۔ دو گھنٹے کا قیام زندگی کی یادگار بن گیا۔ آخر اس میں تھا کیا کہ آج بھلائے نہیں بھولتے، دراصل اس میں ان لوگوں کا سو فیصد اخلاص تھا جس کا مظاہرہ انھوں نے اس اوطاق پر آکر مہمانوں کے لیے کیا تھا۔

ساری چارپائیاں بیٹھنے والوں سے بھری تھیں، سوال جواب، دلچسپ معلومات، گاؤں کی خبریں، زمین کا احوال، پانی کی کیفیت، واپڈا کی کارستانیاں، بند ٹیوب ویلوں سے جہاں کنکشن ہی کٹے ہوئے ہیں بل کی وصولی، راستوں کی عدم موجودگی، کچے راستے، یہ لوگ بھی تو اسی ملک کے باشندے ہیں جس کے وزیر اعظم عید کے زمانے میں بجائے اپنے ملک کے اپنے خاندان کے ساتھ سعودی عرب تشریف لے گئے ۔
ماہ رمضان میں وہ لوٹ مچی کہ توبہ بھلی، پورے ملک میں مہنگائی سر چڑھ کر بولی۔حکمرانوں نے عین رمضان میں 6 فیصد کا شوشہ ہی نہیں چھوڑا بلکہ صدارتی آرڈیننس کی داغ بیل بھی ڈال دی اور اب عوام کے ساتھ وہ مذاق کیا جائے گا، جو بھارت کی ایک فلم میں راجیش کھنہ نے وزیر اعلیٰ کے روپ میں کیا تھا۔ ملک میں کرپشن کو دکھانے کے لیے راجیش کھنہ نے جو دراصل ایک حجام تھا اور وزیر اعلیٰ بن گیا تھا۔ بہت سے کام کیے ایک کام یہ تھا کہ روٹی کی قیمت میں پانچ روپے کا اضافہ کردیا اور عوام کے شور پر تین روپے کم کردیے لوگ خوش ہوگئے، دراصل ڈیل یہ ہوئی تھی کہ روٹی پر دو روپے بڑھانے تھے۔

غالباً یہ فلم پاکستان کے وزراء نے دیکھ رکھی ہے اور وہ اسے اور آگے بڑھا کر اب اپنی رقم استعمال کرنے والوں سے بھی ٹیکس لینے پر آمادہ ہیں۔ موبائل فون، پٹرول، بجلی، گیس اور دوسرے نہ جانے کتنے ٹیکسوں کے علاوہ اور مزید ٹیکس کے انتظامات اور منصوبے عوام کے خلاف ان کے ذہن میں ہیں۔

اگر بینک میں رقم رکھو تو ٹیکس، نکالو تو ٹیکس۔ اگر پانچ سال یہ حکومت رہ گئی تو عوام کو بینکوں سے صرف روٹی کھانے کی پرچیاں ملا کریں گی اور وہ بھی سرکاری ہوٹلوں پر چلیں گی اور بوٹیوں کے حصول کے لیے، اور دال گاڑھی حاصل کرنے کے لیے پہلے رشوت شروع ہوگی پھر اسے قانونی شکل دے کر ٹیکس لگا دیا جائے گا اور آدھی روٹی ٹیکس میں کٹ جائے گی۔

راجیش کھنہ نے تو یہ سب کچھ کرکے دکھا کے ساری رقم سرکار کے حوالے کردی تھی اور سرکاری وزرا اور حکام کو قانون کے حوالے کردیا تھا مگر ہمارے ایسا نہیں کریں گے یہ اسے مستقل قانون بنادیں گے اور اگلے بجٹ میں عوام کو مہنگائی کی بنیاد پر ساڑھے تین فیصد تنخواہوں میں اضافے کی نوید سنائیں گے کیونکہ اس وقت یہ کہیں گے کہ تمام ایڈہاک کو بنیادی تنخواہ کا حصہ بنادیا گیا ہے لہٰذا اب اضافے کی ضرورت تو نہیں ہے مگر حکومت چاہتی ہے کہ عوام خوشحال رہیں لہٰذا ساڑھے تین فیصد خوشحالی ایڈہاک ریلیف ہے۔
پاکستان ایک ملک جسے ایک نظریے اور اصول کے تحت حاصل کیا گیا کہ برصغیر کے مسلمانوں کو انگریز کے بعد ہندو کی غلامی نہ کرنی پڑے اور صلح و آشتی کے ساتھ برصغیر کو اس طرح تقسیم کردیا جائے کہ اس میں بسنے والی دونوں قومیں آزادی اور عزت کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں۔ مگر ''کالا صاحب '' کو یہ قبول نہیں تھا کہ پاکستان کے قائم ہونے کا سب کو فائدہ ہو وہ تو لاٹ صاحب، میرصاحب، خان بہادر، سردار صاحب، سر کے رنگین خوابوں کے سوداگر ہیں اور تھے تو پاکستان بننے کے بعد ہی یہ گٹھ جوڑ اس کوشش میں لگ گیا کہ نام ضرور پاکستان رہے مگر ہو یہ ہمارے خوابوں کی سرزمین، لہٰذا پہلے قوم کے طور پر ہندوؤں کے چھوڑے ہوئے مکانات اور زمین جائیدادوں پر قبضہ کرکے اپنی جاگیروں کو وسیع کیا گیا، اور آنے والے لوگوں کے نام پر خوب لوٹ مار کی گئی۔

آج کی نسل کو تو یہی بتایا گیا کہ جو لوگ ہندوستان سے آئے انھوں نے ہر چیز پر قبضہ کرلیا، یہ سیاست کے طور طریقے ہیں جو مائی باپ انگریز ان کو بہت اچھی طرح سکھا کر گیا تھا، وفاداریوں کے عوض اور اس کو انھوں نے بھولے بھالے لوگوں پر چابکدستی سے استعمال کیا۔ اس کے بعد ملک کی سیاست پر قبضے کی باری آئی تو قائد اعظم اور لیاقت علی خان کو راستے سے ہٹا کر غلام محمد کے ذریعے اقتدار اور سیاست دونوں پر قبضہ کرلیا گیا، غلام محمد پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ داغ ہے جس نے اس ملک کو شرافت، انسانیت، بھائی چارے اور اخلاص ہر جوہر انسانی سے محروم کردیا اور یہ سلسلہ آگے چل کر اسکندر مرزا، جنرل ایوب خان اور اس کے بعد سے اب تک پھیلا ہوا ہے۔
پاکستان کی ترقی اور تنزلی دونوں کے ذمے دارآمر ہیں۔ جتنی بھی عوامی نام نہاد حکومت رہی اور ہے وہ سیاسی آمریت کی بدترین شکل تھی اور ہے پاکستان کی کسی سیاسی جماعت نے پاکستان کے لیے نہیں صرف اپنے لوگوں کے لیے کام کیا۔ پاکستان ایک چراگاہ ہے اور اس کے سیاستدان اس چراگاہ کے شکاری۔ اب تو سپریم کورٹ میں موجودہ اور سابقہ حکمرانوں کا کچا چٹھا پہنچ گیا ہے دیکھیے کیا ہو کیونکہ ہم وہ لوگ ہیں ۔۔۔۔ خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں ۔

اب یہاں پاکستان کا آئین ایک مقدس دستاویز کہلاتا ہے۔ تو اسے رکھ کر سوچ لیجیے۔ اب ہم اس مقام پر ہیں کہ جہاں صرف مفاد پرستوں کو کچھ سمجھا جاتا ہے، مانا جاتا ہے، اور دیا جاتا ہے چاہے وہ قریبی رشتے دار ہوں۔ مقصد یہ ہے کہ اب ان کی نگاہ پاکستان سے باہر ہے، اکثر رہتے بھی باہر ہیں، اقتدار میں ہوں تو سرکاری خرچے پر رہتے ہیں اور اگر اقتدار میں نہ ہوں تو حساب لگاتے رہتے ہیں کہ کتنا اصل سے خرچ ہوگیا ہے۔ اقتدار ملتے ہی پہلے وہ پورا کرنا ہے، منافع تو آتا ہی رہے گا وہ کہاں جاتا ہے۔ کیا کریں پاکستان کے عوام وہ جانور جن کی کھالیں بھی اچھی قیمت کی ہیں، جن کا اون بھی اچھی کوالٹی کا ہے۔

اور دودھ اور گوشت تو ہے ہی لاجواب۔ نہ بولنے والی بھیڑیں، شاید ہم سب اب بھیڑیں بن چکے ہیں تو نجات دہندہ کب آئے گا۔ بہت دیر ہوگئی قوم کی زندگی کی شام ہونے والی ہے اب تو نجات دہندہ کو آجانا چاہیے۔ گورکھ ہل کے بے نظیر ویو پوائنٹ پر کھڑا دعا مانگ رہا ہوں اے اللہ! یہ وادیاں گواہ ہیں ہم اپنے ملک سے بہت پیار کرتے ہیں مگر ہمیں بے دست و پا کردیا گیا ہے۔ اے ہواؤں کے مالک، سمندروں کے بادشاہ، فضاؤں کے خدا ہم پر ایک بار اور رحم کر، ہمیں اس بار ہمت، طاقت اور عقل کے ساتھ ساتھ سچائی کی پہچان عطا فرما ۔(آمین!)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں