ٹریفک پولیس سے گزارشات
ٹرانسپورٹ کے حوالے سے ہم مسائل کے دریا میں اتر چکے ہیں۔
KARACHI:
گزشتہ دنوں ایڈیشنل آئی جی پولیس کراچی مشتاق مہر نے ٹریفک کے مسائل حل کرنے کے لیے ''ٹریفک مینجمنٹ بورڈ'' کو عملی شکل دی ہے اور کہا ہے کہ اگر ٹریفک کے حوالے سے عوام کو کوئی بھی شکایت ہے تو وہ اس ای میل پر رابطہ کرکے تجاویز دے سکتے ہیں، traffic@sindhpolice.com.pk ایڈیشنل آئی جی ٹریفک خادم حسین بھٹی کا کہنا ہے کہ ہمیں شہریوں کا تعاون چاہیے جب کہ مشتاق احمد مہر عوام کی سہولت کے لیے پیر تا جمعہ 3 بجے سے لے کر 5 بجے شام تک کراچی پولیس آفس میں شہریوں کے مسائل و مشکلات براہ راست سنیں گے اور اس کے فوری حل کے لیے متعلقہ پولیس ذمے داران کو احکامات جاری کیا کریں گے۔
وقت کا تقاضہ ہے کہ کراچی میں ٹریفک کے مسائل پر خصوصی توجہ دی جائے اور قواعد و ضوابط پر عمل کرایا جائے کیوں کہ ٹریفک کے مسائل کا پھوڑا پک گیا ہے اور اس پھوڑے کا علاج صرف اور صرف آئی جی سندھ، ایڈیشنل آئی جی اور ایڈیشنل آئی جی ٹریفک ہی کرسکتے ہیں۔ پولیس کے ترجمان اصل حقائق جو اخبارات کے تراشوں کی صورت میں ہوتے ہیں ،اعلیٰ افسران تک پہنچنے نہیں دیتے جس کی وجہ سے ہمارے پولیس افسران لاعلم ہوتے ہیں۔ آئی جی سندھ ٹریفک کہتے ہیں کہ موٹر سائیکل سوار ہیلمٹ کا استعمال کریں، ٹریفک کے حوالے سے ہیلمٹ اس شہر کا بنیادی مسئلہ نہیں ہے، شہر میں ٹرانسپورٹ کے حوالے سے جو مشکلات ہیں آئی جی ٹریفک پہلے ان پر توجہ دیں۔
اس وقت کراچی میں تقریباً 17لاکھ موٹر سائیکلیں ہیں، میری آئی جی ٹریفک سے چند گزارشات ہیں اگر وہ اس پر عمل کروادیں تو نہ آپ کو ای میل کی ضرورت رہے گی اور نہ پولیس ہیڈ آفس میں بیٹھ کر مسائل سننے کی ضرورت پیش آئے گی۔
ٹرانسپورٹ کے حوالے سے ہم مسائل کے دریا میں اتر چکے ہیں۔ شہر میں 90 فیصد موٹر سائیکل کے نہ تو انڈیکیٹر (اشارہ) ہیں نہ سائڈ گلاس نہ کاغذات مکمل ہوتے ہیں، نہ لائسنس، موٹر سائیکل رکھنے والے حضرات اس پر پہلی فرصت میں توجہ دیں، لائسنس اور ٹیکس کی مد میں حکومت کو کروڑوں روپے وصول ہوں گے۔
70فیصد موٹر سائیکل والوں کی نمبر پلیٹ ہی نہیں ہوتی اور آگے کی نمبر پلیٹ 95 فیصد نہیں ہوتی، اکثر خواتین 13 سال کی عمر کے بچوں کے ساتھ موٹر سائیکل پر فخر سے بیٹھتی ہیں اور وہ سمجھتی ہیں کہ اب ان کا بچہ جوان ہوگیا ہے، موٹر سائیکل سواروں کو پابند کیا جائے کہ وہ ایک ماہ کے اندر کاغذات، لائسنس، سائڈ گلاس اور انڈیکیٹر لگوائیں اور مڑنے سے قبل انڈیکیٹر (اشارہ) دیں، انھیں پابند کیا جائے کہ یہ اپنی سائڈ پر چلیں اس شہر میں بیشتر افراد ان کی غلط ڈرائیونگ کی وجہ سے ہاتھ ،پیر تڑوابیٹھتے ہیں، آج کل یہ فیشن بھی عام ہوگیا ہے کہ نوجوان موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ایس ایم ایس کرتے ہیں۔
ان کے کانوں میں ہیڈ فون لگے ہوتے ہیں ان کو بچانا کار والوں کا فرض بن کر رہ گیا ہے انھیں اردگرد کے ماحول کا پتہ نہیں ہوتا آپ لاکھ ہارن بجاتے رہیں جلدی نکلنے کے چکر میں یہ کار یا کسی بھی گاڑی کے انڈیکیٹر کو نہیں دیکھتے اور موڑنے والا گاڑی سوار جب گاڑی موڑتا ہے تو یہ گاڑی سے ٹکرا کر گرتے ہیں زیادہ چوٹ آجائے موٹر سائیکل سوار کو تو پھر کورٹ کچہری ہوتی ہے، اس میں گاڑی والے کا کیا قصور ہے وہ عدالتوں کے چکر کاٹتا ہے اور ان کا علاج بھی کروانے کا ذمے دار ہوتا ہے، سگنل پر گاڑیاں قطار میں کھڑی ہوتی ہیں۔
یہ قطار توڑ کر آگے نکلتے ہیں جس سے گاڑیوں پر اسکریچ پڑتے ہیں اور سائڈ گلاس ٹوٹ جاتے ہیں اور یہ موٹر سائیکل والے حضرات گھورتے ہوئے آگے نکل جاتے ہیں، شریف شہری کی زندگی عذاب میں مبتلا ہوگئی ہے 13 اور 14 سال کے بچے زگ زیگ کرتے ہوئے موٹر سائیکل چلاتے ہیں ان کو بچانا بھی گاڑی والوںکا کام ہے۔
پولیس ان کم عمر بچوں کا تماشہ دیکھتی رہتی ہے جو موٹر سائیکل سوار ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں۔ انھیں قواعد و ضوابط بتائے جائیں ہیلمٹ ضروری ہے مگر یہ مسئلے کا حل نہیں۔ بیمار موٹر سائیکل سواروں کو اس سے استثنیٰ حاصل ہونا چاہیے، خاص طور پر گردن کے مہروں کی تکلیف میں مبتلا افراد کو ہیلمٹ سے مستثنیٰ ہونا چاہیے۔
وہ گردن میں کالر لگاتے ہیں وہ کیسے ہیلمٹ استعمال کرسکتے ہیں۔ ناکافی ٹرانسپورٹ کے باعث ویگنیں بھری ہوتی ہیں، لوگ چھتوں پر بھی سفر کرتے ہیں اور چھت پر بیٹھے منچلے گٹکا یا پان کھا کر بڑے اطمینان سے نیچے تھوکتے ہیں، جلتے ہوئے سگریٹ نیچے پھینک دیتے ہیں، یہ شرفا کی انسانیت سوز تذلیل ہے۔
یہ شائستہ قوموں کی نشانی نہیں، قوم معزز جب ہی بنتی ہے جب اسے قانون کا پابند بنایا جائے اس شہر کی ٹریفک کو چنگ چی والوں نے مسائل کا تاریک کنواں بنادیا ہے۔ 13 سے 14 سال کے بچے انھیں چلاتے ہوئے بے ہنگم طریقے سے روڈ بلاک کرکے کھڑے رہتے ہیں، پولیس بھی کہاں تک ان افراد پر قابو پائے گی، ہماری پولیس یہ اقدام تو کرسکتی ہے کہ ان کے کاغذات اور لائسنس چیک کرے۔
7 سیٹر اور 9 سیٹر رکشا والوں نے ٹریفک کے مسائل بڑھا دیے ہیں۔ ان کی بھی سختی سے چیکنگ کی جائے سخت چیکنگ سے 90 فیصد چنگ چی اور رکشا والے خود ہی گھر کی راہ لیں گے، آپ کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ۔ون وے (غلط سمت) پر بھی ٹریفک کا چلنا ایک بڑا مسئلہ ہے، روز حادثے ہوتے ہیں جو شریف شہری غلط سمت سے نہیں آرہا وہ بھی حادثے کی صورت میں غلط سمت سے آنے والی گاڑی کے نقصانات کے پیسے ادا کررہا ہوتا ہے۔
ون وے کو ان دادا گیروں اور بدمعاشوں نے اپنا حق سمجھ لیا ہے اور حادثے کی صورت میں شریف شہری کو سنگین الزامات اور گالیوں سے نوازاتے ہیں اور ان قانون توڑنے والے دادا گیروں کو پولیس نے کھلی چھٹی دے رکھی ہے، یہ مت سوچیں کہ رکشا اور چنگ چی بند ہونے سے لوگوں کو ٹرانسپورٹ کی سہولت ختم ہوجائے گی، یہ بات آپ حضرات کے سوچنے کی نہیں ہے یہ صوبے کے وزیراعلیٰ اور صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ کا کام ہے کہ وہ ان مسائل پر توجہ دیں۔
برائے مہربانی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اور سیاسی پارٹیوں کی وابستگی سے بالا ہوکر اس شہر کے بے یارو مددگار شریف شہریوں کو دیکھیں جو باقاعدہ قانون کی حکمرانی پر عمل کرتے ہیں۔
سیاسی مفادات کو پس پشت ڈال کر قانون کی حکمرانی کو اجاگر کیجیے کہ آپ میں سے بیشتر افسران انتہائی قابل ہیں۔ ٹریفک کے مسائل پر متذکرہ بالا تجاویز پر عمل کرایا جائے تو پھر آپ کو کسی ای میل کی ضرورت نہیں رہے گی نا پولیس ہیڈ آفس میں آپ معزز افسران کو عوامی کالیں سننے کی ضرورت ہو گی، صرف اچھی منصوبہ بندی ہی ٹریفک کے حالات کو بہتر بناسکتی ہے ۔ آپ ان چند گزارشات پر عمل کرکے معزز شہریوں کو انسانیت سوز تذلیل سے بچالیں گے جس کے جواب میں شہری آپ کے ممنون ہوں گے۔
گزشتہ دنوں ایڈیشنل آئی جی پولیس کراچی مشتاق مہر نے ٹریفک کے مسائل حل کرنے کے لیے ''ٹریفک مینجمنٹ بورڈ'' کو عملی شکل دی ہے اور کہا ہے کہ اگر ٹریفک کے حوالے سے عوام کو کوئی بھی شکایت ہے تو وہ اس ای میل پر رابطہ کرکے تجاویز دے سکتے ہیں، traffic@sindhpolice.com.pk ایڈیشنل آئی جی ٹریفک خادم حسین بھٹی کا کہنا ہے کہ ہمیں شہریوں کا تعاون چاہیے جب کہ مشتاق احمد مہر عوام کی سہولت کے لیے پیر تا جمعہ 3 بجے سے لے کر 5 بجے شام تک کراچی پولیس آفس میں شہریوں کے مسائل و مشکلات براہ راست سنیں گے اور اس کے فوری حل کے لیے متعلقہ پولیس ذمے داران کو احکامات جاری کیا کریں گے۔
وقت کا تقاضہ ہے کہ کراچی میں ٹریفک کے مسائل پر خصوصی توجہ دی جائے اور قواعد و ضوابط پر عمل کرایا جائے کیوں کہ ٹریفک کے مسائل کا پھوڑا پک گیا ہے اور اس پھوڑے کا علاج صرف اور صرف آئی جی سندھ، ایڈیشنل آئی جی اور ایڈیشنل آئی جی ٹریفک ہی کرسکتے ہیں۔ پولیس کے ترجمان اصل حقائق جو اخبارات کے تراشوں کی صورت میں ہوتے ہیں ،اعلیٰ افسران تک پہنچنے نہیں دیتے جس کی وجہ سے ہمارے پولیس افسران لاعلم ہوتے ہیں۔ آئی جی سندھ ٹریفک کہتے ہیں کہ موٹر سائیکل سوار ہیلمٹ کا استعمال کریں، ٹریفک کے حوالے سے ہیلمٹ اس شہر کا بنیادی مسئلہ نہیں ہے، شہر میں ٹرانسپورٹ کے حوالے سے جو مشکلات ہیں آئی جی ٹریفک پہلے ان پر توجہ دیں۔
اس وقت کراچی میں تقریباً 17لاکھ موٹر سائیکلیں ہیں، میری آئی جی ٹریفک سے چند گزارشات ہیں اگر وہ اس پر عمل کروادیں تو نہ آپ کو ای میل کی ضرورت رہے گی اور نہ پولیس ہیڈ آفس میں بیٹھ کر مسائل سننے کی ضرورت پیش آئے گی۔
ٹرانسپورٹ کے حوالے سے ہم مسائل کے دریا میں اتر چکے ہیں۔ شہر میں 90 فیصد موٹر سائیکل کے نہ تو انڈیکیٹر (اشارہ) ہیں نہ سائڈ گلاس نہ کاغذات مکمل ہوتے ہیں، نہ لائسنس، موٹر سائیکل رکھنے والے حضرات اس پر پہلی فرصت میں توجہ دیں، لائسنس اور ٹیکس کی مد میں حکومت کو کروڑوں روپے وصول ہوں گے۔
70فیصد موٹر سائیکل والوں کی نمبر پلیٹ ہی نہیں ہوتی اور آگے کی نمبر پلیٹ 95 فیصد نہیں ہوتی، اکثر خواتین 13 سال کی عمر کے بچوں کے ساتھ موٹر سائیکل پر فخر سے بیٹھتی ہیں اور وہ سمجھتی ہیں کہ اب ان کا بچہ جوان ہوگیا ہے، موٹر سائیکل سواروں کو پابند کیا جائے کہ وہ ایک ماہ کے اندر کاغذات، لائسنس، سائڈ گلاس اور انڈیکیٹر لگوائیں اور مڑنے سے قبل انڈیکیٹر (اشارہ) دیں، انھیں پابند کیا جائے کہ یہ اپنی سائڈ پر چلیں اس شہر میں بیشتر افراد ان کی غلط ڈرائیونگ کی وجہ سے ہاتھ ،پیر تڑوابیٹھتے ہیں، آج کل یہ فیشن بھی عام ہوگیا ہے کہ نوجوان موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ایس ایم ایس کرتے ہیں۔
ان کے کانوں میں ہیڈ فون لگے ہوتے ہیں ان کو بچانا کار والوں کا فرض بن کر رہ گیا ہے انھیں اردگرد کے ماحول کا پتہ نہیں ہوتا آپ لاکھ ہارن بجاتے رہیں جلدی نکلنے کے چکر میں یہ کار یا کسی بھی گاڑی کے انڈیکیٹر کو نہیں دیکھتے اور موڑنے والا گاڑی سوار جب گاڑی موڑتا ہے تو یہ گاڑی سے ٹکرا کر گرتے ہیں زیادہ چوٹ آجائے موٹر سائیکل سوار کو تو پھر کورٹ کچہری ہوتی ہے، اس میں گاڑی والے کا کیا قصور ہے وہ عدالتوں کے چکر کاٹتا ہے اور ان کا علاج بھی کروانے کا ذمے دار ہوتا ہے، سگنل پر گاڑیاں قطار میں کھڑی ہوتی ہیں۔
یہ قطار توڑ کر آگے نکلتے ہیں جس سے گاڑیوں پر اسکریچ پڑتے ہیں اور سائڈ گلاس ٹوٹ جاتے ہیں اور یہ موٹر سائیکل والے حضرات گھورتے ہوئے آگے نکل جاتے ہیں، شریف شہری کی زندگی عذاب میں مبتلا ہوگئی ہے 13 اور 14 سال کے بچے زگ زیگ کرتے ہوئے موٹر سائیکل چلاتے ہیں ان کو بچانا بھی گاڑی والوںکا کام ہے۔
پولیس ان کم عمر بچوں کا تماشہ دیکھتی رہتی ہے جو موٹر سائیکل سوار ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں۔ انھیں قواعد و ضوابط بتائے جائیں ہیلمٹ ضروری ہے مگر یہ مسئلے کا حل نہیں۔ بیمار موٹر سائیکل سواروں کو اس سے استثنیٰ حاصل ہونا چاہیے، خاص طور پر گردن کے مہروں کی تکلیف میں مبتلا افراد کو ہیلمٹ سے مستثنیٰ ہونا چاہیے۔
وہ گردن میں کالر لگاتے ہیں وہ کیسے ہیلمٹ استعمال کرسکتے ہیں۔ ناکافی ٹرانسپورٹ کے باعث ویگنیں بھری ہوتی ہیں، لوگ چھتوں پر بھی سفر کرتے ہیں اور چھت پر بیٹھے منچلے گٹکا یا پان کھا کر بڑے اطمینان سے نیچے تھوکتے ہیں، جلتے ہوئے سگریٹ نیچے پھینک دیتے ہیں، یہ شرفا کی انسانیت سوز تذلیل ہے۔
یہ شائستہ قوموں کی نشانی نہیں، قوم معزز جب ہی بنتی ہے جب اسے قانون کا پابند بنایا جائے اس شہر کی ٹریفک کو چنگ چی والوں نے مسائل کا تاریک کنواں بنادیا ہے۔ 13 سے 14 سال کے بچے انھیں چلاتے ہوئے بے ہنگم طریقے سے روڈ بلاک کرکے کھڑے رہتے ہیں، پولیس بھی کہاں تک ان افراد پر قابو پائے گی، ہماری پولیس یہ اقدام تو کرسکتی ہے کہ ان کے کاغذات اور لائسنس چیک کرے۔
7 سیٹر اور 9 سیٹر رکشا والوں نے ٹریفک کے مسائل بڑھا دیے ہیں۔ ان کی بھی سختی سے چیکنگ کی جائے سخت چیکنگ سے 90 فیصد چنگ چی اور رکشا والے خود ہی گھر کی راہ لیں گے، آپ کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ۔ون وے (غلط سمت) پر بھی ٹریفک کا چلنا ایک بڑا مسئلہ ہے، روز حادثے ہوتے ہیں جو شریف شہری غلط سمت سے نہیں آرہا وہ بھی حادثے کی صورت میں غلط سمت سے آنے والی گاڑی کے نقصانات کے پیسے ادا کررہا ہوتا ہے۔
ون وے کو ان دادا گیروں اور بدمعاشوں نے اپنا حق سمجھ لیا ہے اور حادثے کی صورت میں شریف شہری کو سنگین الزامات اور گالیوں سے نوازاتے ہیں اور ان قانون توڑنے والے دادا گیروں کو پولیس نے کھلی چھٹی دے رکھی ہے، یہ مت سوچیں کہ رکشا اور چنگ چی بند ہونے سے لوگوں کو ٹرانسپورٹ کی سہولت ختم ہوجائے گی، یہ بات آپ حضرات کے سوچنے کی نہیں ہے یہ صوبے کے وزیراعلیٰ اور صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ کا کام ہے کہ وہ ان مسائل پر توجہ دیں۔
برائے مہربانی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اور سیاسی پارٹیوں کی وابستگی سے بالا ہوکر اس شہر کے بے یارو مددگار شریف شہریوں کو دیکھیں جو باقاعدہ قانون کی حکمرانی پر عمل کرتے ہیں۔
سیاسی مفادات کو پس پشت ڈال کر قانون کی حکمرانی کو اجاگر کیجیے کہ آپ میں سے بیشتر افسران انتہائی قابل ہیں۔ ٹریفک کے مسائل پر متذکرہ بالا تجاویز پر عمل کرایا جائے تو پھر آپ کو کسی ای میل کی ضرورت نہیں رہے گی نا پولیس ہیڈ آفس میں آپ معزز افسران کو عوامی کالیں سننے کی ضرورت ہو گی، صرف اچھی منصوبہ بندی ہی ٹریفک کے حالات کو بہتر بناسکتی ہے ۔ آپ ان چند گزارشات پر عمل کرکے معزز شہریوں کو انسانیت سوز تذلیل سے بچالیں گے جس کے جواب میں شہری آپ کے ممنون ہوں گے۔