کرکٹ میوزیم
لارڈز کے میدان میں 1864 سے کرکٹ کے نوادرات رکھے گئے ہیں۔
کچھ ہفتے پہلے کھیلوں کے بارے میں کالم لکھا تھا، جس میں کرکٹ کا خاص طور پر ذکر کیا تھا۔ خوشی کی بات ہے کہ پاکستان نے سری لنکا سے ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹی 20، تینوں شعبوں میں برتری حاصل کی۔اس سیریز کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں نئے لڑکے نا صرف اچھا کھیلے، بلکہ بہت خوب کھیلے۔ نام ودام کما بیٹھے۔
اس کالم میں کرکٹ کی تاریخ کے باب کا ایک ورق پلٹ رہا ہوں۔ جیسا کہ کرکٹ کے کھیل کی ابتدا برطانیہ سے ہوئی، تو اس ملک نے اس کھیل میں اپنے لیے دائمی جگہ بنا ڈالی۔ اور وہ ہے لارڈز کے میدان کا میوزیم۔ اس طرح لارڈز کے میدان کو کرکٹ کا قبلہ بھی کہا جا سکتا ہے۔
1787 میں تھامس لارڈ نامی کرکٹ کا ایک کھلاڑی یارک شائر سے جائیداد کے بزنس میں اپنی قسمت آزمانے کے لیے لندن آیا۔پہلے پہلے اس نے کرکٹ کے میدان بنانا شروع کیے۔ پہلا میدان اس نے ڈورسٹ اسکائر پر اور دوسرا ریجنٹ کنال کے قریب۔ پھر 1814 میں اس نے موجودہ لارڈز کا میدان بنایا، جو زیادہ مشہور ہوا۔
لارڈز کا میدان اِس وقت ایم۔سی۔سی Cricket Club Maryleborne کی ملکیت ہے، جو برطانیہ کا ایک نامور کلب ہے، یہ 1909 سے 2005 تک بین الاقوامی کرکٹ کونسل کا ہیڈ کوارٹر بھی رہا۔ آج کل یہ اعزاز متحدہ عرب امارات کے نام ہے۔
لارڈز کے میدان میں 1864 سے کرکٹ کے نوادرات رکھے گئے ہیں۔ کرکٹ کے شائقین دنیا بھر سے اس میوزیم میں وہ یادگار دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ اس کا باقاعدہ افتتاح ملکہ برطانیہ کے خاوند ڈیوک آف ایڈنبرا نے کیا۔ اس میوزیم میں نامورکھلاڑیوں کے استعمال کی ہوئی گیندیں، بلے، جوتے joggers)،کوٹ (جن کو بلیزرکہا جاتا ہے) اور دیگر کپڑے رکھے ہوئے ہیں۔
لیکن جو خاص چیز وہاں رکھی ہوئے ہے، وہ مٹی کا ایک پیالہ ہے، جس کا قطر diameter صرف 6 انچ ہے۔ اس میں وہ راکھ رکھی ہوئی ہے، جس کو ashes کہا جاتا ہے، جو برطانیہ کے کپتان کو 1882-83 کی سیریز کے بعد فلارنس مرفی نامی ایک خاتون نے تحفے کے طور پر پیش کیا تھا۔ وہ راکھ تھی کرکٹ کے دو bails کی (جو وکٹس پر رکھی جاتی ہیں)۔ اس وقت سے لے کر برطانیہ اور آسٹریلیا کے درمیاں جو سیریزکھیلی جاتی ہے اس کو Ashes سیریز کہا جاتا ہے۔
اس سیریز کا پہلا میچ 1877 میں آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں کھیلا گیا۔برطانیہ کے لوگوں کی کرکٹ سے جذباتی وابستگی فقیدالمثال ہے۔ وہ اوول کے میدان پر پہلی دفعہ 1882 میں شکست سے دو چار ہوا تو لندن کے اخبار Sporting Times Theنے ایک مزاحیہ فاتحہ خوانی obituary شایع کی، جس میں لکھا گیا کہ برطانیہ کی کرکٹ کا انتقال ہو گیا ہے، جس کی تدفین آج ہوگی اور اس کی راکھ آسٹریلیا بھیجی جائے گی۔ کہا جاتا ہے کہ آسٹریلیا کی کچھ خواتین نے bails کی ایک جوڑی کو جلا کر اس کی راکھ ایک پیالے میں ڈال کر برطانیہ کے کپتان کو بھجوائی۔ اب وہ پیالی لارڈز میوزیم میں شیشے کے ایک ڈبے میں محفوظ ہے۔
آسٹریلیا کے لوگوں کی جذباتی وابستگی بھی کچھ کم نہیں ہے۔ وہ ڈبہ صرف ایک دفعہ آسٹریلیا بھجوایا گیا، جہاں 100,000 لوگوں نے اس کا دیدار کیا۔ اب اصل ashes والا ڈبہ تو میوزیم میں رکھا ہوا ہے، لیکن جو ملک بھی یہ سیریز جیتتا ہے، اسے اس کی نقل والا ڈبہ دیا جاتا ہے۔
میوزیم میں سرجیک ہابس، جس نے برطانیہ کے شہرSurrey میں فرسٹ کلاس میچ میں 197 رن اسکورکیے، کا بلا، آسٹریلیا کے نامور کھلاڑی سر ڈان بریڈ مین کی ٹوپی، جو اس نے 1930 کی سیریز میں پہنی تھی اور ان کے جوتے، جو اس نے 1948 میں اپنے آخری میچ میں پہنے تھے اور اس کے بعد ریٹائرمنٹ لے لی تھی، رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی بدقسمتی یہ تھی کہ اس آخری میچ میں وہ دوسری گیند پر، بغیر کوئی رن بنائے آؤٹ ہوگئے۔ اگر انھوں نے صرف چار رن بھی بنائے ہوتے تو ان کا اننگز کا اوسط 100 بنتا، لیکن اس طرح آؤٹ ہونے کی وجہ سے ان کا اوسط 99.4 رہا۔
اس میوزیم میں ایک نہایت دلچسپ چیز رکھی ہوئی ہے۔ وہ ہے ایک چڑیا کا مجسمہ، جس میں وہ چڑیا ایک گیند پر بیٹھی ہوئی ہے۔ یہ چڑیا وہ تھی جو 1936 میں کیمبرج یونیورسٹی کی طرف سے لارڈس کے میدان پر، پاکستان کے مایہ ناز کھلاڑی ماجد خان کے والد ڈاکٹر جہانگیر خان کی bowling کے دوران اس گیند پر زخمی ہوئی، جو انھوں نے ایم۔ سی۔ سی۔ کے بیٹسمین ٹام پیئرس کی طرف پھینکی تھی۔ وہ بیچاری زخمی ہونے کے بعد گیند پر چڑھ گئی اور وہیں کے وہیں نیچے گر پڑی اور مر گئی۔
اس میوزیم میں وہ دو گیندیں بھی رکھی ہوئی ہیں جن سے 1956 میں اولڈ ٹریفرڈ میں کھیلے ہوئے ایشزکی سیریز میں برطانیہ کے آف اسپنر بولر جم لے کر نے آسٹریلیا کے 19 کھلاڑیوں کو صرف 90 رن دے کر پویلین کا راستہ دکھایا۔ ایسا اعزاز نہ اس سے پہلے کسی بولر کو حاصل ہوا اور نا ہی آج تک حاصل ہوا ہے۔جم لے کر نے 1970 میں برطانیہ میں دو دوستانہ میچوں میں امپائر کے فرائض بھی انجام دیے۔ ان میچوں میں کرکٹ کے مشہور رپورٹر و مبصر قمر احمد بھی رائٹرز کلب کی طرف سے کھیلے۔
اس میوزیم میں کچھ شخصیت و ٹیموں کی گروپ تصاویر بھی رکھی ہوئی ہیں۔ ان میں ایک تصویر ہندوستان کی اس ٹیم کی تصویر بھی ہے، جس نے لارڈز کے میدان پر 1886 میں پہلی بار میچ کھیلا۔ یہ ان کا برطانیہ کا پہلا دورہ تھا۔ پوری ٹیم پارسی افراد پر مشتمل تھی۔ ہندوستان میں پارسیوں نے ہی سب سے پہلے کرکٹ کھیلنا شروع کی۔
اس میچ میں برطانیہ کے مشہور کھلاڑی ڈبلیوجی گریس اور دوسرے نامور کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔ دو سال بعد 1888 میں ایک دوسری ہندوستانی ٹیم نے بھی برطانیہ کا دورہ کی، جس میں کراچی سے بھی دو کھلاڑی شامل تھے، ان میں ایک پارسی کھلاڑی پیسٹون جی، جو اوسط کے لحاظ سے اول نمبر پر رہے۔
اس میوزیم میں 1860 میں آسٹریلیا سے آنے والی پہلی ٹیم کا فوٹو بھی ہے، جو آسٹریلیا کے اصلی باشندوں پر مشتمل تھی۔ آسٹریلیا کے اصلی باشندوں کو aborigines کہا جاتا ہے۔اس میوزیم میں 1955 میں پاکستان میں ہندوستان کی ٹیم کے دورے کی تصویر بھی ہے، جس میں پاکستان کے وزیر اعظم محمد علی بوگرہ دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں سے ہاتھ ملاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔اس میوزیم میں دنیا کے نامور کھلاڑیوں کی استعمال کی ہوئی بہت ساری چیزیں بھی رکھی گئی ہیں.
جن میں بلے،گیندیں، دستانے، ٹوپیاں اور پینٹنگ بھی رکھی ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ لارڈز کا میدان بنانے والے تھامس لارڈز اور ڈبلیو جی گریس کے ماربل کے مجسمے بھی رکھے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ نامور کھلاڑی ہیمنڈ، ہْٹن، ڈینس کامپٹن اور پاکستان کے لٹل ماسٹر حنیف محمد کی تصاویر بھی رکھی ہوئی ہیں۔آج کل ایم۔سی۔سی۔ اپنا دو سو سالہ جشن منا رہا ہے، اس لیے میوزیم میں داخلہ مفت ہے۔ ویسے داخلہ بذریعہ ٹکٹ ہی ہوتا ہے۔
کرکٹ کوuncertainties of th game glorious inکہا جاتا ہے، جس میں وہی کھلاڑی پہلی اننگ میں سنچری بناتا ہے اور دوسری میں زیرو پر آؤٹ ہو جاتا ہے یا پہلی اننگ میں تین، چار یا اس سے بھی زیادہ وکٹ لیتا ہے، دوسری میں ایک وکٹ بھی نہیں لے پاتا۔
اس وقت جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں، ایشز سیریز کا چوتھا میچ برطانیہ میں جاری ہے، جس میں برمنگھم شہرکے ایجبیسٹن گراؤنڈ پر چوتھے میچ میں آسٹریلیا کی پوری ٹیم اپنی پہلی اننگ میں صرف اور صرف 60 رن بناکر آؤٹ ہو گئی ہے۔ برطانیہ کے اسٹوئرٹ براڈ نے صرف 15 رن دے کر 8 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا ہے، جب کہ 1902 میں آسٹریلیا کا کم سے کم اسکور 36 کا بھی ریکارڈ ہے، جو میچ ناٹن گھم شائر شہر میں1902 میں کھیلا گیا تھا۔
مزے کی بات ہے کہ عام طور پر یہ کھیل صرف دولت مشترکہ کے ممالک میں ہی کھیلا جاتا ہے، جب کہ بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے ممبران ملکوں کی تعداد 105 ہے، جن میں 10 مستقل، 37 ایسوسیٹ اور 58 ائفلیئیٹ ممبر ہیں۔ کچھ ملکوں نے اب کرکٹ کھیلنا شروع کردی ہے، جن میں کینیڈا، چلی، ڈنمارک، گرین لینڈ، سعودی عرب، فجی، چین، جاپان، ایران، اسرائیل اور افغانستان شامل ہیں۔
اس ضمن میں خوش آیند بات یہ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ آیندہ سال اپنی سپر لیگ کے میچ قطر میں منعقد کرنے کے لیے رابطے کر رہی ہے۔