کڈنی ویلی جہاں ایک بھی بالغ فرد ایسا نہیں جس کے دونوں گردے موجود ہوں
نیپال کا گاؤں ہوکسے کے لوگ پیٹ کی آگ بجھانے اور اہل خانہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنے گردے فروخت کرنے پر مجبور ہیں
ISLAMABAD:
پیٹ کی آگ بجھانے اور خونیں رشتوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے انسان کچھ بھی کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ یہ مجبوری بعض لوگوں کو جرائم کی راہ پر لے جاتی ہے اور کچھ لوگ اپنے ہی ٹکڑے بیچ کر اس سے نجات حاصل کرتے ہیں۔
نیپال کا گاؤں ہوکسے( HOKSE )غربت کے شکنجے میں جکڑے ایسے ہی لوگوں کا گاؤں ہے جو پیٹ کی آگ بجھانے اور اہل خانہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنے گردے فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ گردے بیچنے کا عمل یہاں اتنا عام ہے کہ یہ گاؤں ہی ''کڈنی ویلی'' (گردوں کی وادی) کے نام سے مشہور ہوگیا ہے، گاؤں میں ایک بھی بالغ فرد ایسا نہیں جس کے دونوں گردے موجود ہوں۔
ضرورت مند مال دار لوگوں کو گُردے فروخت کرنے والے مڈل مین یا دلال باقاعدگی سے ہوکسے اور آس پاس کے علاقے کا دورہ کرتے ہیں۔ وہ لوگوں کو غربت سے چھٹکارا پانے کے لیے اپنا گردہ فروخت کرنے پر رضامند کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اکثر انھیں ناکامی کا سامنا نہیں ہوتا کیوں کہ گردے بیچنے کی روایت یہاں عام ہوچکی ہے اور لوگ اس عمل کو معقول رقم کے حصول کا آسان ذریعہ بھی سمجھنے لگے ہیں۔
کچھ لوگ جو پہلے پہل گردہ بیچنے میں تامل کرتے ہیں۔ انھیں دلال اپنی چکنی چپڑی باتوں سے بالآخر راضی کرلیتے ہیں۔ جو شخص گردہ نکلوانے پر راضی ہوجاتا ہے اسے دلال اپنے ساتھ جنوبی بھارت لے جاتے ہیں جہاں اسپتال میں ان کا آپریشن ہوتا ہے۔ گردہ نکال لیا جاتا ہے اور اسے ادائیگی کردی جاتی ہے۔ عام طور پر یہ رقم دو لاکھ نیپالی روپے (2000 امریکی ڈالر) ہوتی ہے۔
اپریل میں آنے والے زلزلے کے بعد گردوں کی فروخت کے کاروبار میں تیزی آئی ہے۔ زلزلے سے ہونے والی تباہی نے دیہاتیوں کو مزید غربت میں دھکیل دیا ہے اور ہوکسے اور قرب و جوار کے دیہات میں لوگ اب اور بھی زیادہ آسان شکار بن گئے ہیں جنھیں گردے کی فروخت کے لیے راضی کرنا دلالوں کے لیے مشکل نہیں رہا۔ گردوں کی خرید و فروخت کا یہ سارا کاروبار غیر قانونی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق جنوبی ہندوستان میں گردے نکالنے کے سالانہ 10000 آپریشن ہوتے ہیں اور ایک سال کے دوران 7000گردے غیرقانونی طور پر مال دار ضرورت مندوں کو فروخت کیے جاتے ہیں۔
گردے حاصل کرنے کے لیے مفلوک الحال لوگوں کو اغوا بھی کرلیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر بھی اس دھندے میں ملوث ہیں جو غریب مریضوں کو باور کراتے ہیں کہ انھیں کسی آپریشن مثلاً اپینڈکس کا فوری آپریشن کرانے کی ضرورت ہے۔ مگر اپینڈکس کا آپریشن کرنے کے بجائے گردہ نکال لیا جاتا ہے۔ بعض لاوارث لوگ دونوں گردے حاصل کرنے کے لیے قتل بھی کردیے جاتے ہیں۔ حاصل کیے گئے گردے چھ گنا زائد قیمت پر بیچ دیے جاتے ہیں۔
پیٹ کی آگ بجھانے اور خونیں رشتوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے انسان کچھ بھی کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ یہ مجبوری بعض لوگوں کو جرائم کی راہ پر لے جاتی ہے اور کچھ لوگ اپنے ہی ٹکڑے بیچ کر اس سے نجات حاصل کرتے ہیں۔
نیپال کا گاؤں ہوکسے( HOKSE )غربت کے شکنجے میں جکڑے ایسے ہی لوگوں کا گاؤں ہے جو پیٹ کی آگ بجھانے اور اہل خانہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنے گردے فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ گردے بیچنے کا عمل یہاں اتنا عام ہے کہ یہ گاؤں ہی ''کڈنی ویلی'' (گردوں کی وادی) کے نام سے مشہور ہوگیا ہے، گاؤں میں ایک بھی بالغ فرد ایسا نہیں جس کے دونوں گردے موجود ہوں۔
ضرورت مند مال دار لوگوں کو گُردے فروخت کرنے والے مڈل مین یا دلال باقاعدگی سے ہوکسے اور آس پاس کے علاقے کا دورہ کرتے ہیں۔ وہ لوگوں کو غربت سے چھٹکارا پانے کے لیے اپنا گردہ فروخت کرنے پر رضامند کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اکثر انھیں ناکامی کا سامنا نہیں ہوتا کیوں کہ گردے بیچنے کی روایت یہاں عام ہوچکی ہے اور لوگ اس عمل کو معقول رقم کے حصول کا آسان ذریعہ بھی سمجھنے لگے ہیں۔
کچھ لوگ جو پہلے پہل گردہ بیچنے میں تامل کرتے ہیں۔ انھیں دلال اپنی چکنی چپڑی باتوں سے بالآخر راضی کرلیتے ہیں۔ جو شخص گردہ نکلوانے پر راضی ہوجاتا ہے اسے دلال اپنے ساتھ جنوبی بھارت لے جاتے ہیں جہاں اسپتال میں ان کا آپریشن ہوتا ہے۔ گردہ نکال لیا جاتا ہے اور اسے ادائیگی کردی جاتی ہے۔ عام طور پر یہ رقم دو لاکھ نیپالی روپے (2000 امریکی ڈالر) ہوتی ہے۔
اپریل میں آنے والے زلزلے کے بعد گردوں کی فروخت کے کاروبار میں تیزی آئی ہے۔ زلزلے سے ہونے والی تباہی نے دیہاتیوں کو مزید غربت میں دھکیل دیا ہے اور ہوکسے اور قرب و جوار کے دیہات میں لوگ اب اور بھی زیادہ آسان شکار بن گئے ہیں جنھیں گردے کی فروخت کے لیے راضی کرنا دلالوں کے لیے مشکل نہیں رہا۔ گردوں کی خرید و فروخت کا یہ سارا کاروبار غیر قانونی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق جنوبی ہندوستان میں گردے نکالنے کے سالانہ 10000 آپریشن ہوتے ہیں اور ایک سال کے دوران 7000گردے غیرقانونی طور پر مال دار ضرورت مندوں کو فروخت کیے جاتے ہیں۔
گردے حاصل کرنے کے لیے مفلوک الحال لوگوں کو اغوا بھی کرلیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر بھی اس دھندے میں ملوث ہیں جو غریب مریضوں کو باور کراتے ہیں کہ انھیں کسی آپریشن مثلاً اپینڈکس کا فوری آپریشن کرانے کی ضرورت ہے۔ مگر اپینڈکس کا آپریشن کرنے کے بجائے گردہ نکال لیا جاتا ہے۔ بعض لاوارث لوگ دونوں گردے حاصل کرنے کے لیے قتل بھی کردیے جاتے ہیں۔ حاصل کیے گئے گردے چھ گنا زائد قیمت پر بیچ دیے جاتے ہیں۔